خواب کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں
کہ خوا ب کی تین اقسام ہیں پہلی الہامی،دوسری شیطانی اورتیسری قسم ہمارے
روزمرہ کے واقعات کو خواب میں دیکھنا شامل ہیں۔اسی طرح جوکوئی مسلمان جب
بھی کبھی خواب دیکھے تو کوشش کرے کہ کسی ایسے مسلمان کو بتائے جوکہ اس کے
خواب کی لاج رکھ سکے مطلب اسے الٹی سیدھی تعبیر نہ بتائے بلکہ اسے اس کے
خواب کے بارے میں مثبت تعبیر بتا سکے۔لیکن ہمارے ہاں چونکہ کم فہمی کچھ
زیادہ ہی پروان چڑھ چکی ہے اس لئے ہم ہر ایرے غیرے کو اپنا حقیقی خواب تو
کبھی روزمرہ حالات وواقعات والا خواب بتا کر اپنی پریشانیوں میں اضافہ
کرڈالتے ہیں۔جیسے ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا ،کہتے ہیں کہ پرانے زمانے
میں ایک تاجر ایک عالم کے پاس آیا اور ان سے ایک مسئلہ دریافت کیا۔اس تاجر
کا مسئلہ تھا کہ اس کی دکان میں گھی کے برتن میں چوہا گر کر مرگیاتھا۔اس پر
عالم دین نے اسے جواب دیا کہ جہاں پرچوہا گراہے ا س کے اردگرد والی جگہ سے
گھی ہٹا کر باقی بیچ سکتے ہیں ۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ عرصہ بعد دوسرا
تاجر اس عالم دین کے پا س آیا اور ان سے وہی مسئلہ دریافت کرنا چاہا۔چونکہ
حضرت جگہ پر موجود نہیں تھے۔اس لئے اب کی با ردوسرے تاجر کا عالم دین کے
ایک شاگرد سے پالا پڑگیا۔چنانچہ اپنے استا د محترم کی طرح شاگرد نے بھی
تاجر کو وہی مشورہ دیا۔ابھی تاجر کو گئے کچھ ہی دیر گزری تھی کہ حضرت آن
پہنچے،توشاگرد نے اپنی وقوفی جسے وہ نہایت ہی عقل مندی سمجھ رہا تھا بیان
کی کہ جناب ایسا واقعہ ہوگزرا ہے۔عالم دین کو غصہ آیا اوراپنے شاگرد سے
مخاطب ہو ئے کہ خداتجھے غرق کرے جب میں نے فلاں تاجرکو مشورہ دیا تھا ان
دنوں سردیاں چل رہی تھیں۔اور اب گرمیاں۔لہذا تمہارے مشورے پرعمل کرکے وہ
ویسا ہی کرے گا جیسا میں نے کہا تھا۔مگر بے وقوف سردیوں میں گھی جم جاتا ہے
جبکہ گرمیوں میں پگھل کر مایاکی شکل اختیار کرلیتاہے۔یوں شاگرد نے اپنے
استاد محترم کی دیکھا دیکھی غلط مشورہ دے ڈالا ،ٹھیک اسی طرح جناب خوابوں
کی بھی قسمیں ہوتی ہیں۔جیسے سردیوں میں خواب میں دیکھی گئی آگ اچھی جبکہ
گرمیوں میں دیکھی گئی آگ نقصان دہ ہوتی ہے۔یہاں آپ لوگ سو چ رہے ہونگے کہ
اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی بھلا کیا ضرورت پیش آگئی تھی ،سیدھاسیدھا
اپنا مدعا بیان کیا جاتا کہ آخر ہم کہنا کیا چاہتے ہیں،توسنئے جناب ہو اکچھ
یوں کہ ہم نے گزشتہ رات کو ایک خواب دیکھا ،خواب چونکہ رات کے تیسرے پہر
تھا اس لئے سچ معلوم ہورہا تھا،اس لئے سوچا کہ آپ لوگوں سے بھی شیئر
کرلوں،با ت کچھ یوں ہے کہ ہم نے خواب دیکھا کہ موٹر وے پرسے پا ک آرمی کے
بڑے بڑے جنگی جہاز ،ٹینک اور میزائل لے جانے والی گاڑیاں گزر رہے ہیں۔انہی
کے ساتھ کان میں یہ آواز بھی پڑنے لگی کہ پاک بھارت جنگ چھڑ چکی ہے۔اس لئے
اتنی مقدارمیں اسلحہ وبارود بارڈر کی اور لے جایا جارہاہے۔اسی کے ساتھ ہی
کچھ عورتیں گھروں سے اسلحہ تانے نکل آئیں اورلبیک کا نعرہ لگاتے ہوئے چلا
چلا کر کہنے لگیں کہ اب کی بار تو بھارت کو ناکوں چنے چبوانے ہیں۔خواتین
کایہ حوصلہ دیکھ کرہمیں بہت خوشی ہورہی تھی کہ اﷲ نے ہمیں اتنی بہادر
پاکستانی خواتین عطا کی ہیں کہ جن کاحوصلہ،ہمت،جذبات اور احساسات ملک پر
فدا اور قربان ہونے کے لئے ہیں۔ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھاکہ ساتھ ہی
اندھا دھند فائرنگ سے ان خواتین کے سینے چھلنی کردیے گئے۔اوربے چاریاں کلمہ
شہادت پڑھتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ہمیں جہاں گرو اور فخر محسوس
ہورہاتھا وہاں ساتھ افسوس بھی کیونکہ دشمن ملک کے بزدل فوجیوں نے خواتین کو
شہید کرکے اپنی بزدلی اورڈرپوکی کا عملاً ثبوت دے دیا تھا۔لیکن دشمن تو
دشمن ہوتا ہے وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ہر حد سے
گزرجانے کی بھرپورکوشش کرتا ہے۔یہاں جناب بات آپ لوگوں کی سمجھ میں قریباً
آچکی ہوگی کہ جس طرح سے میرے خواب میں دشمن پڑوسی ملک نے ہمارے پاک وطن پر
حملہ کرکے ہمیں للکارا ،ٹھیک اسی طرح ہمارا پڑوسی ملک ہمیں آئے روز بارڈر
پر بلااشتعال فائرنگ کرکے کبھی ہماری پاک فوج کے جوانوں کو تو کبھی نہتے
شہریوں کو نشانہ بناکر ہمیں تنگ کرتا رہتا ہے۔دشمن کے یہ حربے ملک خداداد
کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں۔جہاں ایک طرف ہمارا ملک معاشی
ترقی کی جانب گامزن ہے وہاں دشمن ملک کو ہماری معاشی اور معاشرتی ترقی ایک
آنکھ نہیں بھارہی۔ملک خداداد میں شروع کئے جانے والے ایشیاء کے سب سے بڑے
منصوبے سی پیک اور گوادر بندرگاہ کے افتتاح سے دشمن پڑوسی ملک بوکھلاہٹ کا
شکا رنظرآتا ہے۔اس منصوبے سے اس کے پیٹ میں شدید قسم کی مروڑ پیدا ہوچکی
ہے۔وہ اپنی ذہنی کوفت کو ختم کرنے کے لئے ایل او سی تو کبھی ملک کے اندر
تخریبات جیسے حالات پیداکرکے ان منصوبوں کو روکنے کے درپے ہے۔لیکن شاید وہ
بھول چکا ہے کہ اس کا پالا ایک ایسی قوم سے پڑا ہے۔جو کہ خواب یا خوابو ں
میں بھی لڑنے کے لئے ہمہ وقت تیا ررہتی ہے۔اس قوم کے بیٹے تو بیٹے بیٹیاں
بھی وطن پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔اورجیسے میں خواب
کا حوالہ دے چکا کہ کس طرح ہمار ی بیٹیوں نے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی
تانی تھی۔کیسے انہوں نے اپنے سینے دشمن کی گولیوں کے سامنے پیش کر دیے تاکہ
دشمن یہ نہ سمجھ سکے کہ ملک خداداد پاکستان کی بیٹیاں بزدل اور ڈرپوک
ہیں،جناب انہیں اپنے ارادوں میں منہ کی کھانی پڑے گی ۔انشاء اﷲ۔کیونکہ پاک
آرمی اور اس کاہر جوان ہمہ وقت ملک پر جان قربان کرنے کے لئے تیار ہے۔جہاں
ضرب عضب جیسے کامیاب آپریشن سے ملک میں جاری دہشت گردی اور دہشت گردوں کی
کمر توڑ کر رکھ دی گئی ہے وہاں دشمن ملک کو سبق سکھانا نہایت ہی آسان
ہے۔ہمارے شیر دل سپاہی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور جس کا عملاً
ثبوت سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دے دیا۔ان کی طرح نئے آرمی چیف بھی
محب وطن اورنڈر انسان ہیں۔یقینا وہ بھی اپنے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے
دشمن کو بھرپور سبق سکھانے میں اپنا کردار اداکریں گے۔انشاء اﷲ ۔ |