خواجہ سرا کے مسائل
(Shahzad Saleem Abbasi, )
کالم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے کبھی کچھ
تشنگی بھی رہ جاتی ہے۔ بوجوہ سعی کامل اوراحساس کے کچھ پہلوؤں پرنظر ثانی
اور چند ضروری حقائق اور امور کا ادارک کر نابھی ضروری ہوتا ہے۔ میں نے
اپنے پچھلے کالم ’’کیا خواجہ سرا انسان نہیں ؟‘‘ میں سوشل میڈیا اور
الیکٹرانک میڈیا پر جاری خواجہ سراؤں پربیتے چشم کشا حالات و اقعات پر اپنے
احساسات کو زیب قرطاس کیا تھا۔ نبی مہربان ﷺ کی حدیث کے مطابق ’’ہر مقتدر،
منتظم اور حکمران سے اسکی رعیت (عوام) کے بارے میں پوچھا جائے گا ‘‘۔ایک
واقعہ کا اختصار کیساتھ ذکر از بس ضروری ہے ۔تقریبا تین سال ہونے کو ہیں کہ
تقریبا ہر سنڈے کو ایک خواجہ سرا ہمارے گلی میں چکر لگا تا تھا اور کبھی دس
، کبھی بیس اور کبھی بچاس روپے لے کے دعائیں دیتا ہوا آگے نکل جاتا ۔ لیکن
اس بار کچھ عجیب ہی ہوا میں ابھی سویا تھا کہ میرے بھتیجے نے مجھے بلایا کہ
چاچو گیٹ پر ایک کھسرا آیا ہے اور آپکو بلا رہا ہے میں گیٹ کی طرف بڑھا تو
باہر سے آواز آئی ،نو ر آئی ہے میں نے اسے پچاس روپے تھما کر جان چھڑانے
میں عافیت سمجھی اور کونڈی لگا کر اندر آنے لگا تو خواجہ سر ا نے کہا کہ
مجھے آج زیادہ پیسوں کی ضرورت ہے، میرے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں ہے ۔ میں
نے ’’نور‘‘ کوڈرائینگ روم میں بٹھایا اور پھر نور تھی اور اسکی غم بھر ی
داستان حیات جسے اس نے اپنے خون اور پسینے سے عرق ریز کیا تھا ۔’’نور‘‘ نے
بتایا کہ جب میں دس سال کی تھی تومیرے گھر والے مجھے کہتے کہ تمھارے آواز ،لہجہ،
چال ڈھال مردانہ کیوں ہوتی جارہی ہے ؟ تم خود پر توجہ دو اور اپنے آپ کو
درست کرنے کی کوشش کرواور مجھے سمجھاتے ہوئے میرے ماما پاپا مختلف اذیتیں
اور سزائیں بھی دیتے تھے اور اکثردربدری کا طعنہ بھی ملتا۔ ’’نور‘‘کے مطابق
ماں باپ اسے گھر سے باہر جانے دیتے تھے، نہ گھر کے کسی دوسرے فیملی ممبریا
باہر سے آئے کسی مہمان سے میل جول کی اجازت دیتے اورجب کوئی ماما بابامیری
بابت پوچھتا ہے تو میرے گھر والے گھریلو ملازم کہہ کے تعارف کراتے
تھے۔’’نور‘‘ اپنی آپ بیتی سناتی جا رہی تھی اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیا ں
بہاتی جارہی تھی۔ آبدیدہ دل کیساتھ میں بھی معاشرتی بدقسمتی کا جائزہ لے
رہا تھا کہ اچانک ’’نور ‘‘ نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ پھر ایک بد نصیب
دن ایسا بھی آیا کہ میرے ماما پاپا نے مجھے بارہ سال کی عمر میں گھر سے
ہمیشہ کے لیے نکا ل دیا!! ( پہلی ذمہ داری گھر والوں پر عائد ہوتی ہے۔ کیا
ہم اپنے بچوں سے صرف معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے دستبردار ہوتے رہیں گے؟)وہ
دن تھا اورآج کا دن ، مجھے نہیں پتہ میرے والدین کیسے ہیں اور کہاں ہیں؟ یہ
بتاتے ہوئے نور کی آواز غرّا گئی اور مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا ۔ نور نے کہا
میں جیسے ہی باہر نکلی تو ایک ٹیکسی والا میرے قریب آیا اور کہا کہ کدھر
جانا ہے؟ میں غم سے نڈھا ل تھی اور معاشرے کے بے رحم تھپیڑوں سے کوسوں دور
تھی ، ٹیکسی والے نے مجھے پھر پوچھا کہ کہاں جانا ہے ؟ میں نے کہا مجھے
نہیں پتہ کہ کدھر جاؤں؟ میری آواز اور لہجے سے وہ بھانپ گیا کہ یہ تو خواجہ
سرا ہے وہ ٹیکسی سے باہر نکلا اور مجھے ٹیکسی میں بٹھا کر ایسے مقام پر لے
گیا جس دلدل سے میں آج تک نہیں نکل سکی اور وہ دلدل تھی گناہوں کا اڈا۔ ’’نور‘‘
کی زندگی کا قضیہ چل رہا تھا اور میری آنکھوں سے بھی ’’نور‘‘ کے لیے غموں
کادریا بہہ رہا تھا۔ خیر میں بھی اسی معاشرے کا حصہ تھا میں نے بھی ’’نور‘‘
کی داستان کو سنا اور بھلا دیا ۔
کچھ عرصے بعد پشاور میں خواجہ سراؤں کے خلاف محاذ گرم ہو گیا اور چن چن کر
پچاس سے زائد خواجہ سراؤں کو نیند کی موت سلا دیا گیا۔25 مئی 2016 کو23 سا
لہ علیشہ کوظالم سماج نے لہو لہان کر دیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے
پشاورہسپتال میں دم توڑ گئی۔ بے در پے ایسے واقعات ہمارے بے حس معاشرے کی
عکاسی کرتے ہیں۔ 2009 میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خواجہ سراؤں
کے حقوق پربات کرتے ہوئے چند اہم فیصلے کیے، جن میں شناختی کارڈ میں ان کی
جنس کے تعین کا خانہ، سرکاری ملازمتوں میں ان کے لیے کوٹا رکھنے کی ہدایت
اور انھیں ووٹ دینے کا حق دینے کی ہدایات جاری کیں۔لیکن ’’ہنوز دلّی دور
است‘‘ والی کہاوت صادق آتی ہے۔شاید لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ (معاذاﷲ) خواجہ
سرا صرف سڑک پر کھڑے ہو کر تالیا بجانے ، بھیک مانگنے یا نجی پارٹیوں میں
رقص کرنے کے لیے خدا رب العزت نے پیدا کیے ہیں! خو د کو عقل کل سمجھنے والے
روشن خیال لوگوں سے لیکر دن رات برابری کا پرچار کرنے والے جید علماء تک
میں یہ منظر کبھی نہیں دیکھا گیا ہے کہ کسی نے ہیجڑے کے ساتھ ہاتھ ملایا ہو،
ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ہو، عیدین کے مواقع پر انہیں بھی عید مبارک کہی
ہو۔ روشن خیالی یا مذہب کی نظر میں کیا خواجہ سرا کسی حقوق کے مستحق نہیں
ہے؟ اگر ہیں تو پھر انہیں اس بے رحمی کے ساتھ نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟
خاص طور پر میں پاکستان معاشرے میں خواجہ سرا کو ایک اچھوت کی طرح دیکھا
جاتا ہے۔
ساتھی فاؤنڈیشن اورصنف انٹرایکٹو الائنس (GIA) پاکستان میں transgender کے
حقوق کے لیے کام کرنے والی دو تنظیمیں ہیں جن کے مطابق تیسری جنس کے حامل
افراد کی تعداد ساڑھے چھے لاکھ سے زیادہ ہے جو کہ انسانی بنیادی حقوق سے
محروم ہیں۔خواجہ سرا ؤں کے مسائل یہ ہیں کہ انہیں اپنی شناخت، روزگار،
تعلیم، ہسپتال ، سکول کالج،تھانہ ،پر امن ماحول، شیلٹر ہوم، کمیونٹی اور
ووٹ ڈالنے کا حق تک میسر نہیں۔اگر حکومت چاہے تو خواجہ سراہوں کے حوالے سے
سردست ایک قانون بنا دے جس کے درج ذیل مندرجات ہوسکتے ہیں (1)خواجہ سرا ؤں
کو کسی جگہ پر حراساں کرناجرم تصور ہوگا۔(2 ) خواجہ سراہوں کے لیے تعلیمی
اداروں میں داخلے کا کوٹہ اور کم از کم انٹرمیڈیٹ تک انہیں فری تعلیم دی
جائے گی تاکہ انہیں بھی تعلیم کے بل بوتے پر نوکری اور روزگار کے مواقع
میسر آئیں۔(3) ہسپتالوں میں عام لوگوں کی طرح خواجہ سراہوں کا مکمل علاج
کیا جائے۔(4)انکی رہائش کا مناسب بندوبست کیاجائے اور DHS یعنی ڈیپارٹمنٹ
آف ہوم لس سروسز کے ذریعے انکی اکثریتی آبادی والی جگہوں پر ٹرانس جنیڈر
سینٹرز ، شیلٹر ہوم یا کمیونٹی سینٹر ز کا قیام عمل میں لایا
جائے۔(5)شناختی کارڈز کا اجرا ء کر کے ووٹ دہی کا حق دیا جائے۔
یہ(خواجہ سرا) بھی آپ کا ہی خون ہے۔ ان کی قدر کریں اور ان کو اپنائیں۔ ان
کو اندھیری راہوں کا مسافر بننے سے بچانا ہم سب کا فرض ہے۔ضرورت اس امر کی
ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے خواجہ سراؤں کو بھی باقی دو
جنسوں کی طرح پاکستان کا شہری تسلیم کرے اور مساوات کی بنیاد پر حقوق کی
ضمانت دے۔ ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے خواجہ سراؤں کے مسائل، دکھ درد
اور پریشانیوں کو اپنا سمجھ کر معاشرے کی مثبت تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا
ہوگا۔ |
|