کراچی میں مسئلہ کراچی کا عام شہری نہیں بلکہ یوپی سی پی کی اشرافیہ ھے۔

انگریزوں نے جب 1937 میں عوامی انتخاب کے ذریعے برٹش انڈیا کے صوبوں میں جمھوری حکومتوں کے قیام کا عمل شروع کیا تو صرف پنجاب ' بنگال اور سندھ میں مسلمان وزیرِ اعظم منتخب ھوئے۔ یوپی ' سی پی میں یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کی جگہ ھندوؤں کے وزیرِ اعظم منتخب ھونے کے بعد یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو اپنی نوابی خطرے میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔ اس لیے یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کو معلوم ھوا کہ یہ مسلمان ھیں اور ایک علیحدہ قوم ھیں۔ ورنہ انکے آباؤ اجداد کو 350 سال تک ھندوؤں پر حکمرانی کرنے کے باوجود بھی علیحدہ قوم ھونے کا احساس نہیں ھوا تھا اور نہ ھی 1300 سال تک کے عرصے کے دوران کبھی کسی مسلمان عالم نے مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم قرار دیا تھا۔

پاکستان کے قیام کے بعد یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ نے پاکستان آکر پنجاب اور سندھ کے بڑے بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا اور خود کو بانیانِ پاکستان قرار دینا شروع کردیا۔ حالانکہ پاکستان کو پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اور بنگالی کی زمین پر بنایا گیا تھا اور 1940 سے لاھور میں قراداد پیش کرنے سے لیکر پاکستان کے قیام تک پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ اور بنگالی نے پاکستان کو بنانے کی عملی جدوجہد کی تھی۔

کراچی کے پاکستان کا دارالخلافہ بن جانے اور کراچی کے پورٹ سٹی ھونے کی وجہ سے یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کا خاص مرکز کراچی بن گیا۔

سندھ میں 1983 میں شروع کی جانے والی ایم آر ڈی کی تحرک کی آڑ میں سندھ کی آزادی کی تحریک کے 1985 کے انتخابات کے بعد پاکستان میں سندھی محمد خان جونیجو اور سندھ میں سندھی غوث علی شاہ کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ جونیجو کی حکومت بن جانے اور جی- ایم سید کے سندھودیش کی تحریک سے دستبردار ھوجانے کے باعث سندھ کی آزادی کی تحریک کے ناکام ھوجانے کی وجہ سے بھارتی خفیہ ایجنسی "را" نے 1986 میں یوپی سی پی کی مسلمان اشرافیہ کے ساتھ ساز باز کرکے ایم کیو ایم کو کراچی پر مسلط کرکے مھاجروں کے ذریعے جلسے ' جلوس ' مظاھرے ' جلاؤ ' گھیراؤ ' ھنگامے ' ھڑتالیں ' بھتہ خوری ' اغوا ' ٹارگٹ کلنگ کروا کر پاکستان کی معیشت برباد کروانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اس لیے اب ابہام کا خاتمہ ضروری ھے کہ؛
ایم کیو ایم کراچی کی نمائندہ جماعت ھے یا کراچی کے مھاجروں کی نمائندہ جماعت ھے؟

کراچی والے اور کراچی کے مھاجر میں زمین آسمان کا فرق ھے۔
کراچی والے صرف مھاجر نہیں بلکہ کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی بھی ھیں۔ جبکہ کراچی کے مھاجر صرف کراچی کے ' یوپی سی پی ' بہاری ' گجراتی ' راجستھانی ھیں۔

یو پی ' سی پی کے اردو بولنے والے ہندوستانی مھاجروں کو بتانا چاھیئے کہ؛
ان کا پاکستان سے کیا واسطہ؟
یہ کس قانون کے تحت پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' بلوچ کی زمین پر آکر آباد ھوئے؟

یوپی سی پی کی اشرافیہ کو مہاجروں کی احساسِ محرومی کا رونا بند کرکے اب کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کی کراچی میں احساسِ محرومی ختم کرنا ھوگی۔ کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کو کراچی میں عزت اور سکون کے ساتھ زندگی گذارنے کا حق دینا ھوگا۔

ایم کیو ایم کو وجود میں لاکراور مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر جس طرح 1986 سے یوپی سی پی کی اشرافیہ نے کراچی پر اپنا قبضہ کیا ھوا ھے اور کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کو یرغمال بنایا ھوا ھے ویسے ھی اگر کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی نے متحد ھوکر غیر مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست کا کرنا شروع کردی تو پھر کراچی کا سیاسی اور سماجی ماحول کیا بنے گا؟

کراچی میں مھاجر کی اکثریت کراچی کے صرف 2 اضلاع کراچی سینٹرل اور کورنگی میں ھے جبکہ کراچی کے 4 اضلاع کراچی ساؤتھ ' کراچی ویسٹ ' کراچی ایسٹ اور ملیر میں اکثریت پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کی ھے۔ یوپی سی پی کی اشرافیہ اگر کراچی پر قبضے اور کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کو یرغمال بنائے رکھنے کے لیے مھاجر کی بنیاد پر لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست اور دھشتگردی کر رھی ھے تو کیا کراچی کے پنجابی ' سندھی ' پٹھان ' ھندکو ' بلوچ ' بروھی ' کشمیری ' گلگتی بلتستانی ' چترالی کو بھی حق حاصل ھے کہ وہ یوپی سی پی کی اشرافیہ کے یرغمال سے خود کو نکالنے اور کراچی میں اپنے سماجی ' سیاسی ' معاشی حقوق کے حصول اور تحفظ کے لیے خود کو غیر مھاجر کی بنیاد متحد کرکے اور لسانی جذبات کو فروغ دیکر سیاست کرنا شروع کردے؟
Shahbaz Arain
About the Author: Shahbaz Arain Read More Articles by Shahbaz Arain: 41 Articles with 22669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.