یہ دنیا سرائے کی مانند ہے‘ کوئی آ رہا ہے
تو کوئی جا رہا ہے۔ سرائے میں مستقل کوئی اقمت نہیں رکھتا۔ ہاں ہر آنے والا
اپنا ایک تاثر ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ کوئی اچھا تو کوئی برا۔ اس تاثر کے حوالہ
سے ہی‘ اس مسافر کو یاد میں رکھا جاتا ہے۔
بابا صاحب بھلے آدمی تھے۔ طبعا مہربان‘ شفیق اور اپنے پرائے کے غم گسار تھے۔
کسی کو دکھ میں دیکھتے‘ تو تڑپ تڑپ جاتے۔ جب تک اس کی تکلیف دور کرنے کا
پربند نہ کر لیتے‘ سکھ کا سانس نہ لیتے تھے۔ اچھائی اور خیر کے معاملہ میں‘
دھرم اور مسلک ان کے نزدیک‘ کوئی معنویت نہ رکھتا تھا۔ ان کا موقف تھا‘ جس
طرح اللہ سب کا نگہبان ہے‘ اسی طرح انسان بھی سب کا نگہبان ہے۔ اس کی پیدا
کی ہوئی کوئی بھی مخلوق‘ دکھ میں ہے تو انسان کو‘ اس کا ہر حال میں دکھ دور
کرنا چاہیے۔ کوئی برا کرتا ہے تو یہ اس کا کام ہے‘ برائی کے بدلے برائی
کرنا‘ تمہارا کام نہیں۔ تم جو بھی کرو‘ اچھا اور اچھے کے لیے کرو۔
ان کے پاس‘ ہر دھرم سے متعلق لوگ آتے۔ کوئی خیر و برکت کی دعا کے لیے آتا‘
تو کوئی علم وادب اور مذہب سے متعلق گفتگو یا مشاورت کے لیے آتا۔ سب کے
ساتھ یکساں سلوک روا رکھتے۔ تحمل سے اس کی سنتے اور پھر اپنا موقف پیش کرتے۔
جب تک وہ مطمن نہ ہو جاتا‘ رخصت نہ کرتے۔
بائیبل مقدس‘ رومائن‘ بھگوت گیتا‘ گرنتھ صاحب کا ورق ورق انہوں نے پڑھ رکھا
تھا۔ بدھ مت کے متعلق بھی اچھا خاصا نالج رکھتے تھے۔ پہلے تو متعلقہ کی
کتاب اور پھر قرآن مجید کے حوالہ سے بات کرتے۔ یار کمال کے شخص تھے۔ کوئی
نذر نیاز لے آتا تو رکھ لیتے‘ جب جانے لگتا تو اس تاکید کے ساتھ واپس کر
دیتے‘ کہ چیزیں صرف اپنے بیوی بچوں میں تقسیم کرنا۔ اصرار کے باوجود کچھ نہ
رکھتے۔ فرماتے بیٹا‘ تم چنتا نہ کرو‘ اللہ مجھ اور میری بھوک پیاس سے خوب
خوب واقف ہے۔
ایک بار ایک اجنبی آیا۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی‘ دروازے پر کھڑے ہو کر‘ بابا
صاحب کو برا بھلا کہنے لگا۔ جب حد سے گزرنے لگا‘ تو بیٹھے لوگوں میں سے ایک
اٹھ کر اس کی ٹھکائی کرنے لگا۔ بابا صاحب نے اسے منع کر دیا۔ بہت کچھ کہہ
لینے کے بعد وہ چلا گیا۔
ایک بولا بیڑا غرق ہو اس خانہ خراب کا‘ کتنی بکواس کر رہا تھا۔ اگر بابا
صاحب نہ روکتے‘ تو آج میں اسے اس بدتمیزی کا ایسا مزا چکھاتا کہ نسلوں کو
بھی منع کر جاتا۔ بابا صاحب اس کے اس طرز تکلم سے سخت پریشان ہوئے۔ پھر
فرمانے لگے‘ بیٹا کبھی اور بھی کسی بھی صورت میں‘ گفتگو میں شائستگی کو
ہاتھ سے نہ جانے دو۔ یاد رکھو‘ ایک طرف نیکیوں کا انبار لگا ہو تو دوسری
طرف ایک بددعا‘ بددعا اس پر بھاری ہے۔ کیا تمہیں حضرت یونس علیہ السلام کی
بددعا کا انجام یاد نہیں۔ انہیں مچھلی کے پیٹ میں جانا پڑا۔ پھر فرمایا
بددعا کی بجائے تم دعا بھی دے سکتے ہو کہ اللہ اسے ہدایت دے۔ بعید نہیں وہ
وقت قبولیت کا وقت ہو۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص دوبارہ سے آ گیا اور دروازے پر کھڑا ہو کر‘ اندر
آنے کی اجازت طلب کرنے لگا۔ اب کہ وہ اور اس کا انداز بڑا مہذب اور شائستہ
تھا۔ سب اس کے اس دوہرے روپ سے حیران رہ گئے۔ بابا صاحب نے اسے اندر آنے کی
اجازت دے دی۔ اندر آ کر وہ بابا صاحب کے پاؤں پڑنے لگا تو بابا صاحب نے اسے
سختی سے منع کر دیا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ وہ مسکراہٹ کیا
تھی‘ جنت کی ہوا کا ایک جھونکا تھا‘ جو سب کو نہال کر گیا۔
وہ شخص کہنے لگا: سرکار میں تو آپ کے ظرف کا امتحان لے رہا تھا۔ جیسا اور
جو سنا ویسا ہی پایا۔ آپ سچے ولی ہیں۔
نہیں بیٹا‘ یہ تم محبت میں کہہ رہے ہو۔ میں بےچارہ کہاں اور ولایت کہاں۔
ہاں یہ اللہ کا احسان اور لطف وکرم ہے‘ جو اس نے توفیق دی اور میں اس
امتحان میں کامیاب ہوا۔
سوچتا ہوں‘ اب ایسے لوگ کہاں ہیں۔ اگر کوئی ہے‘ تو چلا کیوں جاتا ہے۔ کیا
کریں‘ یہاں کوئی ٹھہرنے کے لیے نہیں آتا۔ اچھا ہو کہ برا‘ گریب ہو کہ امیر‘
شاہ ہو کہ فقیر‘ اسے ایک روز جانا ہی تو ہے۔ لالچ‘ ہوس اور حرص نے انسان
کو‘ انسان نہیں رہنے دیا۔ کاش ہمیں یقین ہو جائے‘ کہ ہمیں ہر صورت میں جانا
ہی ہے اور کوئی یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔ جمع پونجی ساتھ نہ جا سکے
گی۔ جاتے وقت ہاتھ خالی ہوں گے اور اپنے قدموں پر نہیں جا سکیں گے۔ |