غیرمسلم خواتین کی طرف سے حجاب کی حمایت
(Faisal Shahzad, Karachi)
اﷲ اکبر ! جورب کائنات صدیوں پہلے کنکریوں
سے رسالتِ محمدیہ کی شہادت دلواچکا،اس کی قدرت آج بھی کچھ ایسے ہی عجیب
مناظردکھا رہی ہے ۔ مادرپدرآزادی اورعریانیت وفحاشی کاامام یورپ ایک حیرت
انگیز تجربے سے دوچار ہواہے۔ پوری دنیا میں بے حیائی کاطوفان سب سے زیادہ
یورپ میں ہے ، پھر یورپی ممالک میں بھی درجہ بندی کے حساب سے عریانیت،
بدکاری اوراخلاق باختگی میں پہلے نمبر پریورپ کا شمالی ملک سوئیڈن ہے جہاں
کی خواتین کی بے شرمی اوربے حجابی سے امریکا اورباقی یورپ والے بھی پناہ
مانگتے ہیں۔اسی سوئیڈن میں کچھ دنوں پہلے ایک مسلمان خاتون کو حجاب لینے پر
تشدد کانشانہ بنایاگیا۔ ظاہر ہے کہ تشددکرنے والے مغرب کے اسی متعصب ترین
طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنی طرح ساری دنیا کوبرہنہ دیکھناچاہتے ہیں۔
یہ بات ہمارے لیے توافسوس ناک تھی ہی مگر عجیب ترین بات یہ ہوئی کہ خود
سوئیڈن کی خواتین نے اس پر احتجاج کیا۔ تشددکانشانہ بننے والی مسلم خاتون
سے اظہار ِیک جہتی کیا ،اور وہ بھی کیسے؟ ان سوئیڈش غیرمسلم خواتین نے خود
حجاب پہن لیا ۔ یہ تحریک انٹر نیٹ کے ذریعے راتوں رات پھیل گئی۔ سوشل میڈیا
پر ہزاروں غیرمسلم خواتین اس کی حمایت میں آگئیں ۔ان سب کاکہنا تھا کہ حجاب
ایک انسانی حق ہے جو عورت کوملنا چاہیے۔
عام یورپی مرد اگرچہ حجاب کے حق میں نہیں مگر مغربی عورت بڑی تیزی سے یہ
حقیقت سمجھ رہی ہے کہ مغربی تہذیب کی برہنگی اورفحاشی نے اس کی جھولی میں
محرومیوں کے سوا کچھ نہیں ڈالا۔ اس کی حیثیت جنگ میں گرفتار ہوکر اغیار کے
ہاتھ آنے والی ایک زرخرید لونڈی سے زیادہ کچھ نہیں۔ماضی میں باندیاں رشتوں
ناتوں سے بے گانہ صرف ہوس کی تسکین کاسامان بناکرتی تھیں ، آج کی مغربی
عورت خودکواسی مقام پردیکھ رہی ہے ۔نہ اسے ماں کامقدس درجہ حاصل ہے، نہ بہن
کااحترام ۔نگاہوں میں اس کے لیے ہوس ہی ہوس ہے۔ باندیاں پھر محفوظ تھیں کہ
ایک شخص کی دسترس میں ہواکرتی تھیں،مگر آج کی مغربی عورت مرد کی خواہش کے
لیے،ایک ایک ڈالر پر روز کتنی بار فروخت ہوتی ہے،اس معاشرتی پست حیثیت کا
عورت کو اندازہ ہوتاجارہاہے۔اسی لیے جب وہ اپنی حفاظت کے اسباب سوچتی ہے تو
اسے اسلام کا نظامِ عصمت وعفت اورپردے کارواج بہت پر کشش معلوم ہوتاہے۔
کاش کہ ہماری مسلمان مائیں بہنیں جو مغرب کی چکاچوند پر اندھا دھند نثار
ہورہی ہیں ،کچھ ہوش کریں۔بزرگ کہتے تھے، ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ آج
مغرب کی چمک دمک نگاہوں کو خیر ہ کررہی ہے مگر اس پر فریفتہ ہونے والوں
کاحال قدم قدم پر داستان ِعبرت سناتاہے۔
مسلم معاشرے اوراسلامی اقدارمیں عورت کے لیے تعلیم سمیت سماجی خدمات کے
کتنے ہی دروازے کھلے ہیں۔شرعی حدودمیں رہتے ہوئے عورت اپنے گھر ،خاندان ،معاشرے
اورملک وملت کی بھرپور خدمت کرسکتی ہے، دولت وثروت حاصل کرسکتی ہے ،عزت و
مقام پاسکتی ہے۔ اگرچہ بہتریہی ہے کہ عورت پوشیدہ سے پوشیدہ تر رہے کہ ہیرے
کا اصل مقام جوہری کی دکان نہیں ،شاہ کی انگشتری میں ہوتاہے جس تک کسی کی
رسائی نہیں ہوتی۔ صحابیات کی سیرت ہمارے سامنے ہے۔ امت کی تربیت میں ان
کابنیادی کردارہے۔ پردے میں رہتے ہوئے انہوں نے امت کی جو خدمت کی وہ
ناقابل فراموش ہے۔اپنے اکابر کے گھرانوں کی خواتین کے تذکرے بھی پڑھنے کے
قابل ہیں ۔اورکچھ نہیں تو حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریا مہاجر مدنی رحمہ
اﷲ کی ’آپ بیتی‘ میں ایسے کتنے واقعات مل جائیں گے۔انہیں پڑھیں اورعمل کی
کوشش کریں ۔ مغربی تہذیب ایک ایسامتعفن نالاہے جس میں گرنے والے خود اپنی
زندگیوں سے تنگ ہیں ۔خودکشیوں کی جو بہتات وہاں ہے، ہمارے ہاں غربت،
مہنگائی اوربیماریوں کے باوجود اس کا تصور نہیں کیاجاسکتا۔ ایسی زندگی سے
پناہ مانگیں اوراس دین مبین کی قدر کریں، جس نے شرم وحیا اورعزت وناموس کو
ایک حسین امانت کی طرح ہمارے سپردکیا ہے۔
|
|