ہمارا ورثہ
(Faisal Shahzad, Karachi)
ننھی بسمہ کی موت کی خبر اب عالمی خبر بن
گئی ہے۔ اس پر ایک سیاسی جماعت کے بڑوں کی طرف سے جس طرح ’ولولہ انگیز
‘بیانات داغے جا رہے ہیں، بھونڈی تاویلات اور بچکانہ عذر تراشے جا رہے ہیں
اور بادشاہ سلامت سے زیادہ بادشاہ کے وفادار ہونے کا ثبوت دیا جا رہا ہے……
یہ سانحہ سے زیادہ افسوس ناک ہے، گویا کسی معصوم کی جان گئی، ان کی ادا
ٹھہری…… !
سوچنے کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک عزیز میں اس ـ’پروٹوکول‘
کی کوئی گنجائش بھی ہے کہ نہیں؟……یہاں کوئی بڑا صاحب ہے تو کوئی چھوٹا صاحب
…… کسی کے لیے اپنی ’بادشاہت‘ کی ہر طرح قانون کو توڑتے ہوئے نمود و نمائش
اور وہ بھی دھڑلے سے جائز اور کسی کے لیے زندگی کی بنیادی سہولیات کا نام
لینا بھی ناقابل معافی گناہ……کیا پھر ملک عزیز کو اسلامی جمہوریہ کہا
جاسکتا ہے؟
ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلے میں ان ممالک کی حالت دیکھیے جہاں
غیر مسلموں کی حکمرانی ہے…… وہاں وزیر مشیر بالکل عام لوگوں کی طرح رہتے
ہیں…… وہ بے تکلفی سے سائیکل پر بھی دفتر چلے جاتے ہیں، اپنی خریداری خود
کرتے ہیں اور عوام میں گھل مل جاتے ہیں…… سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ملک کے
حکمران سے بھی قانون کی ذرا خلاف ورزی ہوجائے تواس کا بھی چالان ہو جاتا ہے
جس کا ہم اپنے ملک میں تصور بھی نہیں کرسکتے…… غرض ان غیر مسلموں کی محنت
کی عادت، ایفائے عہد، پابندی وقت، کاروباری دیانت، قانون کا احترام اور عام
آدمی کے تمام حقوق کا خیال ایسی خوبیاں ہیں جو ایمان جیسی بنیادی نعمت کے
نہ ہونے اور بے شمار اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہونے کے باوجود انہیں مادی
طور پر بلند و برتر رکھے ہوئے ہے۔
ہم ان کی ہر الٹی سیدھی چیز کی بھونڈی نقل کرتے نہیں تھکتے…… اگر نہیں کرتے
تو ان کی معاشرتی اچھائیوں کی نقل نہیں کرتے، جو دراصل ہمارا ہی ورثہ ہیں……
ہماری اسلامی تاریخ میں ہمارے حکمرانوں کی ایسی روشن مثالیں موجود ہیں جو
رعایا میں سے کسی شخص کی شکایت پر عدل کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ایک عام
آدمی کی طرح کٹہرے میں آ کھڑے ہوئے…… جو پروٹوکول نامی بلا سے بالکل ناواقف
تھے بلکہ ان کے رہن سہن اور کپڑوں سے اجنبی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ
مجمع میں حاکم کون ہے اور محکوم کون؟
مثال تو خیر ملائشیا کے صوبے کیلنتان کے سابق وزیر اعلیٰ نک عبدالعزیزکی
بھی ہے جو اپنے22 سالہ دور حکومت میں کبھی وزیر اعلیٰ ہاؤس میں نہیں رہے،
بلکہ اپنے ٹوٹے پھوٹے مکان میں زندگی گزار دی۔ کبھی سرکاری وسائل کو ذاتی
ضروریات میں استعمال نہیں کیا، حتیٰ کہ وہ اپنے دفتر میں نماز اداکرتے تو
اس وقت وہاں کی لائٹیں بجھادیتے کیونکہ ان کے خیال میں نماز ان کا ذاتی
معاملہ ہے،لیکن اس ایک آدھ مثال کے علاوہ آج خلفائے راشدین] کی روشن
زندگیوں سے روشنی حاصل کرنے والے مسلمان حکمران کہیں نظر نہیں آتے…… عدل و
انصاف کی سب محض کتابی باتیں لگتی ہیں…… سوال تو ہمارا عوام سے ہے کہ وہ
آخر کیا سوچ کر انہیں ووٹ دیتے ہیں جو ان کے ووٹ سے جیت کر کسی دوسری ہی
دنیا کے لوگ بن جاتے ہیں…… جب تک ہم ایسے نام نہاد لوگوں کو اپنے سر پر
بٹھائیں گے جن کے سینے میں دل نہیں پتھر دھڑکتے ہوں، تب تک ننھی بسمہ جیسے
المیے ہوتے رہیں گے…… کاش کہ ہم ذرا غور کرلیتے! |
|