اکتوبر 2016میں (حکومت ) سندھ ہائیکورٹ نے
ایک کیس کی سماعت کر تے ہوئے فیصلہ سنایا کہ سندھ میں شرا ب کے تما م اڈے
بندکیے جائیں اور اقلیتوں پر بھی شراب کی پابندی عائد کر دی جائے اور ساتھ
میں یہ بھی کہا کہ اقلیت کم شراب پیتی ہے جبکہ باقی لوگ زیادہ استعمال کرتے
ہیں میر ے خیال میں یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے کیو نکہ ملک پاکستان ایک اسلامی
ملک ہے اس لئے لازم ہے کہ تمام اقلیتیں وہ اس ملک کے آئین اور قانون کی
پابند ی کریں میں آپ کو ماضی میں لے جانا چاہتا ہوں جب برصغیرپاک وہند
پرمغل بادشاہوں کی حکومت تھی تب انگریز لو گ تجارت کی غرض سے ہندوستان میں
آنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند پر اپنے قدم
جمانا شرو ع کر دیئے اور ایک وقت آیا جب مغلو ں کا تخت الٹا کر انہوں نے
اپنی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیاچونکہ انگریز سرد ملک سے تعلق رکھتے تھے اس
لیے ان کی خوراک بھی موسم کے عین مطابق ہوتی تھی اور انگریز پینے کے لیے
شراب (وائن)اور بیئر استعمال کرتے تھے اور اب بھی کر تے ہیں جب ہندوستان پر
انگریز وں کی سلطنت کا سورج طلوع ہو ا تو انہوں نے ساری سلطنت میں اپنے
آئین اور قانون کو سو فیصد لاگو کیامگر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اور مختلف
تحریکوں کے باعث انگریزسو سالہ بادشاہی کے بعد واپس جانے پر مجبور ہوگیا
کیو نکہ اتنی پُر زور تحریکیں بڑے بڑے لیڈروں نے چلائی کہ انگریز کی اینٹ
سے اینٹ بجا کر رکھ دی اور آخروہ دن آگیا جب انگریز کی سلطنت کا سورج غروب
ہوا اور انگریز واپس چلا گیا ساتھ میں برصغیر پاک وہند کو بھی دو حصوں میں
تقسیم کر گیا۔14اگست 1947ء کو پاکستان جب آزاد ہو ا تو چند ایک انگریز کچھ
عرصے کے لیے پاکستان میں رہائش پزیر رہے مگر جلد ہی واپس چلے گئے مسئلہ یہ
تھا کہ پہلے تو انگریز وں کی حکومت تھی اس لئے اس کا قانون چلتا تھا مگر
جیسے ہی آزادی مل گئی تو انگریز کا قانون بھی ختم ہو گیا۔چونکہ پاکستان
اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا ملک ہے اس لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں آئین و قانون بھی اسلام کے عین مطابق ہونا تھااور اسلام میں شراب حرام
ہے اس لئے انگریز وں کے لیے زیادہ دیر تک رہنے میں دشواری ہونا شروع ہوگئی
کیونکہ وہ سر عام شراب نہیں پی سکتے تھے اور پاکستان کے اندر حرام چیز کی
نمو دو نمائش بھی نہیں کر سکتے تھے لہذا جتنا عرصہ وہ پاکستان میں رہے
انہوں نے حکومت پاکستان سے درخواست کرکے پرمٹ (کوٹہ) سسٹم متعارف کروایااس
سسٹم کے مطابق غیر مسلم پردے میں رہتے ہوئے شراب کی خرید و فروخت کے ساتھ
ساتھ پی بھی سکتے تھے۔
اب آتے ہیں اقلیتوں کی طرف میں دل سے سمجھتا ہوں کہ تما م مذاہب معاشرتی
برائیوں کو روکتے ہیں اورمذاہب کے مطابق ان برائیوں کے بدلے سزا بھی مقرر
ہیں بحیثیت ایک میسحی پاکستانی ہوتے ہوئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ مسیحیت
میں بھی شراب سختی سے منع ہے اور پورے طور پر حرام ہے بحوالہ (افسیوں
:18:05)" شراب میں متوالے نہ بنوکیونکہ اس سے بد چلنی واقع ہوتی ہے "اسی
طرح ایک اور جگہ پر بڑا واضح بیان ہے جہاں پر شراب کے علاوہ دوسری خرافات
سے بھی منع کیا گیا ہے۔ بحوالہ انجیل مقدس ( کرنتھیوں09,10:06)"نہ
حرام کا ر خدا کی بادشاہی (جنت) کے وارث ہوں گے ،نہ بت پرست ، نہ عیاش ، نہ
لونڈے باز، نہ چور، نہ لالچی ، نہ شرابی اور نہ گالیاں بکنے والے ظالم "
ان حوالہ جات کے علاوہ اور بھی بہت سی جگہوں پر انجیل مقدس میں فرمایا گیا
ہے کہ شراب حرام ہے اور جو بھی مسیحی اس کو پیئے گا وہ مسیحیت سے خارج ہو
جائے گا اور وہ (خدا کی بادشاہی) جنت میں داخل نہ ہوگا اس معاملے کو مد نظر
رکھتے ہوئے مختلف ادوار میں مختلف مسیحی سیاسی لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں نے
حکومت پاکستان سے درخواست/ التماس کی کہ یہ پر مٹ سسٹم جو کہ لعنت کا جھومر
مسیحیوں اور دیگر اقلیتوں کے ماتھے پر لگا ہے اتاردیں اس کڑی کو بڑھتے ہوئے
مسیحی سیاسی لیڈر آسیہ ناصر رکن قومی اسمبلی نے مورخہ 6مئی 2014 کو دیگر 15
ارکان کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیاجسکا متن یہ تھا
کہ’’مسیحیت میں شراب حرام ہے اور پرمٹ سسٹم ختم کیا جائے‘‘ اور اس لعنت کا
جھومر ہمارے ماتھے سے اتار دیں مگر آج تک وہ بل منظور نہیں کیا جاسکا،
کیوں؟ اب دوبارہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کی طرف آتے ہیں کہ جسٹس صاحب نے
ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اقلیتیں تو برائے نام ہیں ،پارلیمنٹ لاجز سے
بھی شراب کی خالی بوتلیں بر آمد ہوئی جو کہ سر جھکادینے والی بات ہے اور
بڑے دکھ سے بیان کر رہا ہوں کہ یہ کیسی قانون ساز اسمبلی ہے ؟اور یہ کیسے
ایسی قرار داد منظور کریگی ؟جس ملک کی قانون ساز اسمبلی کی یہ حالت ہے اس
ملک کی عوام کی کیا حالت ہو گی اس کا تصور کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادارے
ملک کی عوام کی بھلائی کیلئے کوئی بہتری کا قانون پاس کرسکے گی۔ آخر میں
میری ہاتھ جوڑ کر حکومت سے التماس ہے کہ پرمٹ سسٹم کو فوری طور پر بند کریں
اور شراب کے پینے، بیچنے والوں کے لئے سزا کے عمل کو سخت بنائے اور ساتھ
عدلیہ سے بھی التماس ہے کہ وہ ان فیصلوں کی روشنی میں ایسے لوگوں سے کو ئی
رعایت نہ کریں تاکہ شراب کے علاوہ دیگر تمام نشہ آور چیزوں اورمعاشرتی
برائیوں سے چھٹکار حاصل کر سکیں اورملک پاکستان کو نشے سے پاک ملک بنائیں
او ر اس عمل کے لیے ہمیں بحیثیت پاکستانی کردار ادا کرنا چاہیئے اورہر فارم
پر مذہبی ، سیاسی، سماجی طور پر کونسلنگ کریں کہ ہر نشہ ایک حرام چیزہے جو
کہ دنیا میں برباد کر دے گا اورآخرت میں دوزخ دلوائے گا۔
پاکستان زندہ آباد |