پاکستان میں ایک طرف تو آبادی میں اضافہ
دیکھنے کو مل رہا ہے تو دوسری طرف بے روزگار افراد کی تعداد میں بھی مسلسل
اضافہ ہورہا ہے۔ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ بے روزگار افراد میں سے ایک بڑی
تعداد ڈگریوں والی اور تعلیم یافتہ کی بھی ہے۔بے روزگاری کے بڑھنے کی وجہ
سے ایک نہیں ان گنت مسائل جنم لے رہے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کوہر قسم کا
خرچ برداشت کر کے دن رات محنت کر کے تعلیم دلواتے ہیں تاکہ وہ اپنے والدین
کا سہارا بن سکیں وہ اپنی زندگی کامیابی سے گزار سکیں ۔والدین اپنے بچوں کو
کسی تکلیف میں برداشت نہیں کر سکتے۔والدین نے اپنی انکھوں میں بڑے بڑے خواب
سجائے ہوتے ہیں۔والدین سوچتے ہیں کہ ہم نے تو ایسی تنگ اور مشکل زندگی
بسرکر لی ہے اب ہمارے بیٹے کو کوئی اچھی سی نوکری مل جائے گی تو وہ دھکے
نہیں کھائے گااور اچھی زندگی گزار سکے گا ۔لیکن بڑی نوکری تو دور کی بات جب
انہیں چپڑاسی اور مالی جیسی نوکری کے پیچھے دھکے کھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو
ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی یہ والدین سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ان کی ساری
امیدیں پانی میں بہہ جاتی ہیں۔دیہات میں کچھ لوگ تو تعلیم چھوڑ کر کھیتی
باڑی اختیار کر لیتے ہیں چونکہ ان کے آباؤاجداد شروع سے ہی کھیتی باڑی کرتے
ہیں کھیتی باڑی ان کا پیشہ ہوتا ہے۔لیکن جن کے پاس کھیتی باڑی نہیں ہوتی ان
کا کیا ہوتا ہوگا ان کی زندگی کٹھن اور جینا مشکل ہوجاتا ہے۔
یہاں گاؤں میں نوجوانوں کواعلی تعلیم نہیں دی جاتی انہیں میٹرک تک ہی محدود
کردیا جاتا ہے شروع سے انہیں کھیتی باڑی کی طرف راغب کیا جاتا ہے کیوں کہ
بڑے کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو کونسا کوئی نوکری مل جائے گی ۔وہ سمجھتے ہیں
کہ پھر آگے دھکے ہی ملتے ہیں ۔اس ملک میں سفارش چلتی ہے سفارش کے بغیر تو
کوئی کام نہیں ہوتا۔امیر تو سفارش کاسہارا لے کر نوکری حاصل کر لیتے ہیں
لیکن غریب تنہا ہی ہوتا ہے اور تنہا ہی رہ جاتا ہے ۔یہاں اعلی تعلیم یافتہ
افراد معمولی سی نوکریوں کے پیچھے دھکے کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔تعجب کی
بات ہے کہ پاکستان میں پڑھے لکھے بے روزگاروں کی تعداد ان پڑھ سے زیادہ ہے
۔
بے روزگاری کی وجہ سے ہی غربت جیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔جب نوجوانوں کو
نوکری نہیں ملتی تو غربت ان کے آنگن میں آ جاتی ہے تووہ بہت مایوسی اور
ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں چڑچڑاپن کا شکار ہو
جاتے ہیں۔ان کو اپنے مستقبل کی فکر ستانے لگتی ہے مستقبل تاریک میں نظر آنے
لگتاہے۔ذریعہ معاش کے لیے ناجائز طریقے ستعمال کرلیتے ہیں۔غربت اور بے
روزگاری کی وجہ سے کچھ لوگ نشہ،ڈرگ،الکوحل، اور تمباکو نوشی میں مبتلا ہو
جاتے ہیں نشے اور ڈرگ کی وجہ سے اپنی ساری زندگی تباہ کر لیتے ہیں۔پاکستان
میں لوگوں کی ایک بڑی تعدا ڈرگ اور نشے میں مبتلا ہے نشے اور ڈرگ کے
استعمال کی وجہ سے ہر سال کئی اموات ہوتی ہیں نشے میں لت پت لوگ چھوٹی موٹی
چوری کر کے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔اور کچھ غربت سے تنگ آکر خود کشی کر لیتے
ہیں خود کشی کی بنیادی وجہ یہی غربت و بے روزگاری ہی ہوتی ہے لیکن خود کشی
کا انداز تبدیل ہوجاتا ہے وہ نفسیاتی مریض تھا،اس کے گھر والوں کے ساتھ
جھگڑے ہوتے تھے اسے نشہ نہیں ملااس نے فلاں کیا وغیرہ ۔جب نوکری نہیں ملتی
تو کچھ چوری ،ڈاکے اور لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں۔ذریعہ معاش کے لیے ناجائز
طریقہ کار اختیار کرلیتے ہیں۔جو راہ گیروں کو لوٹتے ہیں ڈاکے مارتے ہیں
چوریاں، ڈکیتیاں کرتے ہیں یہ کسی دوسرے دیس کسی دوسرے ملک کے افراد نہیں
ہوتے یہ لوٹ مار کرنے والے بھی اپنے ہی ملک کے افراد ہوتے ہیں۔والدین کی
بیٹوں سے بہت امیدیں ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا ملک کا نام روشن کرے گاہمارا
سہارا بنے گا ۔بیٹے کی وجہ سے باقی زندگی چین و آرام سے گزرے گی۔لیکن جب ان
کے بیٹے اپنے ملک کے دشمن بن کر اپنے ہی لوگوں کو لوٹتے ہیں یا نشے اور ڈرگ
میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو والدین کسی کو منہ دکھانے
کے قابل نہیں رہتے ہر جگہ انہیں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔لوگوں کے طعنے
برداشت کرنے پڑتے ہیں۔اس طرح پھر ان کا پوراگھر برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔
اور کچھ بے روزگاری کی وجہ سے اپنے ملک کو خیر آباد کہہ کر دوسرے ممالک کا
رخ کر لیتے ہیں۔ہنر مند افراد ہوں یا تعلیم یافتہ ملک میں روزگار کا کوئی
ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے ملک کا رخ کرنے پر مجبور ہو جاتے
ہیں۔پاکستان کی ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک میں موجود ہے اندازے کے مطابق
پچھلے45سال سے تقریباََ کم و بیش ایک کروڑ افراد اپنے گھر (پاکستان) کو
خیرآباد کہہ کر دوسرے ممالک میں جا چکے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہی غربت و بے
روزگاری ہے۔لیکن جب وہاں بھی ان کاذریعہ معاش نہیں بنتا تو کچھ لوگ وہاں
بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اسی طرح سعودی عرب میں بھی
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے تلاش کے لیے دھکے کھا رہی ہے اور
کئی وہاں جیلوں میں قید ہیں اور کچھ لوگ تو خود کشی بھی کر چکے ہیں سعودی
عرب میں موجود پاکستانیوں کو کئی کئی ماہ سے تنخوا نہیں مل رہی جس کی وجہ
سے ان کا جینا دشوار ہو چکا ہے۔بے روزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو
اقدامات کرنے چاہیے ۔یہاں ایسے ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں نوجوانوں
کے کیرئیر کے انتخاب اور کیرئیر پلاننگ ہو سکے۔جہاں ان کے اندر ایسی بنیادی
صلاحیتیں پیدا کی جائیں جس سے وہ آگے جا کر اپنی صلاحیتوں کالوہا منوا سکیں
کسی قسم کی مایوسی یا ڈپریشن کا شکار نہ ہوں۔نوجوانوں کی بہتر کیرئیر
پلاننگ اور رہنمائی ہو سکے۔روزگار کے تلاش کے لیے ان کو کسی قسم کی دشواری
کا سامنا نہ کرناپڑے۔نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہونے چاہیے۔یہی
نوجوان ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ملک کا مستقبل ہیں ۔ہم اس قیمتی اثاثے
کو اندھیرے میں نہیں چھوڑ سکتے ان کے ساتھ ناانصافی ہوتی نہیں دیکھ سکتے
۔بے روزگاری کے لیے لکھنے بیٹھ جائیں توکالم طویل ہوجائے گا۔بدقسمتی سے
حکومت کی جانب سے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات ہوتے ہوئے
دکھائی نہیں دیے۔کیا قرض دینے سے یا گاڑیاں فراہم کرنے سے ایسے مسائل حل
ہوجاتے ہیں۔قرضہ دینے سے یا گاڑیاں دینے سے کبھی ایسے مسائل حل نہیں
ہوئے۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر ابھی قابو پایا جائے تو ملک کے لیے فائدہ ہو
گا اور ملک کے کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔بے وزگاری پاکستان کاایک بڑا مسئلہ
ہے اس پر حکومت کو سنجیدگی سے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
|