سرورِ عالم ؐاور اسلام کا نظام عدل و انصاف

انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصدعدل کا قیام بھی تھا۔حضرت داود ؑ کو خلافت عطا کرتے ہوئے حق و انصاف کی تعلیم دی گئی "اے داؤد(ع)! ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ مقرر کیا ہے پس حق و انصاف کے ساتھ لوگوں میں فیصلہ کیا کرو اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی اور جو اللہ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے سخت عذاب ہے اس لئے انہوں نے یوم الحساب (قیامت) کو بھلا دیا ہے۔۔"(ص:۲۶)۔ انبیاء کے فرائض اور ذمہ داریوں میں عدل کا قیام بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ نبی کریم ؐ کو حکم دیا گیا کہ آپ ؐ یہ منادی سنادیں’’مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی، ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے" (سورۃ الشوریٰ: ۱۵)۔

یہ آیتنہ صرف نظامِ عدل کاسیاق و سباق بیان کرتی ہے بلکہ قیامِ عدل پر بھی زور دیتی ہے۔مکی زندگی کے اندرآپؐ نے لوگوں کوعقائد کی سطح پر عدل کی جانب متوجہ کیا لیند ان نامساعد حالات میں بھی جب شرارتاً کفار مکہ نے ایک ایسے شخص کو آپ کی خدمت میں بھیج دیا کہ جس کا مال ابوجہل نے غصب کررکھا تو آپ نے حالات کی دہائی دے کر معذرت کرنے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ عملاً ابوجہل سے اس کا حق دلوایا ۔ مدنی زندگی کی ابتداء سے کہ جب اسلامی ریاست صرف ۴ مربع میل پر محیط تھی اور اس وقت تک کہ جب وہ ۱۲ لاکھ مربع میل تک پھیل گئی تھی آپ ؐ نے قیامِ حق اور نفاذِ عدل کی سعی جاری و ساری رکھی۔

سرورِ عالم ﷺ نے عدل کے قیام میں اپنے بیگانے،عربیعجمی، گورےکالے، امیرغریب، اعلیٰ وادنیٰ وغیرہ کی ہراونچ نیچ کے فرق کو مٹادیا۔یہی وجہ ہے کہ سیرت کے واقعات میں عدل و قسط کےایسے نظائر و شواہد نظر آتےجس کی نذیر نہیں ملتی ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ کرامؓ کے توسط سے رسول اکرمؐ نے ساری دنیا کو عدل ومساوات کا درس دیا ،’’اے لوگو! تم سب کاپروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایکہے، کسی عربی کو عجمی پراور کسی عجمی کو عربی پرکوئی فضیلت حاصل نہیں اورنہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو کسی گورے پرفضیلت حاصل ہے، سوائے تقویٰ اورپرہیز گاری کے۔‘‘ اس ضمن میں سیرت پاک ؐ کے چندعملی نمونےملاحظہ فرمائیں ۔

قریش میں قبیلہ بنی مخزوم بڑے عزت و احترام کا حامل تھا ۔ اسکی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی جس سے سماج میں ہیجان برپا ہوگیا ۔ ہمارے معاشرے میں بھی یہ بات دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب سلمان خان کا مقدمہ زیر سماعت ہوتا ہے تو سارا میڈیا اور عوام و خواس اس کی جانب نہ صرف متوجہ ہوتے ہیں بلکہ تشویش کا شکار ہوجاتے ہیں حالانکہ ہرروز نہ جانے کتنے بے قصورحوالات میں ٹھونس دئیے جاتے ہیں کوئی ان کو نہیں پوچھتا خیر۔ لوگ چاہتے تھے کہ کسی طرح وہ عورت سزا سے بچ جائے لیکن کسی کی جرأت نہیں تھی کہ آ گےآکر اس کی سفارش کرے۔ اس موقع پر ان نادانوں نےآپ ؐ کےمنظور نظرحضرت اسامہ بن زیدؓ سے رجوع کیا اور ان سے معافی کی سفارش کروائی۔ اس پرنبی کریم ؐنے ناراض ہو کر فرمایا،’’بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے ، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے ) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمدؐ بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔‘‘

عصر حاضر میں دستوری اعتبار سے سارے شہریوں کو کاغذ پر یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں لیکن عملاً اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں دکھائی دیتی۔ ایک عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول تو درکنار رشوت کےبغیر پولس تھانے میں شکایت درج کروانا تک ناممکن ہے۔ اس کے بعد عدالت اوروکلاء کی فیس کا یہ عالم ہے کہ کوئی غریب عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔عدل کا تقاضہتو یہ ہے کہ حاکم یاقاضی ہرمظلوم کی فریاد رسی کرے۔ ہر مدعی کو سفارش یا رشوت کےبغیر انصاف ملے۔ کسی کی غربت یا مقام و مرتبہ حصول انصاف میںرکاوٹ نہ بنے۔ کوئی شخص اپنے منصب یادولت کی وجہ سےعدلیہ پر اثر انداز نہ ہو لیکن یہ سب اگلے وقتوں کی باتیں ہیں آج کل تو صرف باتیں ہی باتیں ہیں عملی مظاہرکیلئے سیرتؐ و خلافت کے زمانے میں جانا پڑتا ہے۔

تقریق و امتیاز عدل و انصاف کیلئے سمِ قاتل ہےاس لئےحضوراکرم ؐنے اس کی مکمل بیخ کنی فرمائی۔ غزوۂ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ آپ ؐ کےچچا حضرت عباس بھی گرفتار ہو کر آئے تھے۔ قیدیوں کو زرِ فدیہ لے کر آزاد کیا جا رہا تھا ۔ فدیہ کی عام رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امراء سے زیادہ فدیہ لیا جاتا تھا،بعض انصار نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ؐ ! اجازت دیجیے کہ ہم عباس کا زرِ فدیہ معاف ادا کردیں، یہ سُن کر آپؐ نے فرمایا ،’’ہر گز نہیں، ایک درہم بھی معاف نہیں ہوگا بلکہ حضرت عباس کی آسودگی کے سبب ان سے حسبِ روایت چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کئے جائیں۔‘‘

عدل و انصاف کو پامال کرنے والاایک توانامحرک عصبیت ہے۔سرورِ کائنات ؐ نے اس فتنہ کی شدت سےسرکوبیفرمائی۔ حضرت واثلہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ؐسے پوچھا،’’ یارسول اللہؐ ! تعصب کیا ہے؟‘‘ آپ ؐنے فرمایاکہ ،’’ (تعصب یہ ہے کہ) تم ظلم میں اپنی قوم کی مد د کرو۔‘‘ اس مختصر سی جامع تعریف کے علاوہ آپ ؐنے ایک مرتبہ تفصیل سے نہایت عام فہم مثال کے ذریعہ عصبیت کے مضرات کوکچھ اس طرح ذہن نشین کرادیا کہ جو اسے سمجھ لے وہ کبھی تعصب کے قریب نہ پھٹکے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشادفرمایا،’’جس شخص نے کسی ناحق(ناجائز)معاملے میں اپنی قوم کی مدد کی، پس اُس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور وہ اسے (نکالنے کے لیے ) دُم سے پکڑ کر کھینچتا ہو (نتیجتاً وہ خود بھی اس میں جا گرے گا)۔‘‘

اس دورِ پرفتن میں قوم پرستی اور فسطائیت کے اعصاب پر اسی تعصب کا جنون سوار ہے۔ اس فتنہ نے ملک و قوم کاامن و امان کو غارت کررکھا ہے اوراس کے سبب آئے دن عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ۔ حدیث نبویؐ میں اس زہر کا تریاق دیکھیں ،’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی طرف بلائے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی بنیاد پر جنگ کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں ہے جو تعصب کی حالت میںمرے۔‘‘ ایک غزوہ سے آتے ہوئے کسی نےآواز لگائی کیا کہ انصار صحابہ نے اس پر ظلم کیا ہے اور اس طرح پکارنے لگا’یاللمہاجرین‘ مہاجرین کی (ناموس) کیلئے! اور دوسری طرف سے ایک اور شخص نے چیخ کر کہا ’یا للانصار‘ انصار کی (ناموس) کیلئے!آپؐنے جب دیکھا کہ مہاجر اور انصار کی اصطلاح کو عصبیت کے فروغ کی خاطر استعمال کیا جارہا تو انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’میرے جیتے جی تم ایک دوسرے کو جاہلی نعروں کے ساتھ دہائی دینے لگے ہو‘۔ یہ تھا حضوراکرمؐ کا اسوہ اور اس کے برخلاف آج کل کے ہمارے روشن خیال رہنماوں کا معاملہ یہ ہےکہ دن رات عصبیت کی بناید پر نفرت کو ہوا دے کر امن کو غارت کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عدل و قسط کی پامالی صاف نظر آتی ہے۔

غزوۂ احد میں جب آپؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوگئے تو اس کے بعد حضرت عائشہ ؓنے نبی کریم ؐ سے پوچھا کہ آپ کی زندگی کا سخت ترین دن کون سا تھا۔ نبی رحمت ؐ نے فرمایا طائف کا دن ۔طائف سے واپسی میں پہاڑوں کےفرشتے نے جب استفسار کیا کہ کیا ان دونوں پہاڑیوں ملا کر اس بستی کو تباہ و تاراج کردیا جائے تو جس لطف و کرم کا مظاہرہ آپ ؐنے کیا اس کا ذکر تو بہت ہوتا ہے لیکن طائف والوں کی شکست کے بعد جو عدل و قسط کا نمونہ آپ ؐ نے پیش فرمایا اسے بھی ملاحظہ کریں ۔فتح مکہ کے بعد طائف کا محاصرہ پندرہ بیس روز تک رہا لیکن کامیابی ہاتھ نہیں آئی۔اس کے بعد صخر ؓنامی ایک ذی حیثیت صحابی نےخودجا کر طائف کی حصار بندی کی اور طائف والوں پر ایام دباؤ بنایاکہ وہ مصالحت پر راضی ہوگئے ۔ نبی کریم ؐ کی خدمت میں فتح و کاماصبی کی اطلاع بھی صخرؓ نے ہی بھوکائی تھی۔

طائف کی فتح کے بعد مغیرہ بن شعبہ ثقفیؓ رسول رحمتؐ کی خدمت میں آئے اور کہا کہ صخر ؓنے میری پھوپھی کو قبضے میں لے رکھا ہے۔ آپ ؐنے صخر ؓ کو بلایا اور حکم دیا کہ مغیرہ کی پھوپھی کو ان کے گھر پہنچا دو ۔اس کے بعد بنو سلیمؓ آئے اور عرض کیا کہ جس زمانہ میں ہم کافر تھے، صخر ؓنے ہمارے چشمے پر قبضہ کرلیا تھا اب ہم اسلام قبول کر چکے ہیں ۔ اس لئے ہمارا چشمہ ہمیں واپس دلایا جائے۔آپ ؐنے صخر ؓکو بلایا اور فرمایا کہ جب کوئی قوم اسلام قبول کرتی تو اپنے جان و مال کی مالک ہو جاتی ہے۔ اس لئے ان کا چشمہ انہیں واپس دے دو۔ صخر ؓکو بارگاہ مصطفیٰؐ کی بے لاگ عدالت کا یہ فیصلہ بھی منظور کرنا پڑا۔ فاتح طائف حضرت صخرؓکو ان دونوں معاملات میں شکست ہوئی اور طائف کی فتح کا کوئی دنیوی صلہ نہیں ملا۔

عدل کے لیے ’’ قسط‘‘ کامترادف قرآن کریم میں ۲۲ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ انصاف کرنے والاعادل اور مقسط بھی کہلاتا ہے۔فی زمانہ عدلیہ اور مقننہ کی آزادی کا نعرہ ہر کوئی بلند کرتا ہے لیکن جب حکمرانوں پر عدالتی شکنجہ کستا ہے تو مختلف مراعات و پابندیاں مثلاً وزیر کے خلاف شکایت درج کرانے کیلئے گورنرکی اجازت وغیرہ کی پخ لگا کر اسے کمزور کردیا جاتا ہے۔ دین اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں قاضیٔ شہر بلاتکلفحسبِ ضرورت حاکم وقت کو بلاکر عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے ۔ حضرت علیؓ کی زرہ دورانِ خلافت چوری ہوئی ۔ اقتدار کی زمامِ کاران کے ہاتھوں میں تھی۔ خلیفۂ وقت اپنے بیٹے کے علاوہ کوئی اورگواہ نہیں پیش کرسکا۔ عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے قاضی ٔ شریعت نے نواسۂ رسولؐ کی گواہی مسترد کردی اور ایک یہودی چور کے حق میں فیصلہ سنا دیا ۔ تاریخ انسانی ایسی مثال پیش کرنےسے قاصر ہے۔

معاشرے کے اندرانصاف کو قائم کیلئے اسلام صرف قوانین اور تعزیرات پر انحصار نہیں کرتابلکہ انسانی ضمیر کو بھی بیدار کرتا ہے ۔ انتظامیہ اور عدلیہ کی اپنی محدودیت ہےاس لئے کسی شاطر کیلئے عدالت کی آنکھ میں دھول جھونک دینا بہت مشکل نہیں ہے۔لیکن اگر دل میں خدا کا خوف موجود ہو تو انسان کسی فوجدار کے بغیر ازخود دوسروں کی حق تلفی سے باز رہتا ہے ۔ اس نیک اور خدا ترس عورت کا واقعہ یاد کیجئے جس سے زنا سرزد ہوگیا تھا اور اس نے بارگاہِ رسالتؐ میں آکرخود یہ درخواست دی تھی کہ اس پر حد جاری کرکے اسے پاک کردیا جائے۔ گناہ کے ارتکاب سے روکنے کیلئے آخرت کی جوابدہی سے کارگر کوئی اور نسخہ نہیں ہوسکتا۔

اس خاتون پرسزا کے نافذکرنے میں نبیٔ رحمت نے کمال نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا وہ حاملہ ہے۔ مثبت جواب کے بعد مادر رحم میں موجود بچے کے حقوق کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے حکم دیا کہ وضع حمل کے بعد آئے۔ وہ پھر اپنے بچے کے ساتھ حاضر ہوگئی تو اسے یہ کہہ کر لوٹا دیا گیا کہ جب بچہ دودھ چھوڑ دے تو آئے۔ جب تیسری بار حاضر ہوئی تو اس کو سنگسار کردیا گیا۔ آج کل عصمت دری کےاندوہناک واقعات کے بعد لوگوں کو اسلامی شریعت یاد آجاتی ہے۔ سخت سزاوں کے مطالبات ہونے لگتے ہیں۔ سزائے موت اور سنگسار تک بات پہنچ جاتی ہے لیکن نہ اس پر عملدرآمد ہوتا ہے اور ان سنگین جرائم میں کمی آتی ہے۔ انتظامیہ کی مدد سے شواہد کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ ججوں کو خرید لیا جاتا ہے اور مجرم رہا ہوجاتے ہیں اس لئے کہ خدا خوفی نہیں ہے نیز ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔سرور عالمؐ کی انکساری دیکھیں کہ ارشاد فرمایا،’’تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے موقف کو دوسرے کے بہ نسبت زیادہ مؤثردلائل کے ساتھ پیش کرنے کی مہارت رکھتاہو اور اس سماعت کے اعتبار سے( بالفرض)میں اس کے حق میںفیصلہ کردوں، تو جس شخص کو میں اس کے بھائی کے حق میںسے (خلافِ حقیقت) کچھ دے دوں تو (وہ چیزاس کے لیے جائز نہیں ہے بلکہ اسے سمجھنا چاہیے کہ) میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دے رہاہوں۔‘‘ جب تک یہ موعظت و نصیحت جان گزیں نہیں ہوجاتی اور انسان ازخود اپنے نفس پر لگام نہیں لگاتا اس وقت عدل و انصاف کی تکمیل کیوں کر ممکن ہے؟

پیغمبر آخر الزماں ﷺ نےلوگوں کے درمیان انصاف کرنے کی نہ صرف دعوت دی بلکہ عملی تدابیر کے ذریعہ مختلف طبقات کے درمیان پائی جانے والی بے اعتدالیوں کا خاتمہ فرمایا۔ بچوں، عورتوں، ضعیفوں، غلاموں، مزدوروں حتیٰ کہ جانوروں، درختوں اور فصلوں تک کے ساتھ روا رکھے جانے والے حق و انصاف کے اصولی اور تفصیلی احکامات دیئے۔اسلامی نظام عدل کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ بندوں کے حقوق وفرائض کے درمیان توازن و تناسب قائم کرکے ہر کس و ناکس کے حق کی بحالی کو یقینی بنایا جائے ۔ اسی کے ساتھ یہ تصورِ عدل فرد ، معاشرہ اورریاست کے درمیان خوشگوار تعلقات بھی استوار کرتا ہے۔ قرآن مجید میں ۲۶ مقامات پرعدل کا ذکر اس کی اہمیت ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے۔ عدل کی قرآنی اصطلاح محض مساویانہ تقسیم حقوق کا نام نہیں ہے۔ مساوات اگرچہ کہ عدل کی روح ہے لیکن درحقیقت عدل کا تقاضا مساوات کی بجائے توازن و تناسب کا قیام ہے۔ شریعت کی رو سے عدل کا مفہوم قانونی، آئینی، تمدنی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حقوق کی آخرت کی جوابدہی کے تحت ادائیگی ہے ۔

سیرتِ رسولؐ کی ان تعلیمات اورواقعات سے ثابت ہوتا ہےکہ اسلامی تصورِ عدل انسانی جبلت اور روحانیت کے درمیان توازن قائم کرکے معاشرے میں امن وسلامتی کا ضامن بنتاہے ۔ عدل کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنےکو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق یکساں طور پرانفرادی واجتماعی معاملات میں ہوتا ہے۔ قیام عدل کی ذمہ داری صرف انبیاء تک محدود نہیں ہے بلکہ قرآن مجید میں مومنوں کو بھی اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے"اور ہماری مخلوق میں سے ایک وہ لوگ ہیں جو حق کا راستہ بتاتے ہیں اور اس کے مطابق انصاف بھی کرتے ہیں‘‘۔ اس معاملے میں اگر کوتاہی سرزد ہو تو اس کیلئے حدیث میں سخت وعید ہے حضور اکرم ؐ نے فرمایا، ’’جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔ امت مسلمہ کی زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے عدل و انصاف کے حوالے سے عائد ہونے والی اہم ترین ذمہ داریوں سے روگردانی کی ہے ۔ تمیز اور ارادہ کی صفات اور اختیارات کا اولین تقاضہ ہے ہم علم و دانش کی روشنی میں عدل قائم کریں۔ اس فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے اللہ کی محبت اور نبی کریم ؐ کی پیروی ناگزیر ہے۔

خدائے بزرگ و برتر نے نبی کریم ؐ کے ساتھ آپ ؐ کی امت کو بھی پوری دنیا میںعدل قائم کرنے کی ذمہ داری سپرد کی ہے۔ارشادِ ربانی ہے"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہی خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے" ۔سورہ مائدہ کی اس آیت کے مخاطب ہم آپ ہیں ۔ یہ ہم سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اے مسلمانو! تم دوست تو کجا، دشمن کے ساتھ بھی انصاف کا رویہ اختیار کرو اور یہی تقویٰ اور خدا ترسی کے قریب تر ہے۔ ہر جمعہ کو خطبے میں ہماری یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ : "اللہ تعالیٰ عدل و احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور برائی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق حاصل کرو۔"(النحل)۔ لیکن ہم نہ اس آیت کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کے تقاضوں کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ۔ سرور عالم ؐ سے ہماری عقیدت و محبت کا یہ اولین تقاضہ ہے کہ جس نظام عدل و انصاف کو قائم کرکے آپؐ نے اس دنیا سے ظلم و جبر کا خاتمہ فرمایا ہے ہم بھی اس کے قیام کیلئے کمر بستہ ہوجائیں ورنہ جب روزِ قیامت میزان عمل قائم ہوگی تو اپنی رسوائی کیلئے ہم خود ذمہ دار ہو ں گے ۔ دنیا و آخرت میں یہ امت وسط میزان کی حیثیت رکھتی ہے اسی لئے حکیم الامت فرماتے ہیں ؎
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان‘ قیامت میں بھی میزان
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449765 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.