آج پھر گھر میں داخل ہوتے ہی فلک شگاف
نعروں نے استقبال کیا۔ میں تنگ آگئی ہوں تمہاری ماں سے ہر وقت کام میں دخل
اندازی ، ہر وقت روک ٹوک اب اس گھر میں مجھے رکھو یا انہیں،،،،
اُف میں تھک گیا ہوں اس روز کی کِل کِل سے کیا مُصیبت ہے؟ ؟؟؟ آفس سے تھکے
مرے گھر آؤ اور یہاں کے مسئلے ہی ختم نہیں ہوتے ،حد ہو گئی ہے ۔۔۔ گھر ہے
کہ جہنم ؟؟؟ نہ بیٹا نہ ! ماں نے دوپٹے کے پَلو سے آنکھیں خُشک کرتے ہوئے
کہا ، میں تو بس بہو سے یہ کہہ رہی تھی کہ مجھ سے کل کی رکھی ہوئی روٹی
کھائی نہیں جا رہی سخت ہو گئی ہے ۔
اور رات کو سونے سے پہلے میں ان روز کے جھگڑوں کا حل ڈھونڈ چُکا تھا۔
چل ماں میں تجھ کو ڈاکٹر کے پاس لے چلوں تجھ کو تین دن سے بُخار آ رہا ہے
؟؟؟؟ ذرا سی توجہ پا کر ماں جیسے نہال ہو گئی ۔ ماں تو تھک گئی ہو گی اس
پیڑ کے نیچے پتھر پر تھوڑی دیر کے لئے بیٹھ کر آرام کر لے، اُفوہ!!!!!
میں اپنا بٹوہ گھر بھول کر آ گیا ہوں تو یہاں بیٹھ میں ابھی آیا ۔
اور میں گھر آکر سو گیا ۔۔ میں نے روز روز کے جھگڑوں سے نجات جو پا لی تھی؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
اور ایدھی ہوم میں ایک نئے مکین کا اضافہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |