جشنِ آمدِ رسولﷺ اور ہماری ذمہ داری
(Wajid Qureshi, Barcelona)
نوجوانوں اور دردِ دل رکھنے والوں سے اک استدعا کہ اپنے طرز عمل پر غور کریں اور اللّه کے رسولﷺ کے پیغامِ محبت کو عوام الناس تک پہنچانے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت بانٹیں جو کوئی نفرت کا پیغام دیتا ہے وہ حضورﷺ کی تعلیمات سے منحرف ہے........... |
|
|
کہیں وحشت کا دور دورہ تھا اور کہیں شرک
اور بت پرستی نے انسانوں کو غلط راہ پر ڈال دیا ہوا تھا . مصر ، ہندوستان ،
بابل و نینوا ، یونان اور چین اپنی تہذیب کی شمعیں گل کر چکے تھے فارس اور
روم کے اس وقت کے تمدنی عظمت کے پرچم ہوا میں لہرا رہے تھے . رومی اور
ایرانی تہذیب کی ظاہری چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی تھی مگر شیش
محلوں کے اندر شیش ناگ پھن پھیلاۓ بیٹھے تھے . جو انسانیت کو ڈس رہے تھے
زندگی کے زخموں سے تعفن اٹھ رہا تھا . بادشاہ خدا کے منکر ھی نہیں بلکہ خود
خدا بنے ہوئے تھے . ان کے ساتھ جاگیرداروں اور مذہبی لوگوں کی ملی بھگت
قائم تھی . روم اور ایران کے خطوں میں عام انسانوں کا گلا دبوچا ہوا تھا .
ان سے بھاری ٹیکس وصول کیا جاتا تھا . خراج ، رشوتیں ، اور نظرانے وصول
کرنے کے باوجود ان سے جانوروں سا سلوک کیا جاتا تھا . لیکن ان کے مسائل سے
انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ انکی مصیبتوں سے ہمدردی تھی . انکے
بالادست طبقے کی عیاشیوں اور نفس پرستیوں نے اخلاقی روح کو ہلاک کر دیا تھا
.
بادشاہوں کے ادل بدل ، نت نۓ فاتحین کے ظہور اور خون ریز جنگوں کے بعد بھی
کوئی راہ نجات عام آدمی کیلئےنہ نکلتی تھی . ہر بار فاتح قوت عوام کے کسی
نہ کسی طبقے کو خوب اچھی طرح پامال کر دیتی . مذہبی فرقے خون ریزیاں کرتے .
ان کے درمیان انسانیت پس جاتی . بادشاہوں کے اپنے قانون چلتے تھے .
جاگیرداروں کی جاگیروں میں سر اٹھا کر چلنے کی اجازت نہ تھی . اس دور کے
انسان کی مایوسیوں اور ناداریوں کا اندازہ ہم بمشکل کر سکتے ہیں .
انبیا کی تعلیمات اس سب غبار میں کہیں گم ہو چکی تھیں . جن کے پاس الہامی
کتابوں کا علم تھا وہ ان کے اوپر اپنی خواہشات کو مقدم رکھتے اور مذہبی
دکانداری چمکا رکھی تھی . علماۓ یہود و نصاریٰ اصل اسلامی علم کو چھپاۓ
ہوئے تھے . تعویز گنڈوں میں عوام کو الجھا رکھا تھا ....... امالمومنین
حضرت صفیہؓ فرماتی ہیں میرے والد اور چچا یہودی عالم تھے، جب رحمت عالمﷺ کا
اعلان نبوت ہوا تو میرے چچا میرے والد سے باتیں کر رہے تھے کہ اس نبی کا
ذکر تو واقعی ہماری کتابوں میں موجود ھے اگر ہم انکو مان لیں گے تو ہمارے
لوگ ہماری عزت کیونکر کریں گے . یعنی مذہبی طبقوں نے الہامی علم کو کاروبار
بنا رکھا تھا .
یونان کا فلسفہ سکتے کا شکار تھا . بدھ مت کے تصورات بدست و گریبان تھے .
خود حجاز کا معاشرہ جس میں دو ہزار سال سے کوئی نبی معبوث نہ ہوا تھا .
یعنی حضرت شعیبؑ کے بعد حضورﷺ کی بعثت تک دوسرے انبیا کی تعلیمات دوسرے
علاقوں سے حجاز میں تو پہنچ رہی تھیں مگر اس دوران اور کوئی بھی نبی اللّه
کی طرف سے معبوث نہ ہوا اس لئے ان میں مذہب نام کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی
. حتی کہ اپنے آپ کو اولاد ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کہنے والے بھی لات ، منات
اور عزی جیسے دیوی دیوتاؤں کے بت گھڑ کر ان کے سامنے سجدہ ریز تھے .
اور جو ماحول حضورﷺ کا اولین میدانِ کار بنا اس کا تصور کرتے ھی دل دہل
جاتا ھے...... عاد و ثمود کے دور میں عدن و یمن کی سلطنتوں کے ساۓ میں کبھی
وہاں تہذیب کی روشنی نمودار ہوئی تھی تو اب اسے مدھم پڑے ایک زمانہ گزر چکا
تھا . خطہ عرب پر بھی وحشت و بربریت کے ساۓ چھاۓ تھے . ہر طرف انتشار تھا .
انسان اور انسان کے درمیان تصادم تھا پشت در پشت جنگیں لڑی جاتی تھیں .
شراب ، زنا ، اور جوۓ کی ثقافت زوروں پر تھی . حتی کہ قریش نے مشرکانہ اور
بت پرستانہ مذہبیت کے ساتھ ساتھ کعبہ کی مجاوری بھی سمبھال رکھی تھی .
مکہ اور طائف میں بسنے والوں نے سودی کاروبار کے جال پھیلا رکھے تھے غلاموں
کی خرید و فروخت کا دھندہ بہت دھڑلے سے چلتا تھا . کمزور جانوروں سے بدتر
تھا اور زورآور نہایت ہی منہ زور تھا......... ان حالات میں اللّه رب العزت
نے اپنا کرم فرمایا اور قرآن کی زبان میں امیوں میں سے ایک رسولﷺ پیدا
فرمایا جو اللّه کی آیات کو کھول کھول کر بیان کرتا .
پھر ان تمام حالات میں اس مقدس ہستی کے ظہور کا وقت آ گیا کہ جن کے آنے سے
بزمِ ہستی میں رونق آ گئی ...........
ابنِ سعد کی روایت 12 ربیع الاول پیر کا دن تھا . مختلف رجحان ہیں مگر پیر
کا دن اور 12 ربیع الاول پر سب متفق ہیں اور مشہور عام بھی 12 ربیع الاول
ہی ہے .
12 ربیع الاول پیر کے روز بمطابق مفسرین اور سیرت کے ماہرین کے مطابق اس
ماہِ مبارک کے پیراۓ میں بیان کرتے ہیں کہ آج کی رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ
کنگرے ٹوٹ کر گِر گئے . آتش کدہِ فارس بجھ گیا . دریاۓ ساوہ خشک ہو گیا .
لیکن میں یوں کہوں گا کہ ایوانِ کسریٰ نہیں بلکہ شانِ عجم ، شوکتِ روم ،
اوجِ چین کے قصر ہاۓ فلک بوس گِر پڑے .آتشِ فارس نہیں بلکہ حجیم شر ، آتش
کدہِ کفر ، آذر کدہِ گمراہی سرد ہو کر رہ گئے .
12 ربیع الاول ، آج کی صبح وہی صبح جان نواز ، وہی ساعتِ ہمایوں ، وہی دورِ
فرخ فال ہے ، اپنے اپنے محدود خانوں میں خاک اڑنے لگی ، بتکدے خاک میں مل
گئے ، شیرازہ مجوسیت بکھر گیا ، نصرانیت کے اوراقِ خزاں ایک ایک کر کے جھڑ
گئے . توحید کا غلغلہ اٹھا ، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی ، آفتابِ ہدایت
کی شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں ، اخلاقِ انسانی کا آئینہ پر توِ قدسی سے چمک
اٹھا . یعنی یتیمِ عبداللهؑ جگر گوشہ آمنہؑ ، شاہِ حرم ، حکمرانِ عرب ،
فرمانرواۓ عالم ، شہنشاہِ کونینﷺ عالمِ قدس سے عالمِ کائنات میں تشریف فرما
ہوئے .
" اللھم صلی علی محمّد و علی آل محمّد "
غور کریں !
اس قدر عظیم الشان دن پر بھی ہم فرقوں میں بٹے ہوئے ایک دوسرے کو ملامت کر
رہے ہیں . جو اس کو مناتے ہیں وہ دوسروں کو شیطان کے ساتھی اور جہنمی قرار
دے رہے ہیں اور جو نہیں مناتے وہ بدعتی اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مشاہبتی
کا ٹائٹل دوسروں کو دے رہے ہیں .
اب جو اعتدال پسند ہیں وہ کدھر جایئں ؟؟؟؟
حالانکہ یہ دن تو امت کے اتحاد کی علامت ہونا چاہئے تھا .
نبئ رحمتﷺ کی محبت و مودت کو عام کرنے کا دن ہونا چاہئے تھا . مگر نہیں اس
پر بھی ہم نے فتاویٰ کے انبار لگا دئے ہیں جن کی اسناد انتہائی کمزور نظر
آتی ہیں . کم از کم اس دن کو ہم محبتِ رسولﷺ کی یاد میں ایک دوسرے سے پیار
بانٹنے کا دن قرار دے سکتے تھے . مسلمان تو کیا غیر مسلموں میں بھی اس قدر
پیار تقسیم کرتے کہ وہ محبتِ رسولﷺ سے آشنا ہو جاتے .
مگر ہم خود اپنے بھائیوں سے خوفزدہ نظر آتے ہیں مساجد کے باہر پہرے لگا کر
محفلیں کر رہے ہیں . میلاد کے جلسوں پر کڑی نگرانی رکھی جا رہی ہے کہ کوئی
اسلام دشمن یا اپنا ہے کوئی جنونی گروہ دہشتگردی کی واردات نہ ڈال دے .
موبائل ٹیلیفونوں پر پابندی لگا دی جاتی ہے . اس پیغامِ محبت کے دن کو بھی
خوف کی علامت بنا دیا جاتا ہے . پھر نہ جانے کیا کیا خرافات اس مقدس رات
میں ہو گزرتی ہیں الامان و الحفیظ.............
ہم کسی غیر مسلم کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں ؟
اس رحمت کے پیغام کو خوف اور بدامنی کے ساۓ میں کیسے پھیلا سکتے ہیں ؟
دردِ دل رکھنے والوں سے اور خصوصاً نوجوانوں سے استدعا ہے کہ اپنے طرز عمل
پر غور کریں . اور اللّه کے رسولﷺ کے پیغام محبت کو عوام الناس تک پہنچانے
کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت بانٹیں جو کوئی آپ کو نفرت کا پیغام دیتا ہے
وہ حضورﷺ کی تعلیمات سے منحرف ہے کیونکہ میرے اللّه نے فرما دیا
ہے................
" وما ارسلنک الا رحمت العالمین "
(اور یقیناً ہم نے آپﷺ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے) |
|