بھوپال انکاونٹر اس قدر بھونڈے انداز میں کیا گیا کہ پہلے
تو سوشل میڈیا پر وہ جھوٹ کھلا اور پھر اس کے الٹرانک میڈیا سمیت پرنٹ
میڈیا میں بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا اور اب سے یہ خبر بھی
آگئی کہ جیل کی حفاظت کرنے والے نصف اہلکار وزراء اور افسران کی خدمت میں
تعینات ہیں ۔ بھوپال انکاونٹر اپنی تمام تر بہیمیت کے باوجود ساری دنیا میں
ملک و قوم کی جگ ہنسائی کا سامان بنا ہوا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے حیرت سے سوال
کیاکہ کسی خطرناک جیل میں قیدی رکابی سےچوکیدار کو کیسے قتل کرسکتے ہیں ؟
۳۲ فٹ اونچی دیوار کو چادر کی مدد سے پھلانگ کر قیدی دو بیگ سمیت کیسے فرار
ہوسکتے ہیں ؟ جیل سے نکلتے ہی قیدیوں کو اسلحہ ، جوتے اور کپڑے کیسے فراہم
ہوجاتے ہیں؟ وہ ایک گنجان آبادی والے شہر میں بہ آسانی روپوش ہونے کے
بجائے ویران جنگل کا رخ کرنے کیوں کرتے ہیں؟ اور ایک دوسرے کا ساتھ کیوں
نہیں چھوڑتے؟ بی بی سی پریشان ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں لوہے کے تالوں کو
لکڑی کی چابی سے کیسے کھولا جاسکتا ہے؟ دروازوں کے نقلی چابی سے کھلنے پر
الارم نہیں بجتا؟رات کے دوبجے چوکیدار کی ڈیوٹی بدلتی ہے؟نگرانی
کرنےوالےکیمرے اچانک بند ہوجاتے ہیں ؟ انکاونٹر کی ویڈیو میں ظالموں اور
مظلوموں کے جوتے تو ایک جیسے نظر آتے ہیں مگر ان کا انجام یکساں نہیں ہوگا
اس لئے کہ بقول شاعر ؎
اک روز یہ منظر بدلے گا، یہ دورِ خزاں مٹ جائے گا
اک دن یہ نظامِ ظلم و ستم خود ظالم کو رُلوائے گا
سیاسی منظرنامہ کی یکایک تبدیلی دیکھیں کہ بی جے پی اس ظلم کو اپنے حق میں
بھنوا کر سیاسی روٹیاں سینکنے سے فارغ بھی نہیں ہوئی تھی کہ دہلی میں ایک
سبکدوش فوجی رام کشن نے خودکشی کرکےزعفرانیوں کی دیش بھکتی کو بے نقاب کرکے
فوجیوں کے ساتھ دیوالی کی مٹھائی کھانے والے پاکھنڈی وزیراعظم کے چہرےکا
مکھوٹا نوچ کر پھینک دیا ۔ سابق صوبیدار رام کشن گریوال کی خودکشی سے اوروپ
پر عملدرآمد کے کھوکھلے دعویٰ کی قلعی کھل گئی۔ دادری جاکر ایک قتل کے
ملزم کی ارتھی کو ترنگے میں لپیٹنے والے مرکزی وزیر کو توفیق نہیں ہوئی کہ
دہلی میں رام کشن کے پسماندگان کی تعزیت کرےبلکہ ان سفاکوں نے تو وہاں جانے
والوں راہل گاندھی، مہیش سسودیہ اور اروند کیجریوال تک کو حراست میں لے لیا
۔ مرحوم کے اہل خانہ کو گرفتار کرکے مارپیٹ اور گالم گلوچ کی گئی ۔ کیا
ایےینازک موقعہ پر ایک سابق فوجی کے اہل خانہ کے ساتھ یہ سلوک دیش بھکتی
ہے؟
ایک ایسے وقت میں جبکہ فسطائی حکومت اپنی دیش بھکتی کا ڈھول پیٹ رہی تھی یہ
واقعہ ان پر عذاب کا کوڑا بن کر برس پڑا۔ مشیت کی ایک چال نے ان کے مکرو
فریب کاجال تار تار کردیا ۔ ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ سرجیکل اسٹرائیک کی
سیاست کرنے والوں نے اس کے اگلے ہی دن فوجیوں کو معذوری پر ملنے والی پنشن
میں بھاری کٹوتی کردی ۔سول سروس کے مقابلہ ان کا عہدہ گھٹا دیا۔اس ناانصافی
کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئےاپنی جان دینے والےفوجی کے غمگین پسماندگان کے
زخموں پر پہلے تو وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے یہ کہہ کر نمک چھڑکا کہ جو
ضروری تھا پولس نے وہی کیااور پھر نائب وزیر خارجہ اور سابق فوجی سربراہ وی
کے سنگھ نے فیس بک پر اپنے تاثرات لکھ کر انسانی ہمدردی کی ساری حدود قیود
کو ایک ایک کرکے ایسے پامال کیا کہ فوج سمیت سارے شہریوں کا سر شرم سے جھک
گیا۔ وی کے سنگھ نے جو کچھ لکھا اس کا بھوپال انکاونٹر سے موازنہ ضروری
معلوم ہوتا ہے۔
بھوپال کے معاملے میں بی جے پی رہنماوں کو شکایت ہے کہ ہر معاملے پر سوالات
نہیں اٹھائے جانے چاہئیں۔انکاونٹر کی تفتیش کا مطالبہ نامعقول ہے لیکن وہ
رام کشن گریوال کی خودکشی کی تحقیقات کرنے کے حق میں ہے ۔ موت سے قبل رام
کشن نے اپنے بیٹے جسونت سے فون پر بات کی جس کی ریکارڈنگ موجود ہے ۔ اس میں
کہا گیا ہے کہ میں جواہر بھون (یعنی وزارت دفاع کے دفتر )میں ہوں اور میں
نے زہر کھالیا ہے۔ میں اپنے جوانوں اور دیش کیلئے بلیدان دے رہا ہوں ۔
جوانوں کےساتھ انصاف نہیں ہورہا ہےجو افسوسناک ہے۔ اس واضح بیان کے بعد
شکوک وتحقیق کیا معنیٰ؟ وی کے سنگھ نے گھڑیالی آنسو کے بعد لکھا ۹۰ فیصد
خودکشی کے پس پشت نفسیاتی عوامل ہوتےہیں جسے ڈپریشن کہتے ہیں۔ یہ خودکشی کی
سب سے بڑی وجہ ہے۔اس طرح وی کے سنگھ نے رام کشن کی دماغی حالت کو مشکوک بنا
دیا حالانکہ اس شخص کو ایک مرتبہ فوجی جنرل کے ہاتھوں اور دو مرتبہ صدر
مملکت کے دست مبارک سے تمغۂ امتیاز مل چکا ہے ۔ ان میں سے ایک فوج کی
ملازمت کے دوران اور دوسراسبکدوش ہونے کے بعد بہترین سرپنچ کا انعام ہے۔
غورطلب امر یہ ہے کہ کس کی فریب کارینے رام کشن کوخودکشی پر مجبور کیا ؟
لیکن وی کے سنگھ اس سوال سے راہِ فرار اختیار کرکے یہپتہ لگانا چاہتے ہیں
کہ ان کی نفسیاتی کمزوری کا فائدہ اٹھا کرکس نے انہیں خودکشی کیلئےآمادہ
کیا یا اکسایا ؟ یہی سوال تو انکاونٹر کرنے والے پولس والوں کے متعلق بھی
کیا جاسکتا ہے کہ آخر کس نے انہیں گرفتار کرنے کے بجائے گولی چلانے پر
آمادہ کیا اور اس کا حکم دیا؟ وی کے سنگھ اپنے سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
اس کا جواب نفسیات میں نہیں بلکہ سیاست میں پوشیدہ ہے۔ انکاونٹر پر سیاست
سے پرہیز کا درس دینے والے اور خود کشی پر سیاست کرنے والوں کا یہ دوغلا
رویہ حیرت انگیز ہے۔ وی کے سنگھ کو معلوم کرنا چاہئے کہ وہ کون سی شیطانی
نفسیات ہے جو معصوموں کے خون کی ہولی کھیل کر اس پر خوشیاں مناتی ہے۔
وی کے سنگھ نے اپنی دلچسپ تحریر میں لکھا ہےکہ ’’ہمارے دیش کی سیاست کچھ
سیاسی گِدھوں کو راس آرہی ہے‘‘ اس جملے کا اطلاق رام کشن کی خودکشی پر
نہیں بلکہ سیدھے سیدھے بھوپال انکاونٹر پر ہوتا ہے جہاں نام نہاد دیش بھکت
لاشوں کا بیوپار کر رہے ہیں۔ وی کے سنگھ کو سرکار پر الزام تراشی کا ملال
تو ہے لیکن اس سرکاری دہشت گردی پر افسوس نہیں کہ جس میں ایسے ان نوجوانوں
کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے جن پر ہنوزکوئی الزام ثابت نہیں ہوا ۔ سنگھ
کے مطابق تفتیش کو گمراہ کیا جاتا ہے تو کیا وزیراعلیٰ چوہان کاا نکاونٹر
کے بجائے فرار کی تحقیق پر اصرار گمرہی نہیں ہے؟ بی جے پی تحقیق سے اس لئے
خوفزدہ ہے کہ اس قدرواضح ویڈیوز تحقیق کے بجائے ظالموں کو کیفرِ کردارتک
پہنچانے کاتقاضہ کرتے ہیں ۔ کاش کہ اوچھی سیاست سے پرہیز کی تلقین کرنے
والے وزیر مملک وی کے سنگھ کو بھوپال جیل میں مرنے والے حوالدار رما شنکر
یادو کےگھر پر سستی شہرت کا کھلواڑ بھی نظر آجاتا۔
بھوپال انکاونٹر میں ۸ نہیں بلکہ ۹ لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا گیا
۔حوالداررماشنکر یادو اس قتل عام کا پہلا شکار تھا دیگر ۸ بے قصور مسلم
نوجوانوں کے وکیل تہورخان کا دعویٰ ہے کہ وہ عنقریب رہا ہونے والے تھے
۔تہور خان انکاونٹر کے خلاف عدالت سے انصاف کی گہار لگاکرقاتلوں کو سز ا
دلانے کا عزم و ارادہ رکھتے ہیں۔ جسٹس کاٹجو نے نے انکاونٹر میں ملوث لوگوں
کیلئے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔حولدار ما شنکریادو کی عمر ۵۸ سال تھی
اور وہ دل کا مریض تھا اس کے باوجود اس کو رات کی ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا
تھا ۔ رماشنکر کے بڑے بیٹے پربھوشنکر نے الزام لگایا کہ جیل کی ڈیوٹی پیسے
لے کر لگائی جاتی ہے ۔مریض ہونے کے باوجودان کے والد کو باربار رات کی
ڈیوٹی دی جاتی تھی جس کی وہ شکایت بھی کرچکے تھے۔ ایک ماہ بعد چھوٹی بیٹی
کی شادی کی تیاریوں میں مصروف حوالدارپر کسی کو رحم نہیں آیا جو بلی چڑھا
دیا ۔ اب وزیراعلیٰ ان کے گھر جاکر ٹی وی کیمرے کے آگےدکھاوے کےٹسوےبہا
رہے ہیں ۔رماشنکر کے گھر والوں کوانعام و اکرام سے نوازہ جارہا ہے مگر رام
کشن کے پسماندگان کو یکسرنظرانداز کردیا گیا ہے اس لئے کہ بقول وی کے سنگھ
وہ کانگریسی تھے۔ خود اپنی قوم کی پولس اور فوجیوں کے ساتھ ایسا ظالمانہ
سلوک کرنے والی سرکار سے بھلا کوئی غیر کیا توقع کرسکتاہے؟ |