تندروستی اﷲ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس
لیے کسی بھی کام کے لیے کسی انسان کا صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔مگر ہمارے
معاشرے میں بہت سے لوگ ذہنی اورجسمانی طور پر معذوری کا شکار ہیں اور انہی
لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں معذور افراد
کا عالمی دن منایا جا رہاہے۔یہ دن منانے کا مقصددنیابھر میں معذور افراد کے
مسائل کو اجاگر کرنے اور معاشرے میں ان افراد کی افادیت پر زور
ڈالناہے۔یادرہے کہ معذورافراد کا عالمی دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں
۱۴ اکتوبر۱۹۹۲ کومنظور ہونے والی قرارداد نمبر۴۷/۳کے تحت ہر سال کو ۳ دسمبر
کو پوری دنیا میں منایا جاتاہے۔
اس دن کی مناسبت سے پوری دنیا میں سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں کے تحت
سیمنار اور ورکشاپ منعقد کی جاتی ہے اور لوگوں کو بتایا جاتاہے وہ معذور
افراد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مثبت کوششیں بروئے کار لائیں۔مگر
افسوس کہ یہ سیمنار اور ورکشاپ صرف باتوں اور تک محدور رہتی ہیں اور بس ان
سمینار میں یہی بتایاجاتا ہے کہ ہمیں معذور افراد کا دن یاد ہے پھر رات گئی
اور بات گئی ۔ اگر معذور افراد کا عالمی دن منانے کا یہی مقصد ہے تو براہ
مہربانی ہمیں اس دن کو منانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت اس وقت پاکستان میں کل آبادی کا سات فیصد
معذور افراد پر مشتمل ہے اور جب کہ دنیا میں اس کا تناسب دس فیصد
ہے۔پاکستان میں معذور افراد کی تعداد تقریبا ڈیڑہ کروڑ سے زائد ہے جن میں
۷۵ فیصد کا تعلق دیہاتوں سے اور جبکہ ۲۱ فیصد کا تعق شہروں سے ہے۔
دنیابھر میں ترقی یافتہ ممالک میں معذور افراد کو ہر سہولت میسر کی جاتی ہے
مگر اس کے برعکس ترقی پذیرممالک اور پاکستان میں یہی معذور افراد بہت سے
مسائل سے دوچار ہیں جن میں تعلیم ،رہائش ،صحت اور سفری سہولیات شامل ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت ہر ملک اپنی کل آبادی کا دس فیصدکو معذور
شمار کرتے ہوئے ان کی قانون سازی کرے اور ان کو بہت مراعات دینے کی پابند
ہو گی۔ مگر افسوس کے ترقی یافتہ ممالک میں اس پر عمل درآمد شروع کردیا گیا
ہے مگر ترقی پذیر اور پاکستان جیسے ممالک میں اس پر کوئی کاروائی عمل میں
نہیں لائی گئی بلکہ یہاں پہلے سے موجود قانون جو معذور افراد کے حق میں ہے
اس پر عمل درآمد نہ کروانا ایک افسوس ناک امر ہے۔
پاکستان میں موجود معذور افراد بہت سے مسائل سے دوچار ہیں اور یہ مسائل
حکوت کی بے بسی اور عدم دلچسپی سے دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں
موجود عمارتیں جن میں میں سکول ، یونیورسٹیاں اور شاپنگ مال ایسے ہیں جن کی
عمارتیں ایسے ڈائزین اور شیپ کی ہیں جن میں معذور افراد جانے کی تو کیا
وہاں جانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر یہی عمارتیں ایسی شیپ میں بنائی جائیں
جس میں معذور افر اد بھی آسانی سے آجا سکے تو وہ کھبی بھی اپنے آپ کو دوسرے
انسان سے کم نہیں سمجھے گااور وہ بھی ایک عام انسان کے شانہ بشانہ کام کرے
گا۔ اسی طرح سفری سہولیات بھی معذور افراد کے لیے بے حد مشکل ہیں کیونکہ
کوئی ایسی ٹرانسپورٹ نہیں جس میں معذور افراد کے بیٹھنے کی نششت بنائی گئی
ہو جہاں وہ آرام سے بیٹھ کر سفر کر سکے اور وہ بغیر کسی سہارے کے نقل وحمل
کرسکے تاکہ اس کو احساس ہی نہ ہو کہ وہ معذور ہے مگر افسوس ہم خود اس کو
احساس دلاتے ہیں کہ وہ اپاہج ہیں۔ اسی طرح معذور افراد کے لیے تعلیم اور
صحت کی بھی کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں ۔ سرکاری اور غیر سرکاری
اداروں میں ان کے بیٹھنے کے لیے کوئی خاص جگہ میسر نہیں۔ جگہ تو دور کی بات
وہاں معذور افراد کے لیے وہیل چئیر تک میسر نہیں۔ آج بھی معذور افراد کو
سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں گھنٹوں کھڑا کرنے کے بعد کام کیا جاتا ہے
مگر ان کا کو ئی پرسان حال نہیں۔
میں نے دیکھا کہ کچھ والدین بھی اپنے معذور بچوں کی شناخت کو چھپاتے ہیں
تاکہ وہ کہیں ان کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بنے ۔ مگر افسوس کہ آپ کی تھوڑی
سی توجہ اس کی زندگی بدل سکتی ہے اور پھر یہی لوگ آپ کے لیے فخر کا باعث
بنیں گے۔
معذوری کوئی کمزوری نہیں ہے اگر حوصلہ بلند ہے تو دنیا کی کوئی معذوری آپ
کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن
کی حقیقت سے بہت کم لوگ آشنا ہیں مگر انہوں نے اپنی معذوری کے باوجود اور
اپنے بلند حوصلے اور محنت کی وجہ سے دنیا میں وہ کام کر دکھایا کہ رہتی
دنیا تک ان کا نام یاد رکھا جائے گااور دنیا کو بتایا کہ وہ کسی سے کم
نہیں۔آئن سٹائن ،اسٹیف ہاکن، تھامس ایڈیسن سے کون واقف نہیں، جن کی خدمات
سے آج بھی دنیا مفید ہو رہی ہے اور چاہا کر بھی ان کی خدمات کو بھلا نہیں
سکتی۔ٹام کروز،ہیلن کیلر،ناک ویجوسک کو لاکھوں لوگ جانتے ہیں مگر یہ کوئی
نہیں جانتا کہ یہ لوگ کسی نہ کسی معذوری کا شکارتھے مگر اس کے باوجود انہوں
نے اپنی معذوری کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا اور تاریخ میں
وہ مقام حاصل کیا جو تا قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔کرسٹی برؤن معذور ہونے
کے باوجود دنیا کا بہترین پینٹر قرارپایا گیا ۔سودھا چندرا نے بھی اپنی
معذوری کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیا اور بہترین ڈانسر قرار
پائی ۔ ان معذور افراد نے لوگوں اور دوسرے معذور افراد کے لیے بہترین مثال
قائم کی اور لوگوں کو بتایا کہ معذوری کو ئی کمزوری نہیں اور اگر کوئی
کمزوری ہے تو وہ آپ کے اندر ہے۔انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اگر ایک انسان
محنت اور سچے لگن سے کوئی کام کرتا ہے تو پھر کوئی معذوری ان کی ترقی کی
راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی بلکہ معذوری نام کا لفظ ہی ان کی زندگی سے مٹ
جاتا ہے اور انہیں یاد بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔
ان سب کی کامیابی کے پیچھے معاشرہ اور دوسرے لوگ بہت اہم کردار ادا کرتے
ہیں۔ معاشرہ جو ایک عام انسان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتاہے مگر
افسوس ہمارے معاشرے میں بچوں کووہ مقام حاصل نہیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
ہمارے معاشرے میں انہیں ایک الگ حصہ تصور کیا جاتا ہے اور انہیں اس بات کا
یقین یا احساس کروایا جاتا ہے کہ وہ اپاہج ہیں جو انتہائی دکھ کی بات
ہے۔اگرہمارے معاشرے میں انہیں تھوڑی سی ہی حوصلہ افزائی دی جائے تو ان میں
بھی آج تھامس ایڈیسن اور آئن سٹائن پیدا ہونگے ۔جو دوسرے لوگوں کے ساتھ
شانہ بشانہ کام کریں گے اور ملک میں کسی بھی قسم کا بوجھ نہیں بنے گیں بلکہ
ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔
حکومت کوچاہیے کہ وہ آج کے دن سیمنار میں باتیں کرنے کی بجائے ان باتوں پر
عملی توجہ دے تو وہ زیادہ بہتر ہوگا کیونکہ ان سیمنار کی انعقادکی رقم کا
بجٹ معذور افراد کی فلاح وبہبودکی رقم کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔اس لیے
حکومت کوچاہیے کہ وہ معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی بہتر قانون
سازی کرے اور جو قانون پہلے سے موجود ہے اس پر عملی درآمد کے لیے کوئی ٹھوس
اقدام لیں۔نہیں تو پھر ایک معذور ہمیشہ کے لیے معذورہی رہے گا اور کچھ
نہیں۔۔۔۔۔۔ |