اسے خالقِ کائنات کا معجزہ ہی کہا جا سکتا
ہے کہ دنیا میں کچھ شخصیات ایسی پیدا ہوتی ہیں، جن کا نام لیتے ہوئے کسی
تفسیریا جامع تعارف کی ضرورت وقت کا قطعاَ تقاضا نہیں ہوتی۔ایسی شخصیات ہر
دور میں آپ اپنا مکمل تعارف اور معتبر حوالہ ہوتی ہیں۔آج میں جس موضوع
پراپنے قلم کو تقویت دینے کی کوشش کر رہا ہوں وہ ہے ڈاکٹر شکیل پتافی کا
پی۔ایچ۔ ڈی کا مقالہ’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘۔
بات اگر صرف حضرت غالبؔ کی کی جائے جن کی شخصیت وفن پر سینکڑوں کی تعداد
میں تذکرے،مضامین،منظوم و منثور تراجم،دواوین اور شرحیں کی صورت میں ان گنت
کتابیں لکھی جا چکی ہیں، اور سلسلہ ہنوز جاری ہے۔لہٰذا میرا غالب ؔکی شخصیت
و فن پہ اپنے قلم کو جنبش دیناسوائے مقصدِ تدریس اور کچھ نہیں، ڈاکٹر شکیل
پتافی اور ان کی اس تحقیق پر تبصرہ کرناسورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔
مگر کیا کروں میرا ذوق ِتجسس مجھے لکھنے پرمجبور کرتااور اکساتا رہتا
ہے۔کیونکہ میں اپنے اس تجسس اور کریدنے کے عمل میں بہت سے نئے مشاہدات میں
سے گزرتا ہوں جو میرے ادبی سفر کے لیے بہت حد تک سود مند ثابت ہوتے ہیں۔
گو کہ آج تخلیق ہونے والے ادب اورشاعری میں جدید میتھڈ اپنایا جا رہا ہے
مگر جو تخلیقی رنگ قدماء باندھ گئے اسے بے نظیر کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ان
متقدمین نے آفاقی ادب تخلیق کر کے ہمیں بیش بہا خزانے سے نوازا ہے۔مزیدبرآں
مؤرّخین اور محقّقین حضرات کی تحقیق اور کدّو کاوش کی بدولت ان کی زندگی
اور شخصیت و فن کے کئی اہم پہلو اور حقائق منظر ِعام پر آتے ہیں، مگر یہاں
پر ایک شرط عائد ہوتی ہے وہ ہے محققین اور مؤرخین کا حقائق پسند اور غیر
جانبدار ہونا۔ اور الحمداﷲ محترم جناب ڈاکٹر شکیل پتافی نے جس طرح تحقیق کے
اس فریضے کو محنت ،لگن اور ایمانداری سے سرانجام دیا ہے یقیناَ لائقِ صد
تحسین ہے۔ نیز ان کی یہ عظیم کاوش آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ اور ادب
کا گراں قدر سرمایا ہے،اور جب تک غالبیات پہ کام ہوتا رہے گاڈاکٹر صاحب کا
نام زندہ وجاوید رہے گا۔
اس سے قبل ڈاکٹر شکیل پتافی ہمارے قومی اور علاقائی ادب کوبیش بہا خزانہ
شعری تخلیقات اور تحقیقات کی کی صورت میں عطا کر چکے ہیں لیکن ان کا یہ
تحقیقی مقالہ’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘سب سے بڑا اورمنفرد و معتبر کارنامہ
ہے۔مجھ ایسے طفلِ مکتب نے غالبیات کے حوالے سے اتنا جاندارلٹریچر پہلے کبھی
نہیں دیکھاتھا۔خوبصورت مجلد کتابی شکل اور۸۴۰ صفحات کی طویل ضخامت پر مبنی
یہ مقالہ مندرجہ ذیل۶(چھ)ابواب پر مشتمل ہے۔
۱۔اردو میں غالب شناسی کی روایت۔۔۔۔۔۔۔۱۹۴۷ء تک
۲۔ترتیب و تدوین
۳۔تحقیق و تنقید
۴۔ترجمہ و تشریح
۵۔متفرقات
۶ ۔پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل
جیسا کہ میں اوپر گزارش کر چکا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی یہ ریسرچ طویل ضخامت
پر مبنی ہے لہٰذا ہم یہاں پر صرف باب اوّل کے اجزاء و مضامین یعنی ’’غالب
شناسی کی روایت‘‘ اور’’ غالب شکنی کی روایت ‘‘کے مباحث پر چیدا چیدا روشنی
ڈالنے کی کوشش کریں گے یا مکمل باب کا مجموعی طور پر مختصر مشاہداتی جائزہ
پیش کرتے ہوئے اقتسابات اور حوالہ جات درج کریں گے۔
باب اول:اردو میں غالب شناسی کی روایت۔۔۔۔۔۱۹۴۷ء تک
یہ باب مندرجہ ذیل تحقیقی مباحث اور مضامین پر مشتمل ہے
(الف) غالب شناسی کی روایت
(ب) غالب شکنی کی روایت
حوالہ جا ت و حواشی
(الف)غالب شناسی کی روایت :
بابِ اول میں ڈاکٹر شکیل پتافی صاحب کی ریسرچ کی بدولت جہاں تذکرہ نگاری کی
روایت سے آشنا ہوئے ،وہیں اس تذکرہ نگاری کی بدولت غالب شناسی کے ابتدائی
عہد کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔
بقول ڈاکٹر شکیل پتافی ،ایک روایت کے مطابق میرؔ نے غالبؔ کا کلام سن کر
کہا تھا:
’’ اگر اس لڑکے کو کوئی کامل استاد مل گیا اور اس نے اس کو سید ھے رستے پر
ڈال دیا تو لا جواب شاعر بن جائے گا ورنہ مہمل بکنے لگے گا‘‘(۱)
’’میرؔ کے اس بیان سے غالب شناسی کا آغاز ہو جاتا ہے۔غالب اس وقت بارہ تیرہ
سال کے تھے جب میر ؔنے ان کے بارے میں یہ رائے اختیار کی تھی۔غالب ؔ۱۲۱۲ھ
میں پیدا ہوئے اور میرؔ کا سال وفات ۱۲۲۵ھ ہے۔رہا یہ سوال کہ اس کم عمری
میں غالب اتنت اچھے شعر کیسے کہنے کے قابل ہو گئے تھے کہ میرؔ جیسے بلند
پایہ شاعر اور تذکرہ نگار نے ان پر تبصرہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو؟اس
سوال کے جواب میں یہ حقیقت سامنے آ جاتی ہے کہ غالبؔ فی ا لواقع کم عمری
میں شعر کہنے لگ گئے تھے اور اپنی شاعری کے ابتدائی دنوں ہی میں انہیں ایک
شناخت مل گئی تھی‘‘(ڈاکٹر شکیل پتافی)۔
مولانا حالیؔ فرماتے ہیں:
’’ مرزا کی شاعری اکتسابی نہ تھی بلکہ ان کی حالت پہ غور کرنے سے صاف ظاہر
ہوتا تھا کہ یہ ملکہ ان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا۔انہوں نے جیسا کہ
اپنے فارسی دیوان کے خاتمے میں تصریح کی ہے۔گیارہ برس کی عمر میں شعر کہنا
شروع کر دیا تھا۔‘‘ (۲)
غالبؔ کے بعض نامور محققین کا بیان بھی یہی ہے کہ انہوں نے کم عمری ہی میں
شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔اس سلسلے میں امتیاز علی خاں عرشی رقم طراز ہیں:
’’وہ تقریباََ دس برس کی عمر سے شعر گوتھے کیونکہ کلیات فارسی کا اظہار جو
سب سے قدیم ہے یہی ثابت کرتا ہے‘‘(۴)
یہی بات مالک رام نے بھی کہی ہے ۔وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’وہ مولوی محمد معظم کے مکتب میں پڑھتے تھے اور ان کی عمر دس گیارہ سال سے
زیادہ نہیں تھی کہ انہوں نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا‘‘(۵)
میرؔ اورمولاناحالیؔکے ان بیانات کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ و متقدمین کی
آراء سے اس بات کو تقویت پہنچتی ہے کہ غالب واقعی کم عمری میں اچھے شعر
کہنے لکھنے لگ گئے تھے اور انہیں شاعری کے ابتدائی دنوں ہی میں ایک شناخت
مل گئی تھی۔
علاوہ ازیں اس باب میں ، تذکروں میں غالبؔ کا مختصر تعارف،ان کی زندگی کے
حالات و واقعات،ان کا شعری رجحان،اور شعری سفر کے ساتھ ساتھ تذکرہ نگاری کی
بدولت غالب شناسی اور غالب شکنی(جو دراصل غالب شناسی کا حصہ ہے) کے موضوعات
اور حالات و واقعات پہ روشنی ڈالی گئی ہے۔
میرؔ کی اس رائے کے بعدغالبؔ کا جامع تعار ف نواب ضیاء الدین احمد خان ایک
تقریظ کی صورت میں سامنے لائے ان کے اس نثری تنقیدی نوٹ میں غالبؔ کو ’’
سرخیلِ انجمنِ نکتہ دان‘‘قرار دیا گیا اور ساتھ ہی چند فارسی اشعار بھی کہے
جو کلامِ غالبؔپر باقاعدہ تنقیدی خیالات کی حیثیت رکھتے ہیں،یہ تقریظ مع
اشعار کئی صفحات پر مشتمل تھی جسے سر سیّد احمد خان نے اپنی تصنیف’’ آثار
الصنادید‘‘ میں بھی شامل کیا۔
تذکرہ نگاری کی بدولت پھر یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پرچل نکلا ،بڑے بڑے تذکرہ
نگاروں نے اپنے اپنے نقطہء نظر کے حساب سے غالبؔ پر کچھ نہ کچھ ضرور
لکھا۔غالب شناسی کے حوالے سے چند تذکرے ملاحظہ فرمایئیـ۔
سیّد محمدصدیق حسین خان کا تذکرہ جو کہ ’’شمع انجمن ‘‘کے نام سے ۱۸۷۶ء میں
تصنیف ہوا ،جس میں غالب کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا :
’’خطاب نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ بہادر،شاہجہان آباد کے نامی سخنوروں
میں سے ہے،قوتِ فکرِ خداد ادکا مالک ہے۔اشعار کی خوش وضع بنیاد تعمیر کرتا
ہے اور دلکش معنی اختراع کرتا ہے۔ بیشہء سخن پروری کا شیر ہے اور معنی
گستری کی ولایت کا فرمانروا۔نثر و نظم میں طرزِ خاص کا مالک ہے اور دلنشیں
تراکیب ایجاد کرتا ہے ۔ان کے بہت سے معاصر نثر نویسی اور شعر گوئی میں ان
کے کمال کے قائل ہیں‘‘۔(۵۲)
غالب شناسی کے حوالے سے سیّد نور الحسن کا تذکرہ’’ طورِ کلیم‘‘ بھی جو کہ
۱۸۷۸ء میں شائع ہوا قابلِ ذکر ہے جس میں غالب اور ان کی علمی خدمات کے بارے
میں بنیادی باتوں کو منظرِ عام پر لایا گیا:
’’ فخرِ عرفی و غیر ت طالب میرزا نوشہ اسداﷲ خان المخاطب بہ نجم
الدولہ،دبیر الملک، نظام جنگ بہادر افراسیاب کی نسل میں سے تھے۔اکبر آباد
میں مولد تھااور دہلی مسکن۔ لفظ ’’غریب‘‘ تاریخِ ولادت ہے۔وفات ۱۲۸۵ھ میں
واقع ہوئی۔ ’’پنج آہنگ‘‘، ’’دستنبو‘‘، ’’ مہر نیم روز‘‘ اور’’ قاطع برہان‘‘
ان کی تالیفات میں سے ہیں۔فارسی زبان میں بھی ایک دیوان رکھتے ہیں۔ابیات کا
مجموعہ بھی ہے۔اوّل اوّل مرزا بیدل کی روش اختیار کی۔آخر الامربڑا پسندیدہ
انداز ایجاد کیا۔اپنے دیوانِ ریختہ میں سے بہت سے اشعار نکال دیے ہیں اور
قلیل تعداد میں انتخاب کر لیے ہیں۔پہلے اسدؔ تخلص کرتے تھے، جو غزلیات کے
بعض مقطعوں میں اب بھی موجود ہے۔پچاس سال ان کی مدتِ مشق ہے۔ فارسی گوئی
میں ان کا پایہ فحول الشعراء سے کم نہیں اور ریختہ کی حالت بھی یہ ہے کہ
اگر ان کا کوئی ہم مرتبہ ہے تو سامنے لائیں۔ اگر حدیقہء نظم کے لیے نو بہار
ہیں تو عرصہء نثر میں بھی مرد کار ہیں۔جمیع اصنافِ سخن پر جو قدرت انہیں
حاصل ہے، بیان سے باہر ہے‘‘(۵۴)
مضمون ہذا میں غالب شناسی کے حوالے سے تمام مندرج تذکرہ نگاروں کا احاطہ
کرنا تو ممکن نہیں لیکن یہاں پر چند تذکروں کے نام مع نامِ تذکرہ نگار درج
ذیل ہیں۔
’’نکات الشعر اء‘‘ (میرؔ)، ’’عیار الشعراء‘‘(خوب چند ذکاءؔ)، ’’عمدہء
منتخبہ‘‘ (اعظم الدولہ سرورؔ)، ’’گلشنِ بے خار‘‘ (نواب مصطفی خان شیفتہؔ) ،
’’انتخابِ یادگار‘‘ (امیر ؔمینائی )، ’’ آب ِ حیات ‘‘ (مولانا محمد حسین
آزادؔ)۔ اس کے علاوہ مولانا حالیؔ کا تنقیدی شاہکار ’’ یادگارِ غالب
‘‘انتہائی ہمیت کا حامل ہے۔
مولانا حالیؔ غالب کا موازنہ میرؔ و سوداؔ اور ان کے مقلدین سے کرتے ہوئے
غالب کو ایک نئے طرز اور نرالی کیفیت کاشاعر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب میرؔ و سوداؔ اور ان کے مقلدین کے کلام میں
ایک ہی قسم کے خیالات اور مضامین دیکھتے دیکھتے جی اکتا جاتا ہے اور اس کے
بعد مرزا کے دیوان پر نظر ڈالتے ہیں ، تواس میں ہم کو ایک دوسرا عالم
دکھائی دیتا ہے اور جس طرح کہ ایک خشکی کا سیاح سمندر کے سفر میں یا ایک
میدان کا رہنے والاپہاڑ پر جا کر ایک بالکل نئی اور نرالی کیفیت کا مشاہدہ
کرتا ہے،اسی طرح مرزا کے دیوان میں ایک اور ہی سماں نظر آتا ہے‘‘ (۶۱)۔
اس عہد کے تذکروں میں ایک نہایت اہم تذکرہ، کریم الدین کا ’’ گلدستہء ناز
نیناں ‘‘ قابلِ ذکر ہے۔
یہ تذکرہ دو باتوں سے نہایت منفرد حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ اوّل یہ کہ
جتنازیادہ نمونہء کلام اس تذکرے میں ہے اور کسی تذکرے کے حصے میں نہیں آیا۔
دوم یہ کہ اس تذکرے کے ذریعے غالب کی ایک ایسی غزل برآمد ہوئی جو کسی
مطبوعہ دیوان میں حتی کہ نسخہء حمیدیہ میں بھی شامل نہیں،جو کہ درج ذیل ہے:
اپنا احوال دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیاء مانع ِاظہار، کہوں یا نہ کہوں
نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر
میں بھی ہوں محرمِ اسرار کہوں یا نہ کہوں
شکر سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار کہوں یا نہ کہوں
اپنے دل ہی سے میں احوالِ گرفتاریء دل
جب نہ پاؤں کوئی غم خوار، کہوں یا نہ کہوں
دل کے ہاتھوں سے کہ ہے دشمنِ جانی میرا
ہوں اک آفت میں گرفتار کہوں یا نہ کہوں
میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غماز
گوش ہیں در پسِ دیوار کہوں یا نہ کہوں
آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسدؔ
حسبِ حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں (۲۳)
(ب) غالب شکنی کی روایت:
اب ذرا غالب شکنی کے حوالے سے تھوڑا سا جائزہ لیتے ہیں۔غالب شکنی کے حوالے
سے ڈاکٹر شکیل پتافی کی تحقیقی کاوش کچھ اس طرح سامنے ہے:
’’ غالب کی زندگی میں جہاں ان کی تعریف و توصیف کی گئی اور ان کی حق و
تائید میں لکھا گیا وہیں ان کے خلاف لکھے جانے کی روایت بھی قائم ہو گئی۔جس
کے نتیجے میں غالب شکنی ایک مستقل موضوع کی شکل اختیار کر گئی۔غالب کے خلاف
جو کچھ بھی لکھا گیا،اگرچہ وہ اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں کہ جو اُن کے حق
میں لکھا گیالیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ غالب شناسی کے ہر عہد میں ہندوستان کے
اطراف و اکناف سے غالب شکنی کی آوازیں بھی سنی جاتی رہی ہیں۔کوئی دور ایسا
نہیں کہ غالب کے خلاف نہ لکھا گیا ہو۔غالب کے خلاف لکھنے والوں نا صرف ان
کے شعر و فن کو موضوع بنائے رکھا بلکہ غالب کی ذاتی اور شخصی زندگی کو بھی
نشانہ بنانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔کچھ تحریریں مخالف برائے
مخالف کے ضمن سامنے آئیں۔جبکہ بعض اہلِ قلم نے تو اس موضوع کو اوڑھنا
بچھونا بنا لیا کہ جب بھی لکھا، جو بھی لکھا،غالب کے خلاف ہی لکھا۔لیکن اگر
دیکھا جائے تو غالب شکنی بھی دراصل غالب شناسی ہی کا ایک عمل یا ردِ عمل ہے
جو غالبیات میں گراں قدر اضافے کا باعث بناہے۔
غالب کے خلاف سب سے پہلی آواز ان کے ایک ہم عصر تذکرہ نگار،قطب الدین باطنؔ
نے بلند کی۔’’ گلستانِ بے خزاں ‘‘ ان کا تذکرہ ہے جو دراصل شیفتہ ؔ کے
تذکرے ’’ گلستانِ بے خار ‘‘ کے جواب میں لکھا گیا ہے۔شیفتہؔ سے باطن ؔکی
مخالفت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنے تذکرے ’’ گلشنِ بے خار‘‘ میں
باطن کے استاد نظیر اکبر آبادی کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کرتے ہوئے
ان کے اشعار کو بازاری لوگوں کی پسند قرار دیا تھا۔جواب میں باطن ؔ نے اپنے
تذکرے میں نا صرف اس بلکہ اس کے استاد(غالب) کو بھی جی کھول کر برا بھلا
کہا۔چنانچہ ’’ گلستانِ بے خزاں ‘‘ کا ذکر غالب شکنی کا نقشِ اوّل قرار پاتا
ہے۔‘‘
بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری:
باطن ؔ کا بیان خاصا دلچسپ ہے اور غالب کے کلام اور شخصیت پر جائز ونا
جائز،بہرحال اوّلین تنقیدی تحریر کی حیثیت رکھتا ہے‘‘(۱۸۴)
’’ گلستانِ بے خزاں ‘‘ میں سے غالب کے بارے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ غالب ؔ و اسدؔ تخلص،اسداﷲ خان نام،ملقب بمرزا نوشہ،آپ دو تخلص کرتے
ہیں۔انتخاب ِ زباں میں یکہ دوراں ہیں․․․․․․․․․․․․․جس طرح طبیعت آئی اس کی
خاک اڑائی چنانچہ دفتر رز سے تاک لگائی تو وہ ظرف پیدا کیا کہ مینائے گردوں
میں شرابِ شفق قاضیء آفتاب بہ ادب پیش کش لایا اور قمار بازی پر جو دھیان
کیا تو چھٹے جواری ہوئے․․․․․․․․․․․دہلی والے صاحب کو اپنے روبرو میں نہیں
لاتے۔
مارے خودی اور تبختر کے جی میں پھولے نہیں سماتے پر جب کسی سے مقابلہ ہو تو
دم بھر میں فیصلہ ہو۔ان کو شراب و شباب چاہیے۔روزے کے نام سے انہیں کیا
کام، نماز کو ان کا ہر دم سلام،اصحابِ تذکرہ کی تحریر دیکھی اور ان کی
تقریر دیکھی۔ کیا غرور ہیں ۔اپنے نزدیک کتنے دور ہیں یارانِ ہم صحبت ان سے
زیادہ غرورمیں چور ہیں۔گویا ان کے یار خوشامد کے مزدور ہیں۔دہلی والے
صاحبوں کے تذکرے جو عبارت رکھتے ہیں ۔متاع خیریت شعرائے ماضی و حال مصنف کے
غارت رکھتے ہیں‘‘(۱۸۵)
’’ غالب پر ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے جو الزامات عائد ہوئے ہیں ان میں
سے مے نوشی اور قمار بازی شامل ہیں۔چنانچہ غالب کے خلاف لکھنے والوں نے(
جیسا کہ باطنؔ کے محولہ بالا بیان سے ظاہر ہے) ان کی شخصی کمزوریوں کو
منظرِ عام پر لانے کی کوشش کی گئی ہے۔غالب کے عہد میں جو اخبار شائع ہوئے
ہیں ان میں بھی بعض خبریں غالب خلاف چھپی ہیں، جن سے غالب کی شخصیت کے منفی
پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے جو آگے چل کر غالب شکنی کا روپ اختیار کر چکی
ہیں۔ذیل میں ۲۲ اگست ۱۸۴۱ کے ایک اخبار ’’ دہلی اردو اخبار‘‘ میں غالب کے
بارے میں شائع ہونے والی خبر کا اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ملاحظہ ہو‘‘(ڈاکٹر
شکیل پتافی):
’’ سنا گیا ہے کہ ان دنوں گرز قاسم خان میں مرزا نوشہ کے مکان سے اکثر نامی
قمار باز پکڑے گئے،مثل ہاشم خان وغیرہ کے جو سابق بڑی علتوں میں دور ہ تک
سپرد ہوئے تھے،بڑا قمار ہوتا تھا،لیکن بہ سبب رعب و کثرتِ مردان کے یاکسی
طرح سے کوئی تھانیدار اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا۔اب تھوڑے دن ہوئے یہ
تھانیدار قوم سے سیّد اور بہت جری سنا جاتا ہے،مقرر ہوا ہے․․․․․․․․ یہ مرزا
نوشہ ،ایک شاعر، نامی رئیس زادہ نواب شمس الدین قاتل ولیم فریزر کے قرابت
قریبہ میں سے ہے۔یقین ہے کہ تھانیدار کے پاس بہت رئیسوں کی سعی و سفارش بھی
آئی لیکن اس نے دیانت کا کام فرمایا،سب کو گرفتار کیا۔عدالت سے جرمانہ علیٰ
قدر مراتب ہوا۔مرزا نوشہ پہ سو روپے، نہ ادا کریں توچار مہینہ قید‘‘ (۱۸۷)
یہ خبر دوسرے اخبار ات میں بھی شائع ہوئی۔مثلاََ کلکتہ کے فارسی اخبار ’’
مہرِ منیر ‘‘نے ۲ ستمبر ۱۸۴۱ء کے شمارے میں یہ خبر اس طرح شائع کی:
’’ از مکانِ مرزا نوشہ ،شاعرِ نامدار دہلی،یکے از عزیزانِ نواب شمس الدین
خان مرحوم،تنے چند مقامرانِ نامدار کہ در لیل و نہار بجزقمار دیگر کارندا
شتند،در حالتِ مقامرت بسعی تھانیدار اسیر و گرفتار شد ندوبر محکمہ حاکم
حاظر گردیدند۔حاکمِ نصف شعار از شاعر یک صد روپیہ و از دیگران سی سی روپیہ
جرمانہ گرفتہ آزاد فرمود ‘‘(۱۸۸)
’’ مہر منیر‘‘ کی اس خبر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غالب کو سو روپیہ
جرمانہ ہوا تھا جبکہ دوسروں کو تیس تیس روپے۔قمار بازی کا یہ واقعہ ۱۸۴۱ء
میں پیش آیا تھا۔
۱۸۴۷ء میں غالب پھر قمار بازی کے الزام میں پکڑے گئے۔جس سے ان کی شخصی
زندگی بری طرح متاثر ہوئی اور دشمنوں کو ایک بار پھر ان کے خلاف منہ کھولنے
کا موقع مل گیا۔اس سلسلے میں ۲۶ جون ۱۸۴۷ ء کے ’’احسن الاخبار‘‘ میں اس
حواالے سے خبرشائع ہوئی جو یہاں طوالت سے بچتے ہوئے درج نہیں کر رہے۔
غالبؔکی زندگی میں علمی نوعیت کا بھی ایک واقعہ ایسا رونما ہوا جس کے نتیجے
میں ان کے خلاف پورامحاذ کھل گیا۔اسے ’’قضیہء برہان ‘‘ کے نام سے یاد کیا
جاتا ہے۔۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد غالب عموماََ گوشہ نشین ہو گئے تھے۔اس
دوران میں انہوں نے فارسی کی مشہور لغت ’’ برہانِ قاطع‘‘ مؤلفہ محمد حسین
تبریزی کا بنظرِ غائر مطالعہ کیااور اس میں انہیں جوغلطیاں نظر آئیں ان پر
اشارات قلمبند کرتے رہے۔بعدازاں ان اشارات کو یکجا کیا تو ایک رسالہ مرتب
ہو گیا۔جس کا نام غالب نے ’’قاطع برہان‘‘ رکھ دیا۔۱۸۶۲ء میں یہ کتابی شکل
میں شائع ہوا ’’ برہانِ قاطع ‘‘ کے حامیوں نے غالب کے خلاف ایک طوفان برپا
کر دیا۔مخالفین کے طرزِ عمل کا ذکر کرتے ہوئے مولانا غلام رسول مہرـؔ نے
لکھا ہے:
’’ قاطع کے شائع ہوتے ہی جامد خیال مقلدوں کے لشکر غالب کے خلاف صفیں باندھ
کرکھڑے ہو گئے۔ ان میں سے کوئی یہ سوچنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ غالب نے
کیا لکھا ہے یا اصولِ فارسی کے لحاظ سے اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے۔سب محض اس
وجہ سے جوش میں آگئے کہ غالب کو صاحبِ برہانِ قاطع کے خلاف زبان کشاہونے کی
جرأت کیوں کر ہوئی؟اس سلسلے میں غریب غالب نے چھوٹے پیمانے پر وہ تمام
مصیبتیں اور اذیتیں برداشت کیں جو تقلید و جمود کے راستے سے الگ ہو کر چلنے
والوں کو ہر عہد اور ہر دائرے میں ہمیشہ آتی رہی ہیں‘‘(۱۹۱)
اور بقول مولانا حالیؔ، ہر کس و نا کس مرزا غالبؔ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو
گیا(۱۹۲) ’’قاطع برہان‘‘ کے جواب میں جو کتابیں لکھی گئیں۔ان میں چار فارسی
نثر میں ہیں جن کے نام یہ ہیں۔
۱ ۔ محرق قاطع برہان، از سیّد سعادت علی ، دہلی: ۱۸۶۳ء
۲ ۔ ساطع برہان، از میرزا رحیم بیگ،میرٹھ: ۱۸۶۵ء
۳ ۔ مؤید برہان، از مولوی احمد علی، کلکتہ: ۱۸۶۶ء
۴ ۔ قاطع القاطع ، از مولوی امین الدین پٹیالوی، دہلی: ۱۸۶۶ء
غالبؔ کے خلاف یہ کتابیں نا صرف خاص و عام میں تقسیم ہوئیں بلکہ اس عہد کے
اخبارات نے بھی ان کتابوں کے اشتہارات کو نمایاں طریقے سے شائع کر کے مسئلے
کو اور زیادہ ہوا دینے کا کردار ادا کیا۔
’’ چراغِ دہلی‘‘ غالب کا مخالف اخبار تھا۔اس نے ۶؍اکتوبر ۱۸۶۶ء کے شمارے
میں مولوی امین الدین پٹیالوی کی کتاب’’ قاطع القاطع‘‘ کا اشتہار ان الفاظ
میں شائع کیا:
’’ ایک کتاب مسمی بہ‘‘قاطع القاطع‘‘ من تصنیف مولوی امین الدین بجواب
’’قاطع برہان‘‘مصنفہ اسداﷲ خان غالب کہ جناب ممدوح نے بہ ردِ لغات برہانِ
قاطع تحریر فرما کراس مردہء دو ٖصد سالہ کو بہ دشنام دہی یاد فرمایا
تھا۔مولوی صاحب نے جملہ اقوال جناب مرزا صاحب کو تردید کرکے اور سند اور
نظائر اس کے کلمات اساتذہء قدیم سے بہم پہنچا کر اقوال برہان کو بخوبی تمام
پایہء ثبوت پہنچایا‘‘(۱۹۳)
غالب ؔ کی شاعرانہ زندگی کے بارے میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی
ہے کہ ان کی فکر چونکہ ان کے ہم عصروں سے بلند و بالا تھی اس لئے ان کے
ابنائے عصران کی بات کو پوری طرح نہیں سمجھ پائے یعنی غالب کے جوہرِ اندیشہ
کو گرفت میں نہیں لا سکے۔ایسی صورت میں یوں ہوتا ہے کہ شاعر کی شاعرانہ قدر
و قیمت کو گھٹا کر پیش کرنے کی روش چل نکلتی ہے۔جس سے قاری اور شاعر کے
درمیان ایک بُعد سا پیدا ہونے لگتا ہے۔چنانچہ ابتداَغالب کے ساتھ ایسا کرے
کی کوشش کی گئی۔اگرچہ غالب کو یہ شکوہ رہا کہ ناقدروں نے ان کے کمال فن کی
کوئی خاطر خواہ قدر نہیں کی اور اس عہد میں غالب کے ہوتے ہوئے دلی میں ذوق
ؔکو اورلکھنومیں ناسخ ؔ کو ان پر فوقیت دی جاتی رہی۔لیکن غالب کی وفات کے
بعد بھی ابتداََیہی تعصب روا رکھا گیا۔اس سلسلے میں مولانا محمد حسین آزادؔ
نے بھر پور کردارادا کیا۔ذوق ؔ چونکہ ان کے استاد تھے اس لئے انہوں نے ’’آب
ِحیات ‘‘ ذوق ؔ کے نام کے ساتھ ’’ ملک الشعراء‘‘ہونے کا اعزاز چسپاں کر کے
غالب ؔ پر انہیں فوقیت دینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر گیان چند ؔ کا کہنا ہے کہ
ہے کہ مولانا آزاد ؔنے اگرچہ غالبؔ کی کافی مدح کی ہے لیکن اس مد ح کے پردے
میں’’ ہجو ِملیح‘‘ کی بد گمانی ہوتی ہے(۲۰۲)۔آزادؔ لکھتے ہیں:
اکثر شعراء ایسے درجہء رفعت پر واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے نارسا ذہن وہاں تک
نہیں پہنچ سکتے‘‘۔(۲۰۳)
آزاد نے’’ اردوئے معلی ‘‘ محاوروں اور روزمرہ کی مثالیں دے دے کر اعتراض
کیا ہے:
’’ بعض فقرے کم استعداد ہندوستانیوں کے کانوں کو نئے معلوم ہوتے ہیں
‘‘(۲۰۵)
مندرجہ بالا دونوں عنوانات، غالب شناسی اور غالب شکنی (جو دراصل غالب شناسی
ہی کاایک پہلو ہے ) کے لا متناہی ریفرنسز کو کسی مضمون میں سمونا ممکن نہ
ہے اس کے لئے یہ کام ایک ضخیم کتاب کا مطالبہ کرتا ہے مگر باوجود کوشش کے
بھی اختصار قائم نہ رہ سکا۔لہذا باقی ابواب کے ساتھ ان کے صرف اجزاء درج
کرنے پہ اکتفاء کرتے ہیں۔
باب دوم:ترتیب و تدوین
(الف)اردو شاعری(ب) اردو نثر(ج)فارسی شاعری(د)فارسی نثر(ہ)متفرق، مجموعی
جائزہ،
باب سوم:تحقیق و تنقید
(الف) تحقیق
ــ ۔ اردو کتب کا جائزہ ۔ دیگر زبانوں میں تحقیق ۔ جامعات میں تحقیق ۔ زیر
تحقیق مقالات
۔ مجموعی جائزہ
(ب) تنقید
۔ اردو کتب کا جائزہ ۔ دیگر زبانوں میں تنقید ۔ مجموعی جائزہ ۔ حوالہ جات و
حواشی
باب چہارم:ترجمہ و تشریح
(الف)ترجمہ
۔ منثور اردو تراجم ۔ منظوم اردو تراجم ۔ منثور انگریزی تراجم ۔ منظوم
انگریزی تراجم
۔ علاقائی زبانوں میں تراجم ۔ مجموعی جائزہ
(ب)تشریح
۔ اردو کلام کی شرحیں ۔ متفرق اردو شرحیں ۔ فارسی کلام کی شرحیں ۔ مجموعی
جائزہ ۔حوالہ جات و حواشی
باب پنجم:متفرقات
ہم طرح ۔ تضمین ۔ پیروڈی ۔ مزاح ۔ ناول ۔ ڈرامے ۔ لطائفِ غالب ۔ نصابی
رہنمائی ۔ غالب شناسوں پر تحقیق ۔ غالبیات کے ادارے ۔ غالب شناس ۔ کتابوں
میں غالب ۔ ادبی جرائد(غالب نمبر) ۔ قومی اخبارات (غالب ایڈیشن) ۔ متفرق
مضامین (اشاریہ) ۔ مجموعی جائزہ ۔ حوالہ جات و حواشی
باب ششم:پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل
(الف)غالب پر لکھنے کی ضرورت
(ب)اردو زبان و ادب پر غالب کے اثرات
(ج)پاکستان میں غالب شناسی کا مستقبل
(د)چند تجاویز
قارئین کرام! یہ تو تھا غالب شناسی کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل پتافی کے
پی۔ایچ۔ڈی کے تھیسس ’’پاکستان میں غالب شناسی‘‘ کامختصرتعارف ،میں نے اپنی
طرف سے ہر ممکن سعی کی کہ حقائق اورحوالہ جات کو سوفیصد صحیح حد تک قلمبند
کروں پھر بھی بشری تقاضوں کے تحت اگر کوئی دقیقہ فرو گزاشت رہ گیا ہو تواس
کے لیے پیشگی معذرت۔اورمیں آخر میں اس مقالے کے مصنف و محقق ڈاکٹر شکیل
پتافی کو خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا جن کی متحقق کاوش کی بدولت قومی
علم و ادب کے سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہوا۔اورنیز اس تحقیق اور ادبی شہ
پارے سے نا صرف دورِ حاضر کے غالب شناسی کے طلباء فائدہ اٹھائیں گے بلکہ
آنیوالا ہر عہد مستفید ہو گا۔
٭٭٭٭٭ |