مستعاریت

سچ نے خود کشی کر لی ۔یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی سب برگد کے کہنہ سال پرانے درخت کی طرف بھاگے آرہے تھے اک ہجوم بیکراں تھا کہ امنڈا آتا تھا ان کے قدموں سے اڑتی دھول سب کے چہروں پہ وقت کی طرح جم رہی تھی۔ان کے سوختہ دل دھڑکنا چھوڑ رہے تھے لہذا وہ کھنیچ کھنچ کے سانس لے رہے تھے ۔جیسے ہی وہ مصلوب سچ تک پہنچے ان کے لب آپس میں پیوست ہو گئے ۔زبانیں اکڑ گئیں اور تالو سے جا لگیں۔ سب کی نظریں برگد کے درخت پہ تھیں حہاں سچ زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا تھا اس کے قدموں میں جھوٹ بیٹھا سسکتا ہوا گریہ زار تھا۔جھوٹ کے سرنگین ہوتے ہی طمع ۔ہوس۔اور ریاکاری بھی اپنے اپنے سنپولیوں کو سمیٹ کر جھوٹ کے ساتھ سچ کی لاش کے پاس آ بیٹھے وہ سب بین کر رہے تھے آہ و زاری اور ماتم کی فضا تھی۔اور اردگرد کے لوگوں کی ہییت بدل رہی تھی تڑاخ تڑاخ کی آوازوں سے ان کے خول چٹخ گئے اور آدمی کے اندر سے انسان برآمد ہوئے جن کے ہاتھوں میں اعمال نامے تھے جن کے لفظ مٹ چکے تھے۔نوح کناں جھوٹ اور اس کے حواری سچ کی لاش کے آگے سر بجود تھے کیونکہ سچ کے بغیر وہ بےمعانی تھے۔