49سالوں میں کئی بار پیپلز پارٹی کی سیاسی
موت ہوئی اور کئی بار نیا جنم ہوا مگر بی بی کی شہادت کے بعد سے اب تک
پیپلز پارٹی زوال کا شکار رہی،ٔآصف زرداری کے صدر بننے کے بعد پارٹی کے
پنجاب سے خاتمے کی باتیں کی جانے لگیں مگر پارٹی نے اس کو سنجیدگی سے نہ
لیا جس کا خمیازہ2013 کے انتخابات میں بھگتنا پڑا۔2008 اور2013کے انتخابات
کی بات کی جائے تو 08ء میں پیپلز پارٹی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 62اور
صوبائی اسمبلی کی 106 نشستیں حاصل کیں مگر 13ء میں قومی اسمبلی3اور صوبائی
اسمبلی کی صرف 8سیٹیں حاصل کرسکی۔2008 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو بی بی
کی شہادت پر ہمدردی کا ووٹ ملا اور اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی میں کوئی
بھٹو نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام نہ کئے گئے،کرپشن
کا بازار گرم رہا،عدالتوں سے لڑائیاں کی گئیں،میڈیا کو بھی ساتھ لے کر نہ
چل سکے،عوام اور جیالے آصف زرداری کی پالیسیوں سے ناخوش رہے مگر زرداری
صاحب نے پالیسیاں بدلیں نہ ہی صدارت کسی اور کے حوالے کی،خود کو بچانے
کیلئے منتخب وزیراعظم کوقربانی کا بکرا بنایا گیا۔ایسے ہی درجنوں کام کئے
گئے جونہیں کرنے چاہئے تھیاس پر تفصیل سے کسی اور دن بات ہو جائے گی۔ابھی
کچھ پرانی یادیں تازہ کر لیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی وہ پارٹی تھی جس نے
ملک کو پہلی بار متفقہ آئین دیا جو ابھی تک نافذ ہے،ایٹمی پروگرام شروع
کیا،سٹیل مل اور ہیوی انڈسٹریز شروع کیں،لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس
منعقد کروائی،1971 کی جنگ کے بعد بھارت سے قریباً90ہزار کے قریب فوجیوں کو
رہا کروایاگیا اور ایسے ہی درجنوں اور کارنامے ہیں جن پر ہر کسی کو فخر ہے
کچھ معاملات میں تنقید بھی کی گئی مثلاًجاگیرداروں کو پارٹی میں
لانا،مخالفوں کو دشمن بنانا،ضیاء الحق کو آرمی چیف بنانا،پارٹی میں موروثیت
کو پروان چڑھانا۔اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی جماعت رہی
اور کوئی یہ نہیں سوچ سکتا تھا پارٹی کا ایسا حال بھی ہوگا جیسا کہ آج
ہے۔جیالے آج بھی پارٹی کیلئے جان دینے اور مار کھانے کو تیار ہیں مگر مایوس
صرف اس لئے ہیں کہ پارٹی میں کوئی بھٹو نہیں رہا،بلاول زرداری کو بھٹو
بناکر سامنے لانے سے مرتی ہوئی پارٹی میں جان پڑتی ہے یا نہیں اس کا تو
آئندہ انتخابات میں فیصلہ ہوجائے گامگر ابھی تک کے حالات بہت برے ہیں،میرے
خیال سے پیپلز پارٹی کی تباہی کے ذمہ دار صرف اور صرف سیاسی جادوگر کے نام
سے مشہور سابق صدر آصف زرداری ہیں کیونکہ نصف صدی سے پیپلز پارٹی کو ختم
کرنے کیلئے ہر قسم کا ہتھیار استعمال کیا گیا،آمر نے بھی ٹکرے کرنے کی کوشش
کی،مختلف قسم کے اتحاد بنائے گئے جس کا مقصد صرف اور صرف پیپلز پارٹی کو
کمزور کرنا تھا مگر پیپلز پارٹی پر کوئی خاص فرق نہ پڑا ،اور عوام کی حمایت
حاصل رہی مگر جب سے پارٹی آصف زرداری کے ہاتھ میں آئی تب سے ووٹ بنک تیزی
سے کم ہوتا رہا،تاریخ میں پہلی مرتبہ پی پی حکومت نے اپنی مدت تو پوری کی
مگر تب تک پارٹی کافی کمزور ہوچکی تھی۔آصف زرداری کے دور حکومت میں پارٹی
کا عوام سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا ،کوئی ایسا لیڈر نہ تھا جسے عوام نے
دل سے تسلیم کیا ہو،جیالے حکومتی پالیسیوں سے ناخوش تھے ،یہاں تک کہ اگر پی
پی کے دور حکومت میں بھی اگر ضمنی الیکشن ہوتا تو ٹکٹ ہولڈر آصف زرداری کی
تصویر لگانا پسند نہیں کرتا تھا صرف اس لئے کہ اگر تصویر لگا دی تو جو ووٹ
پڑنے ہیں وہ بھی نہیں ملیں گے،آصف زرداری اقتدار کے نشہ میں دھت اپنے
مفادات کا تحفظ کرتے رہے اور پارٹی پر کوئی توجہ نہ دی،اب بھی کئی سالوں سے
جلا وطن ہیں۔دوسری طرف اگرچہ پیپلز پارٹی کی باگ ڈور بلاول زرداری کے سپرد
کر دی گئی مگراصل طاقت آصف زرداری ہی ہیں،اگر حالات ایسے ہی رہے تو حالات
مزید خراب ہونگے،بلاول زرداری سے جیالے محبت کرتے ہیں اور اپنا لیڈر تسلیم
کرتے ہیں مگر ساتھ میں یہ بھی چاہتے ہیں کہ ’’پاپا‘‘اپنے’’بیٹے‘‘کو مکمل
اختیارات دے کر پارٹی سے الگ ہوجائیں تاکہ شکوک و شبہات دور ہوجائیں اور
جیالے پھر سے پارٹی کیلئے جانیں دینے،مارے کھانے سے گریز نہ کریں اور پارٹی
میں نئی روح پھونک دیں۔اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بلاول زرداری چیئرمین کے
ناطے تمام اختیارات استعمال کر رہے ہیں اور پارٹی پالیسی بھی خود بنا رہے
ہیں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے،بلاول زرداری اگر پیپلز پارٹی کو بھٹو
اور بی بی کی پارٹی بنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ان کو سیاست دان بننا
ہوگا کیونکہ ابھی تک وہ اچھے سیاست دان نہیں بن پائے ،سنجیدگی کی بھی کمی
نظرآرہی ہے،شایان شان زندگی گزارنے کی بجائے عوام میں وقت گزارنا ہوگا،عوام
کے مسائل کو جاننا،سمجھنا اور حل کرنا ہوگا،سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا،دشمن
کی بجائے دوستوں کو بڑھانا ہوگا ،اپنے ہر اقدام سے عوام کا دل جیتنا
ہوگا،بھٹو اور بی بی کے کارناموں کا ذکر کرنے کی بجائے خود ان جیسا بننا
ہوگا،ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست کو درست اور غلط کو غلط کہنا
ہوگا،اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی اچھے اقدام کی تعریف اور غلط اقدام کی
بھرپور مذمت کرنا ہوگی۔اگر بلاول یہ سب کرنے میں کامیاب ہوگئے تو عوام کے
دلوں میں گھر کر جائیں گے نہیں تو اپنے ’’بابا‘‘کی طرح بدنامی کا دھبہ اپنے
ساتھ لگا لیں گے،بلاول زرداری کو جیالے اور سیاسی پارٹیوں سے مایوس ووٹرز
امید کی کرن ضرور سمجھتے ہیں مگر اس کیلئے بلاول زرداری کو سخت فیصلے کر کے
اپنے ’’بابا‘‘کو بھی ناراض کرنا ہوگا جیسا کہ ’’بی بی ‘‘نے’’نصرت بھٹو‘‘کو
کیا تھا۔کیونکہ جب عوام کی سیاست کرنی ہے تو تب اپنے مفادات پس پشت رکھ کر
ایسے اقدامات بھی اٹھانا پڑتے ہیں جس سے اپنے بھی ناراض ہوتے ہیں کیونکہ
پیپلز پارٹی کے اندر کرپشن کیخلاف سخت آپریشن کی ضرورت ہے اور پسند نہ پسند
سے بالاتر ہوکر ہی ایکشن لیا گیا اور ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی گئی تو
ہی پارٹی اپنا کھویا مقام حاصل کر پائے گی۔آخرمیں بلاول زرداری کیلئے صرف
اتنا کہنا چاہونگا ڈیئر بلاول جیسا کہ آپ کو بھی پتہ ہے باتوں،دعوؤں اور
نعروں سے نہ تو عوام کا دل جیتا جا سکتا ہے اور نہ ہی الیکشن، کیونکہ
2013کے انتخابات میں ایک کھلاڑی نے باتوں،دعوؤں اور نعروں سے عوام کو اپنی
طرف کھینچنے کی کوشش کی مگر ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا،ڈیئر
بلاول اپنے ’’بابا‘‘سے فری ہینڈ لے کر پارٹی کے تمام فیصلے اچھے رہنماؤں کو
ساتھ ملا کر کریں اور ممکن ہوتو اپنے’’بابا‘‘کو پارٹی سے الگ رہنے کا مشورہ
دیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’بابا‘‘کا پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں ہونا
چاہئے،پیپلز پارٹی میں آج بھی اچھے،بڑینام موجود ہیں اور ان کا ساتھ بھی آپ
کو ضرور چاہئے ہوگا،سینئرز کو عزت دینے سے ہی آپ کی عزت ہوگی۔ڈیئر بلاول
آصفہ اور بختاور کو بھی اپنے تمام فیصلوں میں شامل رکھیں ایک تو ان کی بھی
گرومنگ ہوگی دوسرا آپ کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔جئے بھٹو |