باز اور چوزہ

ایک چینی کہاوت ہے کہ ایک مایہ ناز فٹبالر جس نے بہت سے انعامات جیتے تھے ایک مرتبہ ایک انٹرویو میں اس نے بتایا کہ میرے کھیل کے پیچھے باز کا بہت ہاتھ ہے ۔ بچپن سے ہی باز میرا آئیڈیل ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ میں نے باز جیسا ہواؤں میں اُڑنا چاہا اور اس جیسا طاقتور اور بلند حوصلہ بننا میرا خواب تھا۔ ایک دن مجھے میرے ایک دوست نے اپنے فارم ہاؤس پر آنے کی دعوت دی، دوران ملاقات میرے دوست نے مجھے اپنے فارم ہاؤس میں بنے ہوئے ایک پولٹری فارم کی سیر کرائی تو میں نے کیا دیکھا کہ بہت سارے چوزوں کے ساتھ ایک باز کا بچہ بھی دانہ چُگ رہا ہے ۔ میری حیرانگی پر میرے دوست نے بتایا کہ قریب گاؤں کے لوگ اپنے گھروں سے انڈے لے کر آتے ہیں انہی انڈوں میں سے یہ باز کا بچہ بھی نکل آیا۔ میں بہت پریشان ہوا اور وہیں کھڑے ہو کر اس باز کے بچے کو پکڑ کر ہوا میں اُچھالا اور کہا کہ تم باز ہو، تمہارا مسکن پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں تم چوزے نہیں ہوسکتے مگر وہ پھڑ پھڑ واپس نیچے آگرا۔ ایسا لگا کہ وہ کہہ رہا ہو کہ میں باز نہیں چوزہ ہوں مجھے دانہ کھانے دو، مجھے ایسا ہی رہنے دو۔میں اپنے دوست کی اجازت سے وہ باز کا بچہ لے آیا۔ راستے میں بھی اُسے یہ کہتا رہاکہ تم باز ہو ، عظیم ہو ، بلند حوصلہ ہو مگر وہ جواب میں یہی کہتا کہ نہیں میں چوزہ ہوں مجھے چوزہ رہنے دو۔ میں نے اس باز کے بچے کو ایک ہفتہ اپنے گھر پر رکھا اور اسے بار بار یہ یاد دلاتا رہا کہ تم باز ہو۔ آخر ایک دن میں نے اسے لیا اور دور شہر ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے گیا۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اُسے پھر یقین دلایا کہ تم باز ہو میں تمہیں اس پہاڑ سے گرانے والا ہوں اگر باز ہوئے تو بچ جاؤ گے اور اگر چوزے ہوئے تو مر جاؤ گے، مگر اُسکا وہی جواب کہ میں چوزہ ہوں۔ میں نے اُسے پہاڑ سے گرا دیا۔ پہاڑ سے گرنے کے بعد بھی اُس نے اپنے آپ کو اُڑانے کی کوشش نہ کی ۔وہ جیسے جیسے زمین کے قریب ہورہا تھا مزید سکڑ رہا تھا یعنی اُسے یہ لگ رہا تھا کہ میں چوزہ ہوں ۔ کہ بالاآخر زمین سے چند فٹ کے فاصلے پر اس کے پر کھلے اور وہ ہوا کی سطح پر تیرتا ہوا دور چلا گیااور مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ اُسے اس کا مقام یاد آگیا۔

اس کہاوت کو میں نے اکثر بیان کیا ہے۔ اور سوچتا ہوں کہ ہم سب بھی اپنے اقبال کے تصورات کے شاہین ہیں۔ مگر چوزوں کے ساتھ رہتے ہوئے سب چوزے بن گئے ہیں۔ صبح اُٹھنا، کام پر جانا شام کو آکر گھریلو ذمہ داری کو پورا کرنا اور رات کو میاں بیوی کے رشتے کو نبھانا یہ ہماری زندگی ہے اور ہم نے پچھلے انہتر سالوں میں صرف چوزوں کی تعداد بڑھاتے ہوئے ایسا ڈربہ تیار کیا ہے کہ جس میں صرف مالک دانہ پانی ڈال دیتا ہے ۔ اور جب چاہے اپنی اور اپنے دوستوں کی بھوک کو ختم کرنے کیلئے ہم میں سے کچھ کی گردنیں وغیرہ اُڑا دی جاتی ہیں۔

اسلام آباد کے سینئر ڈرگ انسپکٹر حاجی محمد علی خان کے مطابق جعلی ادویات کی خلاف گرینڈ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ہری پور میں ایریگیشن کی طرف سے نہرمیں زائد پانی چھوڑنے کی وجہ سے سڑکوں پر آگیا۔ کالام اتروڑ روڈ مسافروں کیلئے وبال جان بن گیا۔ ایک افغان مہاجر شربت گلہ کا مسئلہ ہماری بقاء کا مسئلہ بن گیا۔سی پیک پر سیاسی تنازعات ملکی مستقبل کیلئے خطرہ قرار، پاکستان اکانومی واچ کے مطابق گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ ختم کیا جائے، مختلف صوبائی ایڈمنسٹریشنز کا گراں فروشی، منشیات فروشی اور ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں کریک ڈاؤنز، ٹریفک وارڈن کے ریکارڈ ریوینیو جنریشن کے دعوے، دو سال پہلے ختم ہونے والی تجاوزات کا پہلے سے زیادہ بھرمار، ہماری گلی محلوں میں لگے ہوئے گندگی کے ڈھیر، ہماری سڑکوں پر چونے سے لگھے گئے اشتہارات، ہمسایہ کے بچوں کی وجہ سے لڑائیاں، سبزیوں، پھلوں ، مصالحوں سے لیکر مٹن اور بیف گوشت، دودھ تک ملاوٹ اور غیر معیاری خوردنی اشیاء کی کھلے عام خرید و فروخت، سرکاری اہلکاروں سے لے کر زمین پر بیٹھے ہوئے موچی، نائی، نانبائی، دوکاندار غرض یہ کہ ہر شخص پیسے کی دوڑ میں کرپشن کرتے ہوئے ہی نظر آرہا ہے ۔ اکثریت مولوی پیسے نہ ہونے تک شریعت پر عمل پیرا لیکن پیسہ آنے کے بعد فرعونیت کے مقام پر نظر آنے لگتا ہے ۔ ہمارے ارگرد کتنے ہی امام مسجد ہیں لیکن ہر کوئی ایک خاص غرور میں نظر آتا ہے۔ رکشے والا مزدوری ایک طے کرے گا مگر سواری اتارنے کے بعد لڑائی جھگڑے کے لئے تیار، مزدور کام کی اجرت طے کرکے کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے۔ اساتذہ جو کہ کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں نے اپنے پرائیویٹ ٹیوشن سنٹرز یا اکیڈمیز سے ذریعے کھال اُتارنے کے چکروں میں، ڈاکٹر ز سرکاری ہسپتالوں کی بجائے پرائیویٹ کلینکس پر پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر فاروق ستار کبھی ہیرو نظر آتا ہے کبھی اشتہاری بن جاتا ہے۔ نواز شریف کبھی ملک بدر تو کبھی ملک کے سپریم عہدے پر فائز، زرداری کبھی چور و ڈاکو تو کبھی صدر پاکستان، عمران خان کبھی کرکٹ کا کپتان اور کبھی سیاست کا خان، اور اسفند یار ولی حکومت ہاتھ آتے ہی صوبے سے غائب اور کرسی جاتے ہی پختونوں کے حقوق کے گن گانے لگتا ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں کے منتخب ہونے کا عمل صرف نام نہاد جمہوریت ہی ہے۔ امریکہ کے حالیہ انتخابات کے عمل کو ذرا اپنے ذہنوں میں دہرایں کہ پچھلے ایک سال سے صدر کے انتخاب کا عمل بغیر ملکی عوامل کو متاثر کئے جاری ہے اور ابھی بھی تقریباً دو مہینے لگے گیں۔ اور یہاں ایک ہی رات میں ملک کی 342سیٹوں کے انتخابات ہوکر ملک کے وزیر اعظم کا اعلان ہو جاتا ہے۔ اگر ووٹ ڈالنے جائیں تو تین گھنٹے کی اذیت کے بعد بھی پریزائڈنگ آفیسر کے تلخ لہجے کو دیکھ کر انسان کو اس عمل سے نفرت ہوجاتی ہے۔ اور لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں تو اُمیدوار ووٹ ڈالنے والے کے سر پر کھڑا تھا۔ اور دیکھ کر تسلی کرتا تھا کہ مجھے ووٹ ڈالا ہے کہ نہیں ۔ اب میرا رشتہ دار یا ہمسایہ ووٹ ڈالتے وقت میرے سر پر کھڑا ہو تو میں باوجود نفرت کے بھی اُسے ہی ووٹ دوں گا کیونکہ میں نے اُسی چوزے کے ساتھ زندگی گزارنی ہے۔

کبھی پورا ملک افغانستان کیلئے روس سے جنگ کررہا ہوتا ہے۔ کبھی افغانستان میں اپنی فوج بنا رہا ہوتا ہے۔ ہزاروں افراد بغیر سوچے سمجھے صرف مولویوں کے اعلانات سے رشیاء افغان لڑائی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ اُن کے اہل خانہ آج بھی اُن کی راہ تک رہے ہیں۔ اور پھر پتہ چلتا ہے کہ رشیاء آرمی نہ نہیں بلکہ افغانیوں نے ہمارے کئی نوجوان ہلاک کردیئے۔ اور دوسری طرف افغانستان کی سیاسی قوت ہر وقت پاکستان کو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ چالیس سال پاکستانیوں کے مال پر پلنے کے بعد پاکستان کو گالیا ں دینے والے افغانوں کی خاطر آج ہمارے سیاسی لیڈر اپنے آپ کو افغان گرداننا فخر سمجھتے ہیں۔ اور اُن کے ملک بدر ہونے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
 
شاید ہم بھی چوزے ہی ہیں جن کو اگر پیاز یا ٹماٹر کا کچھ حصہ ڈال دو تو وہ اپنے تمام دوسرے کاموں کو چھوڑ کر اُس ڈالی ہوئی خوراک کی خاطر لڑنے لگتے ہیں۔ اور ہم میں سے ہر شخص یہی کہہ رہا ہے میں باز نہیں چوزہ ہوں مجھے دانہ کھانے دو، مجھے ایسا ہی رہنے دو۔
Haseeb Sulliman
About the Author: Haseeb Sulliman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.