یہ تھا خیال جو ہمارے والدین خصوصاً
والد کو آیا جس وقت وہ ریٹائر منٹ کے قریب تھے ۔ اچھے بھلے سرکاری بنگلے
میں رہائش پذیر تھے۔ مگر ایک تو ہمارا مالی کسی رشتہ دار سے کم نہ تھا!جلتا
تھا یا کام چور تھا! ہروقت کی شکایت کہ اتنے بڑے بڑے درخت ہیں میں پتے چن
چن کر تھک جاتا ہوں !گھر کے کسی فرد سے ملاقات کرتا، یہ بھاشن ضرور دیتا کہ
یہ تو سرکاری بنگلہ ہے آپ کو چھوڑنا پڑے گا میں نے تو پلاٹ لے لیا ہے ! اس
کا فخر سن سن کر کان پک گئے تھےہم سب کے! اس کے ساتھ ساتھ کچھ احباب کی
نصیحتیں کہ میاں حج کر لیا مبارک ہو اب گھر بھی بنالو!۔۔۔۔۔یہ کوئی آبائی
مکان تھوڑیکہ منزل کے اوپر منزل بناتے چلے جائیں !سرکاری کالونی میں تو آ
بادی اپنی حدود میں رہتی ہے! !۔۔۔۔ ادھر ریٹائرمنٹ ہوئی ادھر گھر چھوڑنے کا
نوٹس تیارملتا ہے۔
کہتے ہیں کہ مسلسل برسنے سے تو پتھر میں بھی سوراخ ہوجا تاہے چنانچہ
ہمارےوالد محترم کا پیمانہ اس روز چھلک کر باہر آگیا جب ایک رشتہ دار بچی
کا مکالمہ ان کی سماعت سے ٹکرایا کہ ۔۔۔یہ مکان آپ کا تھوڑی ہے! بچےکیا
جانیں ذاتی اور سرکاری مکان کا فرق ؟ وہ تو اپنے ابا کی زبان بول رہی تھی
جو یقیناً انہوں اپنے گھر کے مقابلے میں ایسا گھر خریدنے کے مطالبے پر اس
کو تسلی دی ہوگی۔۔۔۔ تو بس سنجیدگی سے اس محاذ پر کام شروع ہو گیاجس کی
ابتداء پلاٹ کی خریداری سے ہوئی۔
بہت ہی مناسب قیمت پر کارنر پلاٹ ! ۔ گھنے جنگل کے درمیان ابھری ہوئی سطح
پر ( نہ جانے کے ڈی اے والوں نے پلاٹ کی کٹنگ کس طرح کی ہوگی اس مخروطی طرز
کی جگہ کی؟) آب و ہوا نہایت خوشگوار! ویرانہ اتنا کہ الو کو ڈھونڈیں!
شاندار محل وقوع کے ضمن میں ہمارے ابا کے دو ہی دلائل تھے۔ موجودہ رہائش کے
کتنا قریب ہے کہ وہی مانوس بس اسٹاپ ہے ۔بس سے اتریں تو ابھی شمال کی طرف
کو گھر ہے بعد میں جنوب کی طرف ( ایک تو ہمارے ابا کو بسوں کے سفر اور پیدل
چلنے پر عبور تھا) دوسرے امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ برابر والی پہاڑی کی
چوٹی پر رینجرز گھات لگائے بیٹھی تھی کیونکہ قریب ہی ان کا ہیڈ کوارٹر
تھاتو بس حفاظتی لحاظ سے بہترین ٹھہرا ۔۔۔۔!نقشے کے مطابق اس سے ملحقہ پارک
اور نزدیک سرکاری آفس بھی تھا۔ ہوگا!فی الحال تو سب کچھ گھنی جھاڑیوں میں
ڈوبا ہوا تھا۔
پلاٹ کی ملکیت کے بعد جب ہم اس کے سامنے مرکزی شاہراہ سے گزرتے تو اس
ایستادہ رینجرز کی بندوق کی نالی دیکھ کر اپنی زمین کا اندازہ کر لیتے! دل
باغ باغ ہوجاتا مگر وہاں رہائش کا ہنوز کوئی امکان نہیں تھا۔
اب مسئلہ تھا اس پر گھر بنانے کا کہ اس کے لیے سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔بلی
کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مترادف جوں ہی اس انتظام کی بھنک ہمارے ابا کے اس
وقت کے مشیر اور صلاح کار کو ملی اپنے سالے ( زوجہ کے بھائی ) کےآرکیٹیکچر
میں ڈگری کا ہونے کی خبر لے کر حاضر ہوئے ۔ ساتھ ہی ایک بلڈربھی نتھی
ہوگیا۔ اس ننھے سے پلاٹ پر پتہ نہیں کتنے بڑے بڑے منصوبے بن گئے۔ کافی
ردوکد کے بعد ایک ڈیزائن طے ہو ہی گیا۔ کاغذ پر بنے نقشے کو دیکھ کر گھر
میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔باقی سارے نشانات تو سمجھ میں آ رہے تھے مگر یہ آ
خر پی روم کیا ہے؟عقدہ کھلا کہ پلے روم ہے! سردیوں میں وہاں بلیئرڈ وغیرہ
کھیلی جاسکے گی! پلاٹ کی ٹوپوگرافی دیکھتے ہوئےانہوں نے گھر کے آدھے حصے
میں بیسمنٹ بنایا ۔اس کے برابر میں سرونٹ روم ایک واش روم کے ساتھ! موصوف
نےجہاں سے ڈیزائن اخذ کیاتھا وہاں یہ سارے لوازمات انتہائی ضروری ہوتے ہیں
۔( پتہ نہیں سوئمنگ پول کو کس طرح نقشے سے باہر کیا ہوگا بے چارے نے؟) یہاں
برف باری تو ہوتی نہیں پھر اس کی کیا ضرورت ہے؟ اس اعتراض کا جواب یوں
سامنے آ یا کہ چلیں پلے ( کھیل کا کمرہ ) نہ سہی پرے روم (عبادت کا کمرہ
)سمجھ لیں !اس کے لیے اتنا بھاڑ سا کمرہ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ مصلہ تو
کہیں بھی بچھایا جا سکتا ہے! ہم بھی جوابی اعتراض داخل کر سکتے تھے مگر کچھ
سوچ کر چپ ہو گئے کہ یہاں اجتماع ہوسکتا ہے۔۔۔ڈے کئیر سنٹر بنا سکتے ہیں
۔۔۔لائبریری ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ !پلاننگ مینیجمنٹ کا شعبہ تو ہم پاکستانیوں کے
لیے گھر کی مرغی ہے! شیخ چلی تو ناحق ہی مشہور تھا! یہاں یہ بات بھی گوش
گذار کریں کہ اس نومولود آرک ٹیکچر کے ڈیزائن منظور ہونے پر ہمارے بہت سے
قریبی رشتہ دار اور احباب جو باقاعدہ ڈگری یافتہ انجینئر تھے خاصے عرصے
ناراض رہے! ہمارے خیال میں ان کے تحفظات درست تھے۔
نقشہ پاس ہونے کے بعد نیا مر حلہ تعمیرات کا تھا۔ ہمارے ابا جان کو ریٹائر
ہوتے ہی ایک بامقصد مصروفیت ہاتھ آ گئی۔ روز صبح صبح ناشتے کے بعد پانی کی
بوتل لے کر چھوٹے بھائی کے ساتھ پلاٹ پر تشریف لے جاتے اور مزدوروں کے ساتھ
ہی دن گزار کر مٹی میں اٹے شام کو تشریف لاتے ۔ اتنے پتھریلےعلاقے میں
کھدائی آسان نہ تھی۔بنیادیں ڈالنے کےبعد بیسمنٹ میں کام شروع ہوا۔ بقول
ہمارے ابا جان کے اس میں اتنا وقت اور سرمایہ لگا کہ ایک پوری منزل بن سکتی
تھی!اللہ اللہ کرکے زمین کےاوپر کام شروع ہوا تو کچھ شکل نظر آ ئی۔ جس دن
بس سے گزرتے ہوئے اوپری منزل کی دیوار نظر آئی ہم خوشی سے چیخ پڑےاور ہمارے
برابر میں بیٹھی خاتون نے ہمیں سہم کر دیکھا ۔
اس مشغولیت کی وجہ سےگھر کی فضا تبدیل ہوگئی اور ہر وقت اسی کا ذکر ہونے
لگا۔ ماحول تعمیراتی کمپنی سا ہوگیا۔ اب موضوع گفتگو یہ تھے بجری، ریت،
سمینٹ ، سریا کہاں سے ملے گا؟ کیا قیمت ہے؟ شیشہ کہاں بہترین ملے گا ؟
ٹائلز اور ماربلز پر بھی خا صی ریسرچ ہوئی!گاہے بہ گاہے ہم سب گھر والے
سائیٹ کا معائنہ کرتے اور مزدوروں کو زچ کرنے کی کوشش کرتے۔ ایک دن ہم سب
اسی سر گرمی کے لیے پہنچے تو مجوزہ گیٹ سے داخل ہوتے ہی دو بڑ ی بڑی
کھائیاں نظر آ ئیں ۔ ہم تو چیخ مار کر گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ایک تو بیسمنٹ کی
طرف جانے والا خلا تھا جہاں سیڑھیاں لگنی تھیں ۔دوسرا زیر زمین پانی کے
ذخیرہ رکھنے کے لیے تھا۔ اتنا بڑا؟ کیا پورا واٹر بورڈ یہیں ہے؟پورے چار
واٹر ٹینکر آجائیں گے اس میں ! بلڈر کا فخر ہمیں ذرا پسند نہ آ یا ۔ہر
معاملے میں فیاضی سے کام لے رہے تھے۔لوہا اتنا ٹھونسا گیا کہ لگتا تھا
اتفاق فاؤ نڈری کا سارا مال یہیں کھپانا ہے! اس کے مضر اثرات یہ ہوئے کہ
کچن اور وارڈروب کے جو ڈیزائن ہم نے کیٹلاگ دیکھ کر پسند کیے تھے بجٹ آ ؤٹ
ہونے کے باعث ادھورے رہ گئے۔
آخری کام بجلی کی فٹنگ تھا۔فانوسوں کی خریداری پر جو بحث ہوئی ہے خواہ
مخواہ اسمبلی سیشن یاد آ گیا!
گھر پر رنگ وروغن کے بعد بس ہمارا منتقل ہونے کا مر حلہ تھا! مگر نہیں اس
سے پہلے ماربلز کی گھسائی کا کا م باقی تھا۔ مگر ابھی شرف رہائش نہیں بخشا
جا سکتا تھا۔ وجہ؟ بنیادی سہولیات کا فقدان یعنی بجلی نہیں ، گیس ندارد ،
اور پانی کے لیے تو صاف صاف کئی برسوں یعنی 1998ء تک انتظار کرنا تھا ہنوز
دلی دور است کے مصداق! ( یہ انتظا ر اگلی صدی میں 2009 ء میں ہی ختم ہوا جب
لائن کا پانی ہمارے گھر آ یا ) ہاں البتہ ٹیلی فون کا چونکہ نیا ایکسچینج
لگا تھا لہذا ڈیمانڈ نوٹ اگلے ہی دن خالی پلاٹ پر پھڑ پھڑانے لگا۔ اس سے
انتظار کرنے کو کہا گیا حتٰی کہ گھر کا کچھ ڈھانچہ کھڑا ہو!
گھر میں ہماری منتقلی کا کام قدرے تاخیر سے ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے ! پھر
کبھی صحیح !! ہاں اتنا ضرور بتادیں کہ ہم یوں تو یکم اگست کو اس گھر میں
شفٹ ہوچکے تھے مگر باضابطہ طور پر اگست کی 14 تاریخ کو یعنی جشن آ زادی ہم
نے اپنے نئے ملک ۔۔۔معاف کیجیےگا گھر میں منایا!درمیانی وقفہ کہاں اور کیسے
گزارا؟
ا پنے گھر میں کیا تجربات رہے ؟ آ ئندہ قسط میں پڑھیے گا۔ہاں مالی کا انجام
بھی!!! |