ماں کی ممتا کو سلام
(Abdul Jabbar Khan, rajanpur)
خواتین جاب کرتی ہیں ان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ خود ہی جا نتی ہیں پر ہمارا معاشرہ اور حکومت ان مسائل منہ موڑے ہو ئے ہے ۔ |
|
وطن پر جان قربان کرنے کا جذبہ اس دل میں
بچپن سے تھا۔وہ جب پڑھائی سے فارغ ہوتی تو اپنے شہید باپ کی وردی کو دیکھتی
رہتی بابا کی کیپ سر پر رکھ کر شیشے کے سامنے جاتی کیپ کو ٹھیک کرتی اور
بابا کو تصویر کو سلوٹ کر تی اور کہتی بابا اک دن آپ کی طر ح بننا ہے ۔وقت
گزارتا گیا اور آخر وہ دن بھی آ گیا جس کا اس کو انتظار تھا ۔پڑھائی مکمل
کر کے پولیس کی نوکری کر لی ماں نے بہت سمجھایا بیٹی لڑکیوں کے لئے مشکل ہے
پولیس کی نوکر کرنا پھر تیرے سوا کون ہے میر ا اگر تجھے کچھ ہو گیا تو میں
کیا کر وں گی ۔ماں میں تمہاری بیٹی نہیں بیٹا ہوں اور مجھ کچھ نہیں ہو گا
۔ماں میرے لئے دعا کرو میں بھی با با کی طر ح وطن پر قر بان ہوجا ؤ ۔ماں نے
روتے ہو کہا پگلی میں کیا کروں گی تو میری اکلوتی اولاد ہے ۔ایسا وقت
دیکھنے سے پہلے ہی مجھے خد ا اٹھا لے ۔اک دن ڈیوٹی کے دوران اس شوہر نے فون
کیا کہ عبداللہ کی نا نی اللہ کو پیاری ہو گئی گھر جلد آؤ۔اس نے ماں کوان
الفظ سے جہاں ابدی کو روانہ کیا ماں تومجھے چوڑ کر با با کے پاس جا رہی ہے
۔اب نوکر ی کے ساتھ گھر کی مشکلات میں مز یدآضا فہ ہو گیا ماں زند ہ تھی تو
عبداللہ کو گھر میں سنبھال لیتی تھی اس کے ابو بھی کا م پر چلے جاتے نوکری
چھوڑ دوں تو گھر کا گزارہ کیسے چلے گا۔ اب تو عبداللہ کو بھی ساتھ لے جانا
پڑے گا ۔پراس کی ابھی عمر ہی کیا ہے چار ماہ کاابھی نہیں ہوا ۔چند دن بعد
محر م کے ایام شروع ہو جا ئیں گے ڈیوٹی مزید سخت ہو جا ئے گی ۔یا اللہ تو
ہی مد د فر مانا ۔یکم محرم سے اس کی ڈیوٹی تھانے سے مجالس او ر جلوسوں کے
راستے کی سکیورٹی پر لگا دے گئی تھی آج تو نو محر م کا دن ہے رش بھی زیادہ
ہے ڈیوٹی تو بہت الر ٹ ہو کر نی ہوگی۔ادھر آج عبداللہ بھی بار بار روئے جا
رہا ہے ساتھی پولیس کانسٹیبل باری باری اس کو ریسٹ دیتی تو یہ عبداللہ کو
سنبھال لیتی ۔اب ماں نے بچے کو گود میں لیا دودھ کا فیڈر بچے نے پینا شروع
ہی کیا تھا کہ عین اس جگہ جہاں خواتین کا چیکنگ ہو رہی تھی ایک برقعہ پوش
خاتون نے خود کو دھمکے سے اڑا دیا۔ہرطرف چیخ و پکار شروع ہوگئی امدادی کام
شروع ہو گئے جہاں درجنوں لاشیں پڑ ے تھی ان میں سے ایک ننھے عبداللہ اور
پولیس کی وردی میں ملبوس اس کی ماں تھی ۔آج واقعی اس نے ثابت کر دیاجس کا
اس نے اپنے بابا سے وعدہ کیا تھا خود تو قربان ہوئی ساتھ ہی ڈیو ٹی اور وطن
کی خاطر اپنے لخت جگر کو بھی قربان کر دیا ابھی تو اس کو یہ بھی پتہ نہیں
تھا دوست کیا ہوتا دشمن کیا ہوتا بس صرف جانتا تھا تو اپنی ماں کو جس گلے
لگا تے تمام درد تکا لیف بھلادیتا تھا یہ تو ایک ایسی عورت کی کہا نی ہے جو
تما م تر مشکل اور مصائب کے با وجود اپنی زندگی جنگ بھی لڑ رہی تھی اور سا
تھ اس زندگی کو گزارنے کے لئے محنت جستجو اور لگن سے اپنی ڈیو ٹی سرانجا م
دیتی اور جو فطرت نے اس کے ذمے ڈیو ٹی لگا ئی وہ بھی نبھا رہی تھی ۔ایسی ہی
ہمارے معا شرے میں ہزاروں خواتین ہیں جو مشکل حالات کے باوجود زندگی جنگ
لڑرہی ہیں جو کسی مجبوری کی وجہ سے گز ربسر کر نے کے لئے نوکری کرتی ہیں
۔ایک ورکنگ ویمن یا نوکری پیشہ خا تون صبح کا سورج طلوح ہوتے ہی گھر کے کا
م میں لگ جاتی ہے بچوں کو شوہر کو ناشتہ کر وایا خود کھا یانہ کھایابس چل
دی اپنی ڈیوٹی پر سارادن سکول دفتر بنک فیلڈ ہرشبعے سے وابستہ خواتین جب
گھر آتی ہے تو آرام نصیب ہو یا نہ لیکن گھر کے کا مم اک انبارلگا ہوتا ہے
وہ بھی مکمل کر کے شا م کو بچوں کا ہو ورک بھی کروانا ہے ۔جب بچاری گھر سے
با ہر نکلتی ہے تو معاشرے کی تنگ ذہنیت اور تنگ نظر وں کا شکارہوتی ہے
راستے میں کئی مشکل باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے آفس میں باس کی ڈانٹ سنسنی
پڑتی ہے اور با س حر اسا ں کرنے کی کو شش بھی کر تا ہے گھر شوہر اور ساس کے
تلخ جملوں کوسن بھی برداشت کر نا پڑتا ہے بس زندگی ایک گول چکر کی طر ح ایک
گھو م رہی ہے جو پھر آکر اس جگہ واپس آجا تی ہے ۔لیکن ان ہمارا معا شرہ اور
گورنمنٹ ورکنگ ویمن کی مشکلات سے مکمل طور پر نا آشنا ہے ۔معاشرے میں ان کے
ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جاتاہے بجائے ان کی مجبوری کو سمجھنے کے الٹا ان
پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں اور تنگ ذہین سوچ اور نظروں سے ان کو نشا
نہ بنا تے ہیں ۔ جبکہ ہمارے ملک میں خو اتین مر دوں کے برابر آبادی میں ہیں
مطلب پوری آبا دی کا 50 فیصدپر ان کو نوکر یوں میں کو ٹہ 50 فیصد کی بجا ئے
15فیصد دیا جا تا ہے ۔گھر داری کے سا تھ نوکر ی کی مشکلات کو مد نظر رکھا
جا ئے تو کو ئی بھی آضا فی تنخواہ یا الاؤنس بھی نہیں دیا جا تا ہے ۔سالانہ
چھٹیاں بھی مردوں کے بر ابر جبکہ بچے کی پیدائش پر آضافی رخصت یا میڈیکل
وغیرہ کا حصول بھی مشکل بنا دیا جاتا ہے ۔فیلڈ میں ڈیوٹی کرنے وا لی حو
اتین کو تو بہت سا رے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے جیسے پولیس یا پھر پو
لیو ورکر زخواتین ۔آج کل پولیس کی طر ح پولیو ورکرز بھی دہشت گردوں کے
نشانے پر ہیں شہروں میں کام کرنے والی پولیوورکر ز کو سیکورٹی فراہم کی جا
تی ہے اس کے بر عکس دیہی علا قوں کی پولیو ورکرز کی سیکورٹی ان کے گھر کے
مرد ہی دیں تودیں ورنہ بچاری دوسروں کی زندگی بچانے کیلئے اپنی زندگی داؤ
پر لگا دیتی ہیں خواتین تبادلہ جات کرتے وقت گھر سے قریب ہونا بھی مد نظر
نہیں رکھا جاتا خاص کر ایسے مسائل کا سامنا ٹیچرز کو ہوتا جن کوڈیوٹی پر
آنا جا نا کسی تکلیف سے کم نہیں ہو تا ۔مر د تو ویگنوں بسوں کے دھکے کھا کر
اور لٹک کر ڈیوٹی پر جا سکتا ہے پر خا تون بچاری کیسے جائے پھر بھائی باپ
یا خاوند ان کی ڈیو ٹی کے سا تھ ڈیو ٹی سر انجا م دیتے ہیں جس کے سفری
آخراجات بڑھ جاتے ہیں او ر مہینے کی آدھی سے زیاد ہ تنخواہ سفری آخراجات
میں اڑجاتی ہے۔ادھر خواتین کی نما ئندگی کر نے والی اسمبلی میں بھی حقوق
نسواں بل تومنظور کروا کر اپنا بڑا کارنامہ گردانتی ہیں ۔پر اس بل میں
ورکنگ ویمن کو سوائے حراس منٹ کے علاوہ اور کوئی شق شامل نہیں ہے جیسے ان
کی تنخواہوں مر اعات یا تبدلہ پا لیسی کو شا مل کیا جاتا ۔اس کے علاوہ
پولیس اور پولیو ورکرز میں شہید ہو نے والی خو اتین کو مردوں کا ڈبل اور
خصوصی پیکیج دیے جائیں ۔حکومت بیان کیے گئے مسا ئل پر ضرور نظر ثانی کر ے
اس کے سا تھ ہی معا شر ے پر بھی ذمہ داری عا ئد ہو تی ہے کہ وہ اپنی تنگ
ذہنیت اور جاہلت کی سوچ سے باہر نکلتے ہو ئے ان خواتین کو اخترام سے نوازے
اور اپنی سوچ میں اک ماں کی مجبوری کومد نظر رکھے۔اس عبدللہ کا کیا قصورتھا
ڈیو ٹی تو اس کی ماں کی تھی ؟
ماں کی ممتا کو سلام |
|