قوم کا بنیادی تصور انسانوں کا ایسا گروہ
ہے جو نسل ،زبان، تہذیب وثقافت، تاریخ ، مذہب ،علاقائی یا جغرافیائی حدود
کے بندھن میں ایک دوسرے سے منسلک ہے۔ ارتقائی عمل میں پہلے خاندان، پھر
محدود سماج اور اسکے بعد ہی ایک مخصوس خطے پر اختیار اور منظم سماج ہی
ریاست کی ابتدائی شکل بنا اکثر قدیم و جدید فلاسفر اور دانشور ریاست کی اس
تشکیل پر اتفاق پا یا جاتا جس میں سقراط، افلاطون اور ارسطو بھی شامل ہیں
چونکہ ان تینوں کا تعلق قدیم یونانی شہری ریاستوں اور اس دور کی سیاسیات سے
رہا ہے لہذا وہ ریاست کی تمام طاقت کے ارتکاز کے قائل ہیں جس میں منصف و
مطلق العنان بادشاہت ناگزیر ہے اور وہ شہریوں پر حاکم کے احکامات کی پابندی
اور بغاوت پر قدغن لگاتے ہیں۔ جدید دور کے فلاسفروں میں تھامس ہوبز، جان
لاک، جین بوڈن، ڈیوڈہیوم اور کئی دیگر شامل ہیں جو ریاستی اختیارات(طاقت)
کیلئے مقتدر اعلیٰ یا مرکز کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جارج ہیگل کو تصوراتی
فلسفہ کا نقیب کہا جا سکتا ہے جس کے مطابق تصور ہی وجود کو متعین کرتا ہے۔
ہیگل کے مطابق جدلیاتی عمل ہی تاریخ بناتا ہے۔ جب ایک خیال (نظریہ،عمل)
اوررد خیال یا مقابل کا آپس میں ٹکراو ہو تاہے تو اسکے نتیجے میں سامنے آنے
والی نئی شکل کا ایک اور مدمقابل کیساتھ کشمکش کا نیا باب شروع ہو جاتا ہے
اور یہ عمل اس وقت تک تسلسل سے جاری رہتا ہے جب تک کوئی نیا مقابل خیال
سامنے آتا رہیگا اور اسی طرح اسکی تکمیل تک تاریخ کا بھی اختتام ہو جاتا
ہے، ہیگل نے اس صورت میں ایک فطری ریاست کا تصور ہیش کیا ہے جس میں ایک
سماجی معاہدہ کے تحت سب برابر اور سب کے مفادات و نقصانات سانجھے ہونگے اور
کشمکش کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی البتہ باہمی تنازعات کے تصفیے کیلئے ایک
مقتدر ادارے(حکومت) کی تشکیل بھی کی جا سکتی ہے ہیگل کے مطابق ریاست دراصل
سیاسی لحاظ سے ایسا منظم و مقتدر گروہ ہے جو دوسرے ایسے گروہوں سے آزاد ہو
۔ انسانی سماج اور ارتقائی عمل ہی نے ریاست، حکومت اور آئین کی تشکیل کی جس
میں ارتقائی عمل جاری رہتا ہے۔ انکے ہمخیال کارل مارکس اور اینگلز ریاستوں
کی ابتدائی تشکیل کی وجہ جدلیاتی مادیت میں زمین پر ملکیت اور ملکیت کے
تحفظ سے تعبیر کرتے ہیں اور ہیگل کے تصور سے زیادہ مادیت کو تاریخی محرک
مانتے ہیں جو نئے تصورات کو جنم دیتا ہے۔ انکے نزدیک ریاست اور اسکے اداروں
کی تشکیل بورژوائی طبقہ بالا نے اپنے مفادات کو تحفط دینے کیلئے کی گئی ہے
جس میں محنت کش طبقہ کا استحصال مقصود ہوتاہے۔ مارکسی نظریہ کے مطابق غیر
طبقاتی سماج کا قیام ہی اس طبقاتی کشمکش کا حل ہے جس میں محنت کش پرولتاریہ
طبقہ انقلاب کے ذریعے ریاست(حکومت) پر قبضہ کر لے اور غیر طبقاتی اشتراکی
سماج کی بنیاد رکھے جس کے بعد ریاستی اداروں کا خاتمہ ہو اورجس کیساتھ
ریاست کا بھی اختتام ہو جائے (مارکسی نظریہ ریاست کی بجائے ایک غیرطبقاتی
عالمی سماج کا پرچارک ہے جس میں سرحدوں کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لحاظ سے
84471 مربع میل متنازعہ ریاست جموں کشمیر کی بحالی اور خودمختاری(قوم
پرستی) کا نظریہ مارکسی فلسفہ اشتراکیت سے متصادم ہو جاتا ہے )۔ خاندان سے
سماج اور پھرانکی آبادکاری(گاوں) اور آبادیوں کے اشتراک سے ہی دراصل
ابتدائی ریاستوں کے قیام اور ارتقاء بھی ہوا جو بعدازاں بقاء دفاع سلامتی
اور طاقت جیسے عناصر کے امتزاج سے جغرافیائی توسیع کے پیش نظر قومیں
علاقائی اور پھر گروہی قومیتوں اور اکائیوں کیساتھ کسی مرکز کا حصہ بنیں
اور مرکزی سیاسی اکائیاں سلطنتوں، نوآبادیات اور پھرقدیم قومی ریاست سے
جدید ریاستی شکل میں تبدیل ہوگئیں جو زیادہ تر مخصوص جغرافیائی حدود میں
سیاسی ، معاشی و انتظامی لحاظ سے ایک مقتدر و منظم مرکزی حکومت (وفاق) سے
تعبیر ہوئیں جسے مشترکہ نسل، زبان یا تہذیب و ثقافت کی قید سے بھی آزاد کیا
جا سکتاہے جس میں مشترکہ یا مختلف نسلوں اور مختلف تہذیب و ثقافت و مذہب کے
لوگ بھی اپنی گروہی قومیتوں کیساتھ ایک مقتدر و منظم وفاقی ریاست کی
جغرافیائی حدود میں رہنے والے ایک قوم کہلاتے ہیں جیسے موجودہ بھارت و
پاکستان ہیں ۔ نیشلزم یا قوم پرستی بھی ایسے ہی گروہی قوم پرستی یا اسکے
ارتقاء کے بعد اپنی مختلف شکلیں اختیار کر تا رہتا ہے جس میں کہیں رنگ
ونسل، زبان، تہذیب و ثقافت، مذہب اور کبھی سیاسی، معاشی یا جغرایائی وحدت
کے اثرات غالب و مغلوب ہوتے رہتے ہیں جس میں کبھی ایک ہی قوم کے لوگ مختلف
ریاستوں کے شہری تو کہیں مختلف قوموں کے لوگ مشترکہ مرکزی ریاست کے برابر
شہری بن کرایک قوم کا روپ دھار لیتے ہیں۔ مختصر یہ کہ ریاست ایک ایسی مخصوص
جغرافیائی اکائی جس کے شہری اپنے مسلمہ حقوق و فرائض کیلئے کسی منظم مقتدر
آئینی، حکومتی ا ور انتظامی ڈھانچے کے تابع ہوں(ریاست کی مختلف اقسام ہیں
جن کی تفصیل میں جانا ضروری نہیں ہے)۔ اس لحاظ سے مشترکہ عناصر(نسل، مذہب،
ثقافت وغیرہ) کی عکاس قوموں کیلئے ریاست کا ہونا ضروری نہیں البتہ ریاست کو
اپنی وحدت و بقاء کیلئے قومی شناخت اور ایک مشترکہ اور منظم ریاستی قوم کی
تخلیق اور اسکی نشونما لازم ہو جاتی ہے۔ قوم پرستی، قوم پروری، وطن پرستی
یا حب الوطنی ایک دوسرے سے مشابہ اصطلاحیں ضرور ہیں تاہم ان کا استعمال ایک
ہی معنی کا حامل ہرگز نہیں ہے۔ ریاستی شناخت اور قوم پرستی لازم و ملزوم
ہیں کیونکہ دونوں ہی میں ریاست کیساتھ اپنے بندھن کا اجتماعی احساس پایا
جاتا ہے جس کے تحت ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں بسنے والی مختلف
قومیں اور قومیتیں خود کو ہندوستانی اور پاکستانی کہلانے میں فخر محسوس
کرتی ہیں۔ قومی نشناخت اور قوم پرستی ہی نے سلنطتوں کے عروج و زوال میں
بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ قومی یکجہتی کیلئے قومی شناخت کا ادراک ضروری ہے
جسے مختلف طریقوں سے پروان چڑھایا جاتا ہے جس میں مشترکہ ثقافتی ترویج،
مشترکہ اخلاقیات، قومی اعزازات، قومی نصاب، قومی زبان، قومی شہریت، قومی دن
، قومی لباس ، قومی تاریخ، قومی ترانہ ،قومی جھنڈہ وغیرہ شامل ہیں۔ قومی
شناخت کا ادراک ا ور اسکا فخریہ اجتماعی احساس و اظہار ہی دراصل قوم پرستی
کہلاتا ہے جو آزاد قوموں میں قومی خودمختاری کی حفاظت اور غلام قوموں میں
قومی خودمختاری کے حصول کے جذبات و تحاریک کا موجب بنتا ہے۔ قومی شناخت اور
قوم پرستی کا محض ملک میں رائج سیاسی و معاشی نظام سے برائے راست تعلق
جوڑنا غیرمناسب رویہ ہے کیونکہ قوم پرستی کسی بھی سیاسی و معاشی نظام کی
زنجیر سے آزاد ہوتے ہوئے اشتراکی، سرمایہ داری، جمہوری، بادشاہی یا آمرانہ
سیاسی و معاشی نظام میں قائم رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا برائے
راست تعلق افراد کی شناخت، جذبات و احساسات سے جڑا ہوتاہے اسی لئے اس کا
مسلمہ وجود دنیا کے ہر خطے اور ریاست میں قائم رہتا ہے۔
آج ہم متنازعہ ریاست جموں کشمیر ولداخ کی حیثیت ، قومی شناخت و قوم پرستی
اور قوم و قوم پرستی کے مغالطوں کا جائزہ لینے کی کو شش کرتے ہیں۔ دنیا کی
تاریخ جنگوں کے اختتام پر ایسے معاہدات سے بھری پڑی ہے جس میں فاتح مفتوح
پر تاوان جنگ یا علاقوں سے دستبرادری جیسی سزائیں مسلط کرتے رہے ہیں۔ ایسے
ہی معاہدات ناصرف ہندوستانی ریاستیں آپسی جنگ کے بعد بلکہ پوری دنیا کا یہی
مروجہ دستور تھا۔ جنگی تاوان کا سراغ قبل مسیح تک ڈھونڈا جا سکتا ہے۔
1840کے عشرے میں جموں نے لداخی ریاستوں پر تاوان جنگ عائد کیا،1845میں
جموں۔ سکھ راج کی جنگ کے بعد جموں پر30 لاکھ روپے سے زائد اور چند جاگیروں
کی واپسی کا جنگی تاوان لگا، 1871کی فرانس۔ پروشیا جنگ (5 بلین گولڈ فرانک
فرانس پر)، اپریل 1895(معاہدہ) میں چین جاپان جنگ(200ملین چاندی ٹایل چین
پر اور تائیوان سے عارضی دستبرداری)، 1918میں جنگ سے نکلنے کے معاہدہ میں
روس کو وسطی اتحاد(سلطنت عثمانیہ، جرمنی، آسٹریا، بلغاریہ وغیرہ) کو تاوان
میں اپنے دو صوبوں، بالٹک ریاستوں اور6 بلین جرمن گولڈ مارک کی ادائیگی کی
حامی بھرنا پڑی تاہم جنگ عظیم اول کے اختتام پر سکھ کا سانس نصیب ہوا جس
میں نئے معاہدات میں جرمنی پرا تنا تاوان جنگ عائد کر دیا گیا جسکی ادائیگی
2010تک بھی جاری رہی، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں جرمنی ، جاپان اور اٹلی
کو بھی ایسی ہی سزا بھگتنی پڑی تھی اور انہی امن معاہدات کے ذریعے بعدازاں
موجودہ یورپ اور دیگر خطوں کی نئی خودمختار ریاستوں کا قیام عمل میں لایا
گیا تھا ۔ 1990 کے عشرے میں کویت عراق جنگ میں بھی عراق پر350 بلین ڈالر کا
تاوان جنگ عائد کیا گیا تھا۔ متنازعہ جموں کشمیر و لداخ کی متحدہ قومی
ریاست کی تخلیق بھی سکھ۔ انگریز جنگ کے بعد سکھوں پر مسلط کئے گئے جنگی
تاوان کا نتیجہ ہے۔ قومی ریاست کا ارتقاء مارچ 1846 میں معاہدہ لاہور اور
معاہدہ امرتسر کے تحت ہوا جس میں سکھوں پر مسلط تاوان جنگ کے بدلے جن
علاقوں سے دستبرداری قبول کی گئی انہی کو ریاست جموں کی طرف سے تاوان جنگ
کی ادائیگی کے بدلے جموں، کشمیر اور لداخ کے خطوں کو ایک مرکزی (وفاقی)
سیاسی، انتظامی و معاشی نظام میں یکجا کیا گیا تھا۔ ریاست کا سیاسی و معاشی
ڈھانچہ بھی باقی ہندوستانی ریاستوں کی طرح شخصی شاہی نظام پر مشتمل تھا جس
میں عوامی خواہشات کا عمل دخل کوئی معنی نہیں رکھتا اور اس نظام کا انتظامی
ڈھانچہ جاگیردار، زمیندار، ذیلدار، نمبردار(لمبردار)، کاردار، چوکیدار
وغیرہ کی ساز و ناساز طبیعت کا محتاج ہوا کرتا ہے جس میں عوام کیساتھ
زیادتی و استحصال کا عنصر ہمیشہ حاوی رہتا ہے۔ ریاست جموں کشمیر میں ایسی
ہی زیادتیوں اور استحصال کے خلاف عوام کی آواز مختلف ادوار میں اٹھتی رہی
ہے اور مکمل نا سہی لیکن دادرسی کیلئے چند اقدامات بھی کئے جاتے رہے جو
عوامی اطمینان کیلئے ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔ لیکن آج اسکی تفصیل سے زیادہ
قومی ریاست (جموں کشمیر)کے قیام و استحکام کے ارتقائی عمل کے دوران علاقائی
یکجہتی، مرکزی حکومت اور قومی شناخت جیسے اقدامات پر مختصر جائزہ ضروری ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ریاست جموں کشمیر و لداخ کی علاقائی یکجہتی و
استحکام میں ریاستی طاقت کا کردار نمایاں رہا ہے تاہم اس دوران ان
دورافتادہ کثیر نسلی، کثیر مذہبی، کثیر ثقافتی اور کثیر لسانی اکائیوں کو
جوڑنے کیلئے مرکزی انتظامی ڈھانچہ، سڑکوں کی تعمیر، زمینی بندوبست و
اصلاحات، تعلیمی اداروں کا قیام، قانون نافذ کرنے والے اداروں (پولیس،
عدالت) کا قیام، سماجی و مذہبی اصلاحات، باشندہ ریاست قانون، پرجا سبھا
اسمبلی وغیرہ ایسے اقدامات ہیں کہ جن ایک قومی ریاست اور قومی شناخت کے
آثار موجود ہیں۔ ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ1935کی گلگت لیزمیں
دفاعی ضروریات کے پیش نظر جن علاقوں کو انگریزوں کے عارضی حوالے کیا گیا
وہاں بھی ریاست ہی کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا تھا اور وہاں بھی
سرکاری عمارات پر ریاستی جھندہ ہی قومی شناخت کے طور پر لہرایا جاتا تھا
اسی لئے تقسیم ہند سے پہلے یکم اگست 1947کو وہ تمام علاقے ریاستی حکومت ہی
کے سپرد کئے گئے تھے۔ ریاست میں1846 میں اپنے قیام ہی سے دو رنگوں (زعفرانی
زرد اور سرخ) اور تین پٹیوں پر مشتمل مستطیل شکل کا جھنڈہ قومی شناخت کی
شکل میں موجود رہا ہے جبکہ اس سے پہلے کشمیر میں خالصہ، افغان، مغل سلطنتوں
کے قومی جھنڈے رائج تھے۔ ( جھنڈے کی شکل اور رنگوں پر میں بحث بیکار سمجھتا
ہوں کیونکہ رنگوں کی اکثر تشریحات 1846کے بعد تخلیق و استعمال کی گئی ہیں
ورنہ ان دونوں رنگوں کے اس جھنڈے کو بڑی خوبصورت کہانی دی جا سکتی ہے) ۔
مذہبی قوم پرستی(دو قومی نظریہ) کی بنیاد پر تقسیم ہند کے وقت مہاراجہ ہری
سنگھ ریاست کو دونوں نوزائیدہ ممالک پاک و ہند کیساتھ دوستانہ تعلقات
کیساتھ خودمختار رکھنے کا خواہاں تھا لیکن(پاک و ہند) دونوں ہی طرف سے پہلے
سیاسی اور پھر عسکری مداخلت پر ریاست جموں کشمیر و لداخ تقسیم ہو کر اب
مسلہ کشمیر کی شکل میں زندہ ہے۔ گزشتہ تقریباٌ ستر سالہ جغرافیائی تقسیم کے
بعد آج تک اس ریاست کی قومی شناخت اور قوم پرستی کا سفر آگے کی بجائے پیچھے
کی طرف ہی بڑھا ہے۔ جس میں قوم ، قومی شناخت اور قوم پرستی اپنی قدیم شکل
اختیار کر چکے ہیں جس میں نسل، علاقہ و علاقائی ثقافت، زبان اور مذہب کے
عناصر بالکل نمایاں ہیں جن کا مختصر جائزہ آگے پیش خدمت ہے۔ (جاری)
|