بہو چائے لے آؤ!!! بلقیس بیگم نے
اپنی بہو کو آواز دی ،،، زویا نے چائے کے برتن ٹرے میں رکھے،اور اپنی ساس
کے کمرے کی طرف چل پڑ،،، جہاں بلقیس بیگم کے کچھ مہمان موجود تھے،،، بس بہن
ہمار ے تو نصیب پھوٹے تھے جو ایسی بہو ملی،،، ساس کے منہ سے اپنا ذکر سن کر
زویا کے قدم وہیں رک گئے،،، کیوں بہن کیا ہوا؟ حیرت سے پوچھا گیا،،،بس کیا
بتاؤ،، آتے ہی حسین کو اپنے قابو میں کرلیا ہے،،، اس کی ہاں میں ہاں میں
ہاں ملاتا ہے،،، میرا تو بڑھاپا رل گیا،،، بلقیس بیگم نے آہیں بھرتے ہوئے
کہا،،، زویا سن ہو کر رہ گئی،،، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی،،،اس سے
پہلے کہ بلقیس بیگم پھر سے چائے کی دہائی دیتی،، زویا نے آنکھیں صاف کی
،اور کمرے میں داخل ہو گئی،،،السلام وعلیکم! ،،،،،، وعلیکم السلام،،، مہمان
خواتین نے سلام کا جواب دیتےہوئے بغور زویا کو دیکھا،،، زویا سب کو چائے دے
کر باہر کچن میں آگئی،، شکل سے تو بہت معصوم لگتی ہے،،، کسی ایک نے کہا،،،،
ہاں بہن اسی شکل سے تو میں دھوکا کھا گئی،،، بلقیس نے جلے دل سے کہا،،،
چھوٹے سے گھر میں کچن تک صاف آوازیں آرہی تھی،،، برتن دھوتے ہوئے زویا کے
ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے،،، اچھا سونیا خوش ہے اپنے گھر میں؟؟؟ سونیا،، حسین
کی چھوٹی بہن تھی،، بس بہن ہمارے ایسے نصیب کہا،،، سونیا کی ساس نے ناک میں
دم کر رکھا ہے میری بچی کے،،، اور بیٹا تو ماں کے سامنے بول ہی نہیں
سکتا،،، میکے بھی نہیں آنے دیتے،،، بلقیس بیگم نے یاسیت سے
کہا،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، حسین ! امی کا فون آیا تھا،،بہت یاد
کر رہی تھی،، مجھے بھی امی بہت یادآرہی ہیں،، کل چلی جاؤ میں امی کی طرف ،،
زویا نے چائے حسین کو پکڑاتے ہوئے پوچھا،،،،،،، چلی جانا،، پر امی سے بھی
پو چھ لینا،،،، حسین نے تاکید کی،،، زویا اٹھ کر ساس کے کمرے میں آگئی،،،
امی میں کل میکہ ہو آؤں؟ زویا نے پوچھا،،، بلقیس بیگم نے حیرت سے زویا کو
دیکھا،، ابھی کچھ دن پہلے تو گئی تھی تم،،،، امی ایک مہینے سے زیادہ ہو گیا
ہے،،،اس نے وضاحت کی،،، تو بی بی! اب کیا میکہ میں ہی رہوگی،،،اور ویسے بھی
کل سونیا آرہی ہے،،، پھر کسی دن چلی جانا،،،میری بچی بہت دن بعد آرہی ہے
کچھ اس کی پسند کا کچھ بنا لینا،،،، جی امی،،،، زویا نے کہا اور باہر آ
گئی،،، سونیا کا یہ اس مہینے میں تیسرا چکر تھا،،، بس بہن میری بچی کو میکے
بھی نہیںآنے دیتے،،، ساس نے ناک میں دم کر رکھا ہے،،،، زویا کے ذہن میں
بلقیس بیگم کی باتیں آئی اور ساتھ ہی سونیا کی شفیق سی ساس کا نقش
ابھرا،،،،، شاید یہی دنیا کا دستور ہے،،،کہ بہو اور بیٹی کے لیے الگ الگ
اصول ہیں،،،زویا نے سوچا اور ہلکے سے مسکرا دی۔۔ |