تعلیم اداروں میں اخلاقی تربیت کا فقدان

پرائیوٹ اسکول کالج میں تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن قابلیت کہیں دور کھڑی آنسو بہا رہی ہے
 تعلیم کے گرتے ہوئے معیار کی حوصلہ افزائی ہمیشہ انکی جانب سے کی جاتی رہی ہے جس سے انکو خوب کمائی ہوتی رہی ہے سرکاری اسکول ،کالج ۔یوینورسٹی ۔پرائیوٹ اسکول، دور جدید کے عین تقاضوں کے ساتھ پیلا ،نیلا ،ہرا،اورنج،پرپل،جامنی،وغیرہ ،وغیرہ،دن بھی منائے جاتے ہیں اسکول فیس پر تو جیسے پر لگ چکے ہیں پرائیوٹ اور سرکاری اسکول دونوں ہی ایک مافیا کا کردار ادا کررہے ہیں پہلے پرائیوٹ اسکول میں معیار تعلیم کی اگر بات کی جائے تو والدین کے منہ سے انکے لیئے کھبی اچھے الفاظ نہیں نکلیں گے کھبی جون،جولائی کی تعلیل سے قبل کی فیس لی جاتی ہے کہ کہیں دو مہینے کی فیس دئیے بغیئر والدین بچوں کو ہٹا نہ لیں ،اسکول کی کتابوں کا بوجھ کمائی کرنے والے اپنے اپنے من پسند پبلیشرز کی کتابیں لینی ضروری ہیں ،گھر کا کرایہ اور اسکول کی فیس اب برابر ہوچکی ہے اور اوپر سے یہ لاجواب دن جس میں بچے چھٹی کے بعد مختلف رنگوں سے سجے گھر آتے ہیں تو تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہمارے بچے ہیں یا مختلف رنگوں سے مزین (بہادر آباد کا گولا گنڈا)ہے اس سے بہتر تھا کہ کہ ان کلرفل ڈے کو ہولی وغیرہ بنانے کا اعلان کردیا جاتا ،یہ کس کلچر کی بات کی جارہی ہے ہمارے اقلیتی بھائیوں سے اظہار یکجہتی ہم انکے تہواروں کے موقعوں پر کرتے ہیں لیکن بچوں کے ساتھ یہ کونسا مذاق ہے کہ منہ پر اسٹار بنوالیا وغیرہ وغیرہ ، بھاری کتابوں کا بوجھ لیکر کندھوں پر اٹھائے تھکا ہوا گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر کا سفر جب پیدل ،وین میں ٹھس ٹھسا کر طے کرتا ہے تو اسکے لہجے میں جو تلخی آتی ہے اسکا اندازہ سب کو ہے لیکن سسٹم کچھ ایسا طاقتور بن چکا ہے کہ انکے خلاف کھبی کوئی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتا ہے پرائیوٹ اسکولوں کو لگام ڈالنے کے لیئے ایک پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا جو پرائیوٹ اسکولوں کی من مانیوں کی وجہ سے اب دو تین گروپس میں تبدیل ہوچکا ہے اسکول میں بچوں کی فیس میں اضافے کی وجوہات یہ بتائی جاتی ہیں کہ حکومت نے آئے دن جو ٹیکس لگائے ہیں وہ ہم اسطرح پورا کر سکتے ہیں آسان ترین الفاظ میں آپ پرائیوٹ اسکولوں کی داستان گوہر نایاب یوں بیان کرسکتے ہیں کہ اگر اﷲ تعالیٰ آپکو اپنی رحمت کے طفیل نواز دے تو آپ اپنی کاروباری فہرست میں اس کاروبار کو شامل کرلیں کیونکہ پہلے جائیداد بنانے کے بعد کاروبار کیا جاتا تھا اب آسانی یہ ہو گئی ہے کہ تھوڑے سے بینک بلینس سے آپ ایک پرائیوٹ اسکول کھولئیے اور اپنی جائیداد میں اضافے کا ذریعے بنائیے کیونکہ اب ان تمام وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پرائیوٹ اسکولز ایک منافع بخش کاروبار کی حثیت اختیار کرچکا ہے اس لئیے کاروباری حضرات نے اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اس جانب بھرپور توجہ دی اور نتیجہ شہر قائد کے سامنے ہے رہائشی علاقوں میں بھاری کرائے پر بنگلے حاصل کر لئیے جاتے ہیں اور پھر ان اسکوں میں امیر گھرانوں کے چشم چراغوں کو بھاری فیس کے عیوض گوہر نایاب تعلیم دی جاتی ہے جس میں قابلیت کا عنصر زرا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے یعنی ایسی تعلیم جس میں سرٹیفکٹ ،ایوارڈز، میڈلز حاصل کرنے کے بعد فوٹو سیشن کا شوق ہو نالج اور قابلیت کا دور دور تک پتا نہ ہو ،جس سے بچوں میں تہذیب نہ ہو ،تو پرانے دور میں ہمارے والدین ایک مثال دیا کرتے تھے ( معذرت )کے ساتھ (پڑھ لکھ کر گدھے پر لاد دیا)پرائیوٹ اسکول کالج میں تعلیم تو دی جارہی ہے لیکن قابلیت کہیں دور کھڑی آنسو بہا رہی ہے سرکاری اسکول کی بات کیا جائے پہلے کے سرکاری اسکولوں،پیلا اسکول میں قابلیت سے بھرپور تعلیم دی جاتی تھی اور اب بھی دی جارہی ہے لیکن کچھ معیار تو گر چکا ہے کرپشن،سے لیکر غیر حاضریاں اور گھر بھیٹے تنخواہیں لینے والے استادوں کی تعداد انکی قابلیت کی داستان خود سنارہی ہے وزیر تعلیم اپنی کرسی پر آتے ہی کچھ دکھانے کے لئیے کہ پہلے واہ واہ ہوجائے پھر اسی ڈگر پر چلنا ہے جس پر جانے والے چل کے گئے ہیں اس کے بعد وہی افسانے اور کمانے کے بہانے کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کے معماروں کو آدھی کچی اور آدھی پکی تعلیم دے کر رخصت ہوجاتاہے اور قابلیت دور کھڑی آنسو بہا رہی ہوتی ہے اس تمام صورتحال میں قصور صرف ان تعلیمی اداروں کا نہیں ہے والدین کا بھی ہے جو بچے کی فرسٹ پوزیشن تو دیکھ رہے ہیں ایوارڈز ،میڈلز کے ساتھ سلیفیاں بھی بنوارہے ہیں انگلش میں بات چیت کررہے ہیں لیکن قابلیت اور نالج کس مقام پر ہے یہ دیکھنے کا انکے پاس وقت نہیں ہیاس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ ایک استاد اور ایک استانی ایک کلاس میں 40بچوں کو تعیلم دے رہی ہے لیکن ایک ماں باپ اپنے دو تین چار پانچ بچوں کو قابلیت نہیں دے سکتے کیونکے انکے نزدیک قابلیت کا معیار فرسٹ پوزیشن ،ایوارڈز ،میڈلز ،سرٹیفکیٹ ہی رہ گیا ہے تعلیم کسی قوم کی تعمیر وترقی اور عروج وکمال کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہ بات والدین کے اگر سمجھ میں آئے کہ تعلیم کا مقصد محض درس وتدریس اور امتحانات کی تیاری نہیں ہے اورنہ اس کا مقصد حصول معاش ہے بلکہ تعلیم کااصل مقصد بچوں اور بڑوں کی ذہنی ،جسمانی ،اور اخلاقی تربیت کرنا ہے جس سے دور جدید کے تعلیم یافتہ نوجوان،بہت دور کھڑے دکھائی دیتے ہیں
 
Syed Mehboob Ahmed Chishty
About the Author: Syed Mehboob Ahmed Chishty Read More Articles by Syed Mehboob Ahmed Chishty: 5 Articles with 4117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.