آج بھی روز کی طرح استادِ محترم نماز کے
بعد دعا کر رہے تھے ۔ آج بھی انہوں نے رب العزت سے رو رو کرابو الہیثم کی
مغفرت کی دعا کی۔ اﷲ سے التماس کی کہ بے شک اس میں بہت سی برائیاں ہیں مگر
اسے معاف کر دے۔ اس کے گناہوں سے در گزر فرمائے۔ وہ میرا محسن ہے۔ اگر میں
نے زندگی میں کچھ اچھے کام کیے ہیں تو وہ بھی اس کے نامہ اعمال میں شامل کر
دے مگر اس پر خاص کرم کر دے۔ استاد محترم دعا سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر
بعد کچھ شاگرد اپنے محترم استاد کے پاس موجود تھے اور سوال تھا کہ
ابوالہیثم کون ہے اور آپ سے کیا رشتہ ہے کہ ہر دعا میں آپ اپنے لیے کم اور
اس کے لیے بہت دعا کرتے ہیں۔ یہ سوال شاگردوں نے پہلے بھی کئی دفعہ کیا تھا
مگر استاد محترم مسکرا دیتے تھے ،مگر آج شاگرد بضد تھے ، کچھ جدوجہد کے بعد
جواب ملا میرا محسن ہے، رشتہ دار نہیں۔ شاگردوں نے تفصیل پوچھی تو فرمایا ۔
میں نوجوان تھا ابھی درس و تدریس کی ابتدا کی تھی کہ کسی معاملے میں خلیفہ
وقت نے ایک فیصلہ دیا۔ مجھے وہ فیصلہ ٹھیک نہیں لگا۔ میں نے اس فیصلے کے
خلاف فتویٰ دے دیا۔ فتویٰ اور وہ بھی خلیفہ وقت کے فیصلے کے خلاف ،یہ بہت
سنگین توہین عدالت تھی۔خلیفہ کی عدالت کی اتنی بڑی توہین ،خلیفہ یہ تو ہین
کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ اگلے دن خلیفہ کے لوگ آئے۔ مجھے اٹھایا اور جیل
میں ڈال دیا۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ جیل دیکھی تھی۔ پہلی دفعہ جیل کی
مشکلوں اور مصیبتوں سے پالا پڑاتھا۔بہت پریشانی محسوس ہوئی۔ ایسے میں خلیفہ
کے مصاحب اور مشیر میرے پا س آئے۔ اور کہا کہ میں نے کیا غلط حرکت کی ہے۔
خلیفہ کے خلاف بول دیا۔ پھر میرے دوست بھی آئے ۔ انہوں نے میرے اقدام کو
غلط ٹھہرایا اور کہا کہ کبھی وقت کے حکمران کے خلاف بول کر خود کو عذاب میں
نہیں ڈالتے۔ اگر کوئی چیز غلط ہے بھی تو خاموشی بہتر ہے۔ خلیفہ کے مصاحبوں
اور میرے دوستوں سبھی نے مجھے غلط قرار دے کر معافی مانگنے کا مشورہ دیا
اور یقین دلایا کہ اگر میں خلیفہ سے معافی مانگ لوں تو جیل سے بھی نجات مل
جائے گی اور دنیا داری کے حوالے سے دربار میں کوئی اعلیٰ عہدہ بھی۔ میں گو
مگو کی حالت میں تھا اور ڈانواڈدل بھی کہ اتنے سارے لوگ اور سبھی مجھے غلط
کہتے ہیں۔ شاید واقعی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔
کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی۔ معافی مانگنے پر میرا ضمیر تیا ر نہیں تھا مگر آنے
والے لوگ اصرار کر رہے تھے کہ معافی ہی بہترین حل ہے ۔ جیل کے اس کمرے میں
ہم دولوگ تھے۔ میں اور میرا ساتھی ابوالہیثم ۔ ابوالہیثم نے مجھے پریشان
دیکھا تو پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے اور یہ بہت سے لوگ آپ کے پاس آکر کیا کھسر
پھسر کرتے ہیں۔ آپ سے کیا چاہتے ہیں۔ جواب میں اس کو میں نے اپنے بارے میں
بھی بتایا اور اپنے فتویٰ کے بارے میں بھی۔ پھر اسے ان لوگوں کی آمد کی وجہ
بھی کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں خلیفہ سے معافی مانگ لوں۔ میری یہ بات سن کر
ابوالہیثم نے قہقہ لگایا اور کہا کتنے عجیب لوگ ہیں آپ جیسے اچھے اور نیک
آدمی سے کتنی غلط توقع کر رہے ہیں۔ میں ایک چورہوں ۔اس سے پہلے سات دفعہ
جیل آ چکا ہوں ۔ آج آٹھوں دفعہ پھر یہاں موجود ہوں۔ اب بھی جب میں رہا ہوں
گا تو راستے میں چوری کرکے کچھ رقم حاصل کروں گا تاکہ اس سے کچھ چیزیں خرید
کر اپنے بیوی اور بچوں کے لیے لے جاؤں ۔ یہ جیل اور اس جیل کی صعوبتیں میرے
جیسے بد کردار اور برے آدمی کا راستہ نہیں بدل سکیں تو آپ جسے نیک اور
کردار والے شخص کو کیسے کوئی فرق ڈال سکتی ہیں۔ آپ نے جو کیا وہ ٹھیک کیا
ہے۔ اﷲ آپ کے ساتھ ہے آپ ان کی باتوں پر بالکل دھیان نہ دیں۔ابوالہیثم کی
باتیں سن کر میں لرز گیا۔ میرے اندر جو کشمکش تھی وہ ختم ہو گئی۔ اس کی
باتوں نے میرے ایما ن کو جرات کی اکائی بخشی ۔ مجھے سچائی کی تقویت دی اور
میں ڈٹ گیا۔ بہت سے لوگ آئے اور مایوس لوٹ گئے کہ میں اپنے موقف سے ہٹنے کو
تیار نہ تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت جب سبھی لوگ مجھے غلط کہہ رہے تھے
اور مجھے لگتا تھا کہ اتنے لوگ جب کہہ رہے ہیں تو شاید میں واقعی غلط ہوں ۔
ابوالہیثم میرے لیے اس اندھیرے میں ایک روشن چراغ تھا۔ وہ اگر حوصلہ نہ
دیتا تو شا ید میں لوگوں کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط قدم اٹھا لیتا ۔ آج
میری عزت ،میرا وقار، میرااحترام اور لوگوں کا مجھ سے پیار صرف اس وجہ سے
ہے کہ میں اس وقت ثابت قدم رہا۔ اور اس ثابت قدمی اور حوصلہ دینے کے لیے
میں ابوالہیثم کا مشکور اور ممنون ہوں اسے اپنا محسن جانتا ہوں اور ہمیشہ
اس کے لیے دعا گو رہتا ہوں۔
توہین عدالت کے مرتکب وہ محترم استاد تاریخ کی ایک عظیم شخصیت جناب امام
احمد بن حنبل ہیں جن کا نام صدیوں بعد آج بھی عزت اور احترام سے لیا جاتا
ہے۔ حکمران آتے ہیں چلے جاتے ہیں لیکن سچائی کی راہ میں جو لوگ ان سے ٹکرا
جاتے ہیں۔ لوگوں کی خاطر اپنا آرام اور سکون قربان کر جاتے ہیں۔ تاریخ اپنے
صفحات میں انہیں قدرو منزلت سے یاد رکھتی ہے۔ امام احمد بن حنبل کی سوانح
آج بھی ہمارے لیے مشکل راہ ہے۔ کہ سچ کہو سچ سنو اور سچ کے لیے بدی کی ہر
قوت سے ٹکرا جاؤ۔
آج نہ وہ عدالتیں ہیں نہ وہ ان عدالتوں کے سامنے سچ کا علم بلند کرکے ان کی
توہین کے مرتکب ہوئے والے اور نہ ہی انصاف کے وہ میعار۔ غریب آدمی عدالتوں
میں برسوں دھکے کھاتا ہے۔ اور پھر ایک فیصلہ لے کر متعلقہ محکمے میں جاتا
ہے۔ مگر وہ فیصلہ دیکھ کر متعلقہ لوگ فقط ہنس دیتے ہیں۔ سیاست دا ن ہو،
بیورو کریٹ ہو ، پولیس کا کوئی افسرہو یا کوئی با اثر آدمی ،جو بھی
ہوعدالتی فیصلے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ اکثر لوگ مایوسی میں چیزوں کو ان
کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ مایوسی میں اپنا حق گنوا دیتے ہیں۔ مگر کچھ توہین
عدالت کے چکر میں پھر عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ متعلقہ بااثر ملزم ہنستا
ہوا عدالت میں داخل ہوتاہے۔ تھوڑی دیر کے لیے مسکین سی صورت بنا لیتا ہے۔
جج صاحب خفگی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وہ غیر مشروط معافی مانگ لیتا ہے بات ختم ہو جاتی ہے وہ عدالت سے باہر
نکلتا ہے۔ اور پھر قہقے لگا تا ہے۔ عام آدمی کیساتھ اس کے رویے میں کوئی
تبدیلی نہیں آتی ۔ ہاں کوئی کمزور آدمی عدالت کے قابو آجائے تو عدالت اسے
ضرور کھینچتی ہے ۔ کسی عدالت نے کبھی کسی سیاست دان ، بیورو کریٹ، پولیس
مین یا با اثر آدمی کو توہین عدالت میں سزا نہیں دی۔ جس سے یہ قانون ایک
مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ججوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ نظم ونسق کی بہتری
اور انصاف کی بحالی کے لیے اس قانون پرسختی سے عملدار آمدبہت ضروری ہے۔
توہین عدالت کے قانون پر اگر صحیح معنوں میں عمل ہو تو پھر ملک کی صورتحال
بدل جائے اور پھر اس کا مرتکب وہی ہوگا جوا یمان کی حد تک کسی بات کو غلط
سمجھتا ہوگا۔
پاکستان کے تمام مسائل کی اصل وجہ انصاف کے نظام کی ناکامی ہے ۔ عدالتوں
میں امیر اور غریب کے ساتھ رویے مختلف رکھے جاتے ہیں۔ غریب آدمی چاہنے کے
باوجود کئی کئی سال انصاف سے محروم رہتا ہے۔ اور امیر اور بااثر آدمی دنوں
میں انصاف حاصل کر لیتا ہے۔ یہ تضاد کیوں ہے اس کا جواب تو انصاف کے علم
بردار ہی دے سکتے ہیں۔ مگر صوتحال اگر بگڑ گئی تو بہت سی چیزوں کے ساتھ
ساتھ انصاف کے نظام کو بھی خطرہ لاحق ہو گا۔
تنویر صادق
|