جمشید پور کے ادبی ایوان کو سنبھالے ہوئے
قدیم ستون ، آہستہ آہستہ گرتے چلے جا رہے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں قبل ترقی
پسند ادب کے روح رواں اور گراں قدر شاعر و ادیب منظر شہاب (سابق پرنسپل ،
کریم سٹی کالج) کو ہم لوگوں نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں سے رخصت کیا تھا ۔
آج (۸ دسمبر ۲۰۱۶ء )سید رضا عباس رضوی چھبن نے فون پر نہایت ہی اندوہناک
خبر سنائی کہ اسلم محمود شیخ بھی علی الصباح اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔
اسلم محمود شیخ کے آباء و اجداد کا تعلق پنجاب کے اس حصے سے تھا جو اب
پاکستان کا حصہ ہے، مگر آزادی سے قبل ہی بغرض تجارت ان کے والد غلام نبی
بخش نے جمشید پور کو اپنی آماجگاہ بنایا اور یہیں ۲ فروری ۱۹۳۳ء کے دن اسلم
محمود شیخ کی پیدائش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم نیو مڈل اسکول میں ہوئی۔گریجویشن
بھی جمشید پور کو آپریٹو کالج سے کیا۔ایک نجی گفتگو میں انہوں نے بتایا تھا
کہ انہیں اس بات کا فخر ہے کہ ایڈمیرل بنجامن فلپس صابر اکبر آبادی سے بھی
انہوں نے اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ہے۔اسکول کے زمانے ہی
میں انہیں اردو شعر و شاعری سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور دس بارہ برس کی
عمر سے ہی غزل کہنا شروع کر دی۔ حالانکہ بی زیڈ مائل جیسے کامل استاد سے
بھی انہوں نے نصابی تعلیم حاصل کی، مگر اپنی غزلوں پر کسی سے اصلاح سخن
نہیں لی۔ کبھی کبھی دوستوں سے ضرور مشورہ لے لیا کرتے تھے۔چند سال قبل ان
کا ایک مجموعۂ کلام ’’ حاصل و لا حاصل‘‘ منظر عام پر آچکا ہے۔شاعری کا خاصہ
شوق تھا مگر فنا فی الشاعری کبھی نہیں ہوئے ۔ یہی وجہ تھی کہ جمشید پور میں
ایک ٹیلرنگ کی دکان نیشنل ٹیلرنگ ہاؤس کو اپنی معاش کا ذریعہ بنایا اور
کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ اپنی محنت اور لگن سے کئی کارخانوں کے مالک
بن گئے اور جمشید پور کے ایک کامیاب بزنس مین کی حیثیت سے پہچانے جانے
لگے۔ان کے بچوں نے بھی اپنے والد سے ہی تجارت کا ہنر سیکھا اور ان کی حیات
میں ہی اپنے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔ اسلم محمود شیخ کی بیگم محترمہ شفا
شیخ نے بھی جمشید پور میں تعلیمی اور سیاسی میدان میں اپنی الگ پہچان بنائی
، آج بھی جمشید پور انہیں ایک تعلیمی ادارے کی پروقار ڈائرکٹر اور ایک
خاموش اور سنجیدہ سیاستداں کے روپ میں پہچانتا ہے۔
اسلم محمود شیخ کی شخصیت بے پناہ متاثر کن تھی۔ سرخ و سفید رنگت،متناسب قد
و قامت ، وجیہہ شخصیت کے مالک تھے ۔جامہ زیب بھی تھے ،۔راقم نے پہلی مرتبہ
انہیں کو آپریٹو کالج کے ایک مشاعرے میں ، سوٹ تائی میں غزل پڑھتے ہوئے اس
وقت دیکھا تھا کہ جب کو آپریٹو کالج کے کلاسس ، مسرز کے ایم پی ایم اسکول
کی بلڈنگ میں ہوا کرتے تھے۔وہ زمانہ میرے لڑکپن اور شیخ صاحب کے شباب کا
زمانہ تھا۔مگر بعد کے زمانے میں مشاعروں میں بہت کم دلچسپی لی ، اکثر
نشستوں اور مشاعروں میں شرکت ضرور کرتے ، مگر اپنا کلام کم کم ہی سنایا۔
اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ انہوں نے خود کو مکمل طور پر شاعری کے یا
مشاعروں کے حوالے کبھی کیا۔ بلکہ اپنا دھیان اپنے بزنس کی طرف زیادہ رکھا ۔
اسلم محمود شیخ کی گفتگو بھی خاصی دلچسپ ہوا کرتی تھی، گفتگو کے دوران ،
فارسی کے اشعار اور پنجاب کا حوالہ ضرور ہوا کرتا تھا۔بسٹو پور کے بولی ورڈ
بلڈنگ میں ان کی آفس تھی، جس میں کبھی کبھی ان کے شاعر دوست بھی جا بیٹھتے
تھے۔ایسے میں وہ اپنی ساری مصروفیات چھوڑ کر اپنے شاعر اور ادیب دوستوں کی
طرف متوجہ ہو جاتے۔اور بھر ادبی گفتگو کا ایک سلسلہ چل نکلتا۔ اس طرح کی
نجی محفلوں میں وہ اپنے کلاسیکی اشعار ضرور سناتے۔ ۔۔۔۔آج اسلم محمود شیخ
ہمارے درمیان نہیں رہے۔ مگر ان کی یادیں، ان کی کتاب حاصل و لا حاصل، ان کے
اشعار ہمیشہ ہم سے باتیں کرتے رہیں گے۔ یاد گار کے طور پر ان کے دو تین
اشعار دیکھیں:
ہے عزم خون جگر ہی سے لالہ زار بنیں
وہ ہم نہیں ہیں کہ منت کشِ بہار بنیں
دیار غیر میں ہم کیوں کسی پہ بار بنیں
ہم اپنے شہر میں خود اپنے شہر یار بنیں
کسی کی شوخ اداؤں کا پہلے بوسہ لیں
حضور ناز میں پھر معذرت گزار بنیں |