فون کی گھنٹی کی آواز نے اسے جگا دیا ہیلو
وہ بیز اری سے مخاطب ہوا ۔دوسری طرف سے بات سنتے ہی اس کا چہرہ جگمگا اٹھا
جی سر ۔بلکل سر .کام ہو جائیگا سر میں ماہر ہوں اس کام میں مال کہاں ملے گا
۔۔۔۔۔؟ پتہ لکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں سفاک چمک تھی۔فون رکھنے کے بعد وہ
گہری سوچ میں گم ہو گیا کہ اس نے اس کام کی ذمہ داری تو لے لی ۔پھر اس کی
آنکھوں کے سامنے اس کی روٹھی بیوی کی صورت گھوم گئی جو اس کی غریبی سے
بیزار تھی وہ اسے اس کام سے ملنے والی رقم سے کی جیولری لے کے دے اور اچھا
سا سوٹ بھی .اس کی آنکھوں میں سپنے سجنے لگے۔
اب اسے کام کا پلان کرنا تھا ۔اسے سب سے پہلے ان قیدیوں کا مطلوبہ جگہ جا
کر کام تمام کرنا تھا ۔اس معاملے میں وہ بہت سفاک واقع ہوا تھا ۔اسے تڑپتی
چلاتی آوازوں پہ کبھی رحم نہ آتا بلکہ گوں نا گوں تسکین ملتی۔اسے اور کچھ
تو آتا ہی نہ تھا۔نہ تعلیم تھی کہ اس کا استعمال کر لیتا-وقت کم تھا اور
مقابلہ سخت اس نے لباس تبدیل کیا اب وہ سیاہ لباس میں ملبوس تھا۔اس نے آلات
کو دیکھا چھرے کی دھار کی آب وتاب قابل دید تھی۔اس نے اپنے ہتھیار چیک کیے
اور فارم ہاؤس کی طرف چل دیا۔رات کی تاریکی میں سیاہ لباس تاریکی کا حصہ بن
گیا ۔جب وہ فارم ہاؤس میں داخل ہوا ۔تو ہر طرف تاریکی اور خاموشی کا راج
تھا ۔کبھی کبھی کسے کتے کے بھونکنے کی آواز خاموشی کو چند پل کو نگل
لیتی۔گیٹ کے پاس پہنچ کر اس نے موبائل جیب سے نکال کر کسی کو کال کی ۔کچھ
دیر میں گیٹ کھل گیا ۔اس کی نظر گیٹ کے پاس بیٹھے ایک خونخوار کتے پہ پڑی
اس سے قبل وہ اس پہ جھپٹتا رکھوالے نے کتے کو تنبیہہ کی ۔کتا دبک گیا مگر
کینہ توز نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ملازم نے اسے چابی دی اور ایک طرف اشارہ
کیا۔اس کے خون کی گردش تیز ہو گئی۔وہ عقوبت خانے میں داخل ہوا ۔قیدیوں نے
جب اسے دیکھا ۔اس کی آنکھوں کی سفاکی سے ان کے دل لرز گئے ۔اور منت سماجت
پہ اتر آئے مگر وہ تو بہرا ہو چکا تھا ۔ایک ایک کو مقتل تک گھسیٹ کے لاتا
گیا اور انجام تک پہنچاتا گیا ۔ایک ملازم ان کو ٹھکانے لگاتا گیا ۔بالاخر
اس کا کام ختم ہوا اور اس نے اپنا خون آلود لباس تبدیل کیا دوسرا لباس پہنا
۔اپنا معاوضہ جیب میں ڈال کے جیب تھپتھپائی اور سسرال کا رخ کیا ۔
شیدے قصاب کو سیٹھ رمضان نے ایک گرینڈ دعوت کے لیے مرغیاں ذبح کرنے کے لیے
بلوایا تھا اور اچھے معاوضے کی پیش کش کی تھی۔ |