متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے!

شاعر انقلاب، فیض احمد فیض کی 32 ویں برسی کے موقع پر ایک خاص تحریر

فیض احمد فیض ایک ترقی پسند انقلابی شاعر تھے 13 فروری 1911 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔سیالکوٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو ادب کے دو نام معروف عالمی شہرت یافتہ شعرا ء کا تعلق اس شہر سے ہے ۔ایک فیض احمد فیض اور دوسرے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال ، فیض احمد فیض کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے ذکر کے بناں اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے ۔دنیائے ادب کے ایک جگمگاتے ستارے ،شاعر انقلاب آٹھ کتابوں کے مصنف ،درجنوں مشہور نغمات کے خالق ،ترقی پسند کے رد کا شاعرفیض کا مختصر تعارف ہے ۔آپ کو ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف مولوی شمش الحق سے بھی ہوا جو علامہ محمد اقبال کے بھی استاد تھے ۔آپ نے عربی اور فارسی بھی سیکھی ۔بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا اور اسی کالج سے 1932 ء میں ایم اے انگلش کیا ۔اس کے بعد عربی میں ایم اے اورنیٹل کالج لاہور سے کیا ۔پی ایچ ڈی کی تیاری نہ کر سکے اسے چھوڑ دیا ۔

فیض احمد فیض کو سترہ برس کی عمر میں ایک افغانی لڑکی سے پیار ہوا جسے وہ حاصل نہ کر سکے ان کی کتاب نقش فریادی عشق میں ناکامی کی شاعر ی سے بھری پڑی ہے ۔اس عشق کی ناکامی سے دو کام ہوئے اول اردو ادب کو ایک بہت بڑا شاعر ملا اور دوم فیض کی رگ رگ میں مایوسی اتر گئی جس نے پوری زندگی ان کا پیچھا نہ چھوڑا ۔ان کو یوں تو شاعر انقلاب کہا جاتا ہے ،لیکن ان کی شاعر ی میں یاسیت زیادہ ہے، فیض کی رومانوی طبعیت کی حسن پرستی کی ،حسن کی کشش نے ان کو ایلس کیتھرین جو کہ ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل کی سالی تھیں سے ملوایا پھر اسی کے ہو گئے، اس کو دل دیا اور ان کا انجام شادی ہوا ۔ایلس کیتھرین نے اسلام قبول کیا تو اس کا اسلامی نام کلثوم رکھا گیا ۔لیکن ایلس کو یہ نام پسند نہ آیا اس لیے اس نے اپنے لیے ایلس ہی کہلانا پسند کیا اور اسی نام سے شہرت حاصل کی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کا نام کلثوم رکھا گیا تھا ۔

فیض احمد فیض فوج میں 1942 ء میں شامل ہوئے اور 1944 ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا گئے ۔فیض احمد فیض نے 1947 ء کو فوج سے استعفی دے دیا ،لاہور آئے ،فیض نے فوج کو چھوڑ کر صحافت میں قدم رکھا اور پاکستان ٹائم ،امروز،لیل ونہار میں کام کیا ۔راولپنڈی سازش کیس میں ملوث ہونے کے شبہ میں آپ کو 9 مارچ 1951 ء کو گرفتار کر لیا گیا ۔چار سال آپ نے جیل میں گزارے ۔
آپ کو 2 اپریل 1955 ء کو رہا کر دیا گیا ۔
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے

زندان نے فیض کو مشہور شاعر بنایا ۔احمد ندیم قاسمی کا ان کے بارے میں کہنا ہے کہ فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلا میں شاعری کرتے ہیں ،فیض نے تو آج کی دنیاکے جملہ سیاسی ،سماجی،اقتصادی،معاملات کو سامنے رکھ کر شاعری کی ہے ۔ان کی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں ۔نقش فریادی ،سر وادی سینا ،دست صبا ،شام شہر یاراں ،مرے دل مرے مسافر،نسخہ ہائے وفا(کلیات)،زنداں نامہ ،دست تہ سنگ۔ زنداں نامہ کی بہت سی غزلیں اسی دور کی یاد گار ہیں ۔فیض کی شاعری کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوئے ،سب سے زیادہ روس میں آپ کی شاعر ی کو سراہا گیا ۔
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی ،وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
کہیں تو ہو گا شب مست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل

غم دنیا کے شاعر نے فرسودہ روایات سے انحراف کیا ،بغاوت کی ،اور شاعر انقلاب کہلائے ۔فیض کی شاعری ان کے بارے میں ہے ،جو کامیابی کے لیے پوری زندگی گزار دیتے ہیں ،لیکن کامیابی کہیں نظر نہیں آتی ،ایسے لوگ ایک پل کے سکون کے لیے پوری عمر بے سکونی میں گزار دیتے ہیں ،سسک سسک کر جینا جن کا مقدر ہوتا ہے ،مزدور،ریڑھی والے ،دیہاڑی دار افراد کے بارے میں انہوں نے بہت غزلیں لکھیں ۔ایسے ہی موقع پرکہی گئی ایک اور غزل کے شعر دیکھیں ،اور اس میں عوام کے دکھوں کو کیسے بیاں کیا گیا ہے ۔اور سب اچھا کہنے والوں کی بابت کتنے کرب کا اظہار ہے ۔
آگئی فصل سکوں چاک گریبان والوں
سل گئے ہونٹ ،کوئی زخم سلے نہ سلے
دوستو بزم سجا ؤ کہ بہار آئی ہے
کھل گئے زخم ،کوئی پھول کھلے نہ کھلے

فیض کو چار بار نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا ۔لینن پیس پرائز 1962 ء کو حاصل کیا ۔فیض احمد فیض نے نشان امتیاز ،نگار ر ایوارڈ ،بھی حاصل کیا ۔فیض کی مجموعی شاعری سیاسست کا رنگ لیے ہوئے ہے ۔کہیں کہیں عشق ومحبت جھلکتا ہے ۔ان کی شاعری میں انسانیت سے محبت ،دوسروں کا درد ،زندگی کی بنیادی ضروریات ،غربت ،محرومی ،ان کو بے چین رکھتی تھی ان کے یہ اشعار دیکھیں کس کرب سے کہے گئے ہوں گے ۔
عاجزی سیکھی ،غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس وحرماں کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھا ،سیکھا
سرد آہوں کے ،رخ زرد کے ،معنی سیکھے

فیض احمد فیض کے دل میں 20 نومبر1984 ء کو تکلیف ہوئی جو بڑھتی ہی گئی ،شدید تکلیف کی وجہ سے ان کو میو اسپتال داخل کروایا گیا جہاں پر ان کا انتقال ہو گیا ۔ ماڈل ٹاؤن لاہورکے قبرستان میں سپر خاک کر دیا گیا ۔

فیض فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام لاہورآرٹس کونسل کے تعاون سے تین روزہ فیض انٹرنیشنل فیسٹیول 18 نومبرسے الحمراآ رٹ سنٹرمیں شروع ہوگیاہے جس میں ادبی،ثقافتی اورسیاسی نشستوں کااہتمام کیا گیا ہے - فیض انٹرنیشنل فیسٹیول 18نومبر سے الحمرا لاہور میں شروع ہوگا جو تین دن جاری رہے تاہم اس بار کشیدگی کے باعث فیسٹیول میں بھارت سے کوئی فنکار شرکت نہیں کرے گا۔تین روز جاری رہنے والے اس فیسٹیول میں مختلف موضوعات پر مباحثے،ڈرامے اور شوپیش کئے جائیں گے۔ جن میں ملک کے نامور فنکار شرکت کریں گے۔فیض احمد فیض کی پیدائش 14 فروری 1911ء اور وفات 20 نومبر 1984ء میں ہوئی۔ فیض امن میلہ عام طور پر فروری میں انکی پیدائش کے مہینے ہوتا رہا ہے۔ مگر اس سال ان کے یوم وفات کے موقع پر ’’فیض انٹرنیشنل فیسٹیول‘‘ کا انعقاد کیا گیاہے۔ روایت سے انحراف کی سمجھ نہ آئی اس لیے کہ فیض صاحب کی فیملی کا موقف ہے کہ فیض اپنی شاعری اور افکار کے حوالے سے زندہ ہے۔
ان کی برسی کے موقع پر( سالگرہ )جشن کیا جاتا ہے۔ Festivalکے معنی جشن کے ہیں۔ یوم وفات کے موقع پر جشن کیوں؟ ۔ میرے خیال میں انتقال کے وقت فیض شہرت کی بلندیوں پر تھے۔ پوری دنیا میں اور خود ان کے اپنے وطن پاکستان میں وہ کون سی عزت تھی جو انہیں ملی نہیں تھی۔ 2011ء فیض کی صد سالہ سالگرہ کا سال تھا۔ بیسویں صدی فیض صدی تھی اور اکیسویں صدی بھی فیض صدی قرار پائی۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578824 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More