جدید اردو شاعری اور اسکی تشکیل کو لے کر
متنازعہ رائے پائ جاتی ہے کم سے کم میرا تجزیہ و تجربہ تو یہی کہتا ہے .اسلیئے
اس موضوع پر لکھنے کی ایک ادنی سی جرات کررہی ہوں.امید ہے آپ اس بارے میں
اپنی مفید آراء و قیمتی مشوروں سے ضرور مجھے مستفید کریں گے.
تو بات ہورہی تھی جدید دور کی وہ بھی شاعری کے حوالے سے تو اگر بین
الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو نشاة ثانیہ کا دور دور جدید کہلاتا ہے.اس
دور کا آغاز احیائے علوم کی صدی یعنی سولہویں صدی سے ہی ہوگیا تھا.وہ دور
جو نئ دنیائیں اور جدید خیالات و افکار دریافت کرنے کا دور تھا.وہ دور جو
اکبر اعظم کا دور تھا.1857 میں ہندوستان میں اس تصور نے جنم لیا. جب
ہندوستان میں ایک نئے سماجی ذہنی اور علمی و سیاسی انقلاب کا آغاز ہوا
مغلیہ دور ختم ہونے اور ایک غیر قوم کے محکوم ہونے کے احساس نے پورے ملک
میں مایوسی بددلی اور احساس محرومی کی ایک فضا پیدا کردی.اس دوران مرد
بحران کی صورت میں سر سید احمد خان مسلمانوں میں آگے بڑھنے کی تحریک کے
پہلے علمبردار بن کر ہندوستان کے افق پر نمودار ہوئے. بر صغیر کے مسلمانوں
میں مادی وسائل سے اس نئ صورتحال سے نبردآزما ہونے کی سکت نہیں تھی.اپنے
علوم چھپانے کا رویہ عام تھا. ذاتی ترقی اور مفاد پرستی اور تنگ نظری انھیں
یہ اجازت دینے سے قاصر تھی کہ وہ اپنے فکر وخیال سے مخالف قوم سے مقابلہ
کریں.
سرسید نے مسلمانوں کی معاشرتی سیاسی اور اقتصادی فلاح وبہبود کے لیئے جدید
علوم سے واقفیت اور انگریزی زبان سیکھنے کی تحریک چلائ.انھوں نے اردو نثر
کے مختلتف نئے اسالیب متعارف کرائے اور اس میں وسعت اور ہر علم اور فن سے
متعلق مضامین کی ادائیگی کا آغاز کیا. جدید علم اور نئ زبانیں سیکھنے کی
اہمیت پر زور دیا وہ اچھی طرح واقف تھے کہ دھوکے سے محکوم بنائے جانے پر
نفرت کے اظہار کے طور پر مسلمان تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرکے اپنا ہی
نقصان کررہے ہین اس بات کو انگریز اپنے مفاد میں استعمال کرین گے ہوسکتا ہے
آگے یہ بندش مستقل کردی جائے اور مسلمان جو ہمیشہ سے علمی تاریخ کا ایک در
خشاں باب رہے پیچھے دھکیل دیئےجائیں.گو کہ انکی تحریک کو اپنی ہی قوم کے
تنگ نظروں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا پر اسکے باوجود انھوں نے وہ
خدمات انجام دیں.جو ناقابل فراموش ہیں ادب کے حوالے سے بھی انکی خدمات
دنیائے ادب میں ہمیشہ سراہی جاتی رہیں گیں.
آپکی تحریک کے زیر اثر ادب کی دونوں اصناف پر نثر اور نظم پر خاص توجہ دی
گئ.اس سے پہلے کا دور غزل کا تھا.نظم گوئ منہ کا ذائقہ بدلنے تک محدود
تھی.انگریزی تعلیم کے فروغ کے بعد کچھ لوگ براہ راست کچھ بالواسطہ انگریزی
شاعری کی طرف رجوع ہوئے اور اس نئے طرز کی شاعری کے اثرات قبول کرنے
لگے.اور نظم اور نثر فروغ پانے لگیں.جو تبدیلی یہاں رونما ہورہی تھی مغرب
بھی اسی کے سحر میں گرفتار تھا.
سرسید کی انقلابی تحریک کے زیر اثر سماجی شعور کی شاعری کا آغاز ہوا وہ
اپنے ابتدائ رومانیہ تصور سے آزاد کئ نئے موضوعات کو اپنی گرفت مین لانے
لگی.علامہ شبلی نعمانی، حالی اور آزاد جیسے شعراء نے اسے آگے بڑھانے کا
بیڑہ اٹھایا.شبلی چاہتے تھے کہ مسلمانوِں کا عہدزریں واپس لوڑ آئے دوسری
طرف حالی بھی اپنی مسدس کے حوالے برصغیر کے مسلمانوں کو جگانا چاہتے تھے
تاکہ مسلمان اپنی پرشکوہ اور پر عظمت روایت کو زندی کریں.انھوں نے قدیم
شاعرانہ تصورات میں وسعت پیدا کی اور مثنوی جیسی قدیم صنف مین نئ روح پھونک
دی.سادہ زبان اور تشبیہات و استعارات سے پاک مسدس ذہن و دل کو متاثر ہی
نہیں کرتی بلکہ وہ اس وقت کی ضرورت تھی.تاکہ عام قاری بھی خیال وفکر کی
گہرائ ناپ سکے.خود حالی اس بارے میں اسطرح لکھتے ہیں.
اے شعر دلفریب نہ ہو تو، تو غم نہیں
پر تجھ پر حیف ہے جو نہ ہو تو دلگداز
غور سے دیکھیئے تو قدیم اور جدید کا فرق بھی واضح ہوجائے گا قدیم شاعری
دلفریب یعنی کہ لفظی کاریگری اور دلکشی سے عبارت اور دقیق تھی.جبکہ جدید
شاعری آسان فہم اور دلگداز تھی.
1874میں انجمن پنجاب لاہور نے اس ضمن میں ایک نئ تحریک اٹھائ جسکے سرپرست
کرنل ہالرائڈ تھے.اس کے منعقد کردی جلسے میں پہلی بار آزاد نے اردو شاعری
کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا
"میرے ہم وطنو! مجھے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ عبارت کا زور، مضمون کا جوش
و خروش اور لطائف و ضائع کے سامان تمہارے بزرگوں نے اسقدر دیئے ہیں.کہ
تمہاری زبان کسی سے کم نہیں فقط اتنی بات ہے کہ وہ چند بے موقع احاطوں میں
گھر کر محبوس ہوگئے ہیں."
آزاد نے انگریزی شاعری سے متاثر ہوکر اردو شاعری کا کڑا محاسبہ کیا.اور
کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں ایک نئ بنیاد رکھی اس مجلس میں ایک نئ طرز کی
شاعری کی بنیاد رکھی گئ پہلی بار مصرع طرح کے بجائے نظم کا عنوان دے کر نئے
طرز کے مشاعروں کی ابتداء کی گئ.مقصد نظم کو مربوط کرنااور ایک اخلاق آمیز
رومانوی اور فطرت پسند شاعری کو فروغ دینا تھا گو کہ اس پہلے مناظر فطرت
انیس و دبیر کے مرثیوں میں بھی نظر آتے ہیں ـمثنویات میں جذبات نگاری بھی
خوب ملتی ہے جبکہ موضوعاتی نظموں کے حوالے سے نظیر اکبر آبادی کی مشہور
زمانہ نظمیں آدمی نامہ، ہنس نامہ، بنجارہ نامہ بھی موجود تھیں.پر شعوری طور
پر انھیں انجمن پنجاب کے منعقد کردہ مشاعروں میں آگے بڑھایا گیا.پہلے
مشاعرے کا نام تھا برکھارت حالی نے اس موقع پر موضوع کے حوالے سے اپنی شہرہ
ء آفاق نظم پڑھی.جسکا ایک شعر پیش خدمت ہے
قدرت کے عجائبات کی کان
عارف کے لیئے کتاب عرفان
اس طویل نظم میں حالی نے زبان کی سادگی کے ساتھ پاکیزہ جذبات اور واقعہ
نگاری کے ساتھ برسات کے تمام پہلوؤن کا تفصیلی احاطہ کیا جیسے نثری خیالات
بیان کیئے گئے ہوں.انھوں نےاس تصور کی مخالفت کی کہ فطرت کے مناظر مخصوص
لوگوں کے لیئے ہیں.شاعری کے حوالے سے فطرتسے اکتساب کا عمل ناصحانہ نہین
ہونا چاہیئے تزکیہ ء نفس اور اخلاقیات کا اصول نصیحت آموز نہ ہو بلکہ درد
کے ساتھ جمالیات کا عنصر بھی نمایاں ہو اسی طرح ایک نظم حب الوطنی بھی پیش
کی جبکہ آزاد نے اپنی مثنوی حب وطن پیش کی.حالی اور آزاد عربی، فارسی،
منطق، جغرافیہ اور تاریخ سے واقف تھے اسلیئے انکو نئے خیالات کو نئے پیرائے
میں ڈھالنے مین دشواری پیش نہیں آئ.جدید استعارات و تشبیہات سے شاعری کو
سجایا گیا حالی کی شاعری کا حجم زیادہ قوی تھا انکے یہاں مقصدیت زیادہ
نمایاں ہے جبکہ آزاد کا طرہ نثر ہے انکی شاعری میں تمثیل کا رنگ نمایاں
ہےجیسے
حب وطن اسے نہیں کہتے کہ باغ سے
نکلے جو گل تو خار ہو فرقت کے داغ سے
حب وطن نہ یہ ہے کہ پانی میں گر نہ ہو
ماہی کی زندگی کسی صورت بسر نہ ہو
حب وطن اسے بھی نہیں کہتے اہل ہوش
یاد وطن میں کچھ دے گئے جوش کہ خروش
حالی کی نظم کا آغاز
اے سپہر بریں کے سیارو!
اے فضائے زمیں کے گلزارو
اے پہاڑوں کی دلفریب فضا
اے لب جو کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
غرض یہ ایک طویل فہرست ہے. اسکے نتیجے میں اردو شاعری میں کئ شہرہ ء آفاق
نظموں کاقیمتی اضافہ ہوا.لیکن اسکے نتیجے میں زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے
کا رحجان فروغ پانے لگا اور دو نئ تحریکوں کا آغاز ہوا
ادب برائے ادب
ادب برائے زندگی
زندگی ایک نئے رخ پر دیکھی جانے لگی.قدیم رحجانات ترک کرکے نئے موضوعات اور
تجریدی چیزوں کو موضوع سخن بنایا جانے لگا.زندگی کے نئے راستے پر چلنے کے
لیئے جسکے خواب اور اندیشے سرسید کی تحریک نے پروان چّڑھائے تھے.نئے خیالات
و افکار کی ضرورت تھی. بہت سے قابل قدر نام سامنے آئے جن میں ایک نام شاعر
ملت جناب علامہ اقبال رح کا بھی تھا.انھوں نے جدید شاعری میں بہت اعلی سطح
کا معیار قائم کیا.وہ پورے عہد کا نمائندہ بن کر سامنے آئے.
جدید شاعری کے آغاز میں ہمیں حالی، آزاد،شبلی،اسمعیل میرٹھی جیسے شعراء نظر
آتے ہیں.جنہوں نے بدلتے وقت کے تقاضوں کو ہمیشہ مدنظر رکھا.مغربی علوم سے
بھی استفادہ کیا.شاعری میں اردو لٹریچر کے اندر انگریزی زبان کے مختلف
الفاظ جیسے ٹکٹ،اسٹامپ،کلکٹر،وارنٹ،بل، ممبر،پینشن،اپیل،قسمت جیسے الفاظ
تیزی سے جگہ بنانے لگے لوگ جدید شاعری اور اسکی اہمیت سے واقف ہونے
لگے.مشکل ردیف قافیے ترک کیئے گئے جدید علوم اور سائنسی موضوعات کو بھی
اسکا حصہ بنایا گیا یہ وہ تشکیلی دور تھا جب ادب کا رشتہ شعوری طور پر اپنے
زمانے کی سیاست اور سماج سے جو ڑ کر اجتماعی زندگی کے مسائل کا عقلی حل
ڈھونڈنے کی راہ ہموار کی گئی
اگر یہ عہد نہ ہوتا تو اردو شاعری کو اقبال جیسا شاعر بھی نہیں ملتا اقبال
ایک ایسے دور کی آواز بن کر سامنے آئے جنکی سب سے بڑی خوبی دفعت خیال اور
فلسفیانہ بلند آہنگی اور تصوف تھا.انکی ابتدائ شاعری مین انکے استاد اور
انوکھے غزل گو مشہور شاعر داغ کے اثرات ملتے ہیں.لیکن خیالات و افکار اور
انداز فکر بڑی حد تک اقبال کا ذاتی ہے.یورپ کے قیام کے دوران یہ رنگ جلد
اتر گیا یہان کے علمی خزانوں سے آپ نے بڑی حد تک اکتساب کیا مولانا رومی کے
اثرات بھی رونما ہوئے پھر سر آرنلڈ کی شخصیت نے بھی اقبال کی سوچ پر گہرا
اثر ڈالا.وطن واپس آکر آپکے سامنے حالی، شبلی جیسے دیگر شعراء کے شعری
نمونے سامنے تھے. سو آپ نے اپنی قومی شاعری کی ابتداء "نالہء یتیم "سے
کی.جسکا ایک شعر ہے
ہائے کیا فرط طرب میں جھومتا جاتا ہے ابر
لیل بے زنجیر کی صورت اڑا جاتا ہے ابر
اس نظم مین موجود تشبیہات نئ اور مغربی شاعری سے قریب تر تھین.آپکی شاعری
میں وطنیت اور قومیت کا احساس پوری شدت کے ساتھ نمایاں ہونے لگا.پوری گہرائ
کے ساتھ
عروج قومی،زوال قوی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے
ہمیشہ ردوبدل کے اندر یہ امر پولی ٹیکل رہا ہے
آپکو تبدیلی کب اور کہاں سے شروع ہوئ بخوبی واقفیت ہوگئ ہوگی یقیننا یہاں
سے انھوں نے وطنیت کے تصور کو مزید وسعت دیتے ہوئے اسلامی اصول، اخوت اور
مساوات کو بھی فروغ دیا
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اسکا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
اقبال نے پہلی بار وطنیت کے تصور کو سیاست سے علیحدہ کرکے مذہبی تمدن سے
منسلک کردیا انکی معرکتہ الااراء نظموں میں شکوہ جواب شکوہ،خضر راہ،طلوع
اسلام، وطنیت،خطاب بہ جوانان اسلام، مسلم شامل ہیں شاید یہ فہرست طویل
ہوجائے. کیونکہ اقبال نے قوم کو شاعری کے زریعے جسطرح جگانے کی کوشش کی وہ
سرسید اور ساتھیوں کی شروع کی گئ تحریک کی انتہائ اور تکمیلی شکل تھی.جدید
شاعری اب ایک ایسے رتبے تک پہنچ چکی تھی جہاں شاعری اور پیغمبری کی سرحدیں
ملتیں ہیں.وہ شاعری جو مخصوص خیال بندی و عکاسی تک محدود تھی.اور آزاد حالی
اسعیل میرٹھی اکبر الہ آبادی جیسے شعراء سے ہوتی ہوئ اقبال تک پہنچی تھی
اقبال کے فلسفیانہ اور تصوف کے خیالات کی آمیزش سے ایک نئے قالب میں ڈھل
چکی تھی.اقبال نے ادب برائے زندگی کے مفسر کی حیثیت سے کائنات کے راز، حیات
کے بنیادی حقائق اور مابعد طبیعاتی مسائل اور اخلاقی مقاصد کو اعلی شاعری
مین پیش کیا میر غالب کے بعد اقبال وہ واحد شاعر تھے جنھوں نے اردو زبان و
ادب پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیئے.انھوں نے نئے سانچے پیدا کیئے نئ ادب
تراکیب وضع کیں.نفیس تشبیہات و استعارات کے ساتھ ساتھ جدید اردو شاعری کو
نئے آسان منفرد اسالیب سے روشناس کرایااور ایک نئے عہد کا آغاز کیا انکی
شاعری مین جو مقصدیت نمایاں تھی.اسکو اجاگر کرنے کے لیئے انھوں نے پرانے
مروجہ قواعد کی بھی پروا نہیں کی انکا کہنا تھا قاری تک اصل مقصد پہنچنا
ضروری ہے زبان کے مسائل اہل زبان جانیں.
اپنی شاعری سے وہ قوم میں آزادی کی وہ شمع جلانے میں کامیاب ہوگئے جس نے
آخر کار انگریز اقتدار کے ایوانوں کو جلا کر خاک کردیا. اور یہ واضح کردیا
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
جدید اردو شاعری اپنی پیش قدمی کی روایات کے ساتھ آج بھی جاری و ساری ہے
اور تمام تر مخالفت کے باوجود آج بھی کئ قابل قدر نام اسکے ساتھ وابستہ
ہیں.
شکریہ
حیاء غزل |