ہرکس وناکس کو بے دریغ باعظمت القاب سے نوازنادانش مندی نہیں

وہ القاب جو بزرگوں کے نام کے ساتھ بشکل علَم اکناف وعالم میں مشہور ہو چکے ہیں اس کی تکرار کسی دوسری شخصیت کے ساتھ نہ کی جائے تو بہتر ہے فی زمانہ القاب کی بھیڑ بھاڑ میں بے تحاشہ لفظوں کا قتل عام جاری ہے جس کے سبب القاب کی جامعیت وانفرادیت بری طرح مجروح ہورہی ہے القاب کے استعمال میں محتاط روش اپنائیں آج ہر کس وناکس کو القاب سے نوازنے میں جس فراخ دلی کا اظہار کیا جارہاہے،یہ مطلق العنانی کاجیتا جاگتا ثبو ت ہے
بسم اﷲ الرحمن الرحیم الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اﷲ ﷺ
آج اس دور میں لفظوں کا قتل ِ عام ہو رہا ہے․․․․․․الفاظ کا استعمال اس قدر غیر محل میں کیا جارہا ہے جس کو دیکھ کر روح چیخ اُٹھتی ہے۔ایسا نہیں کہ یہ استعمال یکّہ دوکّہ ہوں بلکہ متواتر اس کثرت سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ ماحول کی فضائیں بوجھل ہوتی جا رہی ہیں․․․․․․ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ میں(مولانا قمرالحسن بستوی)بس میں سفر کررہا تھا۔روڈ کے کنارے ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر جلی قلم سے ’’الجامعۃ‘‘ کا لفظ مکتوب تھا۔میں نے اشاریے پر نظر ڈالی ایک چھجّہ تھا۔جس میں چند بچے پڑھ رہے تھے اور ایک مدرس مصروف تعلیم تھے․․․․․․میرے ذہن میں آندھی چلنے لگی․․․․․․جامعہ/یونی ورسٹی/وشو ودیالیہ،یہ تینوں تین زبان کے الفاظ ہیں جن کا معنوی نقطہ نظر ایک ہے․․․․․․حالانکہ لغت میں یونی ورسٹی کا معنی․․․․․․جامعہ،تعلیم گاہ․․․․․․جس میں طلبہ کے لیے تمام یا اکثر علوم کی اعلیٰ تعلیم یا امتحان یا دونوں کا انتظام ہو․․․․․․یونی ورسٹی کا تصورجو علوم مختلفہ کو محیط ہوتا ہے،کتنا ہمہ گیر ہے․․․․․․اس میں کتنی وسعت ہے․․․․․․اس کے ادراکات کتنے جامع ․․․․․․مگر اس تنوع اور وسعت کو کتنی بے دردی سے مجروح کیا گیا جو نا گفتنی ہے․․․․․․میں دیر تک اس کو سوچتا رہااور اذہان کی زبوں حالی کاماتم کرتا رہا۔ذرا غور کیجئے․․․․․․پرائمری/مکتب․․․․․․جونیئر ہائی اسکول/معہد․․․․․․کالج/کلیہ․․․․․․یونی ورسٹی /جامعہ۔کتنے مدارج طئے ہونے کے بعد تب کہیں جامعہ کا تصور ہوتا ہے․․․․․․مگر یہاں15×10کاایک کمرہ بنا،دس بچے ابتدائی تعلیم کے لیے اکٹھا ہوئے اور جامعہ کا خاکہ اُبھر گیا․․․․․․خوابوں کی یہ حسین دنیا کوتاہ علمی کا ثبوت یا مغربی افکار سے مرعوبیت کی دلیل ؟․․․․․․(ماہنامہ حجازجدید،دسمبر۱۹۹۰ء ،ص۲۴،بحوالہ:الکوثر سہسرام،اپریل تاجون۱۹۹۸ء ،ص؍۵۶،مولانا قمرالحسن قمر بستوی)

الفاظ کا بے دریغ قتلِ ناحق اور الفاظ کا کھلواڑآج کے دورمیں القاب وآداب کے ساتھ بھی ہورہا ہیں۔ناظم اجتماع خطباء ،مقررین اور واعظین کے لیے،اصحاب قلم کتابوں کی اہمیت و افادیت میں اضافے کی غرض سے،مریدین و معتقدین شخصیت سازی کے لئے ایسے القاب استعمال کرتے ہیں کہ الفاظ وبیان کے اس نشتر سے خود القاب کے قلوب گھائل ہوجاتے ہیں اور القاب والفاظ ردائے حیا میں سر ڈھانپنے ہی میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔مثلاً:خطیب ذیشان،خطیب لاثانی،فصیح اللسان،افصح البیان،خطیب الہند،علامۃ الدہر،مناظر بے نظیر،امام الشعراء،شاعر بے نظیر،ابوالکلام،قادرالکلام،فخر صحافت،ادیب بے نظیر،امیر القلم،فخر اسلام،مخیرقوم وملت،ہمدرد سنّیت،غم گسار اہل سنّت،قائد اہل سنت،قائد ملت،خطیب ملت،صوفی باصفا،شیخ الاسلام وغیرہ وغیرہ۔غرضیکہ ایسے ایسے القاب کا استعمال جن میں فخر ،شان،عظمت اور مباہات کا اظہار ہوتا ہے۔گویا کہ کثرتِ القاب کا استعمال شخصیت کی تعمیر و توسیع،ذہن سازی اور بلند مقام ومرتبہ کے اظہار کے لیے ہوتا ہے جب کہ پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا:’’اپنی جانوں کواچھا نہ بتاؤ،خدا خوب جانتا ہے کہ تم میں نیکو کار کون ہے۔‘‘(احکامِ شریعت،حصہ اول،ص؍۷۳،سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ)

آئیے اب ہم ’’لقب‘‘کے معنی و مفہوم کو سمجھے۔مولوی فیروزالدین تحریر کرتے ہیں:’’وہ نام جو کسی خاص مدح یاذم کے سبب پڑ جائے اسے لقب کہا جاتاہے۔‘‘ (فیروزاللغات)تاریخی حقائق وقرائن کی روشنی میں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ رقم طراز ہیں:’’ولید بن عبدالملک وہ پہلا خلیفہ ہے جس نے اصلی نام سے خود کو پکارنے کی ممانعت کی اور عباسی خلیفہ میں سب سے پہلے القاب کو استعمال کیا۔‘‘(تاریخ الخلفاء،ص؍۸۷)اسی طرح ابن فضل اﷲ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنو امیہ نے بھی عباسی خلفاء کی طرح القاب استعمال کیے ہیں،یزید کا لقب’المستنصر‘،معاویہ بن یزید کا’الراجع الی الحق‘،مروان کا’موتمن باﷲ‘،عبدالملک کا’الموفق لامراﷲ‘اور اس کے بیٹے ولید کا’المنتقم باﷲ‘،یزید بن عبدالملک کا’القادر بصنع اﷲ‘اور یزید ناقص کا’الشاکر لانعم اﷲ‘تھا۔علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں:’’جس خلیفہ نے ’’القاھر‘‘کا لقب اختیار کیا وہ کامیاب و بامراد نہیں ہوا(یعنی اس کو یہ لقب راس نہیں آیا)میرے نزدیک یہی حالت وکیفیت المستکفی اور المستعین کی ہے۔یہ لقب رکھنے والے بھی کامیاب نہیں ہوئے۔(مرجع سابق)ماضی میں خلفاء کی طرح امراء،حکمراں اور بادشاہوں نے شان و شوکت اور عظمت ورفعت کے اظہار کی خاطر فخر ومباہات والے القاب استعمال کیے مگر تاریخی حقائق وقرائن سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ نہ امراء وسلاطین کے القاب زندہ رہے اور نہ ہی ان کانام زندہ رہا۔درحقیقت الفاظ کے پیچ وخم اور القاب کے بے جا استعمال سے کسی کانام تاریخ کاحصہ نہیں بنتا بلکہ کردارواعمال وافعال وخدمات اور کارناموں کے عوض کوئی بھی شخصیت تاریخ کے صفحات کا روشن باب بنتی ہے۔اسی لیے حاٖظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ(متوفی۱۳۹۲ھ؍۱۹۷۶․ء)فرماتے ہیں:’’زندگی نام ہے کام کااور بے کاری موت ہے۔زمین کے اوپر کام،زمین کے نیچے آرام۔میرے نزدیک ہر مخالفت کا جواب کام ہے۔مزید فرمایا:نام کے لیے کام نہیں کرنا چاہئے،کام کروگے تو نام ہو ہی جائے گا۔(حضور حافظ ملت کے اقوال زرین،ص؍۲)

ہمارے اسلاف کرام کے ناموں کے ساتھ وہ القاب نظر آتے ہیں بظاہر جن میں ہلکا پن نظر آتا ہے مگر اﷲ پاک نے انھیں وہ سربلندی عطا فرمائی کہ بڑے بڑے شہنشاہ وتاجدار کاسۂ گدائی لیے درِدولت پر حاضر آتے ہیں،اصحاب فکرودانش اور علمائے وقت آپ کے لیے دیدہ ودل فرش راہ کیے رہتے ہیں۔در حقیقت یہ ان کی کسر نفسی تھی۔وہ نام ونمود،جاہ و حشمت اور شہرت و عزت سے اجتناب کرتے تھے اور آج سب کچھ انہی چیزوں کو سمجھ لیا گیا ہے(الا ماشاء اﷲ )۔ذیل میں چند روایتیں ہدیہ قارئین ہیں جس میں اسلاف کرام وبزرگان دین کے القاب میں عجزوانکساری کاپہلو نمایاں نظر آتاہے۔ان القاب میں جہاں حکمت ودانائی پوشیدہ ہے وہیں درس حیات بھی نکھرا دکھائی دیتا ہے۔

حضرت سفیان ’’ثوری‘‘ رحمۃ اﷲ علیہ
ثور کا معنی’ ’بیل‘‘ہے۔ثوری حضرت سفیان علیہ الرحمہ کا لقب ہے۔آپ پیدائشی متقی تھے حتی ایک مرتبہ آپ کی والدہ نے ایّام حمل میں ہمسایہ کی کوئی چیزبلا اجازت منہ پر رکھ لی توآپ نے پیٹ میں تڑپنا شروع کردیااور جب تک انھوں نے ہمسایہ سے معذرت طلب نہ کی آپ کا اضطرار ختم نہ ہوا۔آپ کے ’’ثور‘‘ لقب ہونے کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پیر مسجد میں رکھ دیاجس کے بعد ہی یہ نداء آئی کہ ائے ثوری!مسجد کے حق میں یہ گستاخی اچھی نہیں۔بس اسی دن سے آپ کالقب ’’ثوری‘‘ پڑ گیا ۔ بہر حال یہ ندا سن کر خوف کاایسا غلبہ ہوا کہ غش کھا کر گر پڑے اور ہوش میں آنے کے بعد اپنے منہ پر طمانچے لگاتے ہوئے کہنے لگے کہ بے ادبی کی ایسی سزا ملی کہ میرا نام ہی دفتر انسانیت سے خارج کر دیا گیا۔لہٰذااے نفس!اب ایسی بے ادبی کی جرأت کبھی مت کرنا۔ایک مرتبہ کسی کے کھیت میں آپ کا قدم پڑ گیا تو فوراً نداء آئی کہ ائے ثور!دیکھ بھال کر قدم رکھ۔(تذکرۃ الاولیاء،ص؍۱۱۷)حضرت شیخ فریدالدین عطار رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جس پر خدا کا اتنا کرم ہو کہ صرف ایک قدم غلط پڑنے پر توبیخ فرمائی گئی تو اس کی باطنی کیفیت کیا ہوگی۔دراصل اس میں ہمارے لیے احتساب نفس کا درس ہے۔ساتھ ہی معلوم ہوا کہ سلف وصالحین سے سہواً کوئی خلاف سنت کام ہوجائے تواپنے نفس کو ثور کہہ کر مخاطب کیاحتی کہ اسی لقب سے مشہور ہوگئے ورنہ آپ کا مقام و مرتبہ بہت ہی بلند وبالا ہے۔

حضرت حاتم ’’اصم‘‘رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت حاتم اصم رحمۃ اﷲ علیہ حضرت شیخ بلخی کے مرید اورحضرت احمدحضرویہ کے مرشد ہونے کے ساتھ ساتھ زہد و عبادت میں یکتائے روزگار تھے۔حضرت جنید بغدادی سے منقول ہے کہ آپ کا شمارہمارے دور کے صدیقین میں ہوتا ہے۔ایک عورت آپ کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آئی تو اتفاق سے اس کی ریح خارج ہوگئی جس کی وجہ سے وہ بہت نادم ہوئی لیکن آپ نے فرمایا کہ زور سے بات کہو میں بہرہ ہوں۔پھر اس نے بلند آواز سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دے دیامگر در حقیقت آپ بہرے بن گئے تھے اور جب تک وہ عورت حیات رہی آپ مسلسل بہرے بنے رہے اسی مناسبت سے آپ کو ’’اصم‘‘کہا جاتا ہے۔(مرجع سابق،ص؍۱۴۹)

متذکرہ بالاواقعہ سے غیرت والے خدا کے غیرت مندبندے حضرت حاتم کی غیرت کا اظہار ہوتا ہے۔انھوں نے ایک عورت کے سامنے بہرے پن کو ظاہر کیاجب کہ وہ بہرے نہیں تھے۔اب جب کہ انھوں نے اپنے آپ کو بہرہ کہہ دیا تو پھر ان کی غیرت نے اس امر کو اس عورت کی زندگی تک ظاہر رکھااوراپنے آپ کو بہرہ ہی بتاتے رہے حتی کہ ’’اصم‘‘کے لقب سے مشہور ہوگئے۔جاننا چاہئے کہ بزرگان دین بہ ظاہر ہلکے معنی کے حامل القاب کو اپنے نام کے ساتھ استعمال کرنے میں عار نہیں محسوس کرتے تھے جب کہ فی زمانہ ہم دیکھتے ہے کہ تصنع اورتکلفات کے ساتھ جو اوصاف نہیں پائے جاتے ان سے مملو الفاظ کو استعمال کرنا باعث فخر سمجھاجاتا ہیں۔

حضرت ابوحفص’’حداد‘‘رحمۃاﷲ علیہ
حضرت ابوحفص حداد رحمۃ اﷲ علیہ کاشمار اقطاب عالم میں ہوتاہے۔آپ کو کسی واسطے کے بغیر کشف ومراتب حاصل ہوئے۔اس کے علاوہ حضرت عثمان خیری جیسے بزرگ آپ کے ارادت مندوں میں داخل ہوئے اور شاہ شجاع کرمانی نے آپ کے ہمراہ بغداد جاکربہت عظیم المرتبت بزرگوں سے شرف نیاز حاصل کیا۔منقول ہے کہ آپ کے محلے میں کوئی محدث حدیث بیان کیا کرتے تھے اور جب اہل محلہ نے آپ سے حدیث سننے کے لیے چلنے کو کہاتو فرمایا:تیس برس قبل ایک حدیث سنی تھی آج تک اس پر مکمل عمل نہ کرسکاپھر مزید حدیث سن کرکیا کرونگااور جب لوگوں نے وہ حدیث پوچھی تو آپ نے بیان کی’’بہترین مرد مسلمان وہی ہے جو ایسی چیزوں کوچھوڑ دے جس میں کوئی اسلامی مفاد مضمر نہ ہو ۔ ‘‘ آپ ’’حداد‘‘ کے لقب سے صرف اس لیے مشہور ہوئے کہ آپ پیشے سے لوہار تھے۔معلوم ہواالقاب کے ذریعے شخصیت نہیں ابھرتی ہے بلکہ شخصیت کی جاذبیت اور کردار کی خوشبومعمولی لفظ کو بھی مشہور زمانہ لقب بنا دیتی ہے۔اہل دانش وذی شعور القاب سے پرے خدمات واثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے دیدہ ودل فرش راہ کیے رہتے ہیں۔

حضرت سمنون محب رحمۃ اﷲ علیہ
حضرت سمنون محب رحمۃ اﷲ علیہ بہت عظیم المرتبت بزرگ تھے۔آپ حضرت جنید کے ہم عصر اور حضرت سری سقطی کی صحبت سے فیضیاب تھے۔آپ فرماتے تھے کہ در حقیقت محبت ہی راہِ خدا پر گامزن ہونے کا آئین ہے اور احوال ومقامات ونسبتیں سب محبت کے مقابلہ میں بے حقیقت ہیں اور اسی کمال ذاتی کے اعتبارسے اکثر صوفیائے کرام نے آپ کی معرفت کو محبت پرفوقیت دی ہے۔باوجود اس کے آپ کی عجزوانکساری کاعالم یہ تھا کہ آپ اپنے آپ کو شمعون کذاب(جھوٹا)کہا کرتے تھے۔اﷲ اﷲ!منصب ولایت پر فائز،معرفت خداوندی سے سرشار،محبت رسول کے عظیم جام کو پلانے والے سچے خدا کے سچے بندے کی خاکساری اپنے نقطۂ کمال کی کس بلندی پر ہے،قرب خداوندی کی دولت میسر ہونے کے باوجوداپنے آپ کو ’’کذاب‘‘کہتے تھے۔اور اگر آج کسی کو جھوٹا کہہ دیا جائے(چاہے وہ جھوٹا ہی ہو یا کسی جھوٹی بات بولنے پر)تووہ چراغ پا ہوجاتا ہے اور زبان سے نازیبا کلمات کہنے سے بھی گریز نہیں کرتاجبکہ سلف وصالحین جن کی صداقت کی غیر بھی قسم کھاتے تھے مگر نفس کشی کے لیے وہ خود کو کذاب کہہ کر مخاطب کرتے۔اس ضمن میں چند روایتیں سپر دقلم ہیں۔ایک شخص نے امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کوگالی دی،آپ نے فرمایاکہ میرے ایسے بہت سے عیوب ہیں جو تجھ کو نہیں معلوم ہیں یعنی عاجزی وانکساری کایہ عالم کہ گالی سن کر بھی آپے سے باہر نہ ہوئے۔اسی طرح ایک عورت نے حضرت مالک بن دینار کو کہاتم ریاکارہو،فرمایا:تیرے سوا آج تک مجھے کسی نے نہیں پہچانا ۔ حضرت ربیع بن خیثم کو ایک شخص نے گالی دی،فرمایا:میرے اور بہشت کے درمیان ایک گھاٹی حائل ہے میں اس کو طے کرنے میں مصروف ہوں اگر طے کرلوں تو تیری اس بات کی مجھے کیاپرواہ !اور اگر میں اس کو طے نہ کر سکا تو تیری یہ گالی میرے لیے کافی نہیں ہے یعنی اور زیادہ گالیوں کا مستحق ہوں۔(کیمیائے سعادت،ص؍۵۴۱)

چنانچہ اسلاف کرام کے القاب کی ایک طویل فہرست ہے۔حضرت عبداﷲ’’خفیف‘‘حضرت حسین منصور’’حلاج‘‘حضرت حارث’’محاسبی‘‘حضرت بشر’’حافی‘‘ حضرت ابراہیم’’ادھم‘‘کوئی علاقائی مناسبت سے قرنی ، بصری،مکی،عجمی، مغربی،مصری، بسطامی، بلخی،طوسی،تستری، کرخی، موصلی، کرمانی، اندلسی، سمرقندی، انطاکی، بغدادی ، حیری ، اصفہانی،خراسانی،جرجانی،واسطی،خرقانی،نہاوندی،زجاجی،کوئی پیشے کی مناسبت سے تجار،لوہار،دباغ،کوئی قبیلہ کے اعتبار سے ثقفی،غسانی اور کوئی نسبی اعتبار سے ملقب ہوئے جیسے حضرت امام عبدالرحمن ’’اوزاعی‘‘ اور حضرت امام یحییٰ بن یحییٰ’’مصمودی‘‘وغیرہ وغیرہ۔ان القاب میں خاکساری،انکساری،کسر نفسی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے مگر افسوس آج ذہن وفکر کا رخ بدل گیا ہے۔سوچ ووچار کا زاویہ تبدیل ہوگیا ہے۔جس کی وجہ سے موجودہ القاب میں بڑائی کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔بقول علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ’’آج بھی نہ صرف رازی وغزالی،بلکہ اپنے وقت کے ابو حنیفہ اور شافعی پیدا ہوسکتے ہیں بشرطیکہ اس راہ میں نفس کی بے راہ روی اور مطلق العنانی حائل نہ ہونے پائے ۔ (استقامت،کانپور،ماہ فروری۱۹۹۳،ص؍۹۱)مگر آج نفس کی بے راہ روی دن بہ دن اپنے بام عروج پر ہے۔درحقیقت مندر میں رکھے ہوئے بت سے بچنا آسان ہے مگروہ بت جو نفس کی شکل میں ہر ایک میں موجود ہے اس باطنی بت سے بچناحد درجہ مشکل ہے۔آج ہر کس وناکس کو القاب سے نوازنے میں جس فراخ دلی کا اظہار کیا جارہاہے(اگر چہ وہ اس کا مستحق نہ ہو)یہ مطلق العنانی کاجیتا جاگتا ثبو ت ہے۔

ممکن ہے کوئی کہے جناب ہمارے احباب بذاتِ خودالقاب اختیار نہیں کرتے بلکہ عقیدت مند وارادت مند القاب سے نوازتے ہیں۔یقینا آپ کاقول حق بجانب ہوگامگرچاہئے یہ کہ محبین کو منع کیا جائے باوجود عقیدت مند وارادت مند پرہیز نہیں کریں توآپ کے محبین ومعتقدین محبت کے جھوٹے دعوے دار ہیں کیوں کہ محبت نام ہے اطاعت کا نہ کہ لفاظی و غلط بیانی کا۔بہر حال پھر بھی وہ گریز نہیں کریں تو پھر یہ ہوکہ اپنے میں وہ اہلیت وقابلیت اور صلاحیت پیدا کی جائے کے اپنے بعد میں حاسدین واغیار مجبور ہوجائے آپ کے فرقِ اقدس پرتاجِ القاب سجانے کے لئے۔ایسی مثالوں کے تابندہ نقوش ہمارے اسلاف وبزرگان دین کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں۔

الخیرات الحسان میں ہے کہ ایک بار امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں آپ نے کسی کو یہ کہتے سنا’’یہ امام ابوحنیفہ ہیں جوتمام رات اﷲ کی عبادت کرتے ہیں اور سوتے نہیں۔‘‘آپ نے امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ سے فرمایا:سبحان اﷲ!کیا تم خدا کی شان نہیں دیکھتے کہ اس نے ہمارے لیے اس قسم کا چرچا کر دیااور کیا یہ بری بات نہیں کہ لوگ ہمارے متعلق وہ بات کہیں جو ہم میں نہ ہو،لہٰذاہمیں لوگوں کے گمان کے مطابق بننا چاہئے۔خدا کی قسم!میرے بارے میں لوگ وہ بات نہ کہیں جو میں نہیں کرتا۔چنانچہ آپ تمام رات عبادت ودعا اور آہ وزاری میں گزارنے لگے۔(امام اعظم رضی اﷲ عنہ،علامہ سید شاہ تراب الحق قادری صاحب،ص؍۷۵)

ماضی قریب کی عظیم شخصیت امام المحدثین مولانا امام احمد راضاخاں علیہ الرحمہ کو ایک مرتبہ کسی ناواقف شخص نے اپنے ایک عریضہ میں آپ کے القاب کے ساتھ ’’حافظ‘‘ کا لفظ بھی لکھ دیا،حسن اتفاق سے اس کا عریضہ۲۹؍شعبان کو آپ کی خدمت میں پہنچا،دوسرے ہی دن سے آپ نے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیااور ہر روز ایک پارہ حفظ کرکے تراویح کی نماز میں آپ سنا دیتے یہاں تک کہ رمضان شریف کی ستائیسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے حفظ قرآن مجید پورا کرلیا اور صرف ایک مہینے کی مختصر مدت میں آپ حافظ ہوگئے،(سوانح اعلیٰ حضرت،بدر ملت حضرت علامہ بدرالدین قادری صاحب،ص؍۱۲۷)

مذکورہ دونوں واقعات سے معلوم ہوا کہ ہمارے اسلاف کرام کو کسی نے ایسے القاب سے نوازا،اس وقت جو صفت ان میں موجودنہ تھی،تو انہوں نے انتہائی قلیل مدت میں اپنے آپ کو ان صفات سے مزین فرمالیایعنی انہوں نے لوگوں کی امیدوں اور توقعات پر کھرے اترنے کی صد فی صد کوشش کیں۔راقم کے یہ معروضات بخدا کسی کی دل شکنی کے ارادے سے سپرد قرطاس نہیں ہوئے ہیں بلکہ ارباب فکر ودانش کا مشاہدہ ہے کہ القاب وآداب کی اس قدر فراخ دلانہ روش نے غیروں کی نظر میں ہمیں نشانۂ مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔لوگ ہمارے ان بڑے بڑے(بلکہ دودو سطر کے)القاب کو اپنی محفلوں میں چٹکلوں کے ساتھ سنا کرتضحیک آمیزانداز میں پیش کرتے ہیں۔اس تحریر کوبے جا تنقیدی فکر کا مرقع نہ سمجھئے کیوں کہ صالح تنقیدسماج اور معاشرے کی ترقی کازینہ ہے۔اس موقع پرعلامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کی اس تحریر کو پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا۔

’’واضح رہے اپنی کمزوریوں کا جائزہ اور اس کا اظہاربے سبب نہیں ہے۔جس قوم یا جس جماعت میں تنقید کا مادہ نہیں وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔باہمی خلوص ومحبت کا یہی تقاضا ہے کہ آپ ہماری کمزوریوں پر ہمیں مطلع کریں اور ہجوم مشاغل سے جس کی طرف آپ کی توجہ نہ ہوسکی ہم انگلیوں کے اشارے سے اس کی نشان دہی کردیں۔تنقید اگر تنقید کے پیشِ نظر ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے لیکن اگر نقد ونظر مقصود ہے تو یہی ترقی کازینہ ہے۔‘‘(استقامت،کانپور،ماہ فروری،۱۹۹۳،ص؍۱۰۰)

نام والقاب کی اس رسہ کشی میں تاجدار اہل سنّت مجدد دین وملت مولانا امام احمد رضا علیہ الرحمہ کا یہ فکری اقتباس بھی مضمون کی جامعیت و دلائل میں اضافے کا باعث ثابت ہوگا۔’’نظام الدین،محی الدین،تاج الدین اور اسی طرح وہ تمام نام جس میں مسمّٰی کامعظم فی الدین بلکہ معظم علی الدین ہونا نکلے جیسے شمس الدین، بدرالدین ، نورالدین ، فخرالدین،شمس الاسلام،محی الاسلام،بدرالاسلام وغی ذلک۔سب کو علمائے کرام نے سخت ناپسند رکھا اور مکروہ وممنوع رکھا۔اکابر دین قدست اسرارہم کہ امثال اسلامی سے مشہور ہیں،یہ ان کے نام نہیں ،القاب ہیں کہ ان مقامات رفیعہ تک وصول کے بعد مسلمین نے توصیفاًانہیں ان لقبوں سے یاد کیا۔جیسے شمس الائمہ حلوائی،فخر الاسلام بزودی،تاج الشریعہ ، صد ر الشریعہ۔(احکام شریعت،حصہ اول،ص؍۷۷)

جس طرح محی الدین،معین الدین،فریدالدین،فخرالدین،شمس الدین،تاج الدین،بدرالدین اور شمس الاسلام جیسے الفاظ اب نہ ہی کسی کا نام ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے القاب بعینہٖ تمہیدی کلمات کے القاب ہر کس و ناکس اختیارنہیں کر سکتا۔ہاں یہ اور بات ہے کہ ماضی اور حال میں ایسی نابغۂ روزگارشخصیتیں نظر آتی ہیں جن کے القاب بڑے ہی ارفع واعلیٰ ہوتے ہیں۔حقیقی معنوں میں یہی وہ افراد ہیں جو القاب کے اصل حقدارہیں جن کی دینی،علمی،مسلکی،ملی اور قومی خدمات اظہر من الشمس اور اجلی من القمر ہیں۔ملت کے ایسے جلیل القدروجید حفاظ،علماء ومفتیان کرام اس مضمون سے مستشنی ہے۔صحیح معنوں میں ان افراد کی خدمات اس قدر روشن وتابندہ ہیں کہ بڑے سے بڑے القاب ان کی خدمتوں کے سامنے ہیچ وماند نظر آتے ہیں۔مثلاً:حجۃ الاسلام امام محمد الغزالی قدس سرہ العزیزکو علم دوست وزیر خواجہ نظام الملک طوسی(متوفی۴۸۵ھ)نے’’زین الدین شرف الائمہ‘‘کا لقب دیا۔مگر صرف شخصیت سازی کے لیے نہیں،عقیدت ومحبت میں نہیں،بلکہ سلجوقی دربار میں مناظرہ میں تمام علمائے کرام پر امام محمد غزالی علیہ الرحمہ غالب آئے اور سب نے امام صاحب کے تبحر علمی کا اعتراف کیا اورخواجہ طوسی نے تمام علماو فقہاء پر تقدم وفضیلت کے اظہار کے لیے اس لقب سے ملقب کیا۔(مکاشفۃ القلوب)اسی طرح حضور نورالنور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ عنہ کا لقب پاک محی الدین خود روحانیت اسلام نے رکھاجس کی روایت معروف ومشہوراور بہجۃ الاسرار شریف وغیرہ کتب ائمہ وعلماء میں مذکورہے۔(احکام شریعت،حصہ اول،ص؍۷۷)سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کو کئی القاب کے ساتھ امام المحدثین بھی کہا جاتاہے مگر صرف محبت وعقیدت میں نہیں بلکہ احادیث پاک میں آپ کی گہرائی وگیرائی اور مہارت تامہ کو دیکھتے ہوئے عرب کے جلیل القدر علمائے کرام اور جید فقہاء کرام نے کہا۔شہزادۂ اعلیٰ حضرت علامہ مصطفی رضاقادری نوری علیہ الرحمہ کی ذہانت وفتانت اور فتویٰ نویسی کی لیاقت واستقامت کو ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کولفظ’’مفتی اعظم‘‘سے ملقب کیا گیا۔علامہ اختر رضا ازہری قادری صاحب قبلہ کو احکام شریعت کی پاس داری،عمل اور اشاعت دین پر ’’تاج الشریعہ‘‘ اور ’’فخر ازہر‘‘کے عظیم القاب سے نوازا گیا۔علامہ قمرالزماں اعظمی صاحب قبلہ کوان کے مذہبی،مسلکی،ملی اور قومی افکار کی ترویج پر’ ’مفکر اسلام‘‘کا لقب عطا کیا گیا۔اور علامہ محمدشاکر علی نوری صاحب قبلہ کی عالم اسلام میں داعیانہ خدمات کے پیش نظر’’داعی کبیر‘‘کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔اول تا آخر اس طرح کی سیکڑوں مثالیں سپر دقرطاس کی جاسکتی ہیں۔

٭نتیجہ:اکابر کے ساتھ ہم دیکھتے ہے کہ جن القاب کو منسلک کیاگیا وہ کہی کہی بظاہر ہلکے دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ ہمارے بزرگوں کی انکساری ہے کہ انہوں نے ایسے القاب کو اختیار فرمایاجو آج ان کے نام کا جز بن چکاہے۔ بعض بزرگوں کو ان کے مہتم بالشان کارہائے نمایاں کی وجہ سے ان کے معاصراہل علم ودانش نے باعظمت القاب واعزازات ان کے فرقِ اقدس پر سجائے جو آج ان کا عَلَم بن چکا ہے۔یہ القاب چاہے وہ بظاہر ہلکے معنی سے متصف ہوں چاہے عظمتوں کانشان،یہ ان ہی شخصیات کے لیے مختص رکھے جائے تو یہی القاب کی جامعیت و انفرادیت میں چارچاند لگائے رکھے گی۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ عظمت ورفعت سے بھر پور ہے بہ مصداق ؂
ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است

فی زمانہ القاب کی اس بھیڑ بھاڑ میں بے تحاشہ لفظوں کا قتل عام یوں جاری ہی ہے ساتھ میں القاب کی جامعیت وانفرادیت بھی بری طرح مجروح کی جارہی ہے۔جو القاب بزرگوں کے لیے ان کی انفرادی خصوصیات کے سبب مختص کر دیئے گئے ہیں وہ ان ہی کو مبارک ہیں اگر ہم ہرکس وناکس کو بے دریغ باعظمت القاب سے نوازنے لگیں اور وہ شخصیت اس کی اہل نہ ہو تو یہ بات اہل دانش جانتے ہیں کہ یہ کسی طرح درست نہیں ہے۔راقم ذاتی طور پر سرے سے القاب اور اعزازات کامخالف نہیں ہے لیکن اتنادردِدل ضرور پیش کرنا چاہتا ہے کہ جو جس لقب کا مستحق ہے اس کو اسی کے ساتھ متصف کیا جائے اور وہ القاب جو بزرگوں کے نام کے ساتھ بشکل علَم اکناف وعالم میں مشہور ہو چکے ہیں اس کی تکرار کسی دوسری شخصیت کے ساتھ نہ کیا جائے تو بہتر ہے۔
ماخوذ:
(۱)تاریخ الخلفاء،علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ
(۲)تاریخ اسلام
(۳)احکام شریعت،سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ
(۴)تذکرۃ الاولیاء،حضرت شیخ فرید الدین عطار علیہ الرحمہ
(۵)کیمیائے سعادت،حجۃ الاسلام امام محمد غزالی علیہ الرحمہ
(۶)مکاشفۃ القلوب،حجۃ الاسلام امام محمد غزالی علیہ الرحمہ
(۷)امام اعظم رضی اﷲ عنہ،علامہ سید شاہ تراب الحق قادری صاحب
(۸)سوانح اعلیٰ حضرت،علامہ بدرالدین احمد قادری صاحب
(۹)ماہنامہ استقامت،کانپور،فروری،۱۹۹۳۔
(۱۰)الکوثر سہسرام،اپریل تا جون،۱۹۹۸۔
(۱۱)حضور حافظ ملت کے اقوالِ زرّیں
٭٭٭
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731893 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More