موت آئی اور وہ مَر گیا لیکن؟

نہ کوئی ڈرامہ ہے نہ جھوٹ نہ فلم کی کہانی اور نہ تحریر کی شعبدہ بازیاں، بات سچی ہے اور وہ یہ ہے کہ لاھور شہر میں اقبال ٹاؤن کے ھما بلاک کے ایک کونے پر، انسانوں کے گھروں کے بالکل سامنے مین روڈ ہے، بالکل وہاں پر جہاں روز افطار مارکیٹ لگتی ہے اور اتوار کو اتوار بازار لگتا ہے، بالکل وہیں پر وہ تین دن بیٹھا رہا سر اٹھا کر دیکھتا رہا، اٹھ نہیں سکتا تھا اور بھوکا پیاسا لیٹنا ممکن نہیں تھا، سر اٹھا کر آنے جانے والوں کو اور گھروں کے مکینوں کو دیکھتا رہا کہ شاید کوئی اس کی مدد کر دے لیکن ان لوگوں میں اتنا رحم دل انسان کوئی نہ تھا۔ وہ اکیلا تھا انسانوں کی بھیڑ میں سر اٹھا اٹھا کر تھک گیا۔ تین دن کی بھوک پیاس کے بعد سر اٹھانے کی ہمت بھی نہ رہی۔ جسم تو پہلے ہی زمین پر تھا سر بھی جسم کے ساتھ جا لگا۔ پیچارہ بیمار تھا اور اکیلا، وہ ڈھے گیا۔ زمین کے ساتھ منہ لگا کر موت کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے نیچے کیچڑ تھا اور اس کے جسم پر کیڑے چلنے لگے۔ ابھی تک ایک بھی ایسا انسان نہیں نظر آیا تھا جس کی انسانیت اسے اس بیچارے کی طرف توجہ دلاتی۔ چار دن گزر گئے، موت کا انتظار کرتے مریض کے پاس ایک گاڑی رکی۔ کسی انسان کی انسانیت کسی کو اس کے پاس کھینچ لائی تھی، کوئی گاڑی سے اترا، اسے ہلا جلا کر دیکھا اور وہیں بیٹھ گیا۔ یہ بیٹھنے والا سارا دن آفس میں کام کر کے آیا تھا، افطاری کا وقت تھا، گھر قریب تھا لیکن مریض کی حالت نے اس کو سوچوں میں انتشار پیدا کر دیا تھا، اس کے دماغ میں بس یہی تھا کہ اس مرتے مریض کیلئے کیا کروں۔ اس کی سوچ نے اس کے دماغ میں ہمدردی اور مسیحائی کے بادل بنا دئے تھے اور چار دن کے لاچار پر چھما چھم ہمدردی کی بارش برسنے لگی تھی اور کچھ ھی دیر بعد وہ اپنے دوست کے ساتھ اس مریض کو ہسپتال لے کر جا رہا تھا۔ ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر تھے لیکن دوائیاں نہ تھیں۔ پرس کا منہ کھلا دوائیاں بھی آ گئیں اور ڈاکٹر مریض کے ساتھ جُت گئے۔ یہ سلسلہ چار دن تک چلتا رہا۔ یہ تیماردار جب آفس سے ہسپتال پہنچتا تو مریض کی آنکھیں اسے ہی تکتی رہتیں اور وہ آنکھوں ہی سے شکریہ ادا کرتا رہتا۔ اس تیماردار نے مریض کیلئے ایک اور تیماردار بھی مقرر کر دیا تھا جو چوپیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا۔ مریض کی حالت سنبھلنے لگی لیکن چار دن بعد مریض کی حالت اچانک خراب ہوئی اور مریض نے دم توڑ دیا۔ مریض تو مر گیا لیکن ان لوگوں کی انسانیت جن کے گھروں کے سامنے یہ کئی دن بھوکا پیاسا پڑا رہا تھا ان کی انسانیت تو اس مریض سے بہت پہلے کی دم توڑ چکی تھی۔ اس مریض کا علاج کروانے والے آپس میں سر جوڑ کر نم آنکھوں کے ساتھ اپنا دکھ بانٹتے رہے۔ انھیں اس بات کا افسوس تھا کہ ہم پہلے ہی کیوں نہ پہنچ گئے۔۔ یہ ان کی سوچ تھی یہ سوچ ہی ہوتی ہے جو ایک انسان کو درندہ بنا دیتی ہے یا انسانیت کے اعلیٰ مقاموں کوئی بھی درجہ حاصل کروا دیتی ہے۔ اس مرنے والے مریض کا تیماردار مجھے بتا رہا تھا کہ جب وہ اس مرتے مریض کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا تو پاس سے گزرتے بندوں کو مدد کیلئے پکارا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر مدد سے انکار کر دیا کہ وہ نماز پڑھنے جا رہے ہیں اور لہٰذا اس نے اپنے دوست کو فون کیا وہ کافی دور سے آئے تو وہ دونوں اس مریض کا اٹھا کر ہسپتال لے جا سکے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اس مریض کو کہیں بخار ہوا تھا، بھوک پیاس نے اس میں بے پناہ کمزوری پیدا کر دی تھی۔ اگر اس بھوکے پیاسے مریض کے سامنے واقع گھروں میں سے کوئی اچھی سوچ والا انسان اس مریض پر توجہ کرتا تو یہ مریض بچ سکتا تھا۔ لیکن یہ توجہ کسی نی کی تھی کیونکہ ہم لوگ اچھی سوچ کے قحط کا شکار ہو چکے ہیں۔ اب تو عوام بھی کرپٹ سیاستدانوں کی طرح بے حس بنتی جا رہی ہے۔ اس موقعے پر حضرت میاں میر لاہوری علیہ الرحمتہ کا ایک مبارک قول میرے سامنے آ گیا۔ "زیادہ روزے اور نمازیں ادا کرنے کا نام درویشی نہیں ہے، نماز روزہ اور شب بیداری یہ بندگی کے اسباب ہیں، درویشی تو لوگوں کو خوش کرنے کا نام ہے اگر تو حاصل کر لے گا تو واصل ہو جائے گا۔" مجھے دور رسالتﷺ کا ایک واقعہ بھی یاد آ رہا ہے، تاجدار مدینہ، سرور قلب و سینہ، حضور پرنور، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے اور راستے میں ایک کتیا اپنے بچوں کو دودھ پلا رہی تھی، آپ ﷺ نے حکم دیا اور پورے لشکر نے اپنے راستہ بدل لیا تاکہ لشکر کی ہیبت سے کہیں کتیا اپنے بچوں کو دودھ پلانا نہ چھوڑ دے۔ ۔۔۔۔۔۔یہ اسلام ہے۔ صرف انسان نہیں، جانور پرندے بھی مسلمانوں کی شفقت اور مہربانی کے حقدار ہیں۔ ان کے ساتھ رحم اور مہربانی پر اجر اور ان کے ساتھ زیادتی پر بھی سزا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک فاحشہ عورت نے ایک پیاس سے جاں بلب کتے کو دیکھا تو کنوئیں سے اپنے جوتے میں پانی نکال نکال کر کتے کو پلایا اور خدائے احکام الحکمین (جل جلالہ) نے اس کی بخشش کر دی۔ انسانوں سے جانوروں اور پرندوں سے سب پر رحم کرنا ایک لازمی اسلامی اصول ہے حکم ہے لیکن اس معاشرے کی اکثریت اسلام سے دور جا چکی ہے۔ اکثر کا اسلام نماز روزے اور تلاوت تک محدود ہے۔ وہ مریض مر گیا لیکن جہاں پڑا تھا اس جگہ کے سامنے کے گھروں میں رہنے والوں کی مسلمانی سے پردہ بھی اٹھا گیا۔ ایک مسلمان بے مثال انسان ہوتا ہے لیکن آج کے اکثر مسلمان صرف نمازی ہیں یا پھر روزہ دار اور آگے اونچی دیوار۔ جانے وہ لوگ اس مریض کو دیکھ کر اپنی آنکھیں چرا کر کس اصول کی پیروی کر رہے تھے۔

یہ مریض ایک گدھا تھا لیکن یہ گدھا بھی ایک مخلوق تھا اس کتیا جیسا جسے دیکھ کر رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لشکر نے راستہ بدل لیا تھا۔

یہ گدھا، سامنے کے گھروں کے افراد، گدھے کو اٹھانے میں مدد دینے سے انکار کرنے والے نمازی، اور گدھے کی مدد کیلئے راہ چلتے ایک انسان کا رکنا اور اس کی مدد کیلئے دور سے ایک اور شخص کا آنا۔ یہ سبھی اس معاشرے کے کردار ہیں۔ وہ لوگ بھی اسی معاشرے میں ہیں جن کا کردار آج کے کرپٹ سیاستدانوں اور بے رحم سرمایہ داروں جیسا ہوتا جا رہا ہے۔ ان سب کرداروں میں ایک نمایاں فرق سوچ کا ہے، کسی کی سوچ اسے رحم دل بنا دیتی ہے اور کسی کی سوچ اسے درندہ بنا دیتی ہے۔ ہم سوچوں کے قحط میں مبتلا ہو چکے ہیں اور جن کے سامنے وہ گدھا، ایک مخلوق زندگی موت کی جنگ لڑتا رہا وہ سوچوں کے اس قحط کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ہمارے معاشرے کا داغ ہیں ایک ایسا داغ جو بالکل بدعنوان اور ظالم سیاستدانوں جیسا ہے اور ان جیسے دوسرے بھی۔ میں اپنی طرف سے اور ہماری ویب فیملی کی جانب سے ان دو تیمارداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ آپ نے اس گدھے کے سامنے پاکستانیوں کی لاج رکھ لی۔ گدھا مر گیا لیکن یہ بات یہ کہانی بہت آگے جائے گی۔ اس کے آگے جانے کی وجہ مجھے ایک ایسی شخصیت کے واقعے سے پتہ چلتی ہے جو اپنی رحم دلی اور زندگی کی کامیابیوں اور زندگی کے عروج کے حوالے سے بے مثال ہیں۔ ایک دفعہ انھوں نے بتایا کہ بچپن میں انھوں نے ایک دفعہ ایک گدھے کو دیکھا جس کے خارش کی بیماری تھی اور وہ تکلیف سے بے چین ہو کر بار بار زمین پر گر کر زمین سے اپنا جسم رگڑتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی خارش اور پھر زمین پر جسم رگڑنے کی تکلیف دیکھ کر مجھے خود کو بڑی تکلیف ہوئی، میں بھاگ کر گھر گیا اور ایک گدا لا کر گدھے کے پاس نیچے زمین پر رکھ دیا، چنانچہ اب کی بار جب گدھا زمین پر گرا تو اسے کے نیچے گدا تھا۔ اسے آرام ملا تو اس نے میری طرف دیکھا اور اس کی نگاھوں میں اطمینان تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ میرا شکریہ ادا کر رھا تھا۔ بس اس دن سے لے کر آج تک مجھے دنیا میں ہر دن عروج ہی ملتا جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا ان جانوروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو یہ دعا دیتے ہیں، ان کی دعائیں لینی چاہئیں۔ یہ اسلامی بات ہے اسلام کا اصول ہے۔ لیکن جو لوگ کسی انسان یا جانور کو گدھے کی تکلیف کو صرف ایک تماشا سمجھ کر دیکھتے ہیں، ان کی بے رحمانہ سوچ ان کو کہاں لے جائے گی؟ اس بات کو ہم سب کو اور ان کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اچھی سوچ بھی واقعی ایک انمول دولت ہے، یہ شیطان فرشتوں کا سردار تھا حالانکہ یہ ایک جن تھا، عبادت گزار تھا لیکن اس کی سوچ میں خباثت آ گئی اور اسی سوچ کی وجہ سے مردور قرار پایا، اسے رسوا ہونا پڑا اور اس کی عبادت کسی کام نہ آئی۔ وہ لوگ جن کی سوچیں انھیں کسی مرتے جانور یا تکلیف میں مبتلا انسان کو دیکھ کر ان میں ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں کرتیں انھیں سوچ لینا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پر بھی کوئی پریشانی آئے اور ان جیسی سوچ والے لوگ ان کی مدد کرنے کی بجائے انھیں ایک تماشا سمجھ کر اپنی نماز پڑھنے چلے جائیں۔ آئیے ہم بھی اپنی اپنی سوچوں کا جائزہ لیں اور اگر ہماری سوچ میں ذرا سی بھی خرا بی ہے تو اسلامی ہدایات کی روشنی میں اسے درست کر لیں۔ فوراً۔۔۔۔ رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

مجھے اس تیماردار نے بتایا ہے کہ وہ پہلے ہی سے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی تنظیم چلا رہا ہے جس کے تحت جھونپڑیوں میں رہنے والوں اور غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے اور ان کیلئے سردیوں میں گرم کپڑوں اور جوتیوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بوڑھے لوگوں کیلئے اولڈ ہوم کیلئے جگہ بھی لی جا چکی ہے اور اب اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے جانوروں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کوشش ہوگی۔ فوری طور پر اس نے اپنے ڈونروں سے بات کی ہے اور دوائیوں سے محروم ہسپتال کی ایمرجینسی میں جانوروں اور پرندوں کیلئے دوائیوں کی مستقل فراہمی کا انتظام کر رہا ہے اور ڈاکٹروں کے تعاون سے لاھور میں بیمار جانوروں کیلئے مختلف جگہوں پر کیمپ لگانے کا آغاز جلد ہی ہو جائے گا۔ سیلاب کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ اس کی تنظیم کا ویب سائیٹ ایڈریس ہے۔

https://www.nazfoundationonline.org

ہمارے ملک میں دکھی انسانیت کے ساتھ جانوروں پرندوں کے حقوق کیلئے کام کرنے کی بہت ضرورت ہے، جو بھی یہ کام کر رہے ہیں اور کریں گے ان سب کیلئے دعا ہے کہ آپ کو ایمان و عافیت نصیب ہو کہ یہ رحم دلی ایمان ہی کا ایک جز ہے، آپ کو خوشحالیاں نصیب ہوں اور آپ یونہی بڑھ چڑھ کر خلوص نیت کے ساتھ مخلوق کی خدمت کرتے رہیں اور اس مخلوق میں انسانوں کے ساتھ جانور اور پرندے بھی شامل ہیں۔ میری ہماری ویب کے قارئین سے گزارش ہے کہ آپ ریمارکس میں اس دعا پر آمین لکھ کر کہیں، جب زیادہ آمین اکٹھے ہو جائیں گے تو میں ان دو تیمارداروں کو ہماری ویب کی طرف سے یہ دعا اور آمین تحفے کے طور پر پیش کروں گا، گدھے کو خوش کرنے والے دو انسانوں کیلئے یہ بہترین تحفہ ہو گا۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117141 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More