نظام خلافت کے حامل صرف آخری رسول ﷺ
کی امت ہی نہیں ہوئی بلکہ اﷲ تعالیٰ پہلے بھی اس وقت تک نازل شدہ تعلیمات
پر کما حقہ پوری اتری والی امتوں کو نظام خلافت یا خلافت عطاء کرتا رہا ہے
یہ علیحدہ بات ہے کہ ایسی خلاف کی وسعت کبھی محض ایک نبی تک محدود تھی ،کبھی
نبی اور اس کے ساتھیوں تک محدود تھی یا کبھی کسی شہر تک یا خطہ ٔ زمین تک
محدود تھی بعض انبیاء ؑ کو ایک پروکار بھی نہ ملا لہٰذا ظاہر ہے ایسی صورت
میں خلافت صرف متعلقہ نبی تک محدود رہی بعض صورتوں میں یعنی نبی ؑ کو کچھ
ساتھی مل گئے تو پھر خلافت ایسی جماعت کو حاصل تھی ۔ایک بات البتہ طے شدہ
ہے کہ جب بھی کسی فرد یا گروہ کو خلافت سے نوازہ گیا تو اس وقت جب کہ وہ
فرد یا گروہ ایمان وعمل کے اس معیار پر پورا اترا جو اﷲ تعالیٰ نے اس کیلئے
مقرر کر رکھا تھا ۔قرآن مجید میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ
تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور یک عمل کریں کہ وہ ان کو ا
سطرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح کی ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا
چکا ہے ان کے اس دین کو غالب کرے گا جسے اﷲ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند
کیا ہے اور ان کی حالت خوف کو امن سے بدل دے گا پس وہ میری بندگی کریں اور
وہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعدکفر کرے ایسے ہی لوگ
فاسق ہیں ۔(النور:۵۵)
یار رہے کہ اﷲ تعالیٰ کی سنت بدلا نہیں کرتی آج بھی جب کسی گروہ کو خلافت
سے نوازہ گیا تو یہ وہی گروہ ہوگا جو ایمان وعمل کے حاسب سے اس معیار کو
پہنچے جو اﷲ تعالیٰ نے طے کر رکھا ہے ۔
قرآن مجید میں بیان کردہ مذکورہ آیت استخلاف کے عربی متن لفظ "کما" استعمال
ہوا ہے جس کے معنی ہیں جیسی یا جیسے، آیت کریمہ میں بیان کردہ "اس جیسی "
کا یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پیمانے اور وسعت کی جیسی کہ آخری رسولﷺ کے
دور یں بلکہ اس کا مطلب ہے اس طرح کی فطری جس طرح کہ آخری دور میں۔ پیمانے
اور وسعت کے حساب سے پہلی خلافتیں اس تکمیلی شان کی ہو ہی نہیں سکتی تھیں
اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں چند کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے،شروع ہی میں
یہ نوٹ فرما لیں نبی ٔ آخری الزماں ﷺ کا جملہ اس لحاظ سے تو درست ہے کہ
رسول ﷺ سلسلہ ٔ نبوت ورسالت کے آخری رسول ﷺ ہیں آپ ﷺ کے آنے کے بعدسلسلہ ٔ
نبوت منقطع ہو گیا لیکن اس جملے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ و صرف آخری
زمانے کے رسول ﷺ ہیں ۔رب کائنات آپ ﷺ کو پوری کائنات کا رسول ﷺ قرار دیتے
ہیں چنانچہ قرآم مجید میں آیا ہے کہ اے نبی کہہ دو کہ میں انسانوں میں تم
سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ (اعراف:۱۵۸)
اور اے نبی ,! ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے مگر
اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ (سبا :۲۸)
احادیث میں بھی آیا پہلے کوئی نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا
جاتا تھا اور میں عام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں (مسلم وبخاری)
میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ (مسند احمد)
غور فرمائیں تو اے انسانو! تم سب کی طرف تمام ہی انسانوں کیلئے عام انسانوں
کی طرف سے دو اور دو چار کی طرح عیاں ہے کہ محمد رسول ﷺ جنس انسان یعنی جس
ہستی پر انسان ہونے کا عمل چسپاں ہو کی طرف اﷲ کے رسول ﷺ ہیں ۔خواہ وہ
انسان اس دنیا اور دنیا میں بھی اونچے سے اونچے پہاڑ پر ،گہرے سے گہرے
سمندر میں ،زمین کے علاوہ کسی دوسرے کرے میں ،آپ ﷺ کی آمد سے پہلے ادوار
میں آباد رہا ہو آج آباد ہے یا تا قیامت آباد ہوگا پھر چونکہ آپ ﷺ سے پہلے
انبیاء ورسل ؑ انسان ہی تھے لہٰذا آپ ﷺ ان کے بھی رسول ﷺ یا دوسرے لفظوں آپ
ﷺ سید الانبیاء ﷺ ہیں جب ہم سید المرسلین کا جملہ استعام ل کرتے ہیں تو ا
سکا بھی یہی مطلب ہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ آپ ﷺ چونکہ تاریخ انسانی کے کسی بھی
دور میں آنے والے انسان کے رسول ہیں اس لئے آپ ﷺ تمام انسانوں کے رسول ﷺ
ہیں اور تاریخ انسانی کے ہر زمانے میں رہے ہیں اور رہیں گے اور مزید یہ بھی
کہ آپ ﷺ تمام انسانوں اور زمانوں کے رسول ہی نہیں تمام جہانوں کے رسول ﷺ
بھی ہیں چنانچہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ اے نبی ہم نے نہیں بھیجا تم کو مگر
تمام جہانوں کیلئے رحمت کے طور پر ۔ (انبیاء :۱۰۷)
ایک اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بند ے
پر فرقان نازل کیا ہے تاکہ وہ تمام جہانوں کیلئے متنبہ کرنے والا ہو ۔(فرقان:۱
)
یہ "رحمت اللعالمین" اسی وزن پر ہے جس پر کہ" رب العالمین" مطلب یہ کہ رسول
ﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں جن کیلئے اﷲ تعالیٰ رب ہیں آپ ﷺ کے نبی
الانبیاء ؑ تمام انسانوں،زمانوں اور جہانوں کیلئے رسول ﷺ رحمت اور نذیر
ہونے کا مطلب ہے کہ پہلے انبیاء ورسل ؑ کی نبوتیں اور رسالتیں اصل میں آپ ﷺ
ہی کی نبوت ورسالت کا حصہ تھیں ۔بنابریں سابقہ نبوتیں اور رسالتیں اسی
تکمیلی شان والی ہو ہی نہیں سکتیں تھیں جتنی کہ نبی ٔ آخرالزماں ﷺ کی ،یعنی
اس وقت کی جب کہ احکامات وحی کو مکمل کر دیا گیا کچھ حلقوں کی طرف سے اس
سوال کا اٹھایا جانا کہ نظام خلافت اگر اتنا ہی اہم ہے تو پہلے وقتوں میں
سے اسی شان سے کیوں نہ نافذ کیا گیا جتنا کہ آخری دور نبوت،کابھی یہی جواب
ہے ۔آپ ﷺ کے نبی الانبیاء ہونے سے ایک بہت بڑی حقیقت سے پردہ اٹھتا ہے اور
وہ یہ کہ صرف الوہیت اور خلافت میں ہی تو حید نہیں ،رسالتﷺ میں بھی توحید
ہے ایک تو اس طرح پہلے والے ادوار میں یا تو ایک وقت میں ایک ہی نبی مبعوث
کیا جاتا یا ایک وقت میں دو یا زیادہ انبیاء مبعوث ہونے کی شکل میں ایک
بہرحال ان میں سے سنیئر ہوتا جبکہ دوسرے اس کے ممدومعاون ہوتے ۔پھر رسالت
میں توحید اس لئے بھی ہے کہ اصل رسول نبی ٔ کائنات ﷺ ہی ہیں پہلے والے
انبیاء ورسل ؑ آپ ﷺ اقتداء میں آپ ﷺ ہی کی ذمہ داری کو نبھاتے رہے ہیں ایسا
ہونے کیلئے ضروری تھا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق آپ و پر ایمان لاتے
اور بطور آپ ﷺ کے مددگار کام کرتے قرآن میں یہی تو فرمایا ہے کہ یاد کرو اﷲ
نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج ہم نے تمھیں کتاب وحکمت سے نواز ہے،کل
کوئی دوسرا رسول تمھارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے
تمہارے پاس موجود ہو تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اس کی مدد کرنا ہوگی
یہ ارشاد فرما کر اﷲ نے پوچھا کہ ،کیا تم اس کا اقرار کرتے ہواور اس پر
میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو ،انہوں نے کہا ہاں ہم اقرار
کرتے ہیں اﷲ نے فرمایا اچھا گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں (ال
عمران :۸۱)
اس کا مطلب ہے کہ حضرت آدمؑ سے لیکر تمام انبیاء ورسل ؑ ایک تسلسل میں جو
قیام خلافت کا کام کرتے رہے ہیں وہ کام وقتی علاقائی عبوری اور تدریجی شکل
میں تھا نہ کہ تکمیلی یعنی وہ صرف انہی تعلیمات وہی پر مبنی ہوتا تھا جو اس
وقت تک نازل ہو چکی ہوتیں ۔اصل مٰن ان ادوار میں تکمیلی پیمانے اور پائے کی
خلافت قائم ہو نہ سکتی تھی تکمیلی پیمانے اور شان کی خلافت قائم ہو تو اس
وقت جب ساتھ یہ بھی اعلان کردیا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے
مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تمم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو
تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے" (المائدہ:۳)
غلط تصور رکھتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ نبی کائنات ﷺ کی رسالت صرف آپ ﷺکے
وقت سے تا قیامت ہے ۔آپ و کی پیدائش سے پہلے بھی انسان تھے اور ظاہر ہے آپ
ہر انسان کے رسول ہونے کے ناطے سے ان تمام کے بھی رسول تھے جو آپ ﷺ کی
پیدائش سے پہلے گزرے ۔اوپر انبیاء ورسلؑ کے جس عہد کا ذکر ہوا وہ پہلے
انبیاء ورسل ؑ کی طرف سے ہی نہ تھا ظاہر ہے ان کے ناطے سے ان کی اقوام سے
بھی تھا بالفاظ دیگر تمام سابق انبیاء ورسلؑ ہی آپ ﷺ کی اقتداء و پیروی مٰں
کام نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کی اقوام بھی اس اقتداء وپیری کا اظہار اس
واقعے سے بھی عیاں ہے جب معراج کی رات تمام انبیاء ورسل ؑ نے مسجداقصیٰ میں
نماز آپ ﷺ کی اقتداء میں پڑھی ایسا کرنے کی کوئی دوسری ضرورت نہ تھی صرف اس
حقیقت کو اجاگرکرنا تھا کہ پہلے انبیاء ورسل ع آپ ﷺ ہی ذمہ داری کو نبھاتے
رہے ہیں ،ہھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر پہلے آنے والے پیغمبر نے آپ ﷺ کی
آمدکی خبر دی کچھ نے اشارۃ ً تو کچھ نے باقاعدہ نام لیکر البتہ نبی ٔ
کائنات ﷺ نے پہلے روش کے بالکل برعکس فرمایا تو یہ کہ میرے بعد کوئی نبی
نہیں آئے گا ہاں خلفا آئیں گے اور بہت ،کیوں کہ رسول ﷺ کی نبوت ورسالتﷺ
شروع سے ایک تسلسل میں آرہی تھی لہٰذا آج ہر مسلمان کیلئے لازم ہے کہ وہ
پہلے مبعوث ہونے انبیاء اور پہلی نازل ہونے والی آسمانی کتب کو مانے ،بصورت
دیگر اس کا ایمان مکمل نہیں ہوگا ۔اس لئے کہ وہ نبوتیں اور کتابیں کل کا ہی
جز تھیں ،کل کی تکمیل ہوتے ہی سلسلہ نبوت کو بھی منقطع کر دیا گیا تو تنزیل
کتب کے سلسلے کو بھی البتہ پہلے انبیاء ؑ اور کتب پر ایمان رکھنے کے باوجود
وہ قابل پیروی نہ رہے اس لئے کہ تکمیلی دور کے احکامات اور قوانین کی
موجودگی میں جزوی تعلیمات وحکامات کی پیروی کا کوئی سوال نہیں جزوی احکامات
وقوانین کی پیروی کرنے والی امتوں کو لازم ہے کہ وہ کل کے آتے ہی آخری رسول
ﷺ اور آخری کتاب کے پابند ہو جائیں ۔
یہاں پر ایک دو مزید حقیقتوں پر غور فرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ نے پہلے مبعوث
ہونے والے کسی نبی کو شاہد کے لقب سے نہیں پکارا ۔اس لئے کہ پہلے ادوار میں
جزوی تعلیمات وحی اس حد تک نافذ ہو سکتی تھیں جس قدر وہ تھیں کلی نظام
خلافت کو قائم کرکے دکھانے کی پابندی نہ تھی اس لئے کہ وہ احکامات کسی کلی
اجتماعی نظام پر محیط ہی نہ تھے زیادی تر احکامات سچائیوں پر مشتمل تھے
تاکہ جن تک پہنچیں وہ بہتر انسان بنیں ۔اب اس اآخری اور تکمیلی دور میں کلی
اجتماعی نظام ،نظام خلافت قائم کرکے شہادت علی الناس کا فرض منصبی نہ صرف
رسول کیلئے لازم قرار دیا گیا بلکہ ہماری اس آخری امت کیلئے بھی۔
قرآن مجید میں آیا ہے کہ اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ
تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ تم پر گواہ ہو (البقرہ:۱۴۳)
یعنی نظام خلافت وہی نظام ہے جس کی انتہائی چھوڑے پیمانے پر ابتداء حضرت
آدم سے ہی ہو گئی لیکن رہتی دنیا تک اس کی اقامت وشہادت لازم قرار پائی تو
ہمارے اس تکمیلی دور میں پہلے خود نبی ٔ کائنات ﷺکے ذریعے سے اور اب تا
قیامت امت وسط کے ذریعہ سے ۔مقام افسوس ہے کہ قیام ودوام خلافت کا اتنا
عظیم کام جس کے کرنے کی سعادت امت مسلمہ کو دی گئی آج حاملین منبر ومحراب
کے نزدیک یوں شکل اختیار کرگیا جیسے کہ اس کے بغیر بھی سب اچھا ہے ۔
دوسری اہم بات ہم ایک سوال کی صورت میں کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ وہ نظام
خلافت جس کے قیام کی تکمیل خود نبی ٔ کائنات ﷺ نے صحابہ ؓ کو ساتھ لیکر کی
آج کہاں ہے؟ زیر آسمان دنیا کے کسی حصے میں نہ خلیفتہ المسلمین کا وجود ہے
اور بنا بریں نہ خلافت کا اﷲ کے نزدیک قرآن وسنت کے احکامات پر مبنی نظام
کا قائم کرنا اس قدر اہم ہے کہ دوسری ہی وحی (پہلی وحی تو تعارفی تھی) میں
رسول ﷺ کو اﷲ کی کبریائی قائم کرنے کا پروگرام دے دیا گیا ۔قرآن مجید میں
آیا ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اٹھو اور خبردار کرو اور اپنے رب کی
کبریائی قائم کرو۔ (المڈثر:۳۔۱)
رسول کریم ﷺ نے بھی اس کو سنجیدگی سے لیا تو اس قدر کہ پورا دور نبوت اسی
کام میں لگا دیا دنیا میں آئے تھے تو دو جہالت تھا ،دنیا سے گئے تو دور
خلافت تھا ۔آج کی دنیا میں بندوں کے خودساختہ قوانین پر مبنی
جمہوریت،اشتراکیت اور آمریت جیسے باغیانہ نظام رواں دواں ہیں نہیں ہے زیر
آسماں کہیں اﷲ ورسول ﷺ کا اہم قراردیا ہوا قرآن وسنت پر مبنی نظام خلافت ۔
رسوائی ہے آج دنیابھر میں مسلمانان عالم کی تووجہ رسوائی بھی ہے ۔قرآن مجید
نے خود نشان دہی کی ہے کہ جب مسلمان ذلت ورسوائی سے دوچار ہوں گے تو اس کی
وجہ کیا ہوگی تو فرمایا گیا کہ تو کیا تم کتاب کے کچھ حصوں پر ایمان لاتے
ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو ؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا
اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل وخوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید
ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں ۔اﷲ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر
رہے ہو ۔(البقرہ:۸۵)
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ آج مسلمانان عالم سخت ذلت ورسوائی سے دوچار ہیں
یہ امر اس حقیقت کا گواہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے آج قرآن جید کے کچھ حصوں کو
اس طرح ترک کر رکھا ہے جیسے کہ وہ کتاب میں ہیں ہی نہیں ۔قرآن مجیدمیں ایک
واضح اصول بیان ہو اہے وہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لئے رسول ﷺ کی کی زندگی
طور نمونہ ہے (احزاب :۲۱)یعنی ہم نے قرآن مجید کے کسی حکم پر عمل کرنا ہے
تو لازماً صرف اس طریقہ پر جس طور رسول ﷺ اس حکم پر عمل کیا کسی ایک حکم کی
کیا بات آج ہم مسلمانوں کا اختیار کردہ دین اس دین سے مطابقت ہی کرتا جو
رسول ﷺ امت مسلمہ (صحابہ کرامؓ) کر سپرد کیا تھا ۔کیا یاد ہے آپ کو کہ رسول
ﷺ کے سپرد کردہ دین میں خلیفتہ المسلمین کا وجود تھا ہمارے اختیار کردہ دین
میں نہیں۔اس لئے کہ خلیفتہ المسلمین جو پوری دنیا کا (واحد) سربراہ ہوتا ہے
کہ بغیر اولوالامر وجود میں آتے ہی نہیں ،سپرد کردہ دین میں قرآن مجید کا
لازم کردہ شوریٰ کا ادارہ تھا ہمارے اختیار کردہ دین میں نہیں اسلئے کہ
خلیفتہ المسلمین کے وجود کے بغیر یہ ادارہ معرض وجو دمیں آتا ہی نہیں ۔سپرد
کردہ دین میں امت مسلمہ کا وجود تھا آج خلیفتہ المسلمین کی عدم موجودگی میں
اور مرکزیت کے تباہ ہونے سے امت مسلمہ اقوام میں بٹ چکی ہے زیر آسماں امت
مسلمہ کا وجود کہیں نہیں ۔ہم نے پانی بھی پینا ہو تواسی طریقے سے جس طریقے
سے رسول ﷺ نے پیا ،لیکن ہم اس حدتک دور چلے گئے کہ ہمارے اختیار کردہ دین
اور اس دین میں جو رسول ﷺ نے امت مسلمہ کے سپرد کر گئے تھے زمین وآسمان کا
فرق ہے ۔قرآ ن مجید کا یہ مطالبہ کہ ہم اسوہ ٔ رسول ﷺ کو اختیار کریں اور
ہمارااس دین کوہی اختیار نہ کر نا جو رسول ﷺ امت کے سپرد کر گئے تھے قرآن
مجید کا یہ مطالبہ اولوالامر کی اطاعت کی جائے اور ہمارے ہاں خود اولوالامر
ہی کا نہ ہونا ۔قرآن مجید کا مطالبہ ہے کہ ہمارے ہاں شوری ٰ ہو اور ہمارے
ہاں اس ادارے کا نہ ہونا ۔قرآن مجید کا مطالبہ ہے کہ امت مسلمہ کا وجود ہو
اور ہمارے ہاں اس کا آج نہ ہونا کیا یہ د و اور دو چار کی طرح ظاہر نہیں
کرتا ہم ہم نے قرآن مجید کے بڑے بنیادی حصوں کو ترک کر رکھا ہے ۔ہمارے ہاں
آج دالعلوموں کی کمی نہیں ،لائبریوں کی کمی نہیں ،کتابوں کی کمی نہیں
،علماء ودانش وروں کی کمی نہیں،تبلیغ وتدریس کی کمی نہیں لیکن بایں ہمہ ہم
مسلمان ہیں کہ ذلت ورسوائی سے دوچار اتنی بات ہماری سمجھ میں نہیں آرہی کہ
بگڑے ہوئے دین کی تبلیغ وتدریس دن بدن خود بگاڑ میں اضافہ کر رہی ہے ۔
علاج اس گھمبیر مسئلے کا یہی ہے کہ پوری اسلامی دنیا کو جس طرح رسول اﷲ ﷺ
ایک خلیفتہ المسلمین کی سربراہی میں لائے تھے ہم بھی ان ﷺ کی پیروی میں وہی
کریں
|