بھارت یاترا-- ہاسٹل کھانا ، سکھ طالب علم کا بلی سے ڈرنا

چھوٹے سے کٹورے اور چھوٹی چھوٹی چپاتیاں ، پہلے ایک ہفتے تو عجیب سا لگا ، یہاں تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا کسی پر غصہ بھی نہیں کرسکتے تھے-گھر میں بیگم پر غصہ نکالتے کہ یہ کیا پکایا ہے پردیس میں کس پر غصہ نکالے کہ یہ کیا چیز ہے- سلاد نام کی کوئی چیز کھانے کو نہیں ملتی- سبز مرچوں کے بجائے سرخ مرچ اور ہلدی کا استعمال وہاں کے لوگ زیادہ کرتے ہیں-کبھی کھبار کھانے کے دوران سوچتا کہ یہ کدھر آکر پھنس گیا ہوں کیونکہ گھر میں امی سے کھانے پر ڈانٹ پڑتی ، وہاں پر احساس ہوا کہ بیگم کے ہاتھ کے پکے ہوئے ٹینڈے بھی بہت زبردست ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ کبھی ٹینڈے میں نے زندگی میں نہیں کھائے-ہاسٹل میں صبح کے ناشتے ، دوپہر کے کھانے ، شام کے چائے اور رات کے کھانے کا الگ ہی وقت مقرر تھا -
گھر کا کھانا ، امی کا غصہ اور ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے کا اپنا ہی مزا ہے جس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کوئی گھر سے دور ہو- اس بات کا اندازہ چنائی میں کالج کے ہاسٹل میں کھانے کے دوران ہوا-جس ہاسٹل میں ہم مقیم تھے اس کے سامنے کالج کے طلباء کیلئے کھانے پینے کا انتظام تھا- ہم تو خیر سکالرشپ والے تھے اس لئے ہم سے پیسے نہیں لئے جاتے لیکن جو ڈے سکالر تھے یعنی روز کی بنیاد پر آتے اور کلاسز لیتے وہ ستر روپے کھانے اور صبح کے ناشتے کے دیتے تھے-جبکہ جو لوگ ہاسٹل میں مقیم تھے ان سے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روپے کھانے کے مد میں لئے گئے تھے لیکن کھانا ان کا ایسا تھا جیسا کسی مریض کو دیا جاتا ہو -تامل ناڈو میں شہری گھی کا استعمال کم کرتے ہیں وہ بھی ابلے ہوئے چاول ساتھ میں انڈہ لیکن یہ انڈے کو توے کوڈال کر اس میں بریڈ لگا لیتے تو اس کا مزہ آتا ہے-کالج ہاسٹل میں ابلے ہوئے چاول اور مسور کی دال اور کبھی کبھار سبزی کے نام پر مختلف سبزیوں کا ایک ساتھ پکاکر طلباء کو ددیتے ہیں-پہلے دن تو عجیب سا لگا کہ کسی ہسپتال میں علاج کیلئے آیا ہوں اور مریض ہونے کی وجہ سے پرہیزی کھانا مل رہا ہو-

چینی یعنی میٹھے کا استعمال کم ہے سوجی جو کہ حلوے کیلئے ہم پکاتے ہیں وہاں پر اس میں مختلف قسم کی پتیاں ڈال دی جاتی ہیں ساتھ میں یہ نمکین بھی ہوتا ہے پاکستان سے جاتے ہوئے میرا وزن 92کلوگرام تھا جو کہ دو ماہ کے دوران ساحل سمندر پر چیکنگ کے دوران پتہ چلا کہ یہ تو 84کلوگرام تک آگیا ہے- ابلے ہوئے چاول ،کم گھی اور مسو ر کی دال سمیت سبزیوں نے کمال کردیا تھا یعنی وزن جو کسی طرح کم نہیں ہوتا تھا وہاں پر کم ہوگیا- لیکن صبح شام چاولوں کی بھرمار کی وجہ سے چنائی میں راقم نے عہد کیا تھا کہ پاکستان جانے کے بعد اب چاول کو ہاتھ نہیں لگاؤنگا- جس پر تاحال قائم ہوں (البتہ موٹے چاو ل اس عہد میں شامل نہیں( -

ہاسٹل کے کینٹین میں کھانے کا سسٹم بھی بڑازبردست تھا لائن میں کھڑے ہو کر ایک ٹرے میں کھانا ملتا آپ جتنا چاہتے اتنا ہی آپ کو ملتا چپاتیاں ، سبزی اور دیگر اشیاء ، اگر کوئی طالب علم دوسری مرتبہ ٹرے لیکر کھڑا ہو جاتا تو دوبارہ بھی مل جاتا لیکن اکیلے کھانے کی عادت ہمیں اندر سے مار دیتی تھی کیونکہ گھر میں بچوں کیساتھ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے کا جو مزا ہے وہ ٹرے میں کھڑے ہو کر میز پر کھانے میں نہیں-لائن میں کھڑے ہو کر اگر طالب علم کے بعد کالج کی انتظامیہ کا کوئی شخص آکر کھڑا ہو جاتا یا پروفیسر تو وہ بھی قطار کے اصولوں کی پابندی کرتا -یعنی یہ نہیں کہ پیچھے آنیوالا پروفیسر ہے تو وہ جلدی سے آکر کھانا ٹرے میں لے جائے بلکہ وہ لائن میں اپنے نمبر پر ہی کھانا لیگا جتنا کھانا سب کو ملتا ہے اسی کو ملے گا-کئی مرتبہ اساتذہ ہمارے پیچھے لائن میں اساتذہ کھڑے کھانے کیلئے نظر آئے - ذاتی طور پر راقم کو بہت شرم محسوس ہورہی تھی کہ استاد پیچھے کھڑا ہے اور ہم آگے لیکن مجال ہے کہ کسی نے کوئی پروا کی بس لائن میں لگے رہو ، کھانا کھاؤ اور مخصوص جگہ پر ٹرے رکھ کر چلے جاؤ- جسے وہاں پر کام کرنے والی تامل خواتین ہی اٹھا کر صاف کرتی ہیں-

چھوٹے سے کٹورے اور چھوٹی چھوٹی چپاتیاں ، پہلے ایک ہفتے تو عجیب سا لگا ، یہاں تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں تھا کسی پر غصہ بھی نہیں کرسکتے تھے-گھر میں بیگم پر غصہ نکالتے کہ یہ کیا پکایا ہے پردیس میں کس پر غصہ نکالے کہ یہ کیا چیز ہے- سلاد نام کی کوئی چیز کھانے کو نہیں ملتی- سبز مرچوں کے بجائے سرخ مرچ اور ہلدی کا استعمال وہاں کے لوگ زیادہ کرتے ہیں-کبھی کھبار کھانے کے دوران سوچتا کہ یہ کدھر آکر پھنس گیا ہوں کیونکہ گھر میں امی سے کھانے پر ڈانٹ پڑتی ، وہاں پر احساس ہوا کہ بیگم کے ہاتھ کے پکے ہوئے ٹینڈے بھی بہت زبردست ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ کبھی ٹینڈے میں نے زندگی میں نہیں کھائے-ہاسٹل میں صبح کے ناشتے ، دوپہر کے کھانے ، شام کے چائے اور رات کے کھانے کا الگ ہی وقت مقرر تھا -

راقم کو تو صبح سویرے اٹھنے کی عادت تھی اس لئے صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوکر ناشتہ کیلئے کینٹین میں جانیوالو ں میں پہلا نمبر راقم کا ہوتا تھادیگر طالب علم اگر کلاس لیتے تو ساڑھے سات بجے اٹھ جاتے پھر بھاگتے بھاگتے نہاتے اگر غسل خانے پر رش ہوتا تو صرف منہ دھو کر بعض تو منہ بھی نہیں دھوتے اور کتاب ہاتھ میں اٹھا کر کینٹین آتے چائے پیتے اور پھر کلاسز لینے جاتے تھے - اگر کوئی صبح کے ناشتے سے رہ گیا تو اسے کوئی ناشتہ نہیں ملتا اسی طرح کھانے کے اوقات میں بھی کوئی رہ جاتا تو یہ اس کی اپنی قسمت- ہاسٹل کینٹین میں کام کرنے والوں میں پندرہ سے بیس سال کے تین لڑکے تھے جبکہ ایک سینئر تھا بقایا صفائی سے لیکر کھانے پکانے کے کام مقامی تامل خواتین کرتی تھی لیکن یہ کینٹین بھی ہمارے پاکستان کی کینٹینوں کی طرح تھا- صفائی کم تھی- ہمارے کلاسز کی بعض طالبات نے اپنے سمارٹ فون سے گندگی اور بعض اوقات کھانے میں حشرات الارض کی تصاویر لی تھی جو باقاعدہ طور پر وارڈن کیساتھ شیئر بھی کی تھی لیکن "معاملہ دباؤ" والی روٹین رہی لیکن ان تصاویر کو دیکھ کر راقم سمیت کئی طلباء نے اس دن کھانا بھی نہیں کھایا-کالج ہاسٹل میں رہائش پذیر طلباء وط البات کینٹین کے کھانے کا رونا روتے کیونکہ انہو ں نے ادائیگی کی تھی بیشتر امیر خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اس لئے اپنے لئے آن لائن کھانے پینے کی اشیاء آرڈر کرتے اور انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے-

ہاسٹل انتظامیہ نے تین سے چار آوارہ کتے اور دو تین بلیاں پال رکھی تھی جو کھانے کے دوران کینٹین میں آکر کھڑے ہو جاتے ایک بلی تو بہت ہی مست تھی کھانے کیلئے بیٹھے طلباء کیساتھ جسم رگڑتی بعض لوگ تو کھانے کی اشیاء دے دیتے لیکن وہ بعض مخصوص چیزیں ہی کھاتی-ایک دن کینٹین میں کھانے کے دوران کتا بھی آکر کھڑا ہوگیاایسے وقت عجیب سا لگ رہا تھا راقم نے کینٹین والوں کو آواز دی کہ اسے ہٹاؤ عجیب سا لگ رہا ہے کہ میں کھا رہا ہو ں اور کتا کھانے کیلئے دیکھ رہا ہو-بعض طالبات کو تو چپاتیاں ہاتھ میں لیکر کتے کو دیتے - کتا چپاتی کو سونگھ کر چھوڑ دیتا یعنی اس کے معیار پر پورا نہیں اترتا طالبات وہی چپاتی لیکر کھالیتی- ہاسٹل میں مقیم ایک سکھ جو کہ بھارتی فوج کیساتھ ایک ریسرچ ونگ میں کام کرتے تھے صحافت کی تربیت کیلئے آئے تھے اس کے دادا چکوال میں قیام پاکستان سے قبل رہائش پذیر تھے وہ بلی اور کتوں سے بڑا ڈرتا - یہ الگ بات کہ اس کی ٹون کشمیر کے معاملے پر مخصوص تھی اور بعض اوقات بحث کے دوران پاک فوج پر بھی تنقید کرتا -جواب میں آگ لگانے کیلئے کبھی کبھار راقم بھی کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ہونیوالے مظالم کی بات کرتا تو پھر وہ بھی خاموش ہو جاتا- یہ واحد سکھ طالب علم تھا جو کسی حد تک پاکستان مخالف تھا کالج میں پڑھنے والے بیشتر طلباء و طالبات جو کہ بھارت کے مختلف ریاستوں سے تھے نے کبھی بھی پاکستان مخالف بات نہیں کی - ہاں کبھی کبھار اگر تنقید کا نشانہ بناتے تو پھر تنقید میں دونوں ممالک کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کو یکساں لتاڑتے-

ایک منحوس کتا جو کہ آوارہ تھا اور اسے دن بھر ہاسٹل کے گیٹ پر سونے کی عادت تھی رات کو بڑا اکڑ کر پھرتا اور غراتا -شلوار قمیض اور آسمانی کلر سے اسے چڑ تھی شلوار قمیض میں پہنتا تو بھونکتا اور آسمانی کلر سیکورٹی گارڈ کے شرٹ کا رنگ تھا جو کتے کو کبھی کبھار ڈنڈا مار دیتے اس لئے یہ کلر دیکھ کر اسے بھونکنے کی عادت تھی -رات کو اکڑ کر چلنے کی اس کی عادت کی وجہ تو ہمیں ہمارے افغانی دوست جو کہ پشاور یونیورسٹی میں جرنلزم کر چکا تھا اور کابل میں بطور لیکچرر کام کرتا تھا وہ بھی ہمارے ساتھ سکالرشپ پر چنائی آیا تھا نے بتا دی تھی جو کہ نہ بتانے اور نہ لکھنے کے قابل ہے لیکن ا نہی مخصوص حرکتوں کی وجہ سے طالبات اس کتے کو پسندکرتی تھی اور اس پر وہ اکڑتا بھی تھا-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 637 Articles with 499781 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More