عید میلاد النبی ہے۔ ہر طرف روشنی ہے خوشی
ہی خوشی ہے۔عاشق رسول جھوم رہے ہیں رقص کر رہے ہیں۔ارے یہ کیا ہوا؟ عاشق
رسول تو نعت میں مشغول ہیں۔ پیچھے جہاں بڑے بڑے سپیکروں کی آواز بھی ٹھیک
سے پہنچ نہیں رہی کچھ لڑکے آپس میں لڑ پڑے۔ایک نے دوسرے کو لات ماری
،دوسرے نے پہلے کو مکا۔ایک نے ماں کی گالی دی تو دوسرے نےپورا خاندان ہی
لپیٹ لیا۔آئے تو وہ بھی جلوس میں عاشق رسول ﷺ بن کر ہی تھے لیکن ہر کوئی
کہاں عشق کی سمجھ رکھتا ہے۔عشق عاشق کو معشوق کے رنگ میں رنگ دیتا ہےلیکن
محبت کا دیکھاوااور ریاکاری بھی تو ہم انسانوں کا خاصہ ہے۔ ہم سر سے پاوں
تک ریا کاری کے شکار ہیں ۔قربانی کے جانورجب لیتے ہیں تو آج کل سب سے پہلے
کیا کیا جات ہے ۔آپ ٹھیک سمجھے سیلفی لی جاتی ہے تاکہ فیس بک پر ڈالی
جائے۔
آج جس موضوع کو میں مس کرنے جارہی ہوں بہت ہی نازک ہے۔ لوگ بات ہوتی نہیں
اور خنجر پہلے نکال لیتےہیں۔ میں پھر بھی لکھوں گی کہ غیرت ایمان بھی کوئی
چیز ہے ۔جس کی بدولت میں نے رب کو جانا۔جس نے مجھے رب کا پیغام قرآن کی
صورت میں دیا۔ میں اس پیغمر کاملﷺ کے متعلق نہ لکھوں تو پھر میرا لکھنا
فضول ہے۔ میلاد النبی ﷺ کا ذکر کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں۔ میلادالنبی ﷺ ہے جی
۔چلیے نیکی کمائیں اور درود پاک پڑھیں۔ لیکن میں تو یہ سمجھتی ہوئی کہ اگر
آپ سچ مچ عاشق ہونے کا دعویٰ کرتےہیں تو پھر آپ کا ہر پل اگرچہ لاشعوری
ہو وہ درودﷺمیں ہی ہونا چاہیے اور عمل تو شعوری طور پر ہر وقت حضورﷺ کی
پیروی پر مشتمل ہونا چاہیے۔وہ تو ایسی ہستی ہیں کہ ایک دن یا ایک مہنہ ان
کے لیے منسوب کرنا مجھے عجیب لگتا ہے ۔ہمیں تو ہر پل ہی خوشی منانی چاہیے
کہ رب کریم نے ہمیں آپ کی امت میں پیدا کیا ہےلیکن سوچنے کا مقام تو یہ ہے
کہ ہم کیا ہیں؟کیا ہم واقعی امتی ہونے کا فرض سمجھتے ہیں؟
ہمارے ہاں لوگ باتیں زیادہ کرتے ہیں اور عمل کم۔یہی وجہ ہے کہ معاشرہ عجیب
کشمکش کا مسکن بن چکا ہے۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف کچھ لوگ جو خود کو
عاشق رسول ﷺ کہتے ہیں۔مرد ہو کر کپڑے کا کچھ ذیادہ ہی استعمال کرتے
ہیں۔امامہ اوپر سے سر پر چادر بھی اور عورتیں کپڑے کا کچھ کم ہی استعمال
کرتیں ہیں۔نہ قمیض کی سلیو نہ گلے میں دوپٹہ۔میری نظر ذاتیات پر نہیں بلکہ
اس بہتے ہوئے زخم پر ہے جس سے پیپ رس رہی ہے، چلانے والا مسلسل چلا رہا ہے
لیکن لوگوں اپنی مستی میں مست ہیں۔ یہ کیسا شور ہے کہ کوئی پکارنے والے کی
پکار نہیں سنتا۔اس بے حسی کی وجہ دُکھ اور تکلیف نہیں بلکہ خوشی ہے کیسی
عجیب وجہ ہے نا۔
خوشی ایک ایسا جذبہ ہے جسےمنانے کا حق سب کو ہے۔کون کہتا ہے کہ حضورﷺکا
میلاد نہ منایا جائے۔کیوں نہ منایا جائے؟
خوش ہیں تو خوشی کیوں نہیں منائیں گے لیکن ہم خوشی منا کیوں رہے ہیں ؟کس کے
لیے منا رہے ہیں۔ اپنے نفس کی خوشی کے لیے یا اللہ تعالی کی رضا کے لیے؟ یا
پھر اس نبی ﷺ کے لیے جس نے سونے اور جاگنے کے آداب بھی بتائے تو کیا ہم
خوشی کو اپنے طریقے سے منائیں گئے خواہ جس کے لیے منا رہے ہیں ۔ اُسے اچھا
لگے یا نہ لگے۔کیا فرق پڑتا ہے ۔اپنےآپ سے یہ سوال پوچھیں کیونکہ جواب
سوال کرنے والے کو ہی ملتا ہے۔ہم خوشی منا رہے ہیں کیونکہ ہم رب کی اس نعمت
کا شکر ادا کرنا چاہتے ہیں جس نے ہمیں تذکیہ نفس کرنے کے اصول بتانے والا
دیا۔ہم رب کا شکر ادا کرنا چاہتے ہیں،جس نے ہم پر کرم کیا اور اپنا آخری
نبی بیھج کر ہمیں زندہ رہنے کے درست طور طریقے سکھائے۔ ہم اس ہستی کو خراج
تحسین دینا چاہتے ہیں جس نے نہ صرف کمزوروں کو طاقتوروں کے برابر بٹھا
دیااور آقاو غلام کا تضاد مٹا دیا۔اُس اللہ کے نیک بندے نے بندہ کیسا
ہو؟بندگی کیسی ہو؟جیسے سوالوں کا عملی نمونہ دیا۔آپ ﷺ نے ہمیں جینے کے لیے
اصول دے کر محدود کر دیا تو اب ہم حدود سے نکل نہیں سکتے۔آج ہم ان حدوں کے
پاس کھڑے انہیں پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ حضورﷺ تک
ہزاروں لاکھوں درود پہنچائیں۔لیکن ہم پیروی کہاں کر رہے ہیں ؟سوال تو یہ
ہے۔کیا ہم عید میلاد النبی ﷺ کو اس طرح مناتے ہیں جیسا کہ منانے کا حق ہے؟
ہمارے نبیﷺ کی پیدائش سچ میں عید ہے ،لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپﷺ عید
کیسے مناتے تھے؟آپ ﷺ عید کو بہت سادگی سے مناتے قبرستان جاتے۔ تلاوت
کرتے۔آپ ﷺ ہر حال میں دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتے۔آپ ﷺجب اپنے صحابہؓ
کا لشکر لے کر غزوہ احد کے لیے جا رہے تھے تو صاحبہ کرام ؓ کا لشکر جہاں
جہاں سے گزرتا اونچی آواز میں رب کی بڑائی بیان کرتا۔ سب کی آواز مل کر
بہت اونچی ہو جاتی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم جس رب کو پکار رہے ہو وہ سنتا ہے
لہذا اپنی آوازیں پست کرو۔ بات یہاں اس رب کی بڑائی کی ہو رہی ہے جس نے
آپ ﷺ کو پیدا کیا لیکن آپ ﷺ نے جب محسوس کیاکہ صحابہ کی آوازیں لوگوں کی
تکلیف کا باعث بنیں گی تو آپﷺ نے اس سے منع فرمایا۔
آپ کی پیدائش پر خوشی منانا ہمارا حق ہے لیکن خوشی کیسے منانی ہے اس کو طے
کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم جس کی خوش منا رہے ہیں اور جس کے لیے خوشی منا
رہے ہیں ان کی خوشی کا خیال رکھیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اس کا مطلب
یہ ہو گا کہ ہم اپنے نفس کی پیروی کر رہے ہیں جس کا عید میلاد النبی سے
کوئی تعلق نہیں۔
صیح بخاری کی جلد دوم میں ذکر ہے کہ ابو لہب کی موت کے بعد حصرت عباسؓ نے
اسے خواب میں دیکھاوہ بری حالت میں تھا۔ حضرت عباسؓ نے اس سے پوچھا مرنے کے
بعد تیرا کیا حال ہے؟تو اس نے کہا۔تم سے جدا ہو کر میں نے کوئی راحت نہیں
پائی سوائے اس کے کہ تھوڑا سا سیراب کیا جاتا ہوں کیونکہ میں نے آپ ﷺ کی
پیدائش کی خوشی میں اپنی لونڈی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔
آپﷺ کی تعلیمات کو فراموش کر کے اُن کی پیدائش کی خوشی مناناگویا خود کو
دھوکا دینا ہے۔آپ ﷺ تو خوشی میں صدقہ کرنے ،غلاموں کو آزاد کرنے اور
محتاجوں کی خبر گیری کرنے کا حکم دیتے تھے۔
آپﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے بہترین وہ ہے جس کی زبان، ہاتھ اور پاوں سے
دوسرے انسان محفوظ رہیں۔رب کے جلیل القدر پیغمرنے اپنی زندگی کے ہر لمحے
میں دوسروں کی آسانی اور بہتری کے لیے سوچااور کام کیا۔یہاں تک کہ آپ ﷺسے
جب کوئی برا سلوک کرتا تو درگزر کرتے۔ ایک دفعہ ایک بدو کا قرض آپ ﷺ نے
دینا تھا ۔وہ آیا اور بہت غلط طریقے سے تقاضا کیا آپ ﷺ کے گلے میں چادر
ڈال کر کھینچا۔حضرت عمرؓ نے دیکھ لیا تو اگ بگولہ ہو گے اور اس بدو کو
مارنے کے لیے دوڑے ۔ آپ ﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا ۔تمہیں اس پر چڑھائی
کرنے کی بجائے مجھے قرض کی ادائیگی کی اور اسے نرمی سے بات کرنے کی تلقین
کرنی چاہیے تھی۔لیکن آج جب ہمارے محلے میں عید میلاالنبی کے نام پر سپیکر
پر پورا مہنہ نعتیں لگا کر پڑوسیوں کو پریشان کیا جاتا ہےتو ایسے میں جا کر
ان عاشق رسول سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔بعض اوقات کوئی بیمار سونا
چاہتا ہے تو سو نہیں پاتا۔نعتوں کی اس قدر اونچی آواز نعت سننے کا مزا بھی
نہیں دیتی لیکن ہم اپنے گھروں میں فقط سوچ ہی سکتے ہیں کہ لوگوں کو ایسا
نہیں کرنا چاہیے۔دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھنا حقوق العباد میں آتا
ہے۔ممکن ہے کہ آپ جس کو نیکی سمجھ کر خوش ہو رہے ہوں وہ نیکی اس بیمار
پڑوسی کو مل رہی ہو جو آپ کے لطف کے لیے تکلیف میں مبتلا ہے۔آج کل تو لوگ
سڑکوں پر نبیﷺ کا جھنڈا اُٹھا کر ریس لگاتے نظر آتے ہیں۔کہاں رب کے محبوب
نے یہ کچھ کرنے کو کہا تھا۔ہم کبھی تفکر سے کام لیں تو سمجھ میں آئے گی کہ
نبیﷺ نے جب بھی کوئی خطبہ دیا ایک جگہ مقرر تھی ۔کب راستوں پر چل کر درس
دینےکا حکم ہے۔عید میلاد النبی کے دن آپ اگر نعتیں پڑھنا چاہتے ہیں ضرور
پڑھیں ،محفل سجانا چاہتے ہیں ضرور سجائیں لیکن آپ جو بھی کرنا چائیں اس
میں اس بات کا خیال رکھیں کہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔ راستے جام نہ کریں
،اپنے گھروں میں محفلیں سجائیں ،نعتوں کی آواز ایک حد تک اونچی
رکھیں۔بیماروں اور بزرگوں کا خیال رکھیں۔مسجدوں میں نبی ﷺ کی تعلیمات کا
تذکرہ کریں۔اپنے گھروں پر بڑا سا جھنڈا لہرانے کی بجائے کسی غریب کو کپڑے
لے دیں تو جب تک وہ پہنے گا آپ کو ثواب ہو گا۔ غریب کی دُعا بھی ملے
گی۔نبیﷺ بھی خوش ہوں گے۔آپ سے خود کو منسوب کرنے کے لیے آپ کو ان کے
کردارو اعمال کی پیروی کرنی ہے نہ کہ ظاہری حالت کی۔آپ ﷺ جہاں رہتے تھے
وہاں کے موسم کے مطابق ان کی خوراک اور پہناوا تھا۔آپ ﷺ نے اپنی احادیث
میں کہیں بھی نہیں فرمایا کہ کدو کھاو جنت میں جاو گے اگرچہ حضور کو کدو
بہت پسند تھے۔
ہمیں اپنی سوچوں اور نظریات کا تجزیہ کرنا ہو گا۔خوشی کو خوشی کی طرح
جیناسیکھیں۔ آج بھی سعودی عرب۔بحرین اور کویت وغیرہ میں عید میلاالنبی کے
لیے سرکاری چھٹی نہیں دی جاتی۔ اگرچہ خوشی تو انہیں بھی بہت ہوتی ہو گی
۔میرا یہ بات بتانے کا مطلب بلکل بھی یہ نہیں کہ عید میلاد النبی کی چھٹی
نہ دی جائے۔ صرف بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہر کوئی خوشی کو اپنے طریقے سے
مناتا ہے ممکن ہے کہ جو شخص آپ کی طرح امامہ نہ پہنتا ہو وہ آپ سے ذیادہ
سچا ہو،دوسروں کی مدد کرنے والا ہو۔قرابت داروں کا حق ادا کرنے والا ہو صرف
اس وجہ سے کہ وہ امامہ نہیں پہنتا آپ کو اس کی برُائی کرنے کا حق نہیں مل
جاتا۔ رب ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے کس بندے کا دل اس سے کتنا قریب ہے لہذا
دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ وہ لوگ جو دو وقت کا کھانا نہیں کھا
سکتے وہ بھی حضورﷺ کے عاشق ہو سکتے ہیں ۔اپنے گھر پر جب ہزاروں روپے لگا کر
برقی قمقمے لگانے کی سوچیں تو آپ کے دل میں پہلے اس غریب عاشق کا خیال
آنا آپ کے سچے عاشق رسول ﷺ ہونے کی دلیل ہے کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ
تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ۔جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا
خود بخود بے چین ہو جاتا ہے۔ آج ہمیں کیا ہو گیا ہے کہ ہمارے اپنے تکلیف
سے کراتے رہتے ہیں اور ہم نظریں چرا کر گزر جاتےہیں۔
مجھے آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جب کوئی غریب ہم سے اللہ کے نام
پر سوال کرتا ہے تو ہم سکے کیوں تلاش کرنے لگتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ
بھائ معاف کرو کھلا نہیں ہے اور جب اپنی کسی بھی خوشی کے لیے خرچ کرنا ہو
تو پھر یہ بھی نہیں سوچتے کہ پرس میں کچھ بچا بھی ہے یا نہیں۔عید میلاد
النبی کے موقع پر اپنے غریب بہن بھائیوں کو یاد رکھیں۔ صدقہ اللہ تعالی کے
غصے کو کم کرتا ہے۔دل کھول کر صدقہ دیں ۔مسجدوں میں شکرانہ کے نفل
پڑھیں۔پٹاخے پھوڑنے اور ریسنگ کرنےسے گریز کریں۔ لاوڈ سپیکر پر چوبیس گھنٹے
نعت پڑھنے سے آپ بڑے عاشق مشہور تو ہو سکتے ہو لیکن سچ میں آپ کی وجہ سے
کوئی پریشان نہیں ہوا یہ آپ اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے گا۔اگر کسی کی بھی دل
آزاری ہوئی ہو تو میں معافی چاہوں گی۔ آخر میں چن اشعار عید میلاد النبی
ﷺ کے حوالے سے گوش گزار کرنا چاہوں گی۔
جانتے ہیں نبی ﷺ کے عاشق منزل اپنی
راستے پر یونہی بے کار نہیں رہا کرتے
جھومتے ہیں وہ بھی پڑھ کر نعت رسولﷺ
جھوم کر مگر کسی پر نہیں ہیں گِرا کرتے |