خواجہ بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل: ایک مطالعہ

اردو کی ابتدائی تاریخ کے طالبِ علم کے لیے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز ایک طلسمی شخصیت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کے نام سے منسوب ’’معراج العاشقین‘‘ اور دیگر رسائل کے عدم اور وجود کے سوالات اچھی خاصی پیچیدگی اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک حلقہ خواجہ بندہ نواز کو اردو زبان کا مصنّف مانتا ہے اور اس کے سبب اردو کی ادبی تاریخ کے طول میں اضافہ تسلیم کرتا ہے لیکن اسی کے ساتھ محقّقین کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو صاف صاف یہ بات کہتا ہے کہ خواجہ بندہ نواز نے اردو میں کوئی تصنیف نہیں پیش کی اور ان کے نام سے منسوب رسائل کی حیثیت مشکوک ہے ۔ ایسے افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ سب بعد کے لوگوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دکنی متون پر گہرائی سے چھان بین کرنے والے محقّقین کی کسی زمانے میں بڑی تعداد نہ رہی۔ شمالی ہندستان کے اکثر و بیش تر مرتّبین یا قدیم محقّقین نے ’’معراج العاشقین‘‘ کا گہرا لسانیاتی مطالعہ نہیں کیا۔ جن افراد نے ’’معراج العاشقین‘‘ یا دوسرے رسائل کی تدوین کی ذمّہ داری اٹھائی، انھوں نے بھی کتاب کے ایک ایک لفظ کو بہ غور مطالعے کا حصّہ کم بنایا جس کی وجہ سے ’’معراج العاشقین‘‘ یا خواجہ بندہ نواز ایک نہ سلجھنے والی گتّھی کے طور پر اردو کی ادبی تاریخ کا حصّہ بنے رہے۔ بعض محقّقین نے دوسروں کے نتائج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مکّھی پر مکّھی بٹھانا ہی اپنا فریضہ سمجھا۔
یہ عجب اتّفاق ہے کہ دکنی متون کی تدوین اور تحقیق کے جدید اصولوں کے مطابق ان کی پیش کش کا کام زیادہ توجّہ کے ساتھ ابھی تک نہ کیا جاسکا۔ ابتدائی زمانے میں ایسے افراد نے ان کاموں کی ذمّہ داری اٹھائی جو حقیقی طور پر محقّق نہیں تھے جس کے سبب مستند اور غیر مستند نسخوں کی تمیز جاتی رہی۔ نصیرالدین ہاشمی، مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور اور سیّدہ جعفر کے تمام کاموں کا تحقیق کے اعلا اصولوں کے مطابق جائزہ لیا جائے تو انھیں مثالی نمونوں میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔ سب نے سُنی سنائی باتوں اور قصّے کہانیوں کو اپنی علمی نیکی کا حصّہ بننے دیا۔ اکثر مرتّبین کا مطمحِ نظر یہ رہا کہ ان کی تدوین میں کچھ اشعار یا نثری نوشتے دوسروں سے بڑھ جائیں یا فہرستِ تصانیف میں ہی اضافہ ہوجائے۔ اس مرحلے میں مستند اور غیر مستند کے بیچ جس قدر چھان بین کرنا چاہیے تھا، وہ کام سرے سے ہوا ہی نہیں۔ کوئی مخطوطہ حاصل ہوجائے، اس کے اندراجات انکشاف کا درجہ رکھتے رہے اور ان کی بنیاد پر دکن کی ادبی تاریخ نویسی میں ایک نئے باب کا اضافہ تسلیم کیے جانے کا چلن عام رہا ہے۔ تحقیقی اعتبار سے ان نمونوں کی جانچ، عہدِ تصنیف اور عہدِ کتابت کا تعیّن کرنا اور پھر زبان اور نفسِ مضمون کے مطابق محقّقانہ انداز میں تمام امور کا بالاستیعاب مطالعہ و محاسبہ کرکے کسی منطقی انجام تک پہنچنے کی کوشش دکنی کاموں میں دکھائی نہیں دیتی ۔
دکنی ادب بالخصوص دکنی متون پر تحقیقی کام کی کچھ واضح پیچیدگیاں ہیں۔ چند افراد کو چھوڑ کر ایسے نقّاد اور محقّق ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جانے لائق ہیں جن کا تعلّق اگرچہ دکن سے نہیں ہے لیکن وہ دکنی ادب کی تنقید و تحقیق کے شغل میں مبتلا ہیں۔ نذیر احمد اور مسعود حسین خاں کے علاوہ شمالی ہندستان سے شاید ہی کوئی ایسا محقّق سامنے آیا ہو جس نے مستقل طور پر دکنی متون کی طرف عالمانہ توجّہ کی۔ اس موقعے سے ان ہوس کارانہ کاموں کا تذکرہ لازم نہیں جنھیں غیر ضروری طور پر بعض افرادنے انجام دیے اور اپنی تصنیفات کی فہرست کو طول دینا حقیقی مقصد سمجھا۔ حلقۂ دکن سے باہر کے افراد کے لیے یہ بڑا مسئلہ ہے کہ زبان اور لہجے کے معاملے میں ان کی ٹھوس گرفت شاید ہی ہو اور مخطوطات یا مطبوعات کے تطابق میں وہ اپنی علمی الجھنوں کو ہمیشہ آسانی سے نہیں سلجھا سکتے۔ اس لیے اکثر یہ اپنے آپ لازم ہوجاتا ہے کہ دکنی ادب پر کام کرنے والے افراد کا تعلّق حلقۂ دکن سے ہو تو علمی طور پر صحیح نتائج سامنے آئیں گے۔ پچھلی نصف صدی میں دکنی ادب کی کئی لغات سامنے آئیں۔ان میں مختصر اورطویل دونوں ہیں لیکن وہاں بھی عجلت میں ایسی کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں جن کی اصلاح لازم ہے۔ ایسے میں انھی لغات پر انحصار کرکے شاید ہی کوئی بھرپور کام کیا جاسکے۔
پروفیسر م۔ن۔سعید کی کتاب ’’خواجہ بندہ نواز سے منسوب دکنی رسائل‘‘ کو ایک نظر دیکھنے سے ایسا محسوس ہوا کہ یہ آئے دن شائع ہونے والی کتابوں سے قدرے مختلف ہے۔ م۔ن۔سعید نے درس و تدریس میں عمر کھپائی لیکن یہ سچّائی ہے کہ ان کا قابلِ ذکر نقّادوں اور محقّقین میں شاید ہی شمار ہوتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مصنّف کی حیثیت سے وہ زیادہ سے زیادہ علاقائی شناخت کے ہی حامل ہیں۔ ان کے مضامین کبھی کسی رسالے میں نظر آجائیں تو یہی بہت ہے۔ اپنے تدریسی تجربے کے مقابلے انھوں نے تصنیف و تالیف کے کام کو شاید زیادہ توجّہ نہ دی لیکن جب خواجہ بندہ نواز سے متعلّق ان کی یہ کتاب نظر میں آتی ہے تو حیرت کی انتہا نہیں ہوتی۔معیاری تحقیق کا اس کتاب کو نمونہ کہنے میں مجھے کوئی گریز نہیں۔ پورے دکنی ادب کے سلسلے سے تحقیق و تنقید کی جو کتابیں اب تک منظرِ عام پر آئی ہیں، ان میں شاید ہی کوئی دوسری کتاب معیار کے اعتبار سے اس درجے کو پہنچتی ہو۔ آج اگر کلیم الدین احمد یا قاضی عبدالودو زندہ ہوتے تو یقینی طور پر م۔ن۔سعید کو اپنے موضوع پر معیاری اور مثالی کام کرنے کے لیے داد دیتے۔
م۔ن۔سعید نے اپنی تحقیقی کتاب میں ڈیڑھ صفحے کا مختصر سا پیشِ لفظ لکھا۔ اپنے کام اور اپنی مشقّت کے بارے میں بھی کوئی بڑا دعوا نہیں کیا۔ مصنّف نے بتایا ہے کہ خواجہ بندہ نواز کے سلسلے سے انھوں نے اپنی تحقیق ۱۹۶۸ء میں شروع کی۔ اس موضوع پر ان کا پہلا مضمون ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا۔[ماہنامہ سب رس، حیدرآباد:مئی ۱۹۷۰ء ] ۱۹۸۲ء میں انھوں نے اپنے طور پر اس تحقیق کو تکمیل تک پہنچایا۔ کتاب کی اشاعت ۲۰۱۳ء میں انجام کو پہنچی۔ ان تین دہائیوں میں م ۔ ن۔سعید نے اپنے اس کام کو بھلایا نہیں، نظرِ ثانی اور اضافے کا سلسلہ تواتر کے ساتھ چلتا رہا۔ کتاب کے بالاستیعاب مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس Updating میں اپنی ایک ایک اطلاع کو نئے طور پر چانچنے پرکھنے کی انھیں ضرورت پڑی۔ خانقاہوں اور دیگر کتب خانوں میں محفوظ آثار پر گفتگو کرتے ہوئے اس دوران کیا سامان تلف ہوا اور کون سے شواہد وقت کا شکار ہوگئے، ان اضافوں نے بار بار مصنّف کی کتنی جان کھائی ہوگی، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے پُرانے محقّقین کے بارے میں تو یہ اطلاع ملتی ہے کہ کسی موضوع یا کسی کتاب پر برسوں اور دہائیوں تک کام کرتے رہے۔ قاضی عبدالودود اور رشید حسن خاں اس سلسلے سے بہ طورِ مثال یاد کیے جاسکتے ہیں۔ ۱۹۶۸ء سے ۲۰۱۳ء کا درمیانی وقفہ کوئی پینتالیس سال کا ہوتا ہے۔ آج کی محقّقانہ روش سے اس کا موازنہ فضول ہے لیکن بڑے معتبر اصحابِ قلم بھی اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی موضوع یا کسی کتاب کے سلسلے سے انھوں نے دس اور بیس برس پہلے کیا لکھا تھا۔ م۔ن۔سعید قابلِ مبارک باد ہیں کہ انھیں اپنے تحقیقی موضوع کو پینتالیس برس اپنے کلیجے میں اور کچّے قلم کی لکھاوٹ میں محفوظ رکھنا پڑا۔ ایسے اہلِ علم اب خال خال نظر آتے ہیں۔ گوشے میں بیٹھ کر بڑے علمی کاموں کو انجام دینے کے لیے جس فقیرانہ بے نیازی، محقّقانہ مشقّت اور علمی انہماک کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس سے پورے طور پر لیس ہیں۔
انکسارِ علمی ایک گم شدہ صفت ہوگئی ہے۔ اکثر نقّاد اور محقّقین جذبۂ افتخار میں اس قدر سرشار ہوتے ہیں کہ ان کی تحریروں میں دوسرے لکھنے والوں کی اہمیت اور عظمت کے بارے میں منفی رُخ مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی تحریر حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے لیکن م۔ن۔سعید نے اپنے پیش رو محقّقین کے بارے میں جس وقار اور تعظیم کے ساتھ اپنا علمی موقف ظاہر کیا ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پروفیسر سعید نے بزرگوں کی آنکھیں دیکھی ہیں اور وہ ان کی جوتیاں سیدھی کرکے اس مقام تک پہنچے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اس موقعے پر پورے ادب کے ساتھ یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تحقیق کے دوران حقائق کی بازیافت اور ان کے اثبات کی کوشش میں اکثر مقامات پر دکنی کے لائقِ صد احترام پیش رو محقّقین کے نتائجِ تحقیق یا ان کے طریقۂ کار سے اتّفاق کرنا ممکن نہیں ہوسکا۔ مجھے اس تکلیف دہ مجبوری کا احساس ہے کہ کہاں وہ تحقیق کے آفتاب و ماہتاب اور کہاں میں ذرّۂ بے مقدار۔ میرے تحقیقی موقف اور پیش رو محقّقین کے موقف کو علمی اختلاف کا نام دینا بھی دائرۂ ادب سے باہر ہوگا بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ میرا کام دراصل انھیں بزرگوں کی فراہم کی ہوئی گراں قدر بنیادی معلومات کی توسیع ہے۔ میرے پیش رو محقّقین کی بے مثل علمی و تحقیقی خدمات کی قدر و قیمت ، نئے انکشافات و تعبیرات کے باوجود قائم و دائم ہے اور مجھے یقین ہے کہ معلوماتِ نو کا آفتاب ان کے کارناموں کے ماہتاب کو بھی گہنا نہیں سکے گا۔‘‘ (ص:۱۲)
اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے نام سے منسوب رسائل میں ’’معراج العاشقین‘‘ کی کلیدی حیثیت ہے۔ اس لیے م۔ن۔سعید نے اپنے مطالعے میں ’’معراج العاشقین‘‘ پر سب سے زیادہ توجّہ کی ہے۔اسی کے ساتھ’ تلاوت الوجود‘، ’درالاسرار‘ اور ’شکارنامہ‘ کے خصوصی مطالعے کے پہلو بہ پہلو بندہ نواز سے منسوب نودیگر رسائل کا بھی اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیاہے۔ تمام رسائل کی زبان کا باریکی سے مطالعہ کرتے ہوئے ان امور پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان رسائل کے بندہ نواز سے انتساب کے اسباب و علل کیا ہیں۔ پہلے باب میں بندہ نواز کی مختصر سوانح عمری اور ان کی عربی، فارسی اور دکنی تصنیفات کا تعارف کرایا گیا ہے۔ دکنی تصانیف پر گفتگو کرتے ہوئے گریز کے طور پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ خواجہ بندہ نواز نے دکنی اردو میں کوئی تصنیف نہیں پیش کی اور ان کے حلقۂ ارادت کے افراد نے غلط طور پر مصنّف کی حیثیت سے ان رسائل پر خواجہ بندہ نواز کے نام شامل کردیے۔ تیسرے باب میں مصنّف نے ’معراج العاشقین‘ اور خواجہ بندہ نواز کے سلسلے سے اردو میں ہوئی تحقیق کا ایک اجمالی جائزہ لیتے ہوئے ’معراج العاشقین‘ کی تنقید و تحقیق کا پورا پس منظر واضح کردیا ہے۔ ’معراج العاشقین‘ کے سلسلے سے اردو کے محقّقین نے کون سی چیز تلاش کی اور اس مرحلے میں کہاں کس انداز کی علمی کوتاہی ہوئی جس کے سبب اس کتاب کے بارے میں حتمی گفتگو نہیں کی جاسکتی، ان امور کا اختصار کے ساتھ جائزہ لیا گیا ہے۔
اس کتاب کا پہلا باب خواجہ بندہ نوازکی مختصر سونح حیات کے لیے وقف ہے ۔ یہ موضوع یو ں تو مواد کی دستیابی کے اعتبار سے مشکل نہیں اور طول طویل گفتگو ممکن ہے لیکن سعید صاحب نے ممکن حد تک اختصار کو راہ دیتے ہوئے ضروری مآخذات کی بنیادوں پر حیات کاایک مختصر تذکرہ شامل کیا ۔ اس خاندان اور سلسلۂ تصوّف کو اس اعتبار سے مصنّف نے اہمیت دی ہے کیوں کہ یہاں صاحبِ تصنیف بزرگوں کی ایک کہکشاں قائم ہے جہاں سینکڑوں برس عربی ، فارسی اور اردو زبان میں ان کے علمی و ادبی کام سامنے آتے رہے۔ خواجہ بندہ نواز کے خلیفہ حضرت جمال الدین مغربی اور ان کے خلیفہ حضرت کمال الدین بیابانی کے حلقے سے شمس العشاق شاہ میراں جی ، برہان الدین جانم اور امین الدین اعلاکا مصنّف نے خصوصی ذکر کر تے ہو ئے بجا طور پر یہ بات لکھی ہے: ’’ یہ شجر اس قدرتناور ہو گیا کہ اس کے برگ و بار سے تصانیف کا انبار سا لگ گیا ‘‘۔ مصنّف نے ایک اوربات واضح کرنے کی کو شش کی ہے کہ خواجہ بندہ نواز کے سلسلۂ خلفا کے رسائل میں جو موضوعات زیرِ بحث رہے ہیں، وہ حقیقت میں خواجہ بندہ نواز کے ’نظام ِ تصوّف‘ کی ’تشریح و تعبیر‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ بات م۔ن۔سعید نے آغاز میں ہی اس لیے درج کر دی کیوں کہ بندہ نواز سے منسوب رسائل کے سلسلے سے انھیں آگے اسی تناظر میں بہ تفصیل گفتگو کرنی ہے۔
م۔ن۔سعید کے پیش کردہ سوانح حیات کے مطابق خواجہ بندہ نوازکا نام سید محمد ہے لیکن مصنّف نے بندہ نوازکے القاب پر زیادہ توجّہ دے کر بہت سارے حقائق کی جانب ہمارا دھیان کھینچا ہے ۔ مصنّف کا اس سلسلے سے ذیل کا تجزیہ بہت مناسب ہے:
’’آپ کی شہرت تمام تر دوسرے القاب سے وابستہ ہے۔ آپ کے مشہور القاب آپ کے مرشد محترم حضرت نـصیرالدین چراغ دہلوی ؒ کے علاوہ آپ کے مریدوں اور آپ کے عقیدت مندوں کے دیے ہوئے ہیں ۔ ہر لقب سے آپ کی بزرگی اورمریدوں کی آپ سے عقیدت مندی اور محبت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان میں سے بہت زیادہ معروف دو لقب گیسو دراز ؒ اور بندہ نوازؒ ہیں جو بالتر تیب آپ کے مرشدِ محترم حضرت نصیر الدین چراغ ؒ دہلوی اور آپ کے عقیدت مندوں کے دیے ہوے ہیں ۔‘‘ (ص: ۱۶)
مصنّف نے گیسو دراز ، صدرِدین، ابو الفتح، محمد، بندگیِ مخدوم اور بندہ نواز کے علاوہ ان درجنوں القابات کی تفصیل بھی پیش کی ہے جن سے خواجہ بندہ نواز سے عقیدت رکھنے والوں کے بیچ ان کی خاص شناخت ہے۔ گیسو دراز لقب ان کے مرشد چراغ دہلوی کا عطا کردہ ہے ۔ اس سلسلے سے متعدّد صوفیانہ کتب میں جو روایتیں ملتی ہیں ،مصنّف نے انھیں پیش کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ گیسو دراز ان کے مرشد کا عطا کردہ لقب ہے۔ دورانِ تذکرہ یہ دل چسپ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ سب سے مشہور لقب ’بندہ نواز‘ عوامی ہے اور جمہوریت کے عہد میں یہ بات سنتے ہوئے ہمیں خو ش گوار معلوم ہوتا ہے کہ ایک صوفی کا وہی نام اور لقب سب سے زیادہ مشہور ہوا جو اس کے عام چاہنے والوں نے اسے دیے۔ اس سلسلے سے مصنّف نے چندجملے اس طور پر لکھے ہیں جن کا مطالعہ لطف سے خالی نہ ہو نا چاہیے، ملاحظہ ہو :
’’بندہ نواز‘‘ حضرت کے معتقد ین کا دیا ہوا لقب ہے۔ دکن میں آپ کو احترام اور عقیدت کے ساتھ ’’حضرت بندے نواز ؒ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کا یہ عوامی لقب ’’گیسودراز ‘‘ سے بھی زیادہ مشہور ہے بلکہ عوام میں حضرت ؒ کی وفات کا مہینہ ذی قعدہ ’’بندے نواز‘‘ سے موسوم ہو گیا ہے۔‘‘ (ص:۱۹ )
حسب نسب اور آبا واجداد کی تفصیل پیش کرتے ہوئے مصنّف نے یہ واضح کر دیا ہے کہ محمد بن تغلق کے قافلے کے ساتھ خواجہ بندہ نواز اپنے والد، بڑے بھائی اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ دولت آباد پہنچے ۔ اس وقت حضرت خواجہ کی عمر چار برس تھی ۔ دکن ہجرت کے چند برسوں کے بعد خواجہ بندہ نواز کے والد کا انتقال ہو ا ۔ گیارہ برس کی عمر میں والد کے انتقال کے تیسرے ہی سال اپنی والدہ کے ساتھ خواجہ بندہ نوا ز دہلی واپس آگئے۔ دہلی میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی سے خواجہ بندہ نواز او ران کے بڑے بھائی بیعت ہو ئے ۔ بندہ نواز کی عمر جب چھتیس برس کی تھی تو اسی وقت شیخ کی طرف سے انھیں خلافت حاصل ہو ئی ۔ خواجہ بندہ نواز دہلی میں چوّالیس برس تک اس خلافت کو سر فراز کرتے رہے ۔ اس کے بعد ۸۰۱ ھ میں دکن کی طرف انھوں نے پھر کوچ کیا اور گلبر گہ پہنچے ۔ اس وقت فیروز شاہ بہمن حکمراں تھا۔اس نے خواجہ بندہ نواز سے گلبر گہ ہی میں مستقل قیام کی گزارش کی جہاں چوبیس برس تک خدمتِ خلق انجام دیتے ہوئے وہ فوت ہوئے ۔ آج گلبرگہ شہر کو بندہ نواز کا شہر( The City of Bandanawaz )کہا جاتاہے ۔ خواجہ بندہ نواز کی اولاد کی تفصیل بتاتے ہو ئے جناب سعید نے واضح کیا ہے کہ بڑے صاحب زادے خواجہ کی زندگی ہی میں فوت ہو چکے تھے ۔ خواجہ کی وفات کے بعد دوسرے صاحب زادے سید اصغرحسینی کو جا نشینی حاصل ہو ئی ۔
اس کتا ب کے دوسرے باب میں خواجہ بندہ نوا ز کی تصانیف کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ محض دس صفحات میں یہ باب مکمّل ہوا ہے جس میں خواجہ بندہ نواز کی عربی، فارسی اور اردو کی تصانیف کے بارے میں اطّلاع دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مصنّف نے یہ اچھا کیا کہ اُن اسباب پر گفتگو کرنے کی ضرورت محسوس کی جن کے سبب صوفیاے کرام نے اپنی تعلیمات کے لیے تصنیف و تالیف کو اوزار بنایا ۔ ’جوامع الکلم ‘ کے حوالے سے مصنّف نے خواجہ بندہ نواز کے اقوال پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ بندہ نواز کو اس بات کاشدید احساس تھا کہ عوامی سطح پر زبانی روایات میں تحریف کا سلسلہ بے ارادہ بھی جاری رہتا ہے جس کی وجہ سے کو ئی بڑا دینی مسئلہ کبھی بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس لیے تحریرو تسوید ہی موزوں ذریعہ ہے جس کے سبب خواجہ بندہ نواز کا نظامِ تصوف ان رسائل میں محفوظ صورت میں قوم کے لیے باعثِ توجّہ ہوا ۔ عربی، فارسی تصانیف جن کے بارے میں محقّقین یک راے ہیں کہ وہ خواجہ بندہ نواز کی مصدّقہ تصانیف ہیں، ان کی وجہ سے اردو کی ادبی تاریخ اور تحقیق کا بھی کچھ کم فائدہ نہ ہوا ۔ مصنّف نے فارسی اور عربی تصنیفات میں محفوظ تعلیمات کو ہی وہ کسوٹی مانا ہے جن سے مغائرت کی صورت میں اردو کے منسوب رسائل باطل تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ عربی اور فارسی تصانیف کے ساتھ دکنی رسائل کا ذکرکرتے ہوئے مصنّف نے اپنے شبہات واضح کر دیے ہیں کہ خواجہ بندہ نواز کے نام سے پیش کردہ اردو یا دکنی تصانیف مستند نہیں مانی جا سکتیں۔
خواجہ بندہ نوا ز گیسو دراز سے منسوب دکنی رسائل کا تعارف کراتے ہوئے ہی جناب سعید نے سلسلے وار طریقے سے ان کے حقیقی اور الحاقی ہونے کی بحث کے دوران درج ذیل معروضات پیش کی ہیں:
(i)’’ حضرت خواجہ کے معاصر تذکروں میں ان[ خواجہ بندہ نواز کے نام سے منسوب] رسالوں کاکوئی ذکر نہیں ملتا ۔‘‘
(ii)’’ان کے نام حضرت محمد علی سامانی یا حضرت عبد العزیز کے سوانح میں شامل نہیں ہیں ۔ ‘‘
(iii) ’’ حضرت خواجہ کے فرزند حضرت سید اکبر حسینی ․․․․․․․․․کہیں یہ ذکر نہیں کرتے کہ حضرت خواجہ نے تصنیف تو تصنیف ،اردو یا ہندی میں کبھی اپنے مریدوں سے خطاب کیا ہو۔‘‘
(iv ) ’’ تبصر ۃ الخوارقات ‘ ․․․․․․․ کے مصنّف ․․․․․․ تصانیف کے تعلّق سے وہ صرف عربی اور فارسی کا ذکر کرتے ہیں،ہندی کا نہیں ۔ ‘‘
انھی بنیادی نکات پر م۔ ن۔ سعید نے خواجہ بندہ نواز کے اردو رسائل کے استناد کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان بنیادوں پر جو جرح ہوگی، اس کا نتیجہ ہمیں معلوم ہے ۔ عوامی روایات ،کتب خانوں میں ہر جگہ موجود بندہ نواز کے نا م سے محفوظ رسائل اور متعدّد محقّقین کے اقرار کے باوجود پروفیسر م۔ ن ۔ سعید اپنے شبہات پُر اعتماد انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنا عِندیہ ظاہر کر دیتے ہیں کہ وہ محقّقین کے اس قبیلے سے تعلّق رکھتے ہیں جو خواجہ بندہ نواز کی اردو تصانیف کو ان کے قلم سے بر آمد شدہ تسلیم نہیں کرتے۔
پروفیسر م۔ ن۔ سعید کی کتاب کا تیسرا باب اس اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ’معراج العاشقین ‘ یا خواجہ بندہ نواز گیسودراز سے متعلّق اردو کے جن محقّقین نے دادِ تحقیق دی ہے ، ان کا تعارف اوران کی حدود کاتعیّن کیاگیا ہے ۔ اس سلسلے سے مولوی عبد الحق، شمس اﷲ قادری ، مسعود حسین خاں ، خلیق انجم ، گوپی چند نارنگ ، تحسین سروری ، نصیر الدین ہاشمی ، عبد القادر سروری ، رفیعہ سلطانہ، ثمینہ شوکت ، مبارزالدین رفعت ، نذیراحمد ، محی الدین قادری زور ، اکبر الدین صدیقی ، دیوی سنگھ چوہان ، حفیظ قتیل، حسینی شاہد اور خود اپنے ایک مضمون کا مصنّف نے ذکر کیا ہے ۔ مذکورہ اشخاص کی کتابوں کے حوالہ جات پیش کر کے خواجہ بندہ نواز کے مصنّفِ اردو ہو نے کے عدم اور وجود کی کڑیوں کو بڑے سلیقے سے جوڑا گیا ہے ۔ چند صفحا ت کی اس کوشش میں ہمیں یہ معلوم ہو جا تا ہے کہ کس طرح ۱۹۲۴؁ء میں باباے اردو مولوی عبد الحق کی ترتیب کے بعد معراج العاشقین کی اشاعت سے خواجہ بندہ نواز کی اردو تصنیف اور اردوکی ادبی تاریخ کی قدیم ترین نثری روایت کا اعلان ہوا ۔ دیکھتے دیکھتے متعدّد اصحا ب نے اس دستاویز کو اپنی تدوینِ نو کے ساتھ شایع کیا ۔ ادبی تاریخ کی کتابوں میں ’معراج العاشقین‘ ، یا خواجہ بندہ نواز کا با اعتبار داخلہ ہوا ، ایک عرصے کے بعد بعض محقّقین نے ’معراج العاشقین‘ کے انتساب پر شبہات کا اظہار کرنا شروع کیا ۔ اس ضمن میں بندہ نواز کے دوسرے رسائل پر بھی شبہات قائم ہو نے لگے ۔ نذیر احمد ، محی الدین قادری زور ، اکبر الدین صدیقی ، دیوی سنگھ چوہان سے گزرتے ہوئے یہ موضوع پہلی بار مختصر لیکن مستقل تصنیف کے طور پر حفیظ قتیل کی تحریر ’’ معراج العاشقین کا مصنّف‘‘ میں سامنے آئی ۔ اب بھی ’معرا ج العاشقین ‘ کے لیے ۱۹۶۸؁ء میں شائع ہو ئی اس کتا ب سے بڑ ھ کر کوئی دوسری مستقل تحریر م۔ ن۔ سعید کی اس کتا ب سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی ۔ حالاں کہ پروفیسر سعید نے اپنی اس کتاب میں حفیظ قتیل کے سلسلے سے جو علمی انکشاف کیا ہے، وہ بعض حلقوں میں آدابِ تنقید و تحقیق کے ایک بڑے مسئلے کے طور پر بھی قابلِ توجّہ سمجھا جا ئے ۔ پہلے م۔ن۔ سعید کا اقتباس بلاتبصرہ ملاحظہ ہو:
’’لیکن ’معراج العاشقین‘ہی نہیں، حضرت خواجہ ؒسے منسوب رسالوں کے انتساب کی جانچ کی سب سے کھری کسوٹی ڈاکٹر حسینی شاہد نے اپنے معرکہ آرا کا م ’’سید شاہ امین الدین علی اعلیٰ : حیات اور کارنامے ‘‘ میں پیش کی ہے ۔ یعنی خانوادۂ امینیہ کے تصوّف کا ایسا عمیق او روسیع مطالعہ پیش کیا ہے جس پر دکنی تصوّف کے کسی بھی رسالے کو آزما کر اس کے انتساب یا زمانے کا تعیّن کیا جا سکتاہے ۔ حق یہ ہے کہ حضرت خواجہؒ سے ’’ معرا ج العاشقین ‘‘ کے غلط انتساب کی دریافت ڈاکٹر حسینی شاہد نے اپنے مقالے کے لیے تحقیق کے دوران ’’ضمنی پیداوار‘‘ کے طو ر پر کی اور ان کے تحقیقی مقالے کے نگراں ڈاکٹر حفیظ قتیل نے اسے وضاحت کے ساتھ پیش کیا ۔ ‘‘(ص:۶۰ )
م۔ن۔سعید کی اس کتاب میں شامل بابِ چہارم کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ تقریباً ۱۱۶؍صفحات میں مصنّف نے ’معراج العاشقین‘ کا جائزہ لیا ہے۔ ۲۲؍ذیلی عنوانات قائم کرکے اس موضوع کی ممکنہ حدود کا نہ صرف یہ کہ تعین کیا گیا ہے بلکہ کوشش یہ کی گئی ہے کہ اس موضوع پر تحقیقی اعتبار سے کوئی حتمی گفتگو کی جاسکے۔ مصنّف نے چوں کہ نئے سرے سے ’معراج العاشقین‘ کے مندرجات اور تحقیقی احوال کا جائزہ لینا طے کیا تھا، اس لیے اس باب میں ان کی مشقّت اور براہِ راست چیزوں کی تلاش و جستجو اور پھر ان کی بنیاد پر علمی نتائج اخذ کرنے کا ہنر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی طولِ کلام کو راہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور خالص تحقیقی و تکنیکی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔
مصنّف نے واضح کیاہے کہ مختلف کتب خانوں میں انھوں نے ’معراج العاشقین‘ کے بارہ نسخے ملاحظہ کیے۔ ان نسخوں کی تفصیل سے جو حقیقت سامنے آتی ہے، وہ کم حیران کُن نہیں ہے۔ بعض نسخے اٹھارہ صفحات پر مشتمل ہیں تو سب سے زیادہ ضخیم نسخہ ۱۴۶؍صفحات پر حاوی ہے۔ ان نسخوں میں نام بھی الگ الگ ہیں: تلاوت المعراج، تلاوت الوجود و حقیقت المعراج اور رسالۂ پانچ تن۔ مصنّف نے اولاً یہ سوال قائم کیا ہے کہ اس قدر فرق ہونے کے سبب ان رسائل کو الگ الگ رسالے کے طور پر کیوں نہ قابلِ غور سمجھا جائے اور کیا یہ لازم ہے کہ ان تمام رسائل کا ایک ہی نام ’’معراج العاشقین‘‘ کے تحت جائزہ لیا جائے؟ لیکن بحث کے دوران مصنّف کی وضاحت یہ ہے کہ داخلی شہادتوں کی بنیاد پر یہ تمام نسخے ایک ہی رسالے کی تلخیص یا تشریح ہیں اور انھیں علاحدہ طور پر سمجھنا مناسب نہیں۔
مصنّف نے ’معراج العاشقین‘ کے حاصل شدہ نسخوں کو تین حصّوں میں تقسیم کیا ہے: مکمّل نسخے، نامکمّل نسخے اور ملخّص نسخے۔ مصنّف نے ضخیم نسخوں کا تعارف کراتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ ان میں ۱۳؍ابواب اور تمہید کے چند جملے موجود ہیں۔ انھوں نے ایسے ۷؍ضخیم نسخے ملاحظہ کیے۔ نامکمل اور ملخّص نسخوں کے بارے میں مصنّف کا بیان یہ ہے کہ جن اصحاب نے اس رسالے کی تلخیص تیار کی، انھوں نے تحقیقی اور علمی آداب کا خیال نہیں رکھا۔ اصل نسخوں کے ساتھ اس انداز سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے کہ اب یہ بے اعتباری کا درجہ لے لیتے ہیں۔ ان نسخوں کی حقیقی صورتِ حال کیا ہے، اس کے بارے میں مصنّف کے مشاہدات کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں:
’’کم ضخامت والے نسخوں میں عبارت کا وہی تسلسل نہیں ملتا جو زیادہ ضخامت والے نسخوں میں موجود ہے۔ ان نسخوں میں عبارت کا عجیب و غریب ڈھنگ ہے۔ مثلاً لکھنے والے نے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ ضخامت کا کوئی نسخہ سامنے رکھا، اس کے ہر صفحے سے اپنی ترجیحات کے مطابق چند سطروں کا انتخاب کیا اور انھیں باہم مربوط کردیا۔ کہیں تفصیلات حذف کردیں اور کہیں بالکل میکانیکی انداز میں صفحے کے اوپر کی چند سطریں لے لیں اور صفحے کے نیچے کی چند، اور دونوں کو باہم ملا دیا۔ درمیان کی تمام سطریں حذف کردیں۔ کہیں کہیں کلیدی جملوں کو رکھ لیا اور تابع جملوں کو ترک کردیا۔ اس طرح انتخاب کیے ہوئے جملوں کو اصل ترتیب کے مطابق جوڑ کر ایک نسخہ تیار کرلیا۔ اس کی پرواہ نہیں کہ اس طریقے سے جو نسخہ تیار ہوا ہے، اس کے جملے ناقص ہیں، مفہوم خبط ہوگیا ہے، مطلب الجھا ہوا ہے یا صریحاً مہمل ہے۔‘‘(ص:۶۶)
اس کام کے لیے مصنّف نے ’معراج العاشقین‘ کے نسخۂ میسور اور کتب خانۂ سالار جنگ میں موجود تلخیص شدہ نسخہ نمبر ۸۵؍ کے چند صفحات کا موازنہ کرکے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں کہ کس انداز سے مکمّل متن کی تلخیص کی گئی ہے۔ مصنّف نے ایسے پانچ کم ضخیم نسخے ملاحظہ کیے اور اپنی تحقیق کی بنیاد ان پر قائم کی۔ مصنّف نے یہ بھی بتایا ہے کہ مولوی عبدالحق نے ۱۹۲۴ء میں ’معراج العاشقین‘ کے جس متن کو شائع کیا تھا، وہ کم ضخامت والے نسخے پر منحصر تھا اور اسی لیے اس کی عبارت ’کئی جگہ بے ربط اور مہمل‘ معلوم ہوتی ہے۔ ستم بالاے ستم یہ کہ مولوی عبدالحق کے بعد جن لوگوں نے ’معراج العاشقین‘ کو اپنے مقدمات کے ساتھ شائع کیے، بالخصوص خلیق انجم، گوپی چند نارنگ اور تحسین سروری نے مولوی عبدالحق کے استعمال کردہ متن ہی کو بنیاد بنا کر اپنا کام چلا لیا۔ اس کے سبب ’معراج العاشقین‘ کے سلسلے سے آدھی ادھوری اور کمزور بنیادوں پر ہمارے معاشرے میں تحقیقی گفتگو ہوتی رہی ہے۔
مصنّفِ کتاب نے سات ضخیم نسخوں کا مختصر تعارف کراتے ہوئے کئی واضح حقائق سے ہمیں آشنا کرایا ہے۔ (۱)نسخۂ میسور، (۲) نسخۂ ذاتی، (۳)کتب خانۂ سالار جنگ کا رسالۂ تلاوت الوجود، (۴)کتب خانۂ سالار جنگ کا رسالہ پانچ تن، (۵)کتب خانۂ آصفیہ کا تلاوت الوجود جیسے تمام نسخوں میں کہیں بھی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا نام شامل نہیں ہوا ہے بلکہ اس کے برخلاف مخدوم حسینی کے مصنّف ہونے کے ثبوت ہر نسخے میں موجود ہیں۔ ساتواں مکمّل نسخہ جو انجمن ترقی اردو ہند، دہلی میں محفوظ ہے، اس میں سرنامے کی عبارت میں پہلی بار خواجہ بندہ نواز کا نام درج ہوا ہے حالاں کہ اس نسخے میں بھی متنِ کتاب میں مخدوم حسینی کا تذکرہ مصنّف کے طور پر ہوا ہے۔ م۔ن۔سعید نے حقائق کی اس پیش کش میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جو ضخیم اور مکمّل نسخے دستیاب ہوئے، ان میں سات میں سے چھ میں سرے سے مصنّف کی حیثیت سے بندہ نواز گیسو دراز کا ذکر ہی نہیں بلکہ جس ساتویں نسخے میں خواجہ بندہ نواز کے نام کی پیش کش کی گئی ہے، اس میں بھی داخلی شواہد اس بات کاواضح ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تصنیف کی جواب دہی مخدوم حسینی کے ہی سر رہی۔ ان ساتوں نسخوں کے بارے میں مصنّف کا نقطۂ نظر ان کے لفظوں میں سمجھا جاسکتا ہے:
(الف) ’’(گذشتہ صفحات میں) ان نسخوں کا ذکر کیا گیا ہے جو ناموں کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ لیکن متن کے اعتبار سے جن کے درمیان کوئی ایسا واضح فرق نہیں جسے اختلاف کہا جاسکے۔
(ب) ’’ان نسخوں میں ابواب کی تعداد یکساں، مصنّف کا نام یکساں، مصنّف کے پیر کا نام ایک اور سب سے بڑھ کر متن کا اندرونی ربط ، تسلسل اور مجموعی آہنگ موجود ہے۔ اس متن کے معانی و مطالب سمجھنے میں قطعی کوئی مشکل نہیں ہوتی۔‘‘
(ج) ’’زبان کی قدامت کی وجہ سے کہیں کہیں جملوں میں غرابت ہے لیکن ان کا مفہوم کہیں خبط نہیں ہوا ہے۔ ‘‘
(د) ’’کسی نسخے میں جملے نامکمل، بے ربط اور متناقص نہیں ہیں۔‘‘
(ہ) ’’جن سات نسخوں کا جائزہ لیا گیا ہے، وہ اصلاً ایک بنیادی نسخے کی سات نقلیں ہیں اور چوں کہ قلمی نقلیں ہیںِ اس لیے ان کے اختلاف نسخ میں بُعدِ زمانی کے علاوہ نقل نویسوں کے شخصی میلانات و ترجیحات بھی کارفرمارہے ہیں اور قدیم اردو کے مخطوطہ شناس محقّقین کے لیے یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔‘‘ (ص:۹۰-۹۱)
ضخیم اور مکمّل نسخوں کی بحث مکمّل کرنے کے بعد مختلف کتب خانوں میں موجود ملخّص اور نامکمل نسخوں کی گفتگو کے سلسلے سے م۔ن۔ سعید نے کچھ کم مشقّت نہیں اٹھائی ۔۔نقل در نقل یا تلخیص کی بے اصولیوں کے سبب ان نسخوں کے احوال دگر گوں ہیں ۔ جس انداز سے تلخیص کا کسی نے ارادہ کیا یا جس کے پیشِ نظر جو مقاصد رہے ،اس نے اسی طرح اس دستاویز کو تختۂ مشق بنایا اور حال یہ ہوا بہ قول مصنّف ’جملے بے ربط،مبہم بلکہ اہمال کے شکار بھی ہیں۔‘‘اس کے باوجود ایک محقّق کی حیثیت سے جناب م۔ن۔ سعید کا یہ اصرار ہے کہ ’’یہ سب رسالے ایک ہی اصل کے مختلف جلوے ہیں خواہ یہ جلوے صریحاً بدنما اور بھدّے ہوں ۔‘‘اس سلسلے سے مصنّف نے کتب خانہ ٔ سالار جنگ ،کتب خانۂ آصفیہ کے علاوہ بعض ذاتی نسخوں کو بھی مطالعے کا حصّہ بنایا۔مصنّف نے صرف نسخوں کے تعارف پر توجّہ نہیں کی بلکہ مکمّل اور مختصر نسخوں کے متون کی باضابطہ جانچ پرکھ کرتے ہوئے اس سلسلے سے دوسرے محقّقین کی تحقیقات سے استفادہ اور نظرِ ثانی دونوں کاموں کو بہ طریقِ احسن انجام دیا ۔مختصر اور طویل یا مکمّل نسخوں کے متون کی بحث انجام تک پہنچانے کے بعد مصنّف اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ ہر چند یہ کتاب مختلف ناموں سے موجود ہے لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ مکمّل نسخے ہی حقیقتاً اصل’’معراج العاشقین‘‘ قرار دیے جا سکتے ہیں ۔ناموں کا اختلاف ضرور ہے لیکن متون اور نفسِ مضمون میں یکسانیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعتا ایک ہی کتاب کے یہ مختلف جلوے ہیں ۔
’’معراج العاشقین ‘ ‘ کے مختلف نسخوں اور ان کے متون کے سلسلے سے پُر مغز بحث کرنے کے باوجود ایک لازمی سوال یہ تھا کہ محقّق کی حیثیت سے م۔ن۔ سعید ان داخلی معاملات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر کیوں ’معراج العاشقین‘ کا انتساب خواجہ بندہ نواز کی طرف ہوتا چلا گیا ۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ بعض محقّقین کی طرح م۔ن۔ سعید کو اس سلسلے سے کوئی شبہ نہیں کہ ’معراج العاشقین‘ سے مصنّف کی حیثیت سے خواجہ بندہ نواز کا کوئی تعلّق نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس بات کو وہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس کتاب کو لوگوں نے کیوں بندہ نواز کے نام سے منسوب کر دیا گیا ۔مولوی عبد الحق ،مولوی نصیر الدین ہاشمی اور ان کے اتّباع میں دوسرے افراد نے مختلف انداز کے قیاسات کی بنیاد پر خواجہ بندہ نواز کو مصنّف قرار دیا ہے۔لیکن م۔ن۔ سعید نے متن سے داخلی شواہد اخذ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ کہیں بھی مصنّف کی حیثیت سے خواجہ بندہ نواز کا نام شامل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ ناقص تر متون میں بھی بار بار مخدوم شاہ حسینی کا نام باضابطہ طور پر لکھنے والے کے نام کی حیثیت سے سامنے آتا ہے ۔مصنّف نے انتساب کی بحث کو انجام تک پہنچاتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن نسخوں کے سر نامے پر خواجہ بندہ نواز کا نام شامل ہے، وہ حقیقت میں ان نسخوں کے کاتبوں کا اضافہ ہے اور ان کی بنیاد پر ’معراج العاشقین‘ کا مصنّف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز نہیں ہو سکتے ۔
م۔ن۔سعید نے معراج العاشقین کے انتسابِ مصنّف اور مختلف کتب خانوں کے نسخوں کی جانچ پرکھ کرنے کے بعد یہ اچھا کیا کہ اس نسخے کے اصل مصنّف مخدوم شاہ حسینی کی سوانح ،خاندان اور سلسلۂ تصوّف پر وافر گفتگو کی ۔مخدوم شاہ حسینی کے پیر کا ذکر متن میں کئی بار زیرِ بحث رہا ہے ۔پیر اﷲ حسینی مخدوم شاہ حسینی کے مرشد ہیں یا فرزند؛ اس پر مصنّف نے اختصار کے ساتھ ڈاکٹر حفیظ قتیل کے نتائج سے واضح اختلاف کیا ۔معراج العاشقین کے متن سے معنیٰ اخذ کرنے میں کس انداز کی عجلت پسندی سامنے آئی اور پیر و مرشد کو کس طرح حفیظ قتیل نے فرزند قرار دے دیا ،اس سلسلے سے جناب سعید نے بڑی عالمانہ بحث کی ہے ۔’معراج العاشقین‘ کے موضوع کے سلسلے سے بھی سنجیدہ گفتگو کی گئی ہے اور کوشش یہ ہے کہ رسالے کا مغز کاغذ پر اتر آئے ۔اسی طرح خواجہ بندہ نواز کے مخصوص تصوّف کے عناصر پر غور کرتے ہوئے ’معراج العاشقین‘ میں موجود بنیادی نکات سے ان کی عدم مطابقت ظاہر کی گئی ہے ۔یہ ساری بحث اتنے سلیقے اور صفائی کے ساتھ انجام تک پہنچتی ہے کہ قارئین کے لیے سب کچھ آئینہ ہو جاتا ہے ۔’معراج العاشقین‘ کے سلسلے سے یہ طویل باب حقیقتاً ایک مکمّل کتاب کا درجہ رکھتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ م۔ن۔ سعید نے اس موضوع سے اتمامِ حجّت کر دی ۔
’معراج العاشقین ‘کے سلسلے سے بھرپور بحث کرنے کے بعد مصنّف نے ’تلاوت الوجود‘، ’دارالاسرار‘، ’شکار نامہ‘ جیسی تصانیف کے انتسابِ مصنّف پر اسی انداز میں دادِ تحقیقی دی ہے جس طرح انھوں نے ’معراج العاشقین‘ کے بارے میں طویل باب مکمّل کیا ۔ چند متفرق رسائل کے مندرجات بھی اس سلسلے سے گفتگو میں شامل کیے گئے ہیں جن کے بارے میں خواجہ بندہ نواز کے نام کاذکر ہوا ۔’تلاوت الوجود‘ پر قدر ے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے ۔ مختلف رسائلِ تصوف کے انتسابات کی جانچ پرکھ کے مرحلے میں م۔ن۔سعید نے ایک سائنسی چوکھٹا تیار کیا ہے جس سے تقابل کے بعد اُس عہد کی تصانیف میں انتساباتِ مصنّف کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں ۔ ایسا سائنسی فارمولا تو تیار کرنا شاید ممکن لیکن کو شش کی گئی ہے کہ نبض کے کس حصّے پر انگلی رکھی جا ئے کہ مرض اپنے آپ ظاہر ہو نے لگے ۔ تحقیقی معاملات میں ایسا سلیقہ بڑے محقّقین کے یہاں تو دکھا ئی دیتا ہے لیکن فی زمانہ نا پید ہے ۔ جس تحمّل اور یقین کے ساتھ انتسابات کے دقیق مسائل کو مصنّف سلجھاتے ہیں، وہ ان کی مشقّت پر تو دال ہے ہی لیکن ان کے اس ذہنی سانچے کا بھی ثبوت ملتا ہے جس میں حقائق پر مدار رکھنے اور ماہر مصنّف کی طرح انصاف پسندانہ رُخ سے فیصلہ کر نے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ کہنا چاہیے کہ م۔ن۔ سعید کے پاس وہ فارینسک لیباریٹری ہے جس میں وہ اپنی کیمیاوی جانچ سے اردو کے عہد قدیم کے نثری نمونے کے انتسابات اور لکھنے والے کے عہد یا مکتبِ فکر کا حتمی طور پر تعیّن کر سکتے ہیں ۔
کتاب کے نویں باب کی حقیقی ضخامت ہر چند کہ پندرہ صفحات سے زیادہ نہیں ہے لیکن بندہ نواز کے نام سے منسوب ا ن رسائل کی زبان کو موضوعِ بحث بناتے ہو ئے م۔ن۔ سعید نے اپنی محقّقانہ شخصیت کا ایک اور رُخ واضح کیا ہے ۔مولوی عبد الحق ، محی الدین قادری زور ، جمیل جالبی جیسے ماہرین نے قدیم ارد و نثر کی اس کتاب کے سلسلے سے جو لسانی مطالعہ پیش کیا ہے، وہ خالص علمی بنیادوں سے لیس ہے ۔ ان کا معروضہ یہ ہے کہ محقّقین نے اوّلاً متن کے قرآت میں فاش غلطیاں ثانیاً مفاہیمِ متن کو سمجھنے میں مشقّت نہیں اٹھا ئی ۔ حقیقی متن میں ان کے کاتبین نے جو چھیڑ چھاڑ کی ہے ، ا س کی بھرپائی تو اَب ناممکن ہے لیکن مطبوعہ نسخوں میں بھی تصرفات اس قدر ہیں کہ ان کی صورت ہی بدل جا تی ہے ۔ دکنی زبا ن سے ماہرانہ سطح پر عدم واقفیت بھی بعض محققّین کے لیے سدِّ راہ بنی ۔ ا ن اسباب سے ’معراج العاشقین‘ کتابی شکل میں جس طور پر ہمارے سامنے پیش کی جاتی رہی،وہ موزوں نہیں تھا ۔ اس سلسلے سے مولوی عبد الحق کے مطبوعہ نسخے کو بہ طورِ مثال پیش کرتے ہوئے م۔ن۔سعید نے متنی تنقید کی کوتاہ دستیوں پر بجا طور پر ماتم کیا ہے ۔ مولوی عبد الحق کی تحقیقی اصولوں کی خلاف ورزی پر بجا طور پر انھوں نے ماتم کیا ہے ۔ مصنّف کا یہ بھی کہنا درست ہے کہ مولوی عبد الحق کی اصلاح کے بعد ’معراج العاشقین ‘ کی عبارت پہلے سے زیادہ گنجلک اور مبہم ہو گئی ۔
م۔ن۔سعید نے ’معرا ج العاشقین ‘ کے موجودہ متن کی زبان سے ’کلمۃ الحقائق ‘ ( برہان الدین جانم ) او ر مثنوی ’کدم راو پدم راو‘ (فخردین نظامی بیدری) کی زبان سے مقابلہ کرتے ہوئے استعمالِ زبان کے مدارج پر اختصار کے ساتھ نہایت موزوں گفتگو کی ہے ۔ اردو کی قدیم نثر و نظم کے بعض امور کے تذکرے کا مصنّف کے نزدیک حقیقی مقصدیہ تھا کہ وہ ’معراج العاشقین‘ کی زبان کو خواجہ بندہ نواز کے بہت بعد کے عہد کا ثابت کرنے کے لیے بنیادیں استوار کریں ۔ اس میں وہ پورے طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس ایک مجہول بیاض میں موجود خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے نام سے منسوب چند اشعا ر کو انھوں نے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا لکھا ہوا تسلیم کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بہر صورت خواجہ بندہ نواز اردو کے پہلے نثر نگار نہ سہی لیکن شاعر ضرور تسلیم کیے جا سکتے ہیں ۔ نہ جا نے کیوں تحقیقی وسائل کی فراوانی کے بعد جس سلیقے سے م۔ن۔سعید اپنے علمی نتائج ظاہر کرتے ہیں ، یہاں وہ معروضیت ، روایات پر سختی سے جرح کرنے کا انداز اور مجہول انتسابات پر عالمانہ بحث و تمحیص کا انداز یہاں جا تا رہا ۔ غالبا ً عقیدت اور جمہوری مزاج کو سمجھتے ہوئے انھوں نے یہ نتیجہ ذرا جذبات سے مملو ہو تے ہوئے اخذ کیا ہے ۔ ایسے معاملات میں قاضی عبد الودود کی محمود شیرانی کے سلسلے سے اور رشید حسن خاں کا جمیل جالبی کی ’تاریخِ ادبِ اردو‘ میں موجود مجہول روایات پر انحصار کے سلسلے سے سخت گیر آرا کو یہاں ملحوظ رکھنا چاہے اور اتنی بڑی بات کو ثابت کرنے کے لیے دوتین صفحات کا مطالعہ جملۂ معترضہ کے طور پر موضوع کے ساتھ سرسری گزرنا ہے ۔
اردو کی قدیم نثر کے نمونے کے طورپر ’کلمۃ الحقائق‘ کا ایک اقتباس پیش کرتے ہو ئے مصنّف نے اس کا جو اسلوبیاتی اور لسانی تجزیہ پیش کیا ہے، وہ اس بات کا شاہد ہے کہ مصنّف صرف تاریخی اور موضوعاتی بنیادوں پر ہی بندہ نواز سے منسوب رسائل اور قدیم اردو کی ادبی تاریخ کے نبّاض نہیں بلکہ وہ اردو نثر کے لسانی اور اسلوبیاتی ارتقا کی مختلف کڑیوں کو نہایت باریک بینی کے ساتھ جوڑنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ ’کلمۃ الحقائق‘ کی نثر کے سات لسانی اوصاف بیان کرنے کے بعد مصنّف کا ’معراج العاشقین ‘ کی نثر سے موازنہ و مقابلہ کر کے نتیجہ خیز گفتگو جا ری رہتی ہے ۔ انھوں نے حضرتِ جانم کی نثر پر کچھ اس انداز سے انشا پردازی کی ہے :
’’کلمۃ الحقائق ‘‘ سے یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ حضرت جانم یہ نثر پہلی بار لکھ رہے ہیں ۔ اس کا کوئی نمونہ پہلے سے ان کے سامنے نہیں ہے ۔ خیالات کا ہجوم ہے او راظہار کا راستہ پُر پیچ اور خارداری ہی نہیں بلکہ ایک اعتبار سے بنا ہی نہیں ہے ۔ اس لیے ان کے ہاں الفاظ اپنے وظیفے کے مطابق اپنے مقام پر متعین نہیں ہیں ۔ الفاظ سر کشی کر رہے ہیں اور جملے انھیں سنبھال نہیں پا رہے ہیں ۔ اور یہ یا د رہے کہ حضرت جانم یہ لڑکھڑا تی نثر حضرت بندہ نوا ز ؒکی وفات کے تقریباً دو سو بر س بعد لکھ رہے ہیں ۔ اسی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ’’ معراج العاشقین ‘‘ اور دوسرے منسوب رسالوں کی صاف اور بے میل نثر کا حضرت بندہ نواز ؒسے انتساب کس قدر خلافِ واقعہ ہے ۔ ‘‘
اس کتاب کے دسویں باب میں ان رسائل کے خواجہ بندہ نواز کے سلسلے سے انتساب کے اسباب پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مصنّف نے چار بنیادی نکات درج کیے ہیں :
۱۔ حضرت خواجہ ؒ کے نام سے دوسرے مصنّفوں کے ناموں کی مماثلت
۲۔ جذباتِ عقیدت
۳۔ نا واقفیت اور
۴۔ رسالوں کے ناموں کی یکسانیت
مختلف مخطوطات سے ان امور میں مثالیں فراہم کرکے مصنّف نے اپنا نقطۂ نظر پایۂ ثبوت تک پہنچایا ہے ۔ اس تفصیل میں وہ پسِ منظر بھی روشن ہو جا تا ہے جو ’معرا ج العاشقین‘ یا خواجہ بندہ نواز کے سلسلے سے تحقیق اور عدمِ تحقیق کا منبع ہے ۔
م۔ن۔سعید نے اس کتاب کا کوئی مکمّل اختتامیہ تو نہیں لکھا لیکن ایک صفحے میں ’کسوٹی ‘ عنوان سے اپنے قیمتی تاثرات پیش کیے ہیں ۔ چند سطروں میں مصنّف نے قدیم دکنی ادب کی تحقیق کی آیندہ روش کیا ہونی چاہیے اور کن کن موضوعات پر کام کر لیا جا نا ضروری ہے ، اس سلسلے سے بڑی نَپی تُلی گفتگو کی ہے۔ وہ بجا طورپر زبان کو کسوٹی بنانا چاہتے ہیں ۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ ’کدم راو پدم راو ‘ کی طرح میراں جی اور برہان الدین جانم کے رسائل اور شعری نگارشات کی زبان کا صرفی اور نحوی مطالعہ کرکے قدیم دکنی ادب کے تدریجی ارتقا کو سمجھنے کا ایک معروضی پیمانہ وضع ہو سکتا ہے۔ م۔ن۔سعید کی تشویش بے جا نہیں کہ’ دکنی مخطوطات کے مطالعے کو تقریباً ایک صدی ہونے کو آئی لیکن سائنسی بنیادوں پر مخطوطات کے مطالعے کا کو ئی تشفّی بخش طریقۂ کارابھی تک وضع نہیں کیا گیا ۔ ‘ مصنّف اسلوبیاتی اور لسانی مطالعے پر اتنا زور اس وجہ سے بھی دیتے ہیں کیوں کہ ان کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ’’ ایسے رسالوں کا ظاہری انتساب قابلِ اعتبار نہیں ہے ۔ ‘‘ مصنّف کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں ہندستان میں بالخصوص ارضِ دکن میں تصوّف کے بدلتے ہوئے رجحانات سے ماہرانہ واقفیت ضروری ہے کیوں کہ دکنی رسائل کا ایک بڑا حصّہ انھی موضوعات سے عبار ت ہے ۔ اس لیے مخصوص صوفیانہ تصوّر کے چلن کو بھی زبان کے ارتقا کے متوازی پیشِ نظر رکھا جا ئے تو دکنی رسائل کے انتسابات کے مسائل بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں ۔
گذشتہ دنوں شمس الرحمان فاروقی نے م۔ن۔سعید کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ضروری سوال یہ قائم کیا تھا کہ کیا اردو معاشرے میں یہ لازم ہو گیا ہے کہ دکنی ادب کے سلسلے سے تحقیق و تنقید کے کام صرف دکن کے ہی لوگ کر یں گے اور شمالی ہندستان کے افراد ان سے یکسر غافل رہیں ۔ عالمگیریت کے دور میں یہ بات واقعی قابلِ تشویش ہے کہ شمال میں بود و باش اختیار کرنے والے افراد بھی دکنی ادب کے مطالعے کی طرف سنجیدگی سے رجوع کرنے سے کیوں گریز کرتے ہیں۔ اردو کی بڑی یونی ورسٹیوں اور قومی اداروں کو تہذیبی و ادبی تبادلے کی غرض سے بھی اس طرح کے مطالعات کی سبیل پیدا کرنی چاہیے۔ ممکن ہے، اس سے تفہیم و تجزیے کی نئی بنیادیں قائم ہو ں او ردکنی مطالعات کی دوسری صدی زیادہ بار آور ہو ۔
اس کتاب کا خاکا سلسلہ وار اور اینٹ در اینٹ رکھ کر عمارت تیّار کرنے جیسا ہے۔ اسی لیے ایک باب سے دوسرے باب تک پہنچنے میں نہ کوئی دہراو ہوتا ہے اور نہ ہی نتائج کی طرف بڑھنے میں رہ رہ کر رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ حقائق کی طرف مرحلہ وار توجّہ اور دلیلوں کی ہم سفری سے پڑھنے والوں کو ایک خاص لطف آتا ہے۔ بیان میں اختصار تو ہے ہی، موضوع پر حیرت انگیز ارتکاز بھی نظر آتا ہے۔ پس منظر بیان کرنے میں مصنّف کو کوئی اضافی دل چسپی نہیں ہے جس کی وجہ سے بے جا طوالت سے گریز کی خصوصیت پیدا ہوگئی ہے۔ ضمنی عنوانات شامل کرکے مصنّف نے خود کو مزید طولِ کلام سے محفوظ رکھا ہے بلکہ قارئین کے لیے یہ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔ ان ذیلی سرخیوں سے پڑھنے والے کو سہولت حاصل ہوتی ہے اور اس سے موضوع پر ارتکاز بھی قائم ہوتا ہے۔ کتابیات میں مطبوعات سے تقریباً دوگنی تعداد مخطوطات کی ہے۔ ظاہری اعتبار سے کتاب بھرپور انداز کے تحقیقی کام کا اشارہ کرتی ہے لیکن ایسے علمی کاموں کی سلیقہ مند پیش کش میں اگر مندرجات کا اشاریہ شامل کردیا جاتا تو کتاب کی افادیت اور مطالعہ کنندگان کے لیے سہولت پیدا ہوجاتی ہے۔ آیندہ اشاعت میں اسے بہر صورت دور ہونا چاہیے۔
پروفیسر م۔ن۔سعید نے جس سلیقے سے یہ کتاب شائع کی ہے اور کمپیوٹر کتابت کے مختلف جلوؤں سے اپنے متن کو سجایا ہے، وہ لائقِ اتّباع ہے۔ جدید طباعت کے اصولوں کے مطابق انھوں نے متن کے مقابلے اقتباسات کے چھوٹے پوائنٹ کا استعمال کیا ہے ۔ ٹیبل اور چارٹ ، فوٹوگراف اور مخطوطات کے صفحات کے عکس شامل کرکے یہ کتاب مزید کشش اختیار کر لیتی ہے ۔ م۔ن۔سعید کے پاس دکنی ادب کے سلسلے سے سنجیدگی سے کام کرنے کا تجربہ ہے ، ہمیں توقّع ہے کہ وہ دکنی متون بالخصوص ’معراج العاشقین ‘ کی تدوین کا کوئی مثالی نمونہ اس انداز میں پیش کر سکیں جیسا امتیاز علی عرشی اور رشید حسن خاں نے اپنے قاموسی کاموں کے ذریعہ کیا تھا ۔ اس سے دکنی متون کی ترتیبِ نو کا معیار ی سلسلہ قائم ہو گا۔ اس کے بعد ہی تنقیدو تجزیہ او رلسانی تفہیم کے مراحل تک ہم پہنچ سکیں گے ۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 155475 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.