میں ہر روز مسلم امہ اور خاص طور پر
پاکستانی قوم کی کمزوریوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور ایسی کمزوریاں
کہ جو معاشرے کو تباہی کی جانب لے کر جانے کا سبب بن رہی ہیں نبی ﷺ اﷲ کے
آخری رسول اور پیغمر ،قرآن مسلمان معاشرے اور قوم کے پاس نور ہدایت اور
مسلمان قوم دنیا بھر میں اپنی کمزوریوں کے سبب رسوائی کا شکار کیوں ہے۔
نفسا نفسی کا دور قتل و غارت کے سلسلے اور خود کو چوہدراہٹ کے گھیرے میں
گھیر کر دوسرے انسانوں کو کمزور دیکھنے کی روایت کے پیچھے بلآخر کیا وجہ ہے
کہ مسلمان دنیا کا معتبر ترین شخص ہونے کے باوجود حقارت کی نگاہ سے دیکھے
جانے والے افراد میں دیگر مذاہب کے سامنے بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے دنیا
مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے کے در پے ہے اس میں اچھے اور برے کی تمیز
کئے بغیر صرف اور صرف مسلمان قوم کو دیگر قومیں اکٹھا ہوکر ختم کرنے کی
کوششوں کے درپے ہیں۔ میں نے نماز حضرات کو بھی دیکھا اور ایسے افراد سے بھی
ملاقاتیں ہوئیں کہ جو دنیا داری کے امور میں مکمل طور پر پھنسے ہوئے ہیں۔
لیکن نفسا نفسی کے دور کی وجہ آج کے معاشرتی نظام کے کمزور ہونے کی وجہ اور
دیگر مذاہب کے سامنے جھکاو ہونے کی وجہ صرف ایک ہی نظر آتی ہے جو کہ اپنے
مذہب کے احکامات اسلام کو سمجھنے ،سمجھ کر عمل کرنے سے پیچھے ہٹنے کے بغیر
اور کچھ نہیں۔ جس قوم کے پاس اﷲ کی کتاب قرآن پاک ہو اور وہ قرآن جس کے
مقابلے میں کسی انسان کے پاس ایک لفظ لکھنے کی بھی جرات نہ ہووہ قرآن جس کی
حفاظت کا ذمہ ہمارے خدا نے اپنے سر لیا ہوتو کیا وجہ ہے کہ ہم اس بات کو
سمجھنے کے باوجود کہ صحابہ کرام کے قوانین قرآن کے اصولوں پر دیگر مذاہب پر
چلتے ہوئے دیکھ کر اسلام کی بڑی قیادت صحابہ کرام سمیت اولیا اﷲ کے نقش قدم
پر چلتے ہوئے دیگر مذاہب کو دیکھ کر ہم خود نور ہدایت کا فائدہ کیوں نہیں
اٹھا رہے جب اقوام اور معاشرے اپنی روایات اپنی مذہبی تعلیمات کو بھلا کر
دیگر معاشروں کے پیچھے لگنا شروع ہوجاتے ہیں تو ہمیشہ ایسی اقوام اپنا وجود
خود کھو بیٹھتی ہیں۔ایک تلخ اور جامع حقیقت کو جھٹلانا کسی صورت بھی ممکن
نہیں ہوسکتا کہ آج ہم میں سے 90فیصد لوگ شریعت اور اسلام کے مطابق دن میں
دس مرتبہ کئے جانے والا عمل ہاتھ دھونا درست طریقے سے نہیں کر پارہے۔ آج ہم
میں سے بیشتر لوگ وہ الفاظ کہ جس کی ادائیگی کے بغیر ہمارا اسلام میں داخلہ
مکمل طور پر بند ہے اور ان الفاظ کے اچھے استعمال کرنے اور اس کو اپنانے کا
ارادہ کرنے اور وہ بھی صرف چند الفاظ جو کہ دو سیکنڈ میں ادا کئے جاسکتے
ہیں کلمہ طیبہ جسے پہلا کلمہ بھی کہا جاتا ہے درست طریقے سے ادا نہیں
کرسکتے۔ جن لوگوں نے بچپن میں ان الفاظ میں یاد کیا وہ کچھ ہی عرصے کے بعد
بھلا بیٹھے آج اسلام کو ماننے والے پاکستانی بے شک وہ اپنے اپنے عقیدے کے
مطابق عمل کریں لیکن مساجد کے اندر دن میں باقاعدگی سے 99فیصد افراد داخل
ہی نہیں ہوسکتے۔ جبکہ مسلمان قوم کے اندر دو سو افراد میں سے پانچ افراد
ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو کہ عیدالفطر اور عیدالضح کے موقع پر بھی مساجد
کا رخ نہیں کرتے۔ جبکہ 30فیصد افراد نے اپنے لیے اور خود کو دنیا اور آخرت
کیلئے نور ہدایت فراہم کرنے والی اﷲ کی جانب سے بھیجی گئی باضابطہ کتاب
قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔جبکہ 95فیصد افراد اپنے جسم کو
پاک کرنے کے ان آداب کا سبق حاصل کرنے سے محروم ہیں کہ جو ضرورت کے وقت
استعمال کئے جاسکیں معاشرتی نظام کے اندر بے شمار افراد اپنے علماء اپنے
مدرسین کو ایک عام ملازم کی نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ مسلمان قوم کے 60فیصد
لوگ ایک دوسرے کو ملتے وقت اسلام و علیکم کے دو الفاظ استعمال کرنے سے بھی
گریز کرتے ہیں بلکہ مسجد کے اندر روزانہ کی بنیادوں پر نماز کی ادائیگی
کیلئے جانے والے کچھ ایسے افراد بھی دیکھنے کو ملے جو روزانہ پانچ وقت نماز
کی ادائیگی کیلئے مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن دین اسلام کی جانب سے فراہم
کیے گئے بنیادی اصولوں کا علم حاصل کرنے سے ابھی تک قاصر ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے
اور اﷲ کی جانب سے بھیجی گئی نور ہدایت قرآن پاک نے مسلمان کو باوقار
بااصول زندگی گزارنے کے وہ طریقے بتائے کہ جس سے ایک سچا مسلمان نہ صرف
آخرت کیلئے اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کرسکتا ہے بلکہ اپنے مذہب پر عمل
کرکے دنیا کی تمام اقوام کے اندرایک دلیر بہادر اور باوقار فرد کے طور پر
سامنے آسکتا ہے۔ بے شک مسلمانوں کیلئے اور خاص طورپر سچے مسلمانوں کیلئے
زندگی گزارنے کے حوالہ سے تاریخ میں کچھ ایسی مشکلات کو بھی دیکھا گیا کہ
جو ان کی زندگی کے اندر پیش آنے کے بعد آخرت کیلئے جنت کا سبب بنتی ہیں
اخلاق کے ایسے درس فراہم کئے گئے کہ جس کے اپنا کر ملسمان سبھی اقوام کے دل
جیت سکتا ہے بلکہ ان کو اپنی قوم کا حصہ بنا سکتا ہے لیکن ہماری گھبراہٹ
ہماری نفسا نفسی اور ہماری بے چینی کے لمحات کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں
ہوسکتا کہ جب تک ہم اپنے ہی مذہب اسلام اپنے نبی کی ہدایت پر مکمل طور پر
عمل پیرا نہیں ہونگے |