قصہ ملک خیالستان کا

یہ گزرے وقتوں کی بات ہے جب نہ گاڑی تھی نہ گولی نہ بوری کا خوف۔۔۔دنیا کے بیش تر حصوں میں لوگ چین کی بانسری بجاتے تھے، کیونکہ بڑے بے خبر جو رہتے تھے، آ ج کی طرح باخبر نہیں تھے ورنہ مختلف بیماریوں مثلاَ ہائی بلڈ پریشر، شوگر۔۔۔ جیسے موذی مرض میں ضرور مبتلا ہوکر چین کی بانسری نہیں بجا پاتے، مگر افسوس ایسے زمانے میں بھی ایک ملک ایسا تھا جہاں کے لوگ اس بانسری کو کوئی اچھی شے نہیں سمجھتے تھے۔ اور بس کبھی کسی شب کوئی ناہنجار بندہ اس کو خواب میں بجا لیتا تھا، تو محلے بھر میں جیسے شور سا بپا ہو جاتا تھا۔ لوگ خواب میں بھی چین کی بانسری بجانے والے کو پتھر مار مار کر دنیا سے رخصت کر دیتے تھے، یہ نہیں تھا کہ اس ملک کے لوگ بہت جابر تھے، نہیں بلکہ اس ملک کے لوگ ظالم مظلوم تھے، جو کسی بھی صورت اپنی خاموشی پر کسی بھی قسم کی آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ بس یہ ہی وجہ تھی وہ اپنی خاموشی میں مست تھے۔ کہیں شادی بیاہ، کوئی تقریب ہوتی تو خوب ہلڑ بازی کرتے، کوئی میت ہوتی تو خوب سینہ پیٹتے مگر اس کے باوجود وہ خاموش تھے۔ اس ملک کا نام خیالستان تھا۔خیالستان پر اس زمانے کی طرح بادشاہت قائم تھی، مگر اپنی طرز کی منفر د باشاہت تھی ، جو دو خاندانوں کے درمیان قائم تھی۔ عموما ایک وقت میں بادشاہت ایک ہی خاندان کی ہوتی ہے، اور وہ ہی خاندان ملک کے سیاہ سفید کا کل مالک ہوتا ہے ، مگر خیالستان میں ایک ہی وقت میں دو خاندانوں کی بادشاہت تھی، اور دونوں ہی خاندان ملک کے سیاہ سفید کے مالک بنے ہوئے تھے، بڑا اتفاق تھا ان دونوں خاندانوں میں، اس کے برعکس ملک خیالستان کے کسی خطے میں اتفاق کا سایہ تک نہیں پڑ پاتا تھا، ایسا لگتا تھا سارا اتفاق دونوں خاندانوں میں بٹ گیا ہے۔ عوام الناس اتفاق کی برکت سے محروم ہو کر زندگی گزار رہے تھے۔ملک میں افراتفری عام تھی، جس دن ملک میں ذرہ برابر سکون کا سایہ ہوتا اس دن عوام کو الٹیاں اور مہلک بیماریوں کا اندیشہ ہوجاتا۔ اس لئے عوام کی بھلائی کے لئے حکمرانوں کی طرف سے قتل و غارت گری ، چوری چکاری پر کھلی چھوٹ تھی۔ بادشاہی خاندان نہ صرف اپنے روپے پیسے پر ایسے لوگ تیار کرتے تھے جو عوام کو ماریں، ان پر ظلم کریں بلکہ آس پڑوس کے ملک سے بھی عوام کی خاطر ایسے لوگ بلوائے جاتے تھے جو ملک کو نقصان پہنچائیں، ملک میں افراتفری کی فضا قائم رکھیں تاکہ لوگ سکون، امن، چین جیسی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ان ہی حالات میںملک خیالستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے سپاہی پیٹ پر پتھر باندھ کر خیالستان کی حفاظت میں مصروف تھے کہ سپہ سالار اعظم کو جانے کس سازشی مچھر نے کانٹا، کہ اس کے ذہن پر ملک میں برسوں سے قائم فضا کو تبدیل کرنے کی ضد جڑ پکڑنے لگی۔ اور اسی ضد کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ ایسے ایسے عمل کرنے لگا کہ عوام حکمرانوں کو چھوڑ کر اس کا شکریہ ادا کرنے لگی ،ملک پر حکمرانی کرنے والے خاندان خوفزدہ رہنے لگے۔ سب کچھ بہت تیزی سے بدلتا نظر آ رہا تھا کہ پرانے چاولوں نے کسی بہت پرانی چاول کی بوری سے کوئی چاول سپہ سالار اعظم کو کھلا دیا یاپھر کسی بھگوان داس یا موہن راج یا پھر جنید بنگالی سے کوئی ایسا عمل کر دیا کہ وہ دیوانگی پر اتر آیا، مگر سادہ لوح عوام اس کی دیوانگی پر بھی اس کا شکریہ ادا کرتے رہے۔ اسی دیوانگی کے عالم میں اس نے ملک بھر میں یہ بات پھیلا دی کہ وہ خیالستان کا سپہ سالار اعظم اور اس کے ماتحت خیالستان کو نقصان پہنچانے والے افراد کو خیالستان سے نکال کر دم لیں گے۔ یہ ارادہ کیا عام ہوا، حکمرانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، آ خر خوش کیوں نہ ہوتے ان کو تو سپہ سالار اعظم کی حرکتوں کے سبب اپنا آخری ٹھکانہ ملک خیالستان میں قائم تاریک زندان نظر آنے لگے تھے، جس کے سبب نہ وہ کھل کر کھا پا رہے تھے اور نہ جی پا رہے تھے۔۔۔ سپہ سالار نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو ترس کھا کر ان کو یہ باور کرا دیا کہ جو کرنا ہیں کر لیں، ان کا ٹھکانہ خیالستان کی تاریک زندان نہیں بلکہ محض ملک بدری ہے، جو سپہ سالار کی رخصت پر ایک نہ ایک دن ختم ضرور ہو جائے گی اور وہ پھر خیالستان پر اپنی بادشاہت قائم کر سکیں گے۔ حکمران یہ جان کر بہت خوش تھے، اور عوام اس جرات مندانہ ارادے کے عام ہونے پر خوش تھے، وہ شکریہ پر شکریہ کا ورد کئے جا رہے تھے۔ مگر اس ہی عوام میں سے ایک دیوانہ نکل آیا ، جس نے نعرہ مستانہ بلند کیا اور کہنے لگا خیالستان کو نقصان پہنچانے والوں کو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا نشان کیوں نہیں بنا رہے، کیوں ان کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا جائے گا، وہ جانے کیا کچھ بکنے لگا۔ اس کی بک بک سے خیالستان کے لوگوں کی خاموشی پر آنچ آنے لگی اور انھوں نے اس دیوانے کو پتھر مار مار کر بد حال کر دیا۔۔۔۔۔ اور پھر کئی سال یوں ہی گزر گئے اور اپنی خاموشی کو زندہ رکھنے والے نہ اپنا نام نہ اپنا نشان تاریخ میں زندہ رکھ سکے یوں آج کوئی نہیں جانتا ملک خیالستان کو ۔۔۔ مگر اس فقیر کا خاندان جانتا ہے، شاید اس لئے وہ دیوانہ اسی خاندان کا کوئی فرد تھا، واللہ علم۔

ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے نام و نشان تاریخ میں کھو جانے کا خوف گزرتے وقت کے ساتھ بڑھ گیا ہے ، لگتا ہے وقت اپنا آپ دہرا رہا ہے مگر اس مرتبہ خوف کے ساتھ امید کی روشنی بھی بڑھتی جا رہی ہے اور خوف و امید میں ایک جنگ جاری ہے کیونکہ دیوانہ ابھی زندہ ہے۔

مالک پاکستان اور پاکستانیوں کو اپنی امان میں رکھے
آمین صد آمین
 
Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور)
About the Author: Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور) Read More Articles by Seen Noon Makhmoor (س ن مخمور): 5 Articles with 4437 views قرطاس میرا منتظر ہے اور میں اپنا یعنی کہ تمھارا منتظر ہوں.. View More