فطرت ٗ خوبصورتی اور تاریخ ہمیشہ سے
میری کمزوری رہی ہے ۔میں جب بھی ٹی وی کے سامنے بیٹھتا ہوں تو جغرافیائی
اور ٹریول ان چینلز دیکھنا میری ترجیح ہوتے ہیں جس پر مختلف ممالک کی تاریخ
ٗ خوبصورت مقامات اور حیرت انگیز واقعات کے مناظر دکھائے جاتے ہیں ۔خوبصورت
مقامات ٗ بہتے دریا اور بلند و بالا چوٹیاں دیکھ کر دل تو یہی چاہتا ہے کہ
خود ان مقامات پر پہنچ کر زندگی کے حسن کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں لیکن نہ
صحت اس قابل ہے اور نہ ہی مالی وسائل اجازت دیتے ہیں ۔ چنانچہ تاریخ اور
فطرت کے حسین نظارے دیکھنے کے لیے ٹی وی ہی بہترین ذریعہ بن چکا ہے ۔
حسن اتفاق سے میں اپنے بھتیجے وسیم اکرم کے گھر پر مہمان کی حیثیت سے موجود
تھا جونہی بجلی آئی تو میں نے ٹی وی آن کرلیا ۔میری خوش قسمتی کہ اس وقت
ٹریولزان کا چینل ہی آن تھا ۔ بظاہر تویہ انڈین چینل تھا لیکن یہ بھارت اور
دوسرے ممالک کے خوبصورت مقامات اور تاریخی حوالوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والی
عمارتوں ٗ عبادت گاہوں اور سیرگاہوں سے متعلق ناظرین کو نہایت قیمتی
معلومات بہم پہنچارہا تھا ۔ چنانچہ میری نگاہیں ٹی وی کی سکرین پر جم گئیں
کیونکہ میری دلچسپی کا سامان اس میں موجود تھا ۔اس وقت بھارت کے شہرامرتسر
میں واقع سکھوں کے گوردوارے "گولڈن ٹمپل"کے بارے میں دستاویزی فلم چل رہی
تھی ۔ پہلا منظر ہی کچھ ایسا تھا کہ میں سکرین سے نظرین ہٹانا بھول گیا ۔
چار افراد ایک چاکور نما فریم( جسے خوبصورت سرخ ریشمی کپڑے میں لپیٹ رکھا
تھا ) کو نہایت ادب سے اٹھائے ہوئے کچھ اس طرح سے آگے بڑھ رہے ہیں کہ
دیکھنے والا حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا۔ یہ پالکی نما فریم جہاں جہاں سے
بھی گزرتا تو سکھوں برادری کے مرد و زن ادب سے اپنی نگاہیں جھکالیتے اور
نہایت باادب ہوکر پالکی کو گزرنے کا موقعہ فراہم کرتے ۔ وہ چاروں افراد اس
پالکی کو لیے ایک ایسے بلند چوبترے پر جا پہنچے جس پر پہلے ہی ریشمی کپڑے
سے آراستہ تھا اس مقام کو کچھ معزز ترین سکھوں نے گھیر رکھا تھا ۔ میں نے
دیکھا کہ جونہی پالکی کو چوبترے پر رکھا گیاتو قریب ہی کھڑا ہوا ایک اور
سکھ مور کے پروں سے بنے ہوئے ہاتھ کے پنکھے سے اس پالکی کو ہوادینے لگا ۔کچھ
ہی دیر بعد ریشمی کپڑے میں لپٹی ہوئی اس پالکی کو کھولا گیا تو اس ایک بڑی
سی کتاب نمودار ہوئی جسے نہایت ادب سے کھول کر ایک شخص بلند آواز میں پڑھنے
لگا اور وہاں موجود سینکڑوں سکھ گردنیں جھکاکر مقدس کلام کو توجہ سے سننے
لگے ۔ یہ سکھوں کی مقدس کتاب "گرنتھ صاحب " تھی۔ جسے پڑھنے کو سکھ مذہب کے
لوگ "شبت کریتن " کے الفاظ سے نوازتے ہیں ۔اس کے باوجود کہ یہ کتاب بابا
گورو نانک نے لکھی ہے ۔لیکن سکھ قوم مذہب میں اس کتاب کو بہت عزت و تکریم
کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔
دوسری جانب مسلمانوں کی مقدس کتاب"قرآن پاک" جس میں اﷲ تعالی انسان سے ہم
کلام ہے۔ سب سے افضل ترین فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک ایک ایک آیت
لے کر آسمان سے زمین پر اترتے اور اﷲ کے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ جہاں بھی
تشریف فرما ہوتے وہاں ہی اﷲ تعالی کے کلام کو اپنی زبان سے ادا کرتے اور
نبی کریم ﷺ کو کچھ اس طرح سناتے کہ مقدس کلام خود بخود یاد ہوجاتا ۔ یہ
سلسلہ چند ہفتوں یا چند مہینوں تک محدود نہیں رہا بلکہ 23 سال تک اﷲ تعالی
کا انسانوں کے نام پیغام قرآنی آیات کی شکل میں افضل ترین فرشتے کے ذریعے
پوری کائنات کے لیے رحمت اللمالین اورنبییوں کے سردار پر نازل ہوتا رہا ۔
نبی کریم ﷺ وقتا فوقتا نازل ہونے والی قرآنی آیات صحابہ کرام کو لکھوا کر
محفوظ بھی کرتے رہے ۔ جب لیلہ القدر کی رات قرآن پاک کے نزول کا مرحلہ پایہ
تکمیل کو پہنچا تو اسی قرآن پاک کو زیر زبر سمیت کتابی شکل میں ترتیب دینے
کا فریضہ خلیفہ سوم اور آپ ﷺ کے داماد عظیم حضرت عثمان ؓ نے نہایت کامیابی
سے سر انجام دیا ۔ اس مقدس کتاب کی سچائی ، نورانیت اور اہمیت کااندازا اس
بات سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ اﷲ تعالی اس مقدس کتاب کا خود محافظ ہے ۔اﷲ
کا فرمان عالی شان ہے کہ قیامت تک دنیا کی کوئی طاقت اس قرآن پاک میں ایک
لفظ بھی تبدیل نہیں کرسکتی ۔امریکہ اور اسرائیل میں یہود و نصری کی جانب سے
ایسی بارہا مرتبہ کوششیں کی گئیں لیکن سازشیوں اور حاسدین کی کوئی کوشش
کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی ۔ اس بات میں ذرا بھی شک نہیں کہ جس مقدس کتاب
کا محافظ رب کائنات ہو ۔اسے کون تبدیل یا فراموش کرسکتا ہے ۔ پہلے پہل قرآن
پاک صحابہ کرام کے سینوں میں ہی محفوظ تھا لیکن جب جنگ " بیر معونہ"میں
حافظ قرآن صحابہ کرام کی بڑی تعداد جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئی تو قرآن پاک
کو یکجا کرکے کتابی شکل میں محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ اس سے
اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ قرآنی آیات کتنی اور کس قدر مقدس ہستیوں کی زبان
سے ادا ہوئی اور کتنے ہی مقدس ہاتھوں سے گزر کر یہ قرآن پاک کی شکل میں ہم
تک پہنچا۔نزول قرآن سے آج تک تقریبا 1438ء سال ہوچکے ہیں اس دوران نبی کریم
ﷺ کے علاوہ کتنے صحابہ کرام ، تابع تابعین ، قطب ، ولی ،ابدال ، علمائے
کرام اور کتنے حافظ قرآنوں کے دماغ اور سینے سے ہوتا ہوا یہ قرآن پاک ہمارے
ہاتھوں تک پہنچا ہے ۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ہم اس اہم اور مقدس
ترین کتاب کے ساتھ وہ محبت ، عقیدت رکھتے ہیں جو اس کا حق ہے ۔میں نے یہ
بھی علمائے کرام سے سنا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو نہایت توجہ کے ساتھ کچھ
اس طرح اس مقدس کلام کو سنو کہ دماغ کو ترو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ دل کی
گہرائیوں میں بھی اتر جائے ۔
ایک بار حضرت عمر بن خطاب ؓ زمانہ جہالت میں جب ابوجہل کے اکسانے پر( نعوذ
باﷲ) نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے ہاتھ میں تلوار لیے گھر سے نکلے
تو راستے میں ایک شخص (نعیم بن عدی )سے ملاقات ہوئی جس نے پوچھا اے عمر
......کہاں کا ارادہ ہے ۔عمر نے غصے سے کہا ۔میں (نعوذ باﷲ ) محمد کو قتل
کرنے جارہا ہوں ۔ یہ بات سننے کے بعد اس شخص نے کہا عمر تم محمد کو بعد میں
قتل کرنا پہلے جاکر اپنی بہن(فاطمہ بنت خطاب ؓ) بہنوئی(حضرت سعیدبن زید ؓ)
کی خبر لو ......جو مسلمان ہوچکے ہیں ۔یہ سنتے ہی عمر کے تن بدن میں آگ لگ
گئی اور آپ غصے میں لال پیلے ہوتے ہوئے بہن کے گھر جا پہنچے ۔ دروازے پر
دستک دی تو کانوں میں قرآن پاک پڑھنے کی آواز سنائی دی ۔ جسے سن کر عمر کو
یقین ہوگیا کہ راستے میں ملنے والے شخص کی بات ٹھیک ہے ۔ یاد رہے کہ اس وقت
عمر کی بہن اور بہنوئی ایک تیسرے شخص ( حضرت خباب ؓ)سے قرآ نی آیات سن کر
یاد کررہے تھے ۔ دروازہ پر دستک سن کر قرآن پڑھانے والے شخص کو مکان میں ہی
کہیں چھپا دیاگیا ۔ دروازہ کھولاتو عمر اندر آئے اور پوچھا تم کیا پڑھ رہے
تھے اور وہ تیسرا شخص کون تھا ۔ بہنوئی نے بات کرنا چاہی تو عمر نے اسے
مارنا شروع کردیا۔ درمیان میں بہن آئی تو اسے بھی زود کوب کیاجب عمر بہن
اور بہنوئی کو زود کوب کررہے تھے تو ان کی زبان سے یہی الفاظ نکل رہے تھے ۔
عمر آپ ہمیں جان سے مار دیں لیکن ہم یہ قرآن پڑھنا نہیں چھوڑ سکتے ۔ عمر جب
مار مار کر تھک گئے تو ان کے دل میں بہن کی محبت موجزن ہوئی ۔ آپ نے کہا
اچھا مجھے بھی وہ کلام سناؤ جو تم پڑھ رہے تھے ۔ بہن نے کہا یہ اﷲ کا کلام
ہے جسے سننے کے لیے انسان کاپاک ہونا بہت ضروری ہے۔ پہلے آپ وضو کریں پھر
ہم آپ کو قرآنی آیات سنائیں گے ۔عمر نے کہا ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔بہن نے
کہا آپ ابھی ناپاک ہیں وضو کریں گے تو آپ کا پورا جسم پاک ہوجائے گا پھر اﷲ
کا کلام سننے کے آپ قابل ہوجائیں گے ۔پہلے تو عمر کو اس بات پر بہت غصہ آیا
لیکن جب بات دل کو لگی تو بہن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق آپ نے وضو کیا
اور قرآن پاک سننے کے لیے تیار ہوگئے ۔ ابھی چند قرآنی آیات ہی سنی تھیں کہ
دل و دماغ میں طوفان بر پا ہوگیا آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے آپ وہاں سے
نکلے اور سیدھے حضرت محمد ﷺ کی تلاش میں چل پڑے ۔ پتہ چلا کہ حضرت محمد ﷺ
دارارقم میں تشریف فرما ہیں اور دروازے پر حضرت حمزہ ؓ اور چند اور صحابہ
کرام پہرہ دے رہے ہیں ۔عمر ہاتھ میں تلوار لیے اس جانب چل پڑے ۔جب حضرت
حمزہ ؓ نے عمرکو تلوار ہاتھ میں تھام کر دور سے آتے دیکھا تو نبی کریم ﷺ کو
عمر کی آمد سے آگاہ کیا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمر خودنہیں آرہا بلکہ اسے
کوئی طاقت کھینچ کر لا رہی ہے اسے آنے دو ۔ جب عمر کا حضرت حمزہ ؓ سے آمنا
سامنا ہوا تو حضرت حمزہ ؓ نے فرمایا اے عمر اگر تو نبی کریم ﷺ کو قتل کرنے
کے ارادے سے آیا ہے تو پہلے مجھ سے مقابلہ کر پھر آگے بڑھ۔عمر نے کہا میں
محمد ﷺ سے ملنا چاہتا ہوں ۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کو راستے سے ہٹنے
اور عمر کو اپنے پاس آنے کے لیے کہا۔ عمر نبی کریم ﷺ کے سامنے اپنی تلوار
رکھتے ہوئے بولے میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے نبی ہیں اور میں آپ کی
نبوت پر ایمان لاتا ہوں آپ مجھے ابھی اور اسی وقت کلمہ طیبہ پڑھا کر مسلمان
کر لیں ۔
یہ ہے کلام الہی اور قرآن پاک کی محبت اور کشش کا نتیجہ ۔ صحابہ کرام گھروں
میں ہوں یا میدان جنگ میں قرآن پاک کی تلاوت کرنا کبھی نہیں بھولتے ۔ اس کے
برعکس ہم نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام سے والہانہ محبت کادعوی تو کرتے ہیں ۔کیا
ہم نے قرآن پاک کو وہ اہمیت دی ہے جس کی حق دار یہ مقدس کتاب ہے ۔ہمارے گھر
وں میں برکت کے لیے قرآن پاک تو موجود ہیں لیکن اسے پڑھنے کی فرصت ہمیں
نہیں ملتی ۔ شادی کے موقعوں پردلہن کوقرآن پاک کے سائے سے گزارا جاتاہے اور
یہ کہاجاتا ہے یہ قرآن
بیٹی کے ساتھ ہی اس کے نئے گھر بھی جائے گا ۔ پھر اپنی خوشیوں میں کھو کر
قرآن کو کسی طاق میں رکھ کر ایسا بھولتے ہیں کہ دوبارہ یاد نہیں آتا ۔
یہ قرآن ہے کیا ۔ اس میں اﷲ تعالی کس سے مخاطب ہو رہا ہے اور اس کس کی
زندگی اور موت کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔ اس کتا ب میں کائنات کا علم
کس کے لیے محفوظ کیاگیا ہے ۔اس کتاب میں نظام حکومت کی بہترین خوبیاں کس کے
لیے رکھی گئی ہیں ۔ یہ کتاب پوری کائنات کے لیے ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
جس میں صدیوں پرانے علوم بھی موجود ہیں ۔ پہلے نبیوں کے واقعات بھی ہیں اور
قیامت تک آنے والے حالات سے قبل از وقت آگاہی بھی موجود ہے ۔ یہ کتاب
سونگھنے کی ہرگز چیز نہیں ۔یہ کتاب طاقوں میں سجانے کے لیے بھی آسمان سے
نہیں اتاری ۔ اس کتاب میں اﷲ تعالی اپنے بندوں سے مخاطب ہے ۔اچھی زندگی
گزارنے کے طریقے اور ا س کے عوض اس جنت کا وعدہ بھی شامل ہے جس کے نیچے
نہریں بہتی ہیں ۔اسی کتاب میں بری زندگی کے بدترین نتائج سے بھی آگاہ
کیاگیا ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اﷲ اور اس کے رسول ﷺکے بتائے راستے پر
نہیں چلتے ان کا آخرت میں انجام کتنا برا ہوگا وہ سب کچھ اس میں لکھا ہوا
ہے ۔
ممتاز عالم دین اور محقق ڈاکٹرغلام مرتضی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ
ایک شخص لندن سے لاہور اپنے بچوں کے پاس چھٹیاں گزارنے کے لیے آرہا تھا ۔اس
نے اپنے بیٹے کے نام ایک خط لکھا کہ میں فلاں دن اور فلاں فلائٹ پر لاہور
ائیر پورٹ پر پہنچوں گا تم مجھے ائیرپورٹ لینے کے لیے آجانا ۔ بیٹے نے اپنے
والد کا خط مقدس تصور کرکے اسے کھولے بغیر ہی ایک اونچی جگہ سنبھال کررکھ
لیا ۔ والد بتائے ہوئے دن اور وقت پر جہاز سے اتر ے اورائیرپورٹ پر بیٹے
کاانتظار کرنے لگے ۔ کافی دیر انتظار کے بعد جب بیٹا ائیرپورٹ پر دکھائی نہ
دیا تو وہ ٹیکسی پکڑ کر گھر پہنچ گئے اور بیٹے پر غصہ ہونے لگے کہ اطلاع
دینے کے باوجود تم ائیرپورٹ پر کیوں نہیں آئے ۔ بیٹے نے نہایت معصومیت سے
جواب دیا ۔ ابا جان میں نے آپ کے خط کو عزت واحترام کے ساتھ محفوظ رکھا ہے
چونکہ میرے دل میں آپ کے لکھے ہوئے خط کا بہت احترام تھا اس لیے میں نے اسے
کھولنا مناسب نہیں سمجھا ۔ ڈاکٹر غلام مرتضی اس واقعے کو مثال بناتے ہوئے
کہتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی قرآن پاک کے ساتھ بھی اسی خط جیسا سلوک کررہے
ہیں ۔ قرآن پاک میں ہمارا رب ، ہمارا خالق ہم سے مخاطب ہے اور ہمیں اچھے پر
چلنے اور برے راستے پر نہ چلنے کی تلقین بھی فرما رہا ہے اگر ہم اﷲ کے کلام
کو پڑھیں گے تب ہی برائیوں اورنافرمانیوں سے بچنے کی جستجو کریں گے جب ہم
یہ مقدس کتاب کو غلافوں میں پیک کرکے طاقوں میں سجا رکھیں گے تو اس میں
لکھا ہوا اﷲ کا انسان کے نام پیغام کیسے ذہنوں میں اترے گااور کیسے ہماری
زندگیوں میں انقلاب آئے گا ۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا علیہ
السلام اپنی تخلیق اور پیدائش کے بعد جنت میں خوش و خرم زندگی بسر کررہے
تھے ۔شیطان جنت اور عالم بالا سے نکالا جاچکا تھا ۔اس لیے شیطان کے دل میں
حضرت آدم علیہ السلام کی دشمنی جاگزیں ہوئی اور آتش انتقام دل میں بھڑک
اٹھی ۔اسے جب یہ پتہ چلا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کے تمام میوے
کھانے کی اجازت مل چکی ہے لیکن شجر ممنوعہ یعنی گندم کادانے کو کھانے سے
منع فرمادیاگیا ہے تو زمین سے عالم بالا کی طرف روانہ ہوا۔ جنت میں شیطان
کا داخلہ ممنوع تھا لیکن تین اسم اعظم یاد تھے جن کا ورد کرنے کی وجہ سے اس
کو یہ طاقت حاصل ہوگئی تھی کہ وہ آسمان اول سے ساتویں آسمان تک پہنچ سکے
۔وہ جنت کے دروازوں پر بنے ہوئے یاقوت سرخ کے دو چبوتروں میں سے ایک پر
بیٹھ گیا اور تین سو سال تک انتظار کرتا رہا کہ کوئی جنت سے باہر آئے اور
اس سے اپنے مطلب کی بات کرے ۔ اچانک مور جنت سے باہر آگیا اس کو دیکھتے ہی
شیطان خوش ہوا اور اسے کہنے لگا اے خوشنما پرند.... تم کون ہو ؟ مور نے
جواب دیا میں مور ہوں ۔مور نے کہا تم اپنا تعارف کرواؤ۔شیطان نے کہا میں
عالم کروبیاں کا ایک فرشتہ ہوں اور ایک لمحہ کے لیے بھی اﷲ کی یاد سے غافل
نہیں ہوں ۔میں چاہتا ہوں کہ جنت کے اندر جاؤں اور وہاں کی نعمتوں کا اپنی
آنکھوں سے مشاہدہ کروں ۔اگر تم مجھے جنت کے اندر لے چلو تو میں تمہیں تین
باتیں بتاؤں گا جس کے صلے میں تمہیں ابدی زندگی حاصل ہوجائے گی ۔ تمہیں
بڑھاپا اور بیماری بھی نہیں آئے گی اور تم ہمیشہ جنت میں رہو گے ۔ لالچ میں
آکر مور نے کہا مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت میں لے جاؤں
لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے وہ شاید تمہاری کوئی مدد کرسکے۔یہ کہہ کر مور
سانپ کے پاس آیا اور سارا ماجرا سنایا ۔سانپ بھی شیطان کی گفتگو سے بہت خوش
ہوا اور اسے اپنے منہ میں چھپا کر جنت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اور
شجر ممنوعہ کے پاس پہنچا دیا۔دوسری جانب جنت کے نگہبانوں کو فورا یہ اطلاع
مل گئی کہ شیطان جنت میں داخل ہوچکا ہے جب نگہبان ، شیطان کو جنت سے نکالنے
لگے تو حکم ربی ہوا کہ اسے ابھی جنت میں ہی رہنے دیں ( شاید یہ بھی حضرت
آدم علیہ السلام کا امتحان تھا یا حکمت خداوندی تھی) جنت میں عارضی قیام کا
جب حکمنامہ مل گیا تو شیطان حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اماں حوا علیہ
السلام کے پاس جاکر عقیدت و محبت کا اظہار کرنے لگا ۔ یہ دونوں اس لعین کو
پہچان نہ سکے کیونکہ ماضی کے مقابلے میں اس کی شکل تبدیل ہوچکی تھی ۔ اس نے
حضرت آدم علیہ السلام سے کہا۔ میں چاہتا ہوں آپ ہمیشہ جنت میں اسی طرح خوش
و خرم زندگی گزارتے رہیں ۔ حضرت آدم علیہ السلام شیطان کی باتیں سن کر گہری
سوچ میں ڈوب گئے ۔شیطان نے کہا اگر آپ نے میری بات پر عمل کیا تو یقینا آپ
کو تاحیات جنت کی سہولتیں حاصل رہیں گی ۔یہ سن کر وہ حکم ربی سے شیطان کے
بہکاوے میں آگئے اور پوچھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے ۔ شیطان نے کہا وہ گندم کا
دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں گے تو آپ کو ابدی حیات حاصل ہوجائے گی اور آپ
جنت میں ہی رہیں گے ۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان
پیدا ہوا لیکن ان کے دل میں اﷲ کی نافرمانی کا خوف غالب آگیا جبکہ حضرت
اماں حوا علیہ السلام شیطان کی باتوں میں آگئیں اور ان کے کہنے پر دونوں نے
اس شجر ممنوعہ کو چکھ لیا جس سے دونوں بے لباس ہوگئے ۔ کہانی تو بہت طویل
ہے لیکن مختصر بات یہ ہے کہ اﷲ کے حکم پر فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السلام
کوکوہ سراندیپ ( سری لنکا) کے قریب اور حضرت اماں حوا علیہ السلام کو جدہ
کی سرزمین پر جااتارا ۔ایک تو جدائی کا غم تو دوسرا جنت سے نکلنے اور بے آب
و گیاہ زمین پر اترنے کے صدمے کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام تین سو سال
روتے رہے ۔روایت میں ہے آپ کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو چشمے کی شکل
اختیار کر گئے تو پرندے ان آنسووں کے پانی کو پیتے تو آپس میں باتیں کرتے
ہوئے کہتے اس سے زیادہ میٹھا پانی آج تک نہیں پیا ۔چونکہ حضرت آدم علیہ
السلام پرندوں کی زبان سے واقف تھے اس لیے انہوں نے پرندوں کی گفتگو سن کر
بارگاہ الہی میں عرض کیا ۔ الہی اب تو یہ پرندے بھی میری حالت پر افسوس
کرتے ہیں ۔اب تو میری لغزش کو معاف فرما دے ۔
فرمان خداوندی ہوا کہ اے آدم ۔ اپنے عزت و جلال کی قسم۔ میں نے کسی پانی
میں اتنی لذت نہیں رکھی جتنی لذت گناہگاروں کے آنسووں میں رکھی ہے ۔
گناہگار کی آنکھ کے پانی کو تمام پانیوں سے بہتر ین تخلیق کیا ہے ۔حضرت آدم
علیہ السلام نے دعا کی ۔ اے اﷲ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا پس تو ہی میری
مغفرت فرمانے والاہے ،تیرے سوا گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا ۔ اﷲ تعالی نے
حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش معاف فرمائی اور اﷲ تعالی کے حکم سے فرشتوں
نے جنتی یاقوتوں میں سے ایک یا قوت کعبہ مقدسہ کی جگہ پر لاکر رکھ دیا جہاں
آجکل خانہ کعبہ کی عمارت ہے ۔پھر فرمایا اے آدم میرا ایک مکان ( حرم ) ہے ،
میرے عرش کے محاذات میں جس کا نام کعبہ ہوگا ۔وہاں جاکر اس کا طواف کروجس
طرح میرے فرشتے اس کا طواف کرتے ہیں اور دعا و مناجات کرکے میرا تقرب چاہتے
ہیں تم بھی وہاں جاکر اس کا طواف کرکے میرا تقرب حاصل کرو تاکہ تمہاری
دعائیں بھی قبول ہوں ، تمہاری لغزش معاف ، تمہارا حج قبول اور تمہاری سعی
مشکور ہو۔پھر ایک فرشتے کے ہمراہ حضرت آدم علیہ السلام سراندیپ (سری لنکا)
سے خانہ کعبہ کی جانب روانہ ہوئے آپ جہاں بھی قدم رکھتے وہ علاقہ سرسبز و
شاداب ہوجاتا۔ ایک عام انسان جتنا سفر تین دن میں کرتا ہے ،اتنا فاصلہ آپ
علیہ السلام کے دونوں قدموں کادرمیان میں ہوتا ۔ اﷲ تعالی نے فرمایا جس طرح
اپنی لغزش پر تین سو سال رونے کے بعد تمہاری توبہ قبول کی گئی ہے اسی طرح
اولاد آدم میں سے جب کوئی اپنے گناہوں کی معافی کے لیے آنسو بہائے گا تو اﷲ
کی رحمت جوش میں آجائے گی اور اسے جنت میں داخل کردیاجائے گا ۔ گویا یہ ایک
وعدہ تھا کہ ایک لغزش کی پاداش میں (حکم ربی سے شیطان کے بہکاوے میں آکر)
پہلے انسان کو جنت سے نکالا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی انسان کے لیے یہ سنہری
موقع فراہم کیاگیا ہے کہ وہ مرنے سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر ایک
بار پھر جنت میں داخل ہوسکتا ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا ۔
جنت سے نکالے جانے اور گناہوں کی معافی مانگ کر دوبارہ جنت میں داخل ہونے
کی خبر اسی قرآن پاک میں لکھی ہوئی ہے جسے سمجھ کر پڑھنے کی بجائے غلافوں
میں لپیٹ کر طاقوں میں سجا دیتے ہیں اور یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ہم نے
کارنامہ انجام دیا ہے ۔ روزقیامت جب اﷲ اپنے احکامات کی تعمیل کے بارے میں
بندے سے پوچھے گا تو اگر اس کا یہ جواب ہوا کہ میں نے وہ کتاب پڑھی ہی نہیں
جس میں آپ کی جانب صراط مستقیم پر چلنے کا طریقہ بتایاگیا تھا ۔ مجھے تو اس
بات کا ہی علم نہیں ہے کہ موت کے بعد بھی مجھے زندہ ہونا ہے اور آپ کے
روبرو پیش ہوکر روزمرہ زندگی کا حساب بھی دینا ہے ،مجھے تو یہ بھی علم نہیں
کہ نماز ہی جنت کی کنجی ہے جسے نہ پڑھنے والا دین اسلام سے تقریبا خارج
ہوجاتاہے مجھے تو زکوۃ ، حج اور روزقیامت کے برپا ہونے کے بارے میں بھی علم
نہیں ہے ۔ اے اﷲ میں نے تو آپ کی مقدس کتاب'قرآن پاک "کو سنبھال کر رکھ دیا
تھا اسے کھول کر پڑھنے ، اس میں لکھی ہوئی ہدایت کو پڑھنے ، پہلے نبیوں پر
گزرنے والے حالات و واقعات کے تذکرے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے
اسوہ حسنہ کو بھی جاننے کا موقعہ نہیں ملا ۔ جب انسان یہ سب کچھ اپنے رب سے
کہے گاتو پھر رب کائنات کا جواب کیا ہوگا ۔؟ اس شخص کو دوزخ میں ڈال دو جس
کے پاس میرے احکامات کی کتاب پہنچی یہ بندہ ساٹھ ستر سال دنیا میں رہا اور
اسے کتاب کو کھول کرپڑھنے کی فرصت ہی نہیں ملے ۔اب اپنی اس لاعلمی اور غفلت
کانتیجہ بھگتے ۔
اگر انسان اﷲ تعالی سے مخاطب ہونا چاہتا ہے تو اسے نماز پڑھنی چاہییے
کیونکہ نماز کے ہر عمل میں انسان اﷲ سے مخاطب ہوکر اس کی حمد و ثنا اور
تعریف و توصیف کرتا ہے اور نبی کریم ﷺ پر درود پاک بھیجنے کے بعد اپنی تمام
تر بدنی ، جسمانی عبادات کو اﷲ کے لیے اقرار کرتا ہے ۔اور اگر انسان یہ
چاہتا ہے کہ اﷲ اس سے مخاطب ہو تو اسے چاہیے کہ صبح و شام قرآن پاک کی
تلاوت کرے کیونکہ قرآن میں اﷲ تعالی اپنے بندوں سے مخاطب ہوکر اسے زندہ
رہنے اور آخرت کے تمام معاملات سے آگاہ کرتا ہے ۔چنانچہ قرآن پاک وہ مقدس
آسمانی کتاب ہے جس کاتقدس اور احترام نہ صرف ہم پر لازم ہے بلکہ اس مکمل
ضابطہ حیات میں انسانی زندگی ، فلاح کے راستے ، پہلے نبیوں کی باتیں اور
روزقیامت کے بارے میں ہر وہ بات موجود ہے جس کا علم بندے کی حیثیت سے ہم سب
کو ہونا چاہیئے ۔ الحمد اﷲ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوتے ہیں اﷲ کی
عبادت گاہیں بھی ہمارے گھروں کے قریب ہیں پھر بھی ہم توفیق نہیں ہوتی کہ ہم
اپنے رب کے سامنے پانچ وقت نماز اداکرسکیں ۔ پیدائش کے وقت ہمارے دائیں کان
میں اذان اور بائیں میں تکبیر پڑھی جاتی ہے گویا صرف نماز ( جنازہ ) باقی
ہے ۔ گویا انسانی زندگی اذان ، تکبیر اور جماعت کے درمیانی عرصے کو ہی
کہاجاتاہے لیکن اس عرصے کے دوران بھی شیطان ہمیں ا س قدر غافل کردیتا ہے کہ
ہم موت کو بالکل بھول جاتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ زندگی اسی طرح صبح و
شام کی صورت میں رواں دواں رہے گی لیکن جب موت کا فرشتہ کسی کے سامنے اچانک
آکھڑا ہوتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ ہمیں تواپنے خالق اور مالک رب کے
پاس بھی لوٹ کر جانا ہے جس سے ملاقات ہمیں یاد ہی نہیں رہی اور ہم اس کی
تیاری بھی نہیں کرسکے ۔ شیطان کوقدرت نے حکمت الہی کے تحت قیامت تک کھلا
چھوڑا گیا ہے بلکہ اسے دوران نماز بھی دلوں میں وسوسے ڈالنے تک رسائی اس
لیے دی گئی ہے کہ کون شیطان کی شیطانیت سے بچ کر سچے دل سے اپنے خالق و
مالک کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے ۔ درحقیقت دنیا میں آنا ، یہاں ایک
مقررہ مدت تک رہنا اور پھر واپس لوٹ جانا ایک امتحان کی شکل ہے ۔ ہم دنیاوی
کلاس روم میں تو موجود ہیں لیکن ہماری توجہ حقیقی اور آخروی نصابی کتاب کی
طرف نہیں ہے اور ہم جس طرح کتابیں بستے میں ڈال کر گھر سے سکول جاتے ہیں
اسی طرح کتابوں کو کھل کر پڑھنے کی بجائے واپس آکر اپنے گھر میں جاکر رکھ
دیں گے تو پھر کمرہ امتحان میں کامیابی کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے ۔
قرآن پاک پڑھنا ، قرآن پاک سننا اور قرآن پاک پڑھانا افضل ترین عمل ہے۔ جس
کو ہم مسلمانوں نے مقدس کتاب تو ضرور سمجھا ہے لیکن اسے کھول کر پڑھنے اور
پڑھانے کی فرصت ہمیں نہیں ملتی ۔ ساٹھ ستر سال دنیا میں زندگی گزارنے والے
بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ایک سپارہ پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ جب ہمارے
کسی عزیز رشتے دار کی موت واقع ہوجاتی ہے تو ایصال ثوا ب کے لیے جب قرآن
خوانی شروع ہوتی ہی ہمارے چہرے اس لیے لٹک جاتے ہیں کہ ہم سے اکثر کو قرآن
پڑھناہی نہیں آتااور غلط سلط پڑھ کر جان چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔حتی کہ
مرنے والے کی اولاد بھی صحیح طریقے سے نماز جنازہ اور قرآن پڑھنے سے قاصر
دکھائی دیتی ہے یہ کام ہم نے علمائے کرام کے لیے چھوڑ رکھا ہے جو ہمارے
مرنے والوں کو پڑھ کر بخشتے رہیں گویا مرنے والوں کو ایصال ثواب پہنچانا
ہمارا فرض نہیں ہے ۔ جب تک ہم خود قرآن پاک کو سمجھ کر نہیں پڑھیں گے اور
اپنے مرحومین کو ایصال ثواب نہیں کریں گے اس وقت تک نجات کی صورت نظر آنا
بہت مشکل ہے ۔ کہاجاتاہے کہ جب قرآن پاک پڑھا جاتاہے تو اسے غور سے سنو اور
اس کا اثر تب ہی دلوں پر حضرت عمر ؓ جیسا دل بھی ہمارے پہلو میں ہوگا ۔
اس کے باوجود سکھوں کی گرنتھ صاحب انسانوں کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک عام سی
کتاب ہے لیکن وہ اپنی مقدس کتاب کی جس طرح قدر کرتے ہیں اور جس طرح اس کو
توجہ سے سنتے ہیں وہ واقعی ایک مثال ہے ۔ کاش ہم بھی اﷲ کے مقدس کلام ،
حضرت جبرائیل علیہ السلام کے توسط سے نبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن
پاک کی فضیلت اور اہمیت کو سمجھ سکیں اور اس کے احترام کے ساتھ ساتھ اسے
سمجھ کر پڑھ بھی سکیں تاکہ روز قیامت جب اﷲ کے روبرو پیش ہوں تو ہمیں ہر اس
بات کا علم ہو جو اﷲ نے اپنی مقدس کتاب میں ہمارے لیے لکھ رکھی ہے اور اس
پر عمل ہم اس طرح کریں کہ رب کائنات سے ملاقات کے وقت ہمیں شرمندگی کا
سامنا نہ کرنا پڑے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ فخر سے کہہ سکیں کہ یہ میرا امتی
ہے ۔ |