مغرب کے پیچھے مشرق کی دوڑ .
(Javeria Muhammad Yousuf, Karachi)
مشرق کا نام آتے ہی سب سے پہلے جو خیال ذہن
میں آتا ہے وہ ہے حیا .وہ حیا جسے تصور کرنے والا مشرق کی دوشیزائوں کی
آنکھوں میں دیکھتا ہے . شرم سے جھکی ہوئی نگاہیں سات پردوں کے پیچھے چھپی
ہوئی لڑکیاں . اگر کسی غیرملکی شخص سے پوچھا جائے کے اس کے دماغ میں مشرقی
خواتین کے متعلق کیا تاثر قائم ہے تو نوے فیصدی اس کا جواب یہی ہوگا کہ
مشرقی لڑکیاں خاص طور پر پاکستانی لڑکیاں پردے کی پابند ہوتی ہیں .
یہی سوال اگر ہم اپنے آپ سے پوچھیں تو کیا ہمارا ضمیر اس بات کا اعتراف
نہیں کرتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان وہ ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا
تھا وہاں کے عورتیں پردہ کرنے کو جہالت سمجھتی ہیں . باپردہ ہونے سے یہ
مراد نہیں کے اپنے جسم کو سیاہ چادر میں قید کرلیا جائے مگر یہ اس حال کے
ضد ہے جو آج کل کی لڑکیوں کا ہوگیا ہے . سر پر دوپٹا تو دور کی بات ہے گردن
میں بھی دوپٹے نامی شے نظر نہیں آتی . اور لباس کی عریانیت کا ذکر نہ کیا
جائے تو بہتر . اگر ان سے یہ سوال پوچھا جائے کے وہ اس طرح کا لباس کیوں
پہنتی ہیں تو جواب ایک ہے ہوگا کے ہم ایک آزاد ملک میں رہتے ہیں اور یہ
ہمارا حق ہے . مگر کیا آزادی کا مطلب یہی ہی کے اپنی تہذیب اپنے اقتدار کو
بالائےطاق رکھ کے مغرب کی جانب اندھی دوڑ شروع کر دی جائے ؟ جسطرح کوئی
سائنسدان سائنس کا مطالع اور مشق کے بغیر سائنسدان نہیں بن سکتا اسی طرح
کوئی مسلمان مرد و عورت بھی اسلام کا مطالع اور مشق کے بغیر مسلمان ہونے کا
دعویٰ نہ کرے تو بہتر.
اسلام یہ نہیں کہتا کے لڑکیوں کو چاردیواری میں بند کر کے کسی ناکردہ گناہ
کی سزا دی جائے لیکن انہیں اس بات سے آگاہ کردیا جائے کہ انہیں کس طریقے سے
معاشرے میں چلنا ہے .تبدیلی کے شروعات اپنی ذات سے ہوتی ہے اس لئے پہلے خود
کو بہتر بنائیں اور پھر تنقید کیےبنا تشکیل کا کام شروع کردیا جائے اور
ایسا معاشرہ بنائیں جسے ہم فخر سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کہہ سکیں کیونکہ
اس اندھی دوڑ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا . شکریہ. |
|