اعتراف جرم ،جنگلات کے ہم خود قاتل ہیں

نیلم ویلی کا قدرتی حسن جنگلات کی بدولت ہے جو آہستہ آہستہ ماند پڑھ رہا ہے بے دریغ کٹاؤ کے ہم خود زمہ دار ہیں درختوں کو کاٹنے والے ہم خود ہیں محکمہ جنگلات کے فاریسٹ گارڈ ،بلاک آفیسر ،رہنج آفیسر ،ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کو درخت کاٹتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا ہو گا اس میں کون ملوث ہے ؟عوام کی ایک اکثریت جنگلات کاٹنے میں مصروف عمل ہے ایک طبقہ اس کے خلاف ہوتا ہے جب کہیں نقصان جنگل ہو رہا ہوتا ہے اس کی مخبری محکمہ جنگلات کے اہلکار خود کرتے ہیں جب بات میڈیا تک پہنچ کر شائع ہو گی ٹمبر مافیا مختلف طریقہ کار سے سر توڑ کوششوں سے تردید کروانے کے لیے مصروف عمل ہو جاتے ہیں محکمہ کے اندر دست و گریباں ملازمین خود ایک دوسرئے سے بغض و عناد رکھتے ہیں ہر فاریسٹ گارڈ دوسرئے کے مخالف نظر آتا ہے ان کی اس نور کشتی میں ٹمبر مافیا میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اورعوامی ایک طبقہ 75/%جنگل کے کٹاؤ کی حمایت میں کمر بستہ ہو جاتا ہے ہر ممکن اقدام پہ اتر آتا ہے اگر اس بیٹ میں جہاں نقصان جنگل ہو رہا ہے وہاں پہ تعینات فاریسٹ گارڈ جو نیلم ہی کا ہوتا ہے اس کا تایا ،چچا ،مامااور مافیا خود اس کے حق میں قصیدئے لکھوانے کے لیے مجھ تک پہنچ آیا اب خبر دو طرح کی شائع ہو گی بانڈی رہنج میں جنگلات کا قتل عام جاری محکمہ کی ملی بھگت سے جنگلات تباہی کے دہانے پہ پہنچ گیا ،دوسری جانب مافیا اٹھ کھڑا ہو گیا فاریسٹ گارڈ کے حوالہ سے شائع ہونے والی خبر من گھڑت بے بنیاد و خلاف حقائق ہے بعض عناصر ملازم کو زیر کرنے اور زاتی عناد پہ خبریں لگا رہے ہیں اگر بعض نہ آئے تو ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی علاقہ میں کسی طرح کا نقصان جنگل نہیں ہو رہا ہر دو اطراف سے شائع ہونے والی خبروں کے باعث عوام آپس میں دست و گریباں ہو جاتے ہیں دشمنی اور اخلاقی حدود کو پھلانگ دیتی ہیں ایک طبقہ اپنے منظور نظر رپورٹر کے پاس پہنچ گیا دوسرااپنے منظور نظر کے پاس ۔محکمہ کے فاریسٹ گارڈ صاحبان کی وجہ سے عوام کا آپس میں الجھنا کوئی نئی بات نہیں ان میں جو گارڈ درخت کٹواتا ہے دوسرا اس کی شکایت ان کا سلسلہ جاری و ساری ہے کچھ ہمیں دن کو ملتے ہیں کچھ رات کو فرق کوئی خاص نہیں محکمہ و عوام کے درمیان چھڑی جنگ کی لپیٹ میں اہل قلم آجاتے ہیں میں نے اپنے گاہک کوبچانے کے لیے قلمی فائر کھول دیا جبکہ دوسرئے قابل بھائی نے بھی کوئی کثر نہ چھوڑی اور ان دو فریقین کی جنگ میں ہم دونوں کی سرد جنگ شروع ہو گئی وقت کے ساتھ ساتھ اختلاف بڑھتے گئے ٹمبر مافیا ،کمیشن مافیا اپنے اپنے لکھاریوں کی مٹھی بھی گرم کرنے کے ساتھ دماغ بھی گرم کر دیتے ہیں ابتدائی معمولی تو تکرار کے بعد اس آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں جہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے یہاں کوئی سیز فائر کروانے کے بجائے ایک طبقہ ایک کے ساتھ ایک دوسرئے کے ساتھ منافقت بھری مکالمہ بازی سے دونوں کے دلوں کو نفرتوں کے اس قدر بھر دیتے ہیں گویا یہ جنگ فاریسٹ گارڈ صاحبان کی نہیں زاتی جنگ ہے اس میں جس کی مٹھی زیادہ گرم اس کا دماغ اتنا ہی گرم اخلاقیات کی آخری حدوں سے بھی ہم گر جاتے ہیں ۔

کس نے دیکھے نقصان جنگل ،کون ملوث تھا اس ایٹمی جنگ میں ہم اپنے اخلاقی قدروں کو دوند کر فتح کے جشن منا رہے ہوتے ہیں نہ ہی میں مخلص نہ میرا دوست مخلص اگر عزیز ہے تو ہمیں اپنی عناد عزیزہے ۔

تعمیراتی لکڑی ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس حق سے اسے کوئی محروم نہیں کر سکتا قانون کے دائرہ میں رہ کر ناکارہ بالن جنگل سے حاصل کرنا ہر زمیندار و شہری کا حق ہے ہم جنگل میں پڑی ہوئی ناکارہ لکڑی کو بطور بالن شدید سردیوں اور برف باری میں استعمال میں نہیں لائیں گئے تو گیس بھی نہیں جلا سکتے ۔لیکن یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے ہم نے قانونی طریقہ سے مکان کی تعمیر کے لیے ایک درخت محکمہ سے منظور کروایا اس قانونی درخت کی آڑ میں درجنوں بھر درخت کاٹ ڈالے اور ناکارہ بالن کے بجائے سر سبز و شاداب درختوں کو آراء ڈال دیا یہ سراسر ظلم و ناانصافی ہے ۔

جنگل کاٹنے والے کون لوگ تھے ؟ہم خود، کٹوانے والے بھی ہمارئے فاریسٹ گارڈ یعنی ہم خود ،مخبر بھی ہم خود ،خبریں لگانے والے بھی ہم خود ،تردید کرنے والے ہم خود ،محکمہ کی عادتیں بگاڑنے والے ہم خود اگر ہم قانون کے دائرہ میں رہ کر لکڑ حاصل کریں اور محکمہ کو رشوت نہ دیں جبرا کوئی ملازم کوئی آفیسر ہم سے رشوت نہیں لے سکتا ہم خود ان کو مجبور کرتے ہیں جی یہ رشوت نہیں تحفہ ہے حضور قبول کیجیے تو ایک بار پھر بار بار تحائف کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کچھ عرصہ ہم نہ دیں تو منتظر خود ہی یادہانی کرواتا ہے ۔معاشرے کے اندر بگاڑ پیدا کرنے والے کوئی اور اور نہیں ہم خود ہیں نیلم کے جنگلات کی تباہی و بربادی کے ہم خود زمہ دار ہیں میں یہ اعتراف کرتا ہوں اگر ہم ملوث نہ ہوں نہ ہی جنگلات کا نقصان ہوتا ،نہ عوام آپس میں لڑتی نہ محکمہ کے ملازمین دست و گریبان ہوتے نہ ہم انہیں دو نمبر دھندئے پہ مجبور کرتے نہ جنگل کی کمائی اوپر تک جاتی ۔

ضرورت اس امر کی ہے تمام فاریسٹ گارڈ صاحبان آپس میں مل بیٹھیں اور بغض و عناد کی جنگ ختم کرتے ہوئے ایک پالیسی مرتب کریں جس میں ان کا اپنا وقار و عزت مجروع نہ ہو اور محکمہ کے آفیسران کو عزت دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔عوام اپنی ضرورت کی لکڑی قانونی طریقہ سے حاصل کریں جو ان کا حق ہے اور ہم اہل قلم پہ بہت بڑی زمہ داری عائد ہوتی ہے ہم خبر دینے اور تردید کروانے والوں کے وکیل نہ بنیں ہمارا کام سچ لکھنا ہے نہ کے پارٹی بازی کرکے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیں درخت کاٹنے والے ہم خود ہیں ،فاریسٹ گارڈ صاحبان بھی نیلم کے ہیں لکھاری بھی نیلم کے تو دوش کسی تیسرئے کو نہیں دیا جا سکتا ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے اگر ہم اپنی اصلاح نہیں کریں گئے تو اوپر نیچے کرپشن ہی کرپشن ہو گی اگر ہم زمہ داری کا ثبوت دیں تو کرپشن اپنی زات سے ختم کریں گئے تب ختم ہو گی ۔
 
Zia Sarwar Qurashi
About the Author: Zia Sarwar Qurashi Read More Articles by Zia Sarwar Qurashi: 43 Articles with 45940 views

--
ZIA SARWAR QURASHI(JOURNALIST) AJK
JURA MEDIA CENTER ATHMUQAM (NEELUM) AZAD KASHMIR
VICE PRESIDENT NEELUM PRESS CLUB.
SECRETORY GENERAL C
.. View More