حکیم دمری کی کہانی رشی بابو کی زبانی

ڈاکٹر احسان عالم
رحم خاں، دربھنگہ
حکیم دمری کی کہانی رشی بابو کی زبانی
(حکیم سید الطاف حسین معروف بہ حکیم دمری ۔ ڈاکٹر منصور خوشتر کے داداجان)

عہد قدیم سے دربھنگہ صوبۂ بہار میں ایک اہم اور ممتاز مقام رکھتا ہے۔ یوں تو اسے متھلانچلکا دل کہا جاتا ہے اور پرانی ترہت کمشنری میں بھی یہ قابل ذکر شہررہا ہے۔ مگر ترہت کمشنری کے صدر مقام مظفرپور سے دور رہ کر دربھنگا مہاراج کے زیر اثر اس کی خاطر خواہ ترقی نہیں ہوسکی۔
انگریزوں کے دور میں یکم جنوری ۱۸۷۵ء میں دربھنگا ضلع بن کر ترہت کمشنری قائم ہوئی۔ جس میں دربھنگا، مظفرپور، سارن اور چمپارن اضلاع کو مربوط کیا گیا۔ بقیہ حصہ کو الگ کردیا گیا۔ دربھنگا میں میونسپلٹی کا قیام ۱۹۳۸ء میں عمل میں آیا۔لیکن دربھنگا شہر کی موجودہ حدیں تقریباً یکساں رہیں۔ یہاں کے نوّے فیصد لوگوں کا ذریعۂ معاش کاشت کاری ہے۔
نیپال کے باندھ سے پانی چھوڑے جانے اور کوسی ندی کے متواتر خطرناک ہوجانے کی وجہ سے آئے دن قرب وجوار میں کاشت برباد ہوتی رہتی ہے۔اکثر سیلاب کا سامنا رہتا ہے۔ لہٰذا اس علاقے کے لوگ تنگ آکر دور دراز مقامات کا سفرکرکے ذریعہ معاش تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اس ضلع کے تقریباً ۵۰ فیصد لوگ ہندوستان کے مختلف علاقوں اور عرب ممالک میں ملازمت کر رہے ہیں۔
دربھنگا کے محرم کا تماشہ بھی بہت مشہور ہے۔ تماشائے محرم کی اصل تاریخ علی نگر ، بینی پور سے وابستہ ہے۔ جہاں الہ آباد (یوپی) اور لکھنؤ سے مرثیہ گوئیوں کو بلایا جاتا تھا۔ تعزیہ کا اہتمام ذوق و شوق سے کیا جاتا تھا۔ان دنوں بھی موضع بریول، دربھنگا موضع سمری، مدھے پور، جھنجھار پور ، مدھوبنی اور حیاگھاٹ بلاک کے چندن پٹی میں محرم کا جلوس کافی دھوم دھام سے نکلتا ہے۔ محرم کی دسویں تاریخ کو قلعہ گھاٹ دربھنگا میں بڑے بڑے بانسوں کو ملایا جاتا ہے ، جن کو عرف عام میں لگھّاملان کہتے ہیں۔ حالانکہ ان سے منسوب کرتب بازیوں سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ۱۹۴۸ء میں حاجی سیدوراثت حسین مرحوم(یہ وہی وراثت حسین ہیں جو دربھنگہ سے بذریعہ سائیکل حج کے لئے تشریف لے گئے اور حج کے فریضہ کو انجام دینے کے بعد واپس لوٹ آئے) نے قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں ’’انجمن خدام ملت‘‘ قائم کی۔ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ لاوارث مردوں کی تجہیز و تکفین، بھولے بھٹکے بچوں کو ان کے والدین سے ملانا ، اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا اس کی خاص ذمہ داری ہے۔ بڑی شان اور جوش و خروش کے ساتھ سالانہ سیرۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا نفرنس منعقد کراتی ہے۔
دربھنگا کو علم و ادب کا گہوارہ اس وجہ سے بھی کہا جاتا ہے کہ اسلاف نے ایسے نقوش چھوڑے ہیں کہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ چنانچہ شہر کے ذی حیثیت اور مقامی شخص ڈاکٹر عبدالحفیظ سلفی اور مولوی عبدالودو ایڈوکیٹ کی مشارکت میں ۱۹۵۷ء میں دوسری ’’مسلم انجمن تعلیم‘‘ قائم ہوئی۔ حال ہی میں ۱۵ فروری ۲۰۰۹ء کو دربھنگا شہر میں دارالقضاء کا دفتر قائم ہوا۔ جو اس وقت درالقضا معہدالنور مہدولی میں چل رہا ہے۔ دارالقضا کو قاضی حضرت مولانا محمد قاسم مظفرپوری اور مفتی حبیب قاسمی کی خدمات حاصل ہیں۔ دربھنگا ضلع کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں دربھنگہ میڈیکل ہسپتال ہے۔ بیتا، الل پٹی اور لہیریا سرائے میں مریضوں سے زیادہ ڈاکٹروں کے لگے ہوئے بورڈ نظر آتے ہیں۔ میڈیکل کالج ہونے کے سبب شمالی بہار میں سب سے زیادہ ڈاکٹر دربھنگا شہر میں موجود ہیں۔
دربھنگہ کو ولیوں کا گہوارہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں بے شمار خانقاہیں اور غیر مسلموں کے مٹھ ہیں۔ یہاں کا کلچر گنگا جمنی ہے۔ عام طور پر لوگ نرم اور میٹھی زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہاں کے باشندے چورا، دہی اور اچار زیادہ پسند کرتے ہیں۔ پہلے برہمن مچھلی، گوشت اور انڈوں سے پرہیز کرتے چلے آرہے تھے۔ عام طور پر دھاگا سے کنٹھی باندھتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ پکے برہمن ہیں۔ مچھلی گوشت اور انڈوں سے کنٹھی لئے ہوئے ہیں۔ لیکن اب یہ ان کے لئے مرغوب غذا بن چکی ہے۔ جن کے سبب آج بازاروں میں ان سامانوں کی کھپت میں تیزی آگئی ہے۔ اور جگہ جگہ لوگوں نے مچھلی اور مرغی پالنا شروع کردیا ہے۔بلکہ کئی غیر مسلموں نے بھی پالٹری فارم کھول لیا ہے اورکاروبار کو فروغ ملا ہے۔ اس علاقے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں ہر مذہب اور ذات برادری کے لوگ آپس میں بڑے میل محبت سے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تہواروں ، شادی بیاہ اور دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور ایک ایسی فضا قائم کئے ہوئے ہیں جس کی بنیاد انسانیت اور بھائی چارگی پر ہے۔
سید محمد رشاد حسین عرف رشی بابو پسر حکیم مولوی سید عابد حسین مرحوم ہیں جن کا خاندان یوپی کے بلیا ضلع سے دربھنگہ منتقل ہوا۔عابد حسین صاحب کے داد ا حکیم حاجی سید کرم حسین صاحب ولد حکیم سید انوار حسین صاحب ۱۸۷۰ء آس پاس دربھنگہ تشریف لائے۔ حکیم عابد حسین کے والد ماجد حکیم سید تصدق حسین جن کا تعلق دربھنگہ کے چند معزز گھرانے سے تھا۔ اسی بنیاد پر معالج کے حیثیت سے یہاں آپ کی تشریف آوری ہوئی۔ پھر نوابوں ، زمینداروں اور راج دربھنگہ کے معزز لواحقین کے علاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ جو سلسلہ حکیم مولوی سید عابد حسین کے زمانے تک چلتا رہا۔ جناب حکیم عابد حسین مرحوم اکثر و بیشتر میرٹھ ، سہارن پور ، دلی، مسوری وغیرہ علاج کے سلسلے میں جایا کرتے تھے ۔ حکیم صاحب مرحوم مرکب دوائیں نہیں لکھا کرتے تھے۔ ان کا نسخہ مفردات پر مبنی ہوا کرتا تھا۔ اﷲ نے دست شفا عطا فرمایا تھا۔ زیادہ سے زیادہ مریض صحت یاب ہوا کرتے تھے۔
رشی بابو کی پیدائش ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۴۱ء کو ہوئی۔ انجمن اطبا کی طرف سے عموماً ہر سال۲۶؍ جنوری کو مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ جس کی پوری ذمہ داری حکیم سید الطاف حسین عرف حکیم دمری (مرحوم)کو دی جاتی تھی۔جس مشاعرہ کو حکیم دمری صاحب اپنے رہائشی مکان جس میں ان کا مطب ہوا کرتا تھا اس کے سامنے بہت بڑا شامیانہ لگاکر کنویں پر اسٹیج بناکر مشاعرے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ اس مشاعرے میں حکیم عابد حسین (والد)اور دونوں بھائی شامل ہوا کرتے تھے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ۱۰ برس کی رہی ہوگی اور ان کے چھوٹے بھائی سجاد حسین عرف سجی بابو کی عمر ۵؍ سال رہی ہوگی۔
رشی بابو ایک مشاعرے کا ذکر کرتے ہیں کہ مشاعرے میں موجود لوگوں نے کہا کیا یہ چھوٹے شاعر بھی کچھ سنائیں گے؟ تبھی یکایک سجی بابو کو ان کے والد کے ذریعہ یاد کرایا گیا ایک قطعہ یاد آگیا:
رفیق حال جو پروردگار ہوتا ہے
جہاز بحر مصیبت سے پار ہوتا ہے
غرور کس لئے کرتا بھی ہے تو اے ناداں!
یہ جسم تیرا تو مشت غبار ہوتا ہے
انیسؔ کوئی خدا کے سوا نہیں اپنا
کسی کا کون مصیبت میں یار ہوتا ہے
ان کے والد حکیم عابد صاحب شہر طبیب تو تھے ہی شاعری بھی کرتے تھے۔ جوش ملیح آبادی سے اصلاح سخن لیتے تھے اور تخلص ہوشؔ تھا۔
انجمن اطبا کے مشاعرے میں شہر کی معزز ہستیاں اور شعرا ئے کرام شامل ہوتے تھے۔ شاید ۱۹۵۳ء یا ۱۹۵۴ ء میں رمز پٹنوی بھی تشریف لائے تھے۔ اس مجلس میں حکیم نعمان صاحب، حکیم سوزاں صاحب، حکیم تقی صاحب، حکیم عبدالواسع صاحب،مولانا عبدالعلیم آسی، حکیم عبدالقادر ، عرف حکیم موتی صاحب، حکیم یحییٰ راہی صاحب، مولوی طٰہٰ صاحب، حکیم عبدالغفور صاحب، حکیم مظہر حسین صاحب، بابو منوہر لال گپتا، بابو رام بہادر پرشاد، پنساری جی، رکما بیرولیا ، ماسٹر روپ لال چودھری،رشی بابو کے چھوٹے بھائی سید محمد سجاد حسین عرف سجی بابو ہوا کرتے تھے۔سجی بابوکو شاعری سے شغف تھا۔ ان کے پانچ لڑکے ہیں ۔ سارے لڑکے انجینئر ہیں۔ صرف ایک لڑکا ڈپلومہ کرنے کے بعد اپنے کاروبار سے منسلک ہے۔ اس مشاعرے میں پیٹر صاحب ناظم مشاعرہ ہوا کرتے تھے۔
رشی بابو نے گفتگو کے دوران حکیم دمری صاحب(مرحوم) کے سلسلہ میں بہت ساری جانکاریاں دیں ۔انہوں نے بتایا کہ حکیم دمری صاحب کے انتقال کے بعدڈاکٹر سید ظفر آفتاب حسین کی والدہ مسماۃ بی بی خیر النساء نے رشی بابو کوبتایا کہ حکیم سید الطاف حسین عرف حکیم دَمری صاحب کے چشم وچراغ ڈاکٹرسید ظفرآفتاب حسین ان کے اکلوتے صاحبزدے ہیں(ان کے علاوہ انہیں کوئی اولادبیٹا یا بیٹی نہیں تھی) یہ جب صرف چھ سال کے تھے تو حکیم چچا(دمری) اس دنیا سے ۱۹۶۰ء میں رخصت ہوگئے۔ انہیں مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ کے پورب جانب کی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
رشی بابو نے ایک اور بات کی عجیب وغریب جانکاری دی کہ حکیم دَمری صاحب کی شادی کے بعد ۱۸؍ سال کی طویل مدت کے بعدکافی دعاؤں اور منتوں کی برکت سے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرام سے ۱۰؍ ۸؍ ۱۹۵۳ء مطابق ۲۰؍ ربیع الثانی ۱۳۷۲ ھ بدھ دن گزار کر جمعرات کی شب میں اکلوتے فرزند سے نوازا جس کا حکیم علیم الدین سوزاںؔ مرحوم نے تاریخی نام ’’سید ظفر حسن‘‘ رکھا جو اب سید ظفر آفتاب حسین کے نام سے مشہور ہیں۔حکیم علیم الدین سوزاںؔ نے اس خوشی کے موقع پر اشعار کے ساتھ ۱۳۷۲ ھ پر تاریخی نام رکھا:
مدت کے بعد حق نے جو بیٹا کیا عطا
قائم رہے یہ زینتِ الطاف کا چمن
تاریخی نام لکھ دیا سوزاںؔ نے لا جواب
دَمری کے نورعین ہیں سید ظفر حسن
رشی بابو نے بتایا کہ دَمری چچا کے انتقال کے بعد ان کی غیر موجودگی میں ان کی والدہ محترمہ مسمات بی بی خیر النساء نے محلہ پرانی منصفی کے ر ہنے والے جناب محمد فاروق عرف چھیتو میاں ولد میر امام الدین میاں (جو ان کے پرانے قریبی رشتہ دار تھے)کی سرپرستی میں ابتدائی تعلیم اے۔بی۔ سی۔ ڈی۔محلہ لال باغ کے محمد ایوب انصاری آپریٹرولد مرحوم انیس ٹیلر نے دلوائی۔ ماسٹر زاہد الرحمن پسر مرحوم بدحال میاں موضوع جھنا کھور،پوسٹ طیب پور ضلع پورنیہ کے رہنے والے جو خود بھی ملت کالج کے طالب تھے کواپنے گھر پر رکھ کر ابتدائی تعلیم دلوانے کے بعدموسیٰ ساہو مڈل اسکول ، مارواڑی ہائی اسکول سے ۱۹۶۹ء میں میٹرک پاس کیا ، ملّت کالج لہریاسرائے دربھنگہ سے بی۔ ایس۔ سی۔ آنرس(ڈسٹنکشن ان زولوجی)۱۹۷۴ء میں کیا ۔سی۔ ایم ۔سائنس کالج سے ایل ایل بی وکالت کی پڑھائی کے لئے داخلہ لیا جس میں جہانگر عالم ایڈوکیٹ اور وسیم الدین وغیرہ کلاس فلو تھے ،دی سنہا ہومیو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپیٹل لہریاسرائے دربھنگہ سے ڈی ۔ ایچ۔ایم۔ایس۔ (آنرس ان پریکٹس ان میڈیسن اینڈ سرجری) ۱۹۸۰ء میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد پٹنہ ہومیوپیٹھک بورڈ سے رجشٹریشن (No. 19054/09.3.81)کرانے کے بعد ۱۹۸۱ء میں ہومیوپیتھ ڈاکٹری کی پریکٹس اپنے رہائشی مکان ڈاکٹر آفتاب حسین کمپلکس (حکیم دمری منزل)سبھاش چوک لال باغ میں شروع کی۔ ان کی والدہ ماجدہ کا بھی ۱۹۹۵ء میں انتقال ہوگیا جو لال باغ قبرستان میں دفن کی گئیں۔سید حکیم الطاف حسین عرف حکیم دَمری دربھنگہ شہر کے ایک مشہور ومعروف، ماہر طبیب اور بہترین نبّاض تھے۔ بغیر کسی جانچ پڑتال کے ساری دوائیں تجویز کرتے اور اﷲ کا کرم تھا کہ زیادہ تر مریضوں کو شفاء ملتی ۔ ایک مرتبہ ان کے پاس ایک مریض پہنچا، مریض نے حکیم صاحب سے کہا کہ میں اپنے متعلق آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا۔ حکیم صاحب نے اس مریض کا نبض دیکھا اور پھر بیماری کے متعلق ساری باتیں کہہ سنائیں۔ مریض حیرت زدہ ہوگیا۔ دوا تجویز ہوئی اور وہ مریض صحت یاب ہوگیا ۔حکیم صاحب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ایک اچھے دستِ شفا طبیب کے ساتھ نیک دل ، دیندار، تحمل مزاج، غریب پرور، خوش مزاج، خدا پرست ولی صفت انسان تھے۔ پیسوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے اگر کوئی غریب مریض آتا تو مفت علاج کرتے۔حکیم دمری چچا کی شادی حیاگھاٹ اسٹیشن کے قریب واقع رسول پورگاؤں میں جناب عبدالحمید صاحب کی اہلیہ لئیق النساء کی دختر نیک اختر بی بی خیرالنساء سے سن ۱۹۳۴ء میں زلزلہ کے کچھ پہلے ہوئی۔ عبدالحمید صاحب حکیم دمری صاحب کے خسر میر ضمیر الدین عرف مغلو میاں ،میر امیر الدین عرف بونو میاں (امین صاحب) کے چچا زاد بھائی تھے۔
حکیم صاحب کے غریب پرور ہونے کی یہ مثال تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے رشتہ داروں، خویش واقارب، یتیموں میں سے اٹھارہ بچے بچیوں کی پرورش اپنے خرچ سے کی اور ان کی شادی بیاہ کرایا جن میں سے عبد القدوس ، حبیب الرحمن، ضیاء الدین ،لال بابو ، نیاز احمد، امام باندی، رُوَیدہ، اصغری، انوری، احمدی ، رقیہ(حمیرہ خاتون) کے نام قابلِ ذکر ہیں۔حکیم سید الطاف حسین دمری صاحب نے رقیہ (حمیرہ خاتون) کی شادی ۲۵؍ جولائی ۱۹۴۷ء کو جناب امام الدین صاحب محلہ پرانی منصفی کے صاحبزادے محمد فاروق صاحب سے کر دی ۔ اس شادی میں محلہ لال باغ، کٹکی بازار ، پکی حویلی ، محلہ مفتی ، محلہ اردو، محلہ بھیگو، محلہ ڈیوڑھی ، محلہ شاہ سوپن کے علاوہ شہر کے بہت سارے حضرات دعوتی تھے۔ رقیہ دور کے رشتہ سے حکیم دمری صاحب کی نواسی لگتی تھیں۔
یہاں یہ بات بھی بتانا ضروری ہے کہ حکیم دَمری صاحب خاندانی حکیم تھے ان کے والد ماجد حکیم سید اسحاق حسین ، ان کے والد حکیم سید تجمل حسین ، ان کے والد حکیم سید تفضل حسین یعنی سات پشت حکیم ہی گذرے ہیں ۔ ماشاء اﷲ تمام حکیموں نے اپنے وقت میں شفایابی کا ڈنکا بجوایا۔حکیم دَمری صاحب کے آباء واجداد باڑھ پٹنہ سے دربھنگہ تشریف لائے تھے جس کا ذکر مصنف بہاری لال فطرت نے اپنی کتاب آئینۂ ترہت(۱۸۸۰ء) میں کیا ہے۔
حکیم دمری صاحب کو شاعری اور میلاد شریف سے بھی زیادہ عقیدت تھی۔ حکیم صاحب اپنی زندگی میں ہر مہینہ میلاد شریف کرایا کرتے تھے اور اپنی رہائش گاہ کی چھت پر ۱۲؍ ربیع الاول کو ہر سال میلاد النبی کراکر حضرت محمد ﷺ کے پائے مبارک جو ایک پتھر پرپاؤں کا نشان ہے نہایت احترام اور اہتمام کے ساتھ زیارت کرایا کرتے تھے ۔ دور دراز سے لوگ کافی تعداد میں شریک ہو کر فیضیاب ہوا کرتے تھے اور میلاد شریف پڑھتے وقت حکیم صاحب کو ایسا حال آیا کرتا تھا کہ خود کو پتہ نہیں چلتا کہ چوٹ کہاں لگی اور کہاں سے خون بہہ رہا ہے۔اس میلاد شریف میں منشی توصیف الحق، توحید الحق، منشی اظہار الحق ، حکیم عبد القادر(حکیم موتی)، حکیم یحییٰ راہی، عبدالباری اور حکیم دَمری صاحب خود میلاد خواں ہوا کرتے تھے۔حکیم صاحب کے انتقال کے بعد جب ان کا پرانا رہائشی مکان محلہ لال باغ سبھاش چوک بننے لگا توحکیم صاحب کی اہلیہ اور ان کے صاحبزادے ڈاکٹر سید ظفر آفتاب حسین نے اس نایاب، بے مثال تحفہ ’پائے مبارک‘ کو فی الحال عبد القادر عرف حکیم موتی کے فیض خانہ محلہ پکی حویلی (شیواجی نگر)، مصرف بازار منتقل کردیا جہاں محمد ﷺ کے موئے مبارک جو بال شیشہ کے اندر ہر سال ۱۲؍ ربیع الاول کو دونوں کی زیارت بعدہٗ میلاد النبی کرایا جاتا ہے جس میں ڈاکٹر سیدظفر آفتاب حسین ہر سال خود بھی موجود رہا کرتے ہیں۔یہ تحفۂ مقدس (موئے مبارک رسول پاکؐ) پکی حویلی میں بی بی نثار فاطمہ کے توسط سے حکیم ٹنا ، ان کے صاحبزادے حکیم عبدالقادرعر ف حکیم موتی ، ان کے بیٹے غلام حسنین عرف چھیتو بابو سے سلسلہ بہ سلسلہ چلاآرہا ہے۔ حضرت شاہ سید تقی حسن بلخیؒ فتوحہ شریف ، پٹنہ بہار سے بیعت تھے اور ہر سال وہاں عرس کے موقعے پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ان کے گدی نشیں حضرت شاہ مظفر حسین بلخیؒ اور ان کے صاحبزادے حضرت مظفر حسین بلخیؒ طبیعہ کالج میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز تھے۔
حکیم دمری صاحب کے صاحبزادے سید ظفر آفتاب حسین بھی نیک دل انسان، دیندار، تحمل مزاج، ملنسارغریب پرور او ر خوش مزاج انسان ہیں۔ ا ن کا تعلق تبلیغی جماعت سے بھی ہے۔ ۲۰۱۱ء میں تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے انڈونیشیا اور ملائشیا کا ۵؍ماہ کا سفر بھی کیا ہے ۔ الحمدﷲ ۲۰۱۰ء میں اہلیہ کے ساتھ حج کا فریضہ بھی ادا کر چکے ہیں ۔
مرحوم حکیم دَمری صاحب کا مکان پہلے محلہ لال باغ میں ٹاؤن ہال کے پاس جناب علی حسن ریلوے گارڈ کے پاس تھا۔ ۱۹۳۸ء میں جب امپروومنٹ ٹرسٹ ہوا تو اس کے بدلہ میں حکیم دَمری صاحب کو مکان سبھاش چوک کے پاس ملا جو ٹھیک بیچ چوراہے پر ہے اور اس مکان کے چاروں طرف مین روڈ ہے ۔ پہلے اس جگہ کو گھسکٹّا کے نام سے جانا جاتا تھا کیوں کہ حکیم دَمری صاحب کے مکان کے پورب مرحوم ابوالحسن صاحب کے مکان کے پاس گھوڑے کا اصطبل ہوا کرتاتھا۔
اسی دور کے مشاعروں کا واقعہ سنانے کے دوران رشی بابو نے ایک مختصر سا واقعہ سناتے ہوئے کہا ۔ ایک دن محفل میں حکیم واسع اور تمنا کریم صاحب تشریف فرما تھے۔ تمنے صاحب کی بھی اپنی حیثیت تھی نوح ناروی کے شاگرد تھے انہوں نے سوزاں صاحب پر مذاقیہ انداز میں یہ شعر کہا :
عشق میں ایسے جلے سوزاںؔ کہ کالے ہوگئے
بھائی تھے لیلیٰ کے اب مجنوں کے سالے ہوگئے
حکیم سوزاں صاحب نے بڑے مؤدبانہ انداز میں اس شعر کا جواب یوں دیا:
واہ رے مرغی کے بچے چوں چرا کرنے لگے
آج ہی پیدا ہوئے اور آج ہی چڑھنے لگے
انجمن اطبا ء کاکام صرف مشاعرہ کرانا ہی نہیں تھا بلکہ سماجی فلاحی کام ، سماجی برائیوں کو دور کرنا تھا۔ اس دور میں نئی تہذیب کی شروعات ہوچکی تھی۔ لڑکیوں کا پردہ کچھ حد تک کم ہونے لگا تھا۔ لباس اور طرز رہائش تبدیلیوں کا شکار ہوچکا تھا۔ انجمن اطبا کے ذمہ داران نے ہر ممکن یہ کوشش کی کہ مسلمان اپنے تہذیب و تمدن کو برقرار رکھیں۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بھی اتحاد کافی تھا۔ ایک دوسرے سے کسی طرح کی دل شکنی نہیں تھی۔ انجمن اطباء کے لوگ بھی کوشاں رہتے کہ یہ اتحاد برقرار رہے۔ دونوں فرقوں کے درمیان نااتفاقی کا سلسلہ دربھنگہ مہاراج کے وقت سے شروع ہوا۔ مسلمانوں سے ان کی نفرت کا کیا سبب تھا یہ واضح طور پر نہیں کہا جاسکتا۔
اس زمانے میں مسلمانان دربھنگہ مسجدوں اور مدرسوں کے انتظام کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان میں بڑا خلوص تھا ۔ آج وہ خلوص نظر نہیں آتا ہے۔ اس معاملے میں مسلمان مادہ پرستی کے شکار ہوگئے ہیں۔
حکیم سید الطاف حسین عرف دمری صاحب کے صاحبزادے سید ظفر حسنؔ جو بعد میں اپنا نام سید ظفر آفتاب حسین لکھنے لگے جو اب ڈاکٹر آفتاب حسین کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر آفتاب حسین دربھنگہ شہر کے مشہور و معروف ہومیوپیٹھ ڈاکٹروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں دست شفا عطا فرمایا ہے۔ ڈاکٹر اے پی سنگھ،پروفیسر ایس ایم عثمانی اور ڈاکٹر مرحوم حاجی شمس الہدیٰ (اردو بازار) کی صحبت میں رہ کر ۱۹۸۱ء میں ہی اپنی رہائش گاہ ڈاکٹر آفتاب حسین کمپلکس (حکیم دمری منزل) نزد لال باغ ، سبھاش چوک دربھنگہ میں پریکٹس شروع کردی تھی۔ ۱۹۸۱ء میں ہی ان کی شادی محلہ پرانی منصفی مرحوم محمد فاروق صاحب (ولد محمد امام الدین مرحوم) کی اہلیہ رقیہ عرف حمیرہ خاتون کی منجھلی دختر نیک اختر محسنہ خاتون عرف افسانہ سے ہوئی۔ اس شادی کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مرحوم محمد فاروق صاحب کے گھر اس دن بیک وقت دو جگہوں سے بارات آئی اور ان کے دونوں بیٹوں کا نکاح یکے بعد دیگرے اسی محفل میں ہوا۔ سب سے بڑی بیٹی شہر بانو عرف اچھی بی بی کاامیر الحق کی اہلیہ نور جہاں کے صاحبزادے شوکت علی صاحب سے اور منجھلی لڑکی محسنہ خاتون عرف افسانہ کا ڈاکٹر آفتاب حسین سے اور تیسری سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی لوام کے باشندہ حاجی جناب یوسف لوامی (جنہوں نے لوام مدرسہ کا قیام کروایا تھا) کے تیسرے فرزند جناب امان اﷲ صاحب سے ہوئی ۔
محمد فاروق صاحب مرحوم کے کل پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اسد احمد ، علی احمد ، شاہد، ولی احمد (برساتی) ، صفی احمد (سیفو)، شہر بابو ( اچھی بی بی ) ، محسنہ خاتون (افسانہ ) ، شاہدہ۔
ڈاکٹر آفتاب حسین کا تعلق دعوت و تبلیغ دین سے بھی ہے۔ ان کا وقت اﷲ کے راستے میں اپنی اصلاح ، ایمان کی محبت اور امن شانتی کے پیغام کے لئے مکمل چار مہینہ بھوپال ، اندور ، کلکتہ جیسے شہروں میں لگنے کے بعد دلی ، نوئیڈا، کٹک (اڑیسہ) ، پونا (مہاراشٹر)اور جمشیدپور (ٹاٹا) میں بھی چالیس دن چلہ میں لگا ہے۔
اس کے باوجود ہر مہینہ کا تین دن مرکز باقر گنج لہیریا سرائے دربھنگہ میں شوریٰ کے مشورے سے اور ذمہ دار حضرت جناب اسد اﷲ وکیل صاحب کی اجازت سے اﷲ کے راستے میں مختلف گاؤں، قصبہ میں وقت لگاتے رہتے ہیں بلکہ میں خود ڈاکٹر آفتاب حسین کو اکثر دیکھتا ہوں جب میں جمعہ کی نماز کٹکی بازار جامع مسجد ، ٹاور چوک دربھنگہ میں پڑھتا ہوں تو بلا ناغہ مسجد کے تعمیری چندہ صفوں میں گھوم گھوم کر کیا کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ڈاکٹر آفتاب ۲۰۰۰ء سے ہی رمضان المبارک کے مہینہ میں جامع مسجدکٹکی بازار دربھنگہ میں اعتکاف میں بیٹھتے ہیں۔بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کے چیئر مین 19.4.2012کو وقف بورڈ نمبر (276)ٹاور چوک دربھنگہ کے نئی کمیٹی نے انہیں ممبر بھی منتخب کیا۔
الحمد اﷲ ڈاکٹر آفتاب حسین صاحب نے ۲۰۱۰ء میں اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ اﷲ کے فضل و کرم سے حج کا فریضہ بھی ادا کیا ہے، اُس وقت ان کے ساتھ حج کے دوران ملت کالج لہریا سرائے دربھنگہ کے سابق پرنسپل پروفیسر حسن آزاد، پروفیسر چودھری محمود ، سابق ڈپٹی میئر نگر نگم دربھنگہ ممتاز احمد انصاری ایڈوکیٹ اور جناب عبدالمالک خاں ایڈوکیٹ نے بھی حج کا فریضہ ادا کیا۔ حج کا فریضہ اداکرنے کے بعد ہی ۲۰۱۱ء میں دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں پانچ ماہ کا بیرون ملک انڈونیشا اور ملیشیا کا سفر بھی ملت کالج لہریا سرائے دربھنگہ کے انگلش کے پروفیسر جناب نسیم احمد صاحب کے امارت میں کل نوآدمی کے ساتھ کر چکے ہیں جس میں عبدالعزیز ، محمد جمشید ، اخلاق کے نام قابل ذکر ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب حسین صاحب اپنے طالب علمی کے زمانے میں سیاست سے بھی لگاؤ رکھتے تھے
حکیم دمری چچا کے ۱۹۶۰ء میں انتقال کے بعد اکلوتے صاحبزادے ڈاکٹر آفتاب حسین جب صرف چھ سال کے تھے تو ان کا کوئی سہارا نہیں تھا ، ان کے اپنے اور رشتہ دار بھی الگ تھلگ ہوگئے ۔ ان کو بے سہارا چھوڑ دیا گیا۔ اس وقت ان کی بوڑھی ماں مسماۃ بی بی خیرالنساء نے بہت ہمت سے کام لے کر انہیں سہارا دیا اور اس وقت محمد فاروق صاحب پرانی منصفی والے جو اب ڈاکٹر آفتاب حسین کے سسر محترم ہیں انہوں نے ان کی سرپرستی کی تھی۔ ڈاکٹر آفتاب حسین کو اکیلا اور بے سہارا دیکھ کرپاس پڑوس کے لوگ بہت پریشان کیا کرتے تھے تاکہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔ جب ڈاکٹر صاحب کا مکان تعمیر ہونے لگا تو وہ لوگ طرح طرح سے بہانا لگا کر مکان کی تعمیر کے کام کو رکوانے میں لگ گئے۔ کئی مقدمات کر دیئے گئے تاکہ وہ پریشان ہوکر یہاں سے بھاگ جائے۔ مگر اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اﷲ نے اپنے فضل و کرم سے مقدمات میں ایسی کامیابی دلائی جس سے اس شعر کی یاد تازہ ہوجاتی ہے:
نور حق شمع الہٰی کو بجھا سکتا ہے کون
جس کا حامی ہو خدا اس کو مٹا سکتا ہے کون
یہ ہماری دعا ہے کہ حکیم سید الطاف حسین عرف حکیم دمری صاحب کو اور ان کے خاندان والوں کو جو پہلے گزر چکے ہیں اﷲ انہیں غریق رحمت کرے اور اﷲ انہیں جنت میں جگہ دے اور ڈاکٹر آفتاب حسین کے لئے میں دعا گوں ہوں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں صحت کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ وہ دینی کام اور قوم و ملت کی خدمات کو انجام دینے میں لگے رہیں۔ آمین ثم آمین
٭٭٭
Mansoor Khushter
About the Author: Mansoor Khushter Read More Articles by Mansoor Khushter: 12 Articles with 12267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.