حج اور محبت إلٰہی
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
باری تعالیٰ اپنے بندوں سےپیارو محبت کرتے
ہیں اور وہ بھی ستّر ماؤں سے زیادہ،تو اور کیا چاہیئے،کائنات میں کون ہے
،جو انسانوں سے اتنی محبت کرے،یہاں تو کوئی اگر کسی سے محبت کرتابھی ہے،تو
اپنے مطلب کے لئے ،خود غرضی اس میں ضرور شامل ہوتی ہے،مفادات کا کوئی نہ
کوئی عنصر سامنے ہوتاہے،اور اللہ معاف کرے،بعض اوقات تو محبت نہیں ہوتی،صرف
دھوکہ دہی ہوتی ہے،فراڈ ہوتاہے،اگلا یہ سمجھتاہے کہ ہم سے محبت ہورہی
ہے،جبکہ محبت کا دعویدار چاپلوسی کے ذریعے اُسے پھنسانا چاہتاہے،یا اس کو
سیڑھی بنانا چاہتاہے،مگر رب ِّ کائنات کی محبت بے لوث ہے،وہ ٹوٹلی انسانیت
ہی کے مفاد میں ہے،کیونکہ وہ تو بے نیازہے،کسی کا محتاج ہی نہیں،وہ بذاتِ
خود مختارِ کل اور ‘‘کن فَیَکون’’ ہے۔
اُن کا در ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کے لئے کھلا رہتاہے،توبہ قبول
کرتاہے،گناہ معاف کرتاہے،درگذر اُ ن کا شیوہ ہے،وہ حقیقی شہنشاہ ہیں،عطا
کرتاہے،اور بے پناہ عطا کرتاہے،مال،اولاد،عزت،مراتب ومناصب ،حسن وجمال
،برکت،مقبولیت اور پذیرائی سب کچھ دیتاہے،مواقع فراہم کرتاہے،بخشنے کےبہانے
ڈھونڈتاہے،کیا کیا ہے جو وہ نہیں دیتا،بس مانگنے کا سلیقہ ہواورمقاماتِ
مقدسہ ہوں توپھر کیا کہنے،درِ کعبہ،ملتزم،حطیم،صفا ومروہ،مزدلفہ وعرفات اور
مکی ومدنی حرم کی ہر جگہ ومناسبت مانگنے ہی کے لئے تو ہیں،اپنےدر پے
بلالیا،مہمان بنالیا،اپنا بنالیا،ارے لاڈلا بنادیا،تو محروم تھوڑا ہی کرے
گا،نہیں ہر گز نہیں،اُ س کے پاس کوئی کمی ہے کیا،سب کچھ اسی کا تو ہے،ساری
مرادیں،حاجتیں اور ضروریات پوری کر ے گا،جھولیاں بھر دے گا،مانگ کر
تودیکھو،محبت سے،پیار سے،لاڈ سےاعتماد سے،لجاجت اور انہماک سے،وہ تو ہر صبح
منادی کراتاہے کہ ہے کوئی ہم سےمانگنے والا،ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا،ہے
کوئی روزی کا طالب،ہے کوئی محتاج،ہے کوئی ضرورتمند،جو ہوتے ہیں اور مانگتے
ہیں ،انہیں مل جاتاہے۔
حج کی مشروعیت ہی محبت کے اظہار کے لئےہے،یہ ادائیں،یہ ندائیں،یہ عبادات
ومناسک،یہ طوافیں،یہ چہل پہل،یہ تلبیےاور ذکر اذکار،یہ قربانیاں،یہ حلق
وقصر،اور سب سے بڑھ کر احرام،سفید لباس میں ملبوس ،بکھرے بال،بلا خوشبو اور
زیب وزینت ،محبوب کے گھرکادیدار،اس کی دیواروں سے پیار،فرش سے پیار،دروازوں
سے پیار،ستونوں سے پیار،مکان سے پیار ،مکین سے پیار،اور اس کے دشمن کے لئے
کنکریاں،یہ سب کچھ محبت ہے،اظہار ِ محبت ہے،آثار محبت ہے،کردارِ محبت
ہے،گفتارِ محبت ہے،پندارِمحبت ہے،دیدارِ محبت ہے،تجلیات وانوارِ محبت ہیں
،پرچارِ محبت ہے اور ہر کوئی سر شارِ محبت ہے۔
گویاحج ایک تربیتی کورس ہے،ایک مختصر تعلیمی مگر عملی وپریکٹیکلی نصاب
ہے،باری تعالیٰ سے محبت کے سلیقے اس میں سکھائے جاتے ہیں،اس کےقرینے
سُجھائے جاتے ہیں،‘‘تو من شدی،من تو شدم’’اور ‘‘ مَن کانَ للہِ کانَ اللہُ
لَہُ’’ کے راز وانداز اس میں بتائے جاتے ہیں،یہ ایک تعلیمی دورانیہ
ہے،تعلیم میں توجّہ نہایت ضروری ہوتی ہے،یہاں بھی اے حجّاجِ کرام توجّہ،للہ
و فی اللہ توجّہ۔۔۔کہیں غفلت کے شکار نہ ہوجیو،یہ محبت کے معاملے ہیں ،جو
بہت حسّاس ہوتے ہیں،لمحہ لمحہ قیمتی اور سنسنی خیز ہوتاہے،ذرہ لاپرواہی
پوری زندگی کے لئے یاس وحسرت،ارے دیکھیں نا،یہاں سے لوٹنے والا گناہوں سےاس
طرح پاک وصاف ہوجائے گا،جیسے اس کی ماں نے گویا اُسے آج ہی جنا،اندازہ
لگایئے،کہیں کوئی ایمانی یا اعتقادی میل کچیل بچنےنہ پائے،محبت سے پیار سے
نرمی وآسانی سے معمولات بجا لائیو،خود کا بھی خیال رکھیو اور دیگرز
ائرین،معتمرین وحجاج کی بھی مدد کیجیو۔
پوری دنیا کی نگاہیں ،قلوب اوررُخ اس گھر کی طرف،نماز میں اسی کی طرف
منہ،عبادات میں بھی اس کی کوشش کہ قبلہ رُو اَد اکی جائیں،پھر ہر کسی کی
خواہش کہ زندگی میں ایک ہی بار سہی ،پر یہاں آنا نصیب ہو،اور حجّاج کرام
بتوفیقِ إلٰہی یہاں پہنچے ہوئے ہیں،تو اَب آپ اس نعمت کی قدر دانی،اپنے
لئے،اپنے عزیزوں کے لئے،اپنے دوستوں کے لئے،اپنے شہروں کے لئے ،اپنے ملکوں
اور بالخصوص پاکستان کےلئے دعائیں،جی دعائیں،گڑگڑاکر ،رو رو کر،دعائیں
مانگیں،اللہ کی تسبیحات،تکبیرات اور تحمیدات خوب خوب پڑھیں،منوایئے اپنے
آپ کواپنے محبوب رب سے،وہ ضدی نہیں ،مانتاہے،بس دیر اس بات کی ہے کہ آپ
منوانے پر تُل جائیں،اُن کی بارگاہ سے نا امیدی نہیں امیدیں باندھی جاتی
ہیں،کہ یہ درگاہ وبارگاہ نا امیدی کی جگہ ہی نہیں،یہ تو امیدوں کی جگہ ہے۔
حج کی حقیقت کو پانا اورجانناضروری ہے،پھر اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا
بھی لازمی ہے،باری تعالیٰ سے محبت میں ڈوب جانا،کھوجانا اور مٹ جاناہی حج
کی حقیقت ہے، اسے اچھی طرح سمجھا جائے،اس راز تک رسائی حاصل کی جائے،کہ
اللہ پاک سے بھی محبت ہوتی ہے،ان سے معاملہ پیار کا ہے،اس کورس کے بعد اس
سبق کوہمیشہ کے لئے یاد رکھاجائے،اس کاپاس ولحاظ کیا جائے،اسے کبھی بھی
بھولایانہ جائے،اپنی عزت کروانی ہو،تو حاجی صاحب یہ سمجھے کہ میں حاجی
ہوں،مجھے بہت سے امور اور باتوں سے پرہیز کرنی ہوگی،کیونکہ میں باری تعالیٰ
کا گھر بطور مہمان دیکھ کر آیاہوں۔
محبت میں سب سےبڑی چیز وَفا ہے وفا،بے وفائی کا سوچنا بھی نہیں چاہیئے،اللہ
پاک سے بے وفائی،توبہ توبہ،یہاں تووفاداری بشرط استواری مطلوب ومحمود ہے
اور شرطِ اولین ہے،بے وفا آدمی،جھوٹا،وعدہ خلاف،مکرنے والا،منافق اور چرب
زبان کی محبت میں کوئی جگہ ،وقعت،مرتبہ اور مقام نہیں ہے،دونمبری کا آخر
کار اور انجام کار پتہ چلتا ہی ہے،نمبرون بنیئے،اصل اور اصیل بننے کی کوشش
کریں،کم اصل اور غیر اصیل کے لئے نتیجے میں رسوائی ،نامرادی اور بد نامی
مقدّر ہے،باری تعالیٰ سینوں میں چھپے راز جانتاہے،اندر سے ،دل کی گہرائیوں
سے انہیں چاہ لو،انہیں اپنا بنالو،یہ موقع روزروز نہیں آتا،چانسس آئے دن
نہیں ملتے ،پرائز بانڈز کا یہی موقع ہے،یہی حقیقت میں پرائز بانڈز
ہیں۔ماحول بھی میسر ہے،حالات بھی موافق ہیں،اوقات بھی ایسے اور مکانات بھی
ایسے کہ ایک عبادت لاکھوں میں ،لُوٹ لو،بھائی لوٹ لو، معافیاں مانگ
لو،بخششیں مانگ لو،حوائج ،برکات،نعمتیں اور رحمتیں مانگ لو،عطیاتِ ربانی
وبرکاتِ رحمانی کی تیز وتند بارش ہے،جھولیاں بھردو،پھر پتہ نہیں زندگی میں
یہ موقع آئے نہ آئے۔
انہیں بھی محبت ہے اور آپ کو بھی ہے،قرآن ِ کریم میں باری تعالیٰ نے
فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے: میرے بندے مجھ سے محبت کرتے اور میں اُن سے محبت
کرتاہوں،گویاحُبّ من الجانبین ہے، حضورِپاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: وہ ماں باپ
سے بھی کہیں زیادہ محبت والے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں بے انتہا رحمت اور محبت
کرنے والے ہیں۔بس اگر کہیں کوتاہی ہے،تو ہماری جانب سے ہے، وہ تو سراپا
محبت ہی محبت ہے،ایک ایسے رب نے تمہیں اپنے پاس بلایاہے،ضیافت کے لئے مہمان
نوازی کے لئے، تمہیں یہ ضیافت و مہمان نوازی ہزار بار مبارک ہو۔
|
|