اسلامی اخلاق و تہذیب

سلام کرنا سنت ہے اور سلام کے جواب دینے کا زیادہ تاکیدی حکم ہے ۔ لفظ ’’سلام‘‘ پر ’’الف لام‘‘ زیادہ کرے یا نہ کرے دونوں طرح اختیار ہے ۔ مثلاً ’’السلام علیکم ورحمۃ اﷲ و برکاتہ ‘‘ کہے یا ’’ سلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ ‘‘ کہے دونوں طرح جائز ہے۔

سلام کے متعلق ایک حدیث مروی ہے ۔ حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ’’ السلام علیکم ‘‘ کہا ،حضور ِاقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا ۔ وہ شخص بیٹھ گیا ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ اس شخص نے دس (۱۰) نیکیاں پائیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے ’’ السلام علیکم و رحمۃ اﷲ وبرکاتہ ‘‘ کہا ۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بھی بیٹھ گیا ۔ اس کے بعد حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : ’’اس شخص نے تیس (۳۰) نیکیاں حاصل کیں ۔‘‘

سنت یہ ہے کہ چلنے والا بیٹھے کو اور سوار پیادہ کو اور بیٹھے کو سلام کرے ۔ جماعت میں سے اگر ایک آدمی نے بھی سلام کرلیا تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا ۔ اسی طرح جماعت میں سے کسی ایک شخص نے بھی سلام کا جواب دے دیا تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گا ۔ کافر کو سلام کرنے میں ابتداء کرنا درست نہیں ۔ ہاں اگر وہ خود سلام کرنے میں پہل کرے تو جواب میں ’’وعلیکم‘‘ کہہ دینا چاہیے ۔ لیکن مسلمان کے سلام کا جواب دیتے وقت ’’ وعلیکم السلام‘‘ کہنا چاہیے ۔ اگر ’’ ورحمۃ اﷲ و برکاتہ‘‘ کے الفاظ بھی ساتھ بڑھا دیے جائیں تو افضل ہے ۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے صرف ’’سلام‘‘ کہے تو اس کے سلام کا جواب نہ دیا جائے ، اس لئے کہ یہ اسلامی سلام نہیں ہے ۔

عورتوں کے لئے بھی باہم سلام کرنا مستحب ہے ۔ کسی اجنبی غیر محرم مرد کا کسی اجنبی غیر محرم جوان عورت کو سلام کرنا ، اسی طرح کسی اجنبی غیر محرم عورت کا کسی اجنبی غیر محرم مرد کو سلام کرنا مکروہ ہے ۔ بچوں کو سلام کرنا مستحب ہے ، اس سے ان کو اسلامی تہذیب کی تعلیم ہوتی ہے ۔ مجلس سے اٹھنے والے کے لئے اہل مجلس کو سلام کرنا مستحب ہے ۔ اگر دروازہ میں دیوار یا کوئی اور چیز حائل ہو تب بھی سلام کرنا چاہیے۔جو لوگ گناہ کے کاموں مشغول ہوں ان کو سلام نہیں کرنا چاہیے ہاں ! اگر وہ خود سلام کریں تو جواب دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔

کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان بھائی سے تین دن سے زائد تعلقات منقطع نہ رکھے ۔ ہاں! اگر وہ بدعتی ہو ،سیدھے راستے سے بھٹکا ہوا ہو ، معصیت میں مبتلا ہو تو ایسے آدمی سے تعلقات منقطع کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جس مسلمان نے کسی دوسرے مسلمان بھائی سے تعلق توڑ لیا اور پھر اس کو سلام کرلیا تو تعلق توڑنے کے گناہ سے وہ بچ جاتا ہے۔مسلمان بھائی سے مصافحہ کرنا سنت ہے ۔ اگر خود مصافحہ کرنے کی ابتداء کی ہے تو جب تک دوسرا آدمی اپنا ہاتھ واپس نہ کھینچ لے مصافحہ کرنے والا شخص اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہ چھڑائے ۔

عادل بادشاہ ، والدین ، دین دار ، پرہیز گار اور بزرگ آدمیوں کی تعظیم و تکریم کے لئے کھڑا ہونا مستحب ہے ۔ اس کا اصل ثبوت اس روایت سے ملتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے یہودیوں کے فیصلے کے لئے حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہ کو بلوایا ۔ سعد سفید گدھے پر سوار ہوکر آئے ۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے (حضرت سعد کے قبیلہ والوں سے ) فرمایا : ’’ اپنے سردار کی تعظیم و تکریم میں کھڑے ہوجاؤ!۔‘‘

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ : ’’ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ( آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم بجالاتے ہوئے ) اٹھ کر آپ کی طرف آگے کو بڑھتیں، آپ کا ہاتھ مبارک پکڑ کر چومتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ اور جب حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا حضورِ پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لے جاتیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے استقبال میں اٹھ کر آگے کی طرف بڑھتے اور ہاتھ پکڑ کر چومتے اور انہیں اپنی مسند مبارک پر بٹھاتے۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی قوم کا بزرگ تمہارے پاس آئے تو تم اس کی عزت کرو ! اس سے دلوں میں دوستی اور محبت جمتی ہے ۔‘‘ اس لئے نیک لوگوں کی تعظیم کرنا مستحب ہے جس طرح ہدیہ دینا ان کو مستحب ہے ۔ لیکن اہل معصیت ( گناہ گار ) اور اﷲ تعالیٰ کے نافرمان لوگوں کی تعظیم مکروہ ہے ۔

اسلامی تہذیب میں یہ بھی ہے کہ چھینکنے والا پست آواز سے چھینکے اور اپنا منہ ڈھانپ لے اور اونچی آواز سے ﴿ ألحمد ﷲ رب العالمین ﴾ کہے ۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ بندہ جب ﴿ ألحمد ﷲ ﴾کہتا ہے تو فرشتہ ﴿ رب العالمین ﴾ کہتا ہے اور جب بندہ ﴿ ألحمد ﷲ ﴾ کے ساتھ ﴿ رب العالمین ﴾ بھی کہتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ : ’’ تیرا رب تجھ پر حم فرمائے۔‘‘

چھینکنے والا دائیں بائیں گردن نہ موڑے ۔ اور جب وہ ﴿ ألحمد ﷲ رب العالمین ﴾ کہے تو سننے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ اس کے جواب میں ﴿ یرحمک اﷲ ﴾ کہے اور پھر چھینکنے والا اس کے جواب میں کہے : ﴿ یھدیکم اﷲ و یصلح بالکم ﴾ یعنی اﷲ تعالیٰ تم کو ہدایت کرے اور تمہارا حال درست کرے ۔ ﴿ یھدیکم اﷲ ﴾کی جگہ﴿ یغفر اﷲ ﴾ کہنا بھی درست ہے ۔اگر کسی کو تین چھینکوں سے زیادہ چھینکیں آئیں تو سننے والے پر جواب دینا ضرورری نہیں ، کیوں کہ ایسا ہوا اور زکام کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے حضرت سلمیٰ بن اکوع رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ چھینکنے والے کو تین بار جواب دیا جائے ، اس سے زائد اگر وہ چھینکے تو (سمجھ لینا چاہیے کہ ) اسے زکام ہے ۔ ‘‘

جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لے یا آستین سے اپنا منہ ڈھانپ لے ( اس لئے کہ اگر جمائی آتے وقت منہ کو نہ ڈھانپا جائے تو ) شیطان منہ میں گھس جاتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ اﷲ تعالیٰ چھینک کو پسند فرماتے ہیں اور جمائی کو ناپسند فرماتے ہیں ۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جہاں تک ہوسکے اسے واپس لوٹا دے اور ’’ہاہا‘‘ نہ کرے کہ اس سے شیطان ہنستا ہے ۔‘‘ غیر مشتہاۃ بوڑھی عورت کی چھینک کا جواب دینا مرد کے لئے جائز ہے اور مشتہاۃ غیر محرم نوجوان عورت کی چھینک کا جواب دینا مرد کے لئے ناجائز ہے ۔
Mufti Muhammad Waqqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqqas Rafi: 188 Articles with 254414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.