محبت کے بدلے نفرت دینا بھارتیوں کا وتیرا
رہا ہے مگر وہ ہمیشہ اپنا اصل چہرہ ’امن کی آشا ‘ کے پیچھے چھپانے میں
کامیاب رہاتھا ،پھر بھارتی جنگی جنون نے سارا نقاب ہٹا کر بھارت اور
بھارتیوں کا اصلی روپ آشکار کر دیا اور ثابت کر دیا کہ کون کتنا محبت اور
امن پسند ہے۔اب دنیا جان چکی ہے کہ بھارت کا اصل چہرہ کیا ہے اور یہ محض
خطے میں طاقتور بننے کے لیے کس حد تک جا سکتا ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ کشمیر کو
اٹوٹ انگ کہنے والے بھارت نے جہاں کشمیریوں پر ان کی سرزمین تنگ کر دی اور
ظلم و بربریت کی ایسی تاریخ رقم کی جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی
اور وہیں جب پاکستان نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر آواز بلند کی اور اس
کی گونج اقوام متحدہ تک پہنچائی تو وہ پاکستان سے بھی کھلم کھلی دشمنی پر
اتر آیا اور باقاعدہ جنگ کی دھمکیاں دینے لگا،ان گیڈر بھبکیوں کو جب
پاکستان نے آڑے ہاتھوں لیا اور وطن عزیز کے دفاع کی خاطر پوری قوم کو ایک
پلیٹ فارم پر دیکھا تو اس پر ایسی بوکھلاہٹ طاری ہوئی کہ جس کے نتیجے میں
پہلے تو اڑی جیسے حملے اور بعد ازاں سر جیکل اسٹرائیک کے ڈراموں نے یہ ثابت
کر دیا کہ ہندو قوم واقعی میں ایک مکار اور بزدل قوم ہے ۔جب بھارت کو ہر
طرح سے ناکامی کا سامنا ہو ااور اس کی جنگی جنونیت سے پوری دنیا میں جگ
ہنسائی ہوئی تو اس کا سب سے بڑا نشانہ پاکستانی فنکار اور گلوکار بنے اور
کسی حدتک اس میں ہندوستانی فنکاروں کو بھی مسائل سے دوچار کیا گیا اور کئی
ہندوستانی فنکاروں کو اس مہم سے راحت و تسکین میسر ہوئی اور انہوں نے اس
مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کا واضح ثبوتوں میں سے ایک ثبوت یہ ہے کہ
کنٹرول لائن پر ناکام حملے پر بالی ووڈ اداکارشاہ رْخ خان نے بھارتی فوج کا
شکریہ ادا کیا۔بالی ووڈ اداکارشاہ رخ خان کا ٹوئٹ دیکھ کر شاہ خان کے
مداحوں نے کہا کہ ناجانے کنگ خان کو کیا ہوگیا۔شاہ رخ خان کی دیکھا دیکھی
اکشے کمار نے بھی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر اپنی فوج کا شکریہ ادا
کیا۔اداکار ورن دھاون، رتیش دیش مکھ، سنی دیول، لتا منگیشکر اور ارجن
رامپال نے بھی اپنے ٹوئٹس میں بھارتی فوج کو سراہا۔واضح رہے کہ اس سے قبل
قوم پرست جماعت مہاراشٹرا نونرمن سنہا (ایم این ایس) نے پاکستانی فنکاروں
کو48گھنٹوں میں ہندوستان چھوڑنے کا الٹی میٹم دیا تھا تو پاکستانی فنکار جو
ان کی فلم انڈسٹری پر راج کر رہے تھے وہ گویا اس انداز سے واپس آئے کہ وہ
دل ہی دل میں ان الفاظ میں شکایت کناں ہوکہ ’’بڑے بے آبرو ہو کرتیرے کوچے
سے ہم نکلے‘‘۔۔۔مگر ان کو آنا ہی پڑا کیونکہ لوٹ کے بھدو گھر ہی کو آتے ہیں۔۔
ان کو جو مان اور شہرت اور پیسہ ہندوستانی فلم انڈسٹری سے ملا وہ ایک پل
میں مائع ثابت ہوا اور اب ان کو اپنا کیرئیر بچانے کے لئے پاکستان کی
انڈسٹری کا ہی سہارا لینا پڑ رہا ہے، جسے ’پاک فلم و ڈرامہ انڈسٹری ‘بھارت
میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا ویزہ ملنے کے بعد ایک آنکھ نہیں بات بھاتی
تھی واضح رہے کہ جب ان حضرات کو بالی وڈ فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا تو ہر
فنکار پاکستانی پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں کو نخرے دکھاتا نہیں تھکتا تھا
اور اس کے باوجود بھی اگر وہ ان حضرات کو اپنے پروجیکٹس کا حصہ بنانے پر
بضد ہوتے تھے تو یہ فنکار من مانی شرائط اور منہ مانگا معاوضہ طلب کرتے تھے
جس کے نتیجے میں بعض پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں نے انہیں زیر غور لانا ہی
چھوڑ دیا تھا۔۔ اداکار ہ ماہرہ خان کی ’’رئیس‘‘ ، فواد خان اور عمران عباس
کی ’’ اے دل ہے مشکل‘‘ بھارت میں نمائش کے لیے بالکل تیار ہیں جبکہ اداکارہ
سجل علی اور عدنان صدیقی بونی کپور کی ہوم پروڈکشن فلم ’’مام ‘‘ اور
اداکارہ صبا قمر فلم ’’ہندی میم‘‘ میں عرفان خان کے مقابل کاسٹ ہوئی تھیں
جس کی وجہ سے اب یہ پریشانی میں مبتلا ہوگئے ہیں۔اب پریشان ہونا تو بنتا ہی
تھا کیونکہ ایک طرف تو بھارت پر مان کی بدولت پاکستانی ہدایتکاروں اور
پروڈیوسرز کو تو ہری جھنڈی دکھا دی تھی اور دوسری طرف نہ صرف ممبئی فلم
پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے بالی ووڈ فلموں میں پاکستانی فنکاراور تکنیکی
اسٹاف پر پابندی لگا دی بلکہ زیرتکمیل پروجیکٹس سے بھی انھیں فارغ کردیا ۔
اور اب مذکورہ فنکاروں نے پاکستانی شوبز انڈسٹری میں دوبارہ سے ان ہونے کے
لیے پروڈیوسرز اور ہدایتکاروں سے رابطے شروع کردئیے ہیں۔سنجیدہ حلقوں کا
کہنا ہے کہ پاکستانی فنکار بالی ووڈ کا حصہ بنتے ہی ہوم گراونڈ کے لیے
نولفٹ کا بورڈ لگا دیتے ہیں جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہوتا ہے۔واضح رہے
اداکارہ وینا ملک ، عمران عباس، سارہ لورین، عمائمہ ملک بالی ووڈ میں وہ
کامیابی حاصل نہیں کرسکے جوشہرت اورعزت پاکستانی شوبز انڈسٹری نے انھیں
دی۔مگر اب تو انڈین موشن پکچرز پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں
کے ہندوستان میں کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی،یعنی نہ رہے گا بانس نہ
بجے گی بانسری۔۔۔اور پاکستانی گلوکار عاطف اسلم اور شفقت امانت علی کے
کنسرٹ بھی منسوخ کردیئے گئے تھے۔
ہم اب ان پاکستانی اداکاروں اور گلوکاروں کا ذکر کرنے جا رہے ہیں جنہیں نے
بالی وڈ اور بھارتی عوام کے اپنے فن کے ذریعے دل جیتے مگر ان کو جن مسائل
کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ یہ ہیں۔چند ماہ قبل شیو سینا کی دھمکیوں کے
باعث معروف غزل گائیک غلام علی ممبئی میں غزل محفل میں پرفارم نہیں کرسکے
تھے۔پاکستانی چاکلیٹی ہیرو فواد خان کرن جوہر کی فلم اے دل ہے مشکل میں ایک
انوکھے کردار میں نظر آئیں گے، فلم کے کچھ مناظر جاری کردیئے گئے ہیں جو
شائقین کی توجہ حاصل کررہے ہیں، اس کے علاوہ وہ سلمان خان اور کترینہ کیف
کے ساتھ ایک فلم سائن کی ہے جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ فواد خان آئندہ
سیزن میں کافی ود کرن کے پہلے مہمان ہوں گے، تاہم فی الحال اس کی تصدیق
نہیں ہوسکی۔پاکستانی گلوکار پلس اداکار علی ظفر جو تیرے بن لادن، میرے
برادر کی دلہن اور کل دل میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، وہ آئندہ گوری
شندے کے نئے پراجیکٹ ڈیئر زندگی میں نظر آئیں گے، ان کے ساتھ عالیہ بھٹ اور
شاہ رخ خان بھی فلم کا حصہ ہیں، بالی ووڈ میں یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ یش
راج فلمز علی ظفر کے چھوٹے بھائی دانیال کو بھی لانچ کرنے والی ہے۔کنگ آف
بالی ووڈ شاہ رخ خان کی فلم رئیس میں پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان ان کی
ہیروئن ہیں، جو آئندہ سال جنوری میں ریلیز کی جائے گی۔پاکستان کی آواز راحت
فتح علی خان جو گزشتہ کئی سال سے بھارتی فلموں میں سر بکھیر رہے ہیں، ان کے
پاس اب بھی کئی بڑی فلموں کے گانے ہیں۔پاکستانی ٹی ڈراموں سے شہرت پانے
والی ماوریٰ حسین بھی بھارتی فلم صنم تیری قسم سے اپنا ڈیبیو کرچکی ہیں،
کئی بڑے نام انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان ٹی وی
ڈراموں کا ایک اور مشہور نام عمران عباس بھی بھارتی فلموں جاں نثار اور
کریچر تھری ڈی میں کام کرچکے ہیں، کرن جوہر کی اے دل ہے مشکل میں خصوصی طور
پر نظر آئیں گے۔
جیسے ہی پاکستانی فنکاروں کو بالی وڈ سے آؤٹ کرنے کی خبریں گردش کرنے لگی
تو نہ صرف پاکستان میں، بلکہ ہندوستان میں بھی اس فیصلے کو شدید تنقید کا
سامنا کرنا پڑاتو کئی اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے ۔اس پابندی کے خلاف کئی
بالی وڈ اداکاروں نے آواز اٹھائی اور ان کو آواز اٹھانے پر مشکلات سے بھی
دوچار ہونا پڑا ۔جن میں سلمان خان، اوم پوری اور کرن جوہر شامل ہیں واضح
رہے کہ مہاراشٹرا نونرمن سنہا (ایم این ایس) نے کرن جوہر کے گھر کے باہر
بھی دھرنا دیا، جس کی وجہ ان کی فلم ’اے دل ہے مشکل‘ ہے۔فلم ’اے دل ہے مشکل‘
میں کرن جوہر نے پاکستان کے کامیاب اداکار فواد خان کو کاسٹ کیا ہے اور یہی
وجہ ہے کہ کرن جوہر کو دھمکیاں موصول ہورہی ہیں۔بھارتی اداکار سلمان خان نے
واضح طور پر کہا کہ ’پاکستانی اداکار فنکار ہیں دہشت گرد نہیں اور حکومت ہی
انہیں ہندوستان آنے کے لیے ویزا دیتی ہے‘۔ ۔معروف اور سینئر بھارتی اداکار
اوم پوری کا کہنا ہے کہ بھارتی پروڈیوسرز کا پاکستانی اداکاروں پر پابندی
کا اعلان بڑی دقیانوسی بات ہے جس کی میں مخالفت کرتا ہوں، اس سے پاکستان سے
زیادہ خود بھارت کو نقصان ہوگا، جبکہ اصل مدعا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو
دونوں ممالک کے دشمن ہیں اور انہیں مل کر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی
فنکاروں کو دھمکیاں دینے والوں کی آواز پورے بھارت کی آواز نہیں ہے، یہ صرف
چند لوگوں کی آواز ہے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کا بدلہ
معصوم فنکاروں سے نہیں لیا جاسکتا۔فنکاروں کا مذہب صرف انسانیت ہوتا ہے،
میں دونوں ممالک کے حکام سے گزارش کروں گا کہ وہ عوام کو موجودہ کشیدگی سے
باہر رکھیں، میں 6 بار پاکستان آیا ہوں اور مختلف شہروں میں گھوما ہوں جہاں
مجھے صرف محبت ملی ہے، جبکہ پاکستانی فنکاروں کو دھمکیاں دینے والوں کو
سنجیدہ نہیں لینا چاہیے انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں اب ترقی و خوشحالی
آرہی ہے تو دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی ترقی میں روڑے نہ اٹکائیں،
دونوں ممالک میں آمد و رفت کو آسان بنائیں اور دہشت گردی کے خلاف دونوں ملک
مل کر لڑیں۔بالی وڈ کے معروف ہدایتکار اور فلمساز کرن جوہر نے کہا ہے کہ وہ
اڑی حملے کے بعد سامنے آنے والے اشتعال کو سمجھ سکتے ہیں مگر پاکستانی
فنکاروں کا بائیکاٹ کرنا دہشتگردی کا حل نہیں۔ سیف علی خان نے پاکستانی
اداکاروں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری فلم انڈسٹری میں دنیا بھر سے
کسی کو بھی آنے کی اجازت ہے، یہاں لوگوں کی صلاحیت کو دیکھا جاتا ہے، ہم
ایسے فنکار ہیں جو امن اور پیار کا پیغام دیتے ہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کا
اختیار حکومت کے پاس ہے اور حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے،
وہی بتائے کہ کس کو اجازت دی جائے اور کس کو نہیں‘۔
نوجوان اداکار ورن دھون نے بھی اسی قسم کا بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر
اداکاروں پر پابندی لگانے سے دہشت گردی کو روکا جاسکتا ہے تو انہیں ایسا
کرنا چاہیے، لیکن اس کا فیصلہ صرف حکومت کو کرنا چاہیے۔جبکہ پاکستانی
فنکاروں کے حوالے سے فرح کا مزید کہنا تھا کہ ’اْن کے پاس ایسا کیا ہے جو
ہمارے پاس نہیں، میرا خیال ہے کہ ہم ان سے بہتر ہیں لہٰذا ہم اپنے لوگوں کے
ساتھ کام کریں گے میں تو اپنی فلم میں اپنے ملک سے تعلق رکھنے والے فنکار
کو ہی لینے کو ترجیح دوں گی۔اس حوالے سے سب سے سنگین بیان ابھیجیت کی طرف
سے سامنے آیاانہوں نے کہا کہ پاکستانی فنکاروں کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے
بلکہ انہیں لات مار کر ملک سے باہر نکال دینا چاہیے جبکہ ہدایتکاروں کو
انہیں کام دینے پر اب شرم آنی چاہیے۔ ابھیجیت نے نہ صرف ہدایتکاروں کو بلکہ
بھارتی وزارت خارجہ کو بھی آڑھے ہاتھوں لے لیا اور کہا کہ پاکستان کے
فنکاروں کو ویزا کیوں جاری کیا جاتا ہے اور ان کی خاطر تواضع بھی کیوں کی
جاتی ہے اور گلوکار ابھیجیت بھٹیہ چاریہ نے پاکستانی چارمنگ ہیرو فواد خان
اور معروف ہدایتکار کرن جوہر کی گہری دوستی کو لے کر بے ہودہ الزامات بھی
لگائے ہیں اور انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہدایتکار کرن
جوہر کو محبوبہ اور فواد خان کو محبوب کہہ ڈالا جب کہ اپنی ٹوئٹ میں گلوکار
کا کہنا تھا کہ محبوبہ کرن جوہر ذہنی تناؤ کا شکار ہیں کیوں کہ ان کے
پاکستانی محبوب فواد خان دھوکا دے کر چلا گئے ہیں اور طنزیہ انداز میں
معروف ہدایتکار کو بیچاری مسز کرن جوہر خان کہہ کر مخاطب کیا۔ یعنی ہندو
انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی فنکاروں کو دھمکیوں کے بعد جہاں بالی ووڈ
کی شخصیات نے نامور شخصیات پاکستانی فنکاروں پر پابندی کی سخت مخالفت کی
وہیں بھارتی گلوکار ابھجیت بھٹیہ چاریہ پاکستانیوں سے نفرت میں انتہا کو
پہنچ چکے ہیں۔
پہلے تو بالی وڈ فلموں میں پاکستانی اداکاروں پر پابندی لگائی گئی تو
بعدمیں انڈیا میں پاکستانی ڈرامے بھی اس کی زد میں آگئے اور ان پر مکمل
پابندی لگا دی گئی ہے تو اس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی کئی سینما گھروں
نے بالی وڈ فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کردی ہے، اس حوالے سے سپر سینما
کا فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں کہنا تھا کہ ’سپر سینما کی انتظامیہ اعلان
کرتی ہے کہ وہ تمام بھارتی فلموں کی نمائش پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی
عائد کررہے ہیں، ہمیں امید ہے کہ باقی تمام سینما گھر بھی اسے فالو کرتے
ہوئے فلموں پر پابندی لگائیں گے، ہم ٹی وی چینلز اور کیبل نیٹ ورکس سے بھی
درخواست کرتے ہیں کہ تمام بھارتی مواد کی نمائش پر پابندی لگائی جائے‘۔آج
کل اس سینما میں پاکستانی فلموں ’جانان‘، ’ایکٹر ان لا‘، ’مالک‘ اور ’زندگی
کتنی حسین ہے‘ کی نمائش جاری ہے۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی
(پیمرا) نے پاکستان میں انڈین ٹی وی چینلز اور انڈین مواد برابری کے حقوق
کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس اجلاس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا
گیا کہ پاکستان میں انڈین ٹی وی چینلز اورانڈین مواد نشر کرنے کی اْتنی ہی
اجازت دی جائے جتنی کہ انڈین حکومت پاکستانی میڈیا،پاکستانی فنکاروں اور
ڈراموں کو دے گی۔
اس پالیسی کی منسوخی تک ٹی وی چینل، ایف ایم ریڈیو اور کیبل آپریٹرزطے شدہ
پالیسی کے تحت 6 فیصدانڈین مواد دکھانے کے پابند ہونگے۔ 15 اکتوبر 2016 کے
بعد اس حوالے سے سخت کاروائی کا آغاز ہوگا۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق انڈین
چینلز پر پابندی عائد ہو چکی ہے مگرچند ایک پاکستانی چینلز پر ابھی بھی
انڈین ڈرامے لگا رہے ہیں جن پربھی پابندی عائدہونی چاہیے۔
بہرحال اس ساری صورت حال سے جہاں بھارت میں چھپے پاکستانی دشمن بے نقاب
ہوئے ہیں وہیں پاکستان کے خیر خواہ بھی منظر عام پر آئے ہیں اور پاکستانی
فنکاروں ،گلوکاروں ،ڈراموں اور نشریات پر پابندی لگانے سے خود بھارت کو
زیادہ نقصان ہوا ہے اور اس سے پاکستان کا بہت بڑا نفع ہو ا اس سے پاکستانی
عوام کی بھارتی فلموں اور ڈراموں سے جان چھوٹی جن کی وجہ سے پاکستانی عوام
گمراہ ہورہی تھی ان پاکستانی فلم و ڈرامہ انڈسٹری کے فن کاروں اور گلوکاروں
کو بھی یہ عیاں ہوا کہ چاہے کچھ بھی ہو ،کوئی آپ کو پھولوں پر بھی بٹھا دے
مگر اپنا وطن اور اپنے لوگ کہیں نہیں مل سکتے اور حقیقی شہرت اور عزت اپنے
ملک میں ہی ملے گی چاہے اس دوران آپ کو بہت سے مسائل کا ہی سامنا کیوں نہ
کرنا پڑے بالکل اسی طرح کہ:
موج بڑھے یا آندھی آئے دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو دکھ سہہ لیں گھرتو خاطر اپنا ہے
|