مین ان دنوں کالج میں پڑھا کرتا تھا اور
روزانہ شام کو لائبریری جاتا اور رات گئے تک مطالعہ کرتا رہتا ۔میں غالباََ
آخری لوگوں میں ہوتا تھا جو لائبریری سےجاتے تھے،ایک دن میں معمول کے مطابق
لائبریری سے باہر نکلا تو بوڑھے چوکیدار سے سامنا ہوگیا وہ شاید میرے ہی
انتظار میں تھا۔سلام دعا کے بعد اس نے میرے ہاتھ میں پکڑی کتاب کی طرف
اشارہ کیا اور پوچھا تم نےیہ کتاب پڑھی ہے،میں نے جواب دیا کہ پڑھی ہے ۔تو
اس نے پوچھا یہ تو عربی زبان میں ہے تو کیا تمھیں عربی زبان آتی ہے میں نے
اثبات میں جواب دیا۔میں اس کی اس تفتیش پر تھوڑا حیران بھی تھا کہ ایک
معمولی اور غالباََ ان پڑھ چوکیدار کو ان اعلیٰ کتابوں کا کیا پتا۔پھر اس
نے کہا کہ میں تمھیں ایک اور کتاب دوں گا جو اس کتاب کی تنقید میں لکھی گئی
ہے،تم اسے ضرور پڑھنا تمھین دونوں مئوقف سمجھ آجائیں گے۔پھر اس نے مجھے
میری زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھایا"بیٹا یاد رکھنا علم کی دنیا میں صرف
دلیل کی حکمرانی ہوتی ہےکسی شخصیت،نظریئے ،یا عصبیت کی نہیں"اس واقعہ کو
نصف صدی گزر گئی ہے،دل و دماغ پر عشروں کی گرد جم چکی ہے،کئ نظریے اپنائے
اور چھوڑے مگر اس گمنام چوکیدار کی بات روز اول کی طرح ترو تازہ ہے۔آج بھی
ہر بات کو دلیل کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہوں اور سچائی کو جاننے کا اس سے بڑا
معیار مجھے آج تک نہیں ملا۔ میرے لیے یہ بڑی تعجب انگیز بات ہے کہ مجھے
میری زندگی کا سب سے بڑا سبق ایسی جگہ سے ملا جس کا میں نے تصور بھی نہیں
کیا تھا۔
یہ واقعہ ایک بڑی علمی شخصیت نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے اور اسی اصول
کی سچائی اور صداقت کا عملی نمونہ ترقی یافتہ قوموں کے عروج اور ہمارے زوال
میں نظر آتا ہے۔تاریخ نے اس بات کی گواہی دی ہے کے مسلمانوں کا زوال اسی دن
شروع ہوگیا تھا جس دن انھوں نے دلیل کو چھوڑ کر عصبیت،جہالت، اور نفرت کو
اپنایا۔جب ابن رشد کی کتابوں کو جلایا گیا اور اسے کفر کا فتوی لگا کر جلا
وطن کیا گیا۔ یہ بھی ایک دلچسپ واقعہ ہے کے ابن رشد نے " تحافۃ تحافۃ
الفلاسفہ" لکھی اور اس کتاب میں دلیل اور منطق کی اہمیت کو اجاگر کیا،مگر
کیونکہ یہ کتاب امام غزالی کی شہرہ آفاق کتاب " تحافۃ الفلاسفہ" کی علمی
تنقید تھی ،مگرجزباتی طرز فکر کےتحط اس علمی تنقید کو شخصی تنقید سمجھا گیا
اور کفر کا فتوی لگا کر جلا وطنی کردی گئ۔یہ اور اس جیسی کئی کتب جب جب
یورپ پہنچیں تو رینیسانس (احیائے علوم )ہوا۔ انھی خیالات کے زیر اثر یورپ
میں مذہبی استبداد یعنی پاپائیت،شخصی حکومت یعنی ملوکیت، اور معاشی استحصال
کے خاتمے کی تحریکیں شروع ہوئیں اور ترقی کا ایک ایسا سفر شروع ہوا جو ابھی
تک چل رہا ہے۔
افسوس صرف اس بات کا نہیں ہے کہ مغرب آج ہم سے اوپر ہے اور ہم پر ظلم و ستم
ڈھاتا ہے، ہم اس کے معاشی ،سیاسی،ثقافتی،عدالتی، اور سائنسی نظاموں کو
اپنانے پر مجبور ہیں اور شدید احساس کمتری اور استحصال کا شکار ہیں۔ مزید
تکلیف میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب عظمت رفتہ کی یاد آتی ہے۔زیادہ افسوس
اس بات کا ہے کہ ہم آج بھی اپنےطرز فکر و عمل پر سنجیدہ نظر ثا نی کرنے کو
تیار نہیں ۔ہم آج بھی ہارے ہوئے جواری کی طرح انہونی کے منتظر ہیں۔
مسلم سماج کی موجودہ حالت کو دیکھیں،مسلم معاشرہ ابھی تک علم کے میدان میں
ٹھوس عقلی اور تحقیقی طرز عمل اختیار نہیں کرسکا۔وہ آج بھی صدیوں پرانے طرز
فکر کو اپنائے ہوے ہے جو سائنسی حقائق کو سمجھنے کے لئے ناکافی ہیں۔ہم ابھی
بھی شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا ہیں اور ادارہ سازی نہیں کرسکے، ہم سیاست
میں جمہوری رویہ نہ اپناسکے اور آج بھی کرشماتی خلیفہ کے منتظرز ہیں، ہم
سود کی حرمت کو مانتے ہیں مگر سود کے مقابل صدقات بنک بنانے کی طرف کوئی
سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔ثقافتی سطح پر بھی ہم صدیوں پیچھے ہیں ہم نے عرصہ
دراز سے دنیا کو کوئی نیا لباس،رواج،ادب، کھیل،یا تفریحی سرگرمی نہیں دی
بلکہ دنیا کی نظر میں ہم خود ایک تفریح بن چکے ہیں۔آج مسلم اکژیت ایک مخصوص
قبائلی ثقافت کو ہی مذہبی اور عالمگیر سچائی جانتی اور مانتی ہے۔اسلام جس
میں مخصوص مذہبی طبقے کا کوئی قرآنی تصور موجود نہیں تھا اس میں بھی
عیسائیت کے طرز کی پاپائیت آگئی جو مذہب پر خصوصی استھقاق رکھتی ہے۔اسی
خصوصی استحقاق کے تحت مذہبی علماء نے مذہب کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے
استعمال کیا۔ اسی وجہ سے اسلام جو کبھی عالمگیر، امن،محبت،روشنی، آزادی،
برداشت، اور مساوات کا مذہب تھا فقط چند عبادات،رسوم،تنگ نظری،شدت
پسندی،لوگوں کو تقسیم کرنے اور زمیں میں فتنہ فساد کا سبب بن کر رہ گیا
ہے۔روحانیت جو اخلاق کی اصلاح کی تحریک تھی فقط چلوں،وظیفوں،اور سلسلوں میں
قید ہوگئی۔فقہ جو کبھی عدالتی نافذ العمل حکم ہوا کرتا تھا آج کل گلی محلوں
میں کفر کے فتوی لگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
شکست خوردگی کی حالت میں ہم اس حد تک وہمی ہوچکے ہیں کہ اپنے سائے سے بھی
ڈرتے ہیں،ہر آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں،ہر قوم کو اپنے خلاف سازش کرتا
محسوس کرتےہیں۔ترقی یافتہ قوموں کے طرز فکر و عمل کو سمجھنے اور اپنانے کے
بجائے تعصب میں رد کر دیتے ہیں۔ اور اگر کچھ اپناتے بھی ہیں تو صرف ظاہری
لباس ،زبان، اور ٹیکنالوجی میں تقلید محض۔آفاقی قوانین عروج و زوال کو بھلا
کر صرف اپنے ماضی کی تعریفیں اور موجودہ ترقی یافتہ قوموں کی خامیوں کو
بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں،ثابت کرتے ہیں کہ ہم ان سے اچھے اور افضل ہیں
اور بھول جاتے ہیں کہ قومیں اپنے محاسن سے ترقی کرتی ہیں دوسروں کی خامیوں
سے نہیں۔ آج بھی عقل،فہم اور دلیل کو اپنائیے ورنہ یہ پستی،ذلت اور زوال
ایسے ہی جاری رہے گا۔ |