اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔
یقیناً انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
انسان اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے مجبور بسا اوقات کسی چیز کے حصول ،مقصد
کی تکمیل کے لئےلالچ کرلیتا ہے ۔جس کے نتیجہ میں اسے بعد میں بہت زیادہ
نقصان کا سا منا کرنا پڑتا ہے ۔۔اس لئے انسان کو کسی بھی اہم فیصلہ کرنے سے
پہلے بہت غور وفکر اور اس کے مثبت اور منفی نتائج کے بارے میں کچھ تدبر
کرنا چاہیے۔اس سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ اور سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے۔
ایک دفعہ چند دوست اکٹھے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہمارے ایک بزرگ
بھی ہمارے پاس تشریف لے آئے(اب تو مرحوم عالم فانی کو سدھار چکے ہیں۔اللہ
انہیں غریق رحمت کرے،مرحوم بہت نیک و پارسا انسان تھے)-
کسی بات پر کہنے لگے ۔میں تو پاگل ہوں۔ہم نے کہا نہیں نہیں ،آپ تو ماشاء
اللہ بہت ہی عقل مند اور صاحب بصیرت بزرگ ہیں۔کہنے لگے میرے پاس تو بیوقوفی
کی اسناد موجود ہیں۔
ہم نے پوچھا وہ کیسے۔کہنے لگے۔ایک دفعہ میری بیٹی نے مجھ سے سلائی مشین
خریدکر دینے کی فرمائش کی۔میں نےعزیزہ سےوعدہ کیا کہ جب میرے پاس کچھ وسائل
ہوں گے تومیں انشا ء اللہ آپ کو لے کردے دوں گا۔
فرمایا ۔کچھ عرصہ کے بعد مجھے کہیں سے کچھ رقم ملی گئی۔میں گجرات شہر گیاتا
کہ بیٹی کے لئے مشین خرید لاؤں۔
بازار پہنچا۔مشین خریدی۔مشین کندھے پر اٹھائی اور گجرات کچہری کے قریب فتح
پور جانے والے تانگوں کے اڈّہ پر پہنچ گیا۔وہاں پر ایک تانگےوالا فتح پور
فتح پور کی آوازیں لگا رہا تھا۔ اس کے پاس پہنچا۔ کرایہ کے بارے میں
استفسار کیا۔تانگہ بان نے کہا ۔جناب فتح پور کے لئےبارہ آنے کرایہ ہے ۔میں
نے کہا، بارہ آنے تو بہت زیادہ ہے میں تو آٹھ آنے دوں گا۔تانگہ بان نہ
مانا۔اسے اور سواریاں مل گئیں اور وہ چلا گیا۔اب ایک نیا تانگے والا ادھر
آیا ۔اور فتح پور فتح پور چِلانے لگا۔میں اس کے پاس گیا ۔عرض کی بھو کتنا
کرایہ ہے۔کہنے لگا جناب ایک روپیہ ہوگا۔میں نے کہا۔نہیں میں تو بارہ آنے
دوں گا۔ تانگے والا نہ مانا۔اسے دیگر سواریاں مل گئیں اور وہ روانہ ہو
گیا۔اس کے بعد ایک اور تانگے والا آگیا۔میں اس کے پاس گیا۔اس نے بتایا کہ
کرایہ ڈیڈھ روپیہ لوں گا ۔میں نے اسے ایک روپیہ لینے کی درخواست کی، لیکن
وہ نہ مانا اور وہ بھی روانہ ہوگیا۔اسی بھاگ دوڑ میں شام پڑ گئی۔اب صرف ایک
ہی تانگہ باقی رہ گیا۔اب بڑی بے دلی کے ساتھ اس کے پاس گیا۔اس سے پوچھا۔
کیا فتح پور جائیں گے ؟ ۔کوچوان کہنے لگا نہیں بزرگو میں تو صرف چیچیاں تک
جاؤں گا ۔ یہ گاؤں ہمارے گاؤں سے چندمیل پہلےہے۔نیز تانگے والے نے بتایا
۔اب رات کا وقت ہے۔اس لئےکرایہ اڑھائی روپیہ ہوگا۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔
کیونکہ یہ آخری تانگہ تھا۔تانگہ میں سوار ہو گیا۔کیونکہ اب تو سورج دیوتا
بھی منہ موڑرکر جا چکا تھا۔ یاد رہے کہ دیہاتوں سے تانگے شہر کے لئے صبح کو
ہی آیا کرتے تھے تاکہ لوگ دفاتر ،کچہری اور خرید وفروخت کی ضروریات کو دن
بھر میں مکمل کرلیں۔ پھر یہی تانگے پچھلے پہر اپنےاپنے دیہاتوں کو واپس
لوٹتے تھے۔
سفر شروع ہوا۔سارا سفر سخت اذیت میں گزرا ۔خیر چیچیاں کے مقام پر پہنچا ۔
تانگہ والے کو با دل نخواستہ اڑھائی روپے ادا کئے۔اپنے آپ کو کوستے ہوئے،
مشین کو کندھے پر اٹھایا اور فتح پور کی طرف پیدل چل پڑا۔ ہر سو تاریکی کا
پہرہ تھا۔ خوف کی حالت میں سنسان علاقہ میں سے گزرا۔جتنی بھی دعائیں زبانی
یاد تھیں ۔سفر کے بخیریت گزرنے کے لئے بار بار بڑے اخلاص کے ساتھ زیر لب
پڑھتا رہا۔
خیر اللہ تعالی نے فضل فرمایا اور میں رات گئے اپنے گھر پہنچا۔گھر والے
میرے بروقت گھر نہ پہنچنے کی وجہ سے خاَصے پریشان تھے۔ہہم سب اہل خانہ نے
اس مشکل سے نجات پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔
لالچ بری بلا ہے۔ |