بھارت یاترا-- لیمن ٹی اور کالا رنگ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
کالے رنگ کے باوجود ہم نے کبھی کسی ٹی وی چینل پر رنگ گورا کرنے والی کریم کا اشتہار دیکھا- ان کے ہاں ڈی ٹی ایچ ہے یعنی ہمارے ہاں کیبل کا نظام نہیں -مخصوص ڈش گھر پر لگانی پڑتی ہے اور ہر ماہ رقم کی ادائیگی پر سروسز ملتی ہے لیکن کبھی کسی ٹی وی چینل پر نہ رنگ گورا کرنے والا اشتہار دیکھا ہی نہ ہی بازار میں نہ ہی کالج میں اپنے ساتھی طالبات کو رنگ کو گورا کرنے والی کریم کے پیچھے خوار ہوتے دیکھا- شائد یہ ہم پاکستانی خواتین کی احساس کمتری ہے حالانکہ جتنی خوبصورتی اور گورا رنگ پاکستانی خواتین کا ہے شائد ہی دنیا میں کسی کا ہو لیکن ہماری خواتین سفید ہونے کے چکر میں ہر ماہ بیوٹی پارلر کے چکر لگا کر شوہروں کے جیب کو ہلکا کرتی ہیں- خیر چائے بنانے والے جوڑے کے دو بچے تھے جن کی عمریں چھ سے دس سال کے مابین تھی جنہیں میاں بیوی نے سکول کی کتابیں دی تھی اور ہمارے جیسے طلباؤ طالبات ان بچوں کو کبھی کبھار پڑھاتے - |
|
خیبر پختونخواہ میں پی جانیوالے قہوہ کا
اپنا ہی مز ہ ہے-اگر اسے پھیکا بنایا جائے اور گڑ ساتھ کھائی جائے تو مزہ
الگ ہوتا ہے اور اگر نمک منڈی کی کڑاہی کے بعد تلخ قہوہ پی جائے تو پھر بات
ہی الگ ہے-اس قہوے کی یاد ہمیں چنائی میں بہت آئی -ہمارے ہاں پشاور میں
توقہوہ زیادہ پیا جاتا ہے جبکہ صوبہ بھر میں اسے پینے کا رواج ہے- چنائی
میں سکالرشپ کے دوران چونکہ ہمارے ساتھ افغان صحافی دوست تھا اسے بھی قہوے
پینے کا شوق تھا اس لئے قہوے کی یاد کھانے کے بعد آتی تو ہمارے افغان صحافی
دوست نے بازار میں روڈ کنارے ایک دکان دیکھی تھی جہاں پر قہوہ تو نہیں
بنایا جاتا لیکن اس سے ملتا جلتا ایک مشروب بنایا جاتا-یعنی کالی چائے جسے
ہمارے ہاں سلیمانی چائے کہا جاتا اس میں جنجر ، پودینہ اور لیموں کا رس
نچوڑ کر ڈالا جاتا- یہ چائے قہوے کی ضرورت تو پوری نہیں کرتی لیکن چونکہ ہم
پاکستانی و افغانی صحافی قہوے کے نشے کے عادی تھے اس لئے روزانہ رات
کوکھانے کے بعد "لیمن ٹی "پکارے جانیوالے اس مشروب کو پینے ضرور جاتے- یہ
مشروب ایک چھوٹے سے گلاس میں ڈال کر دی جاتی اور دس روپے بھارتی یعنی
پاکستان کے بیس روپے کا ایک کپ تھا- اس مشروب کا ایک فائدہ تھا کہ کھانا
بھی ہضم ہو جاتا اور ساتھ میں سردرد میں اڑنچھو ہو جاتا-
راقم اور افغان ساتھی جب بھی ساتھ جاتے ہم پیسے دینے پر جھگڑے کرتے کبھی وہ
کہتا کہ میں دیتا ہوں اور کبھی میں کہتا کہ پیسے میں نے دینے ہیں جو کہ
وہاں پر آنیوالے طلباء و طالبات او ر سڑک کنارے بنائے جانیوالے کرسی نما
ہوٹل کی مالک کیلئے حیران کن بات ہوتی-چونکہ ساتھ میں مختلف کالجز اور فلم
انڈسٹریز کی تربیت کیلئے انسٹی ٹیوٹ تھا اس لئے بیشتر لوگ یہاں پر کالی
چائے پینے بھی آتے اس لئے رش لگی رہتی لیکن جو بھی آتا اپنے چائے کی رقم
دیتا یا پھر اپنے ساتھ آنیوالی طالبہ جو کہ بیشتر کی گرل فرینڈز ہوتی تھی
کبھی کبھار اس کے حصے کی رقم بھی دیتے ورنہ بیشتر لوگ اپنے حصے کی رقم ادا
کرتے اور چلے جاتے -جبکہ ہم جھگڑا کرتے کہ پیسے میں نے دینے اور افغان
صحافی کہتا کہ میں نے پیسے دینے جو کہ ایک عجیب سی بات تھی-ابتداء میں عجیب
سا لگ رہا تھا بعد میں جب لوگوں کو پتہ چل گیا کہ پاکستانی اور افغانی ہیں
تو ان کو پتہ لگ گیا کہ روایات کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں-بعد میں کچھ اثر ہم
پر بھی ہوا- لیکن یہ اثر ہم بھارتی طلباء و طالبات کیلئے ہی تھا- ہمارا
دوست افغان صحافی دل کے معاملے میں کچھ کمزور تھا اس لئے وہ کبھی کبھار ایک
مخصوص طالبہ پر خرچہ کردیتا لیکن بعد میں اسے تلخ تجربہ ہوا اس لئے اس نے
ہاتھ کھینچ لیا-سب سے حیران کن بات اس ہوٹل والے کی یہ تھی کہ اسے
چلانیوالے میاں بیوی تھے ، میاں اگر برتن دھوتا تو بیوی چائے بناتی یا
متضاد کام کرتے-مرد دھوتی سنبھالے کام کرتا تو بیوی ساڑھی سنبھالے کام کرتی
دکھائی دیتی-لیکن اس کا رنگ اتنا کالا تھا لیکن ہم نے کبھی اس خاتون کو رنگ
گورا کرنے والی کریم یا چہرے پر میک اپ کرتے نہیں دیکھا- ویسے اپنے تقریبا
چار ماہ کے دوران راقم کا یہ تجربہ رہا کہ کسی بھارتی خاتون کو رنگ گورا
کرنے والی کریم استعمال کرتے نہیں دیکھا حالانکہ جتنی کالی وہ ہیں اتنے ہی
کالے ہمارے دل اور کرتوت ہیں-
کالے رنگ کے باوجود ہم نے کبھی کسی ٹی وی چینل پر رنگ گورا کرنے والی کریم
کا اشتہار دیکھا- ان کے ہاں ڈی ٹی ایچ ہے یعنی ہمارے ہاں کیبل کا نظام نہیں
-مخصوص ڈش گھر پر لگانی پڑتی ہے اور ہر ماہ رقم کی ادائیگی پر سروسز ملتی
ہے لیکن کبھی کسی ٹی وی چینل پر نہ رنگ گورا کرنے والا اشتہار دیکھا ہی نہ
ہی بازار میں نہ ہی کالج میں اپنے ساتھی طالبات کو رنگ کو گورا کرنے والی
کریم کے پیچھے خوار ہوتے دیکھا- شائد یہ ہم پاکستانی خواتین کی احساس کمتری
ہے حالانکہ جتنی خوبصورتی اور گورا رنگ پاکستانی خواتین کا ہے شائد ہی دنیا
میں کسی کا ہو لیکن ہماری خواتین سفید ہونے کے چکر میں ہر ماہ بیوٹی پارلر
کے چکر لگا کر شوہروں کے جیب کو ہلکا کرتی ہیں- خیر چائے بنانے والے جوڑے
کے دو بچے تھے جن کی عمریں چھ سے دس سال کے مابین تھی جنہیں میاں بیوی نے
سکول کی کتابیں دی تھی اور ہمارے جیسے طلباؤ طالبات ان بچوں کو کبھی کبھار
پڑھاتے -
چائے بنانے کا انکا طریقہ بھی الگ تھا پانی بوائل کرتے اور پھر کالی چائے
براہ راست ڈالنے کے بجائے اسے کپڑے کے بنے ہوئے چھان میں ڈالتے اور کپڑے کے
بنے چھان کی وجہ سے رنگ تو پانی میں آجاتا لیکن اس میں چائے نہیں آتی-تامل
ناڈو میں رہتے ہوئے ہمیں بھی تامل زبان سیکھنے کا شوق ہوا وہاں پر ساتھیوں
نے بتا دیا کہ بڑے بھائی کو انا اور بہن کو اکا کہتے ہیں- ایک دن یہی دو
لفظ سیکھنے کے بعد راقم اپنے افغان دوست کے ہمراہ لیمن ٹی پینے گیا تو جوش
میں آکر چائے بنانے والی خاتون کو اکا کے بجائے اناکہہ دیا جس پر خاتون نے
آنکھیں نکال دی اور برا مان گئی شکر ہے کہ اس وقت ایک مقامی طالبہ موجود
تھی جس نے جواب دیا کہ خیر ہے یہ نئی نئی زبان سیکھ رہا ہے اس لئے مرد و
خاتون کیلئے پکارے جانیوالے الفاظ میں غلطی کرگیا اسے معاف کردیں- تو خاتون
نے ہمیں معاف کردیا-تقریبا ایک ہفتے بعد اس کے سٹال پر بیٹھے بیٹھے راقم کو
پشاور کے صحافی دوست یاد آگئے اورانہیں سوچتے ہوئے ہم اس خاتون کی ہاتھ سے
چائے کا کپ لینا بھول گئے - جس پر چائے بنا کر دینے والی خاتون نے ہاتھ کے
اشارے سے ہمیں سوچ سے نکال دیا اس وقت اس نے سوال کیا کہ کیا دہلی میں کوئی
یاد آرہا ہے چونکہ ہمیں کالج انتظامیہ نے بتا دیا کہ آپ لوگوں کو پاکستانی
ہونے کے بجائے یہ بتا دیا کریں کہ میرا تعلق دہلی سے ہے اس لئے مسئلہ نہ
بنے- تاہم خاتون کے سوال کرنے پر راقم نے جھٹ سے جواب دیا کہ دہلی نہیں
پشاور ، پاکستان ، یہ جواب سن کر اس خاتون کا رنگ اڑ گیا جیسے کسی بچھو نے
اسے کاٹ لیا ہو- اس واقعے کے بعد خاتون کا رو یہ بھی بدل گیا یعنی جتنا وقت
وہ دیگر طلباء کو دیتی تھی اتنا وقت اب وہ نہیں دیتی ، لیمن ٹی بنانے کے
بعد آواز دیتی اور ہم گلاس پکڑے پی لیتے اس سے قبل وہ گلاس اٹھا کر ہماری
طرف لاتی تھی-
ہمارے کالج کے باہر تقریبا ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بازار تھا جہاں پر
بیشتر جنرل سٹور کی دکانیں تھی ساتھ میں کچھ ہوٹل بھی تھے ہوٹل کے مالکان
تو مرد تھے لیکن بیشتر جنرل سٹور کی مالکان خواتین تھی جبکہ ان کے ساتھ کام
کرنے والی بھی لڑکیاں ہوتی تھی سولہ سے پچیس سال کی یہ لڑکیاں گاہکوں کی
مدد کرتی اور ایک خاتون صرف پیسے لینے کیلئے کھڑی ہوتی - کچھ گھر انوں کے
مرد کچھ اور کام کرتے - جنرل سٹور سمیت موبائل فون سم فروخت کرنے والی
خواتین تھی جبکہ شام کے اوقات میں خواتین جن میں بزرگ بھی ہوتی ، سڑک کنارے
موتیے کے پھول سمیت مختلف رنگ کے پھولوں کے گجرے بناتی اور لوگ ان سے لیتے
-یہ گجرے مقامی خواتین بالوں میں لگاتی - بیس سے پچاس روپے تک بیچے
جانیوالی ان پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو بازار میں شام کے وقت زیادہ ہوتی
اس طرح کا سسٹم چنائی کے ہر بازار میں ہوتا تھا اور بیشتر دکانیں ور سٹال
شام کے وقت کھل جاتی جہاں خریداری کرنے والے مرد و خواتین ہوتے لیکن فروخت
کرنے والی بیشتر خواتین ہوتی تھی -کبھی کبھار ہمیں ان پر بڑا ترس بھی آتا
کہ صبح دس بجے سے رات دس بجے تک یہ خواتین کام کرتی- ایک دفعہ تو ہم نے
چائے بناکر فروخت کرنے والی خاتون کو چائے کے سٹال کے نیچے میز پر سوتے
ہوئے دیکھا-افسوس بھی ہوا کہ مرد کی برابری کے چکر میں خواتین پر بہت حد تک
ظلم بھی ہورہا ہے کیونکہ آٹھ گھنٹے کے بجائے بارہ گھنے اور چودہ گھنٹے تک
خواتین کا مسلسل کام شائد لوگوں کو قبول ہو لیکن راقم کیلئے یہ خواتین
کیساتھ زیادتی تھی ہاں اگر ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہوتی تو پھر ٹھیک تھا - لیکن
وہاں کچھ عرصہ گزرنے کے بعدایک عادت راقم کی پختہ ہوگئی کہ اپنے کام سے کام
رکھنا اور خاموش رہناجس کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی- |
|