موت اٹل ہے اور اسکے لئے دن متعین ہے۔
انسان کا رزق جب دنیا میں پورا ہوجاتاہے تو اسے اس دار فانی سے ہمیشہ رہنے
والی دنیا میں منتقل ہونا پڑتاہے۔ گذشتہ تنوں حویلیاں کے قریب چترال سے آنے
والی فلائٹ کے اندوہناک حادثے میں 47انسانوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں جن
میں 31مرد ، 9خواتین اور دو شیر خوار بچے شامل تھے بدقسمت جہاز میں معروف
نعت خوان ، مبلغ دین، دعوت و تبلیغ کے عالمگیر سے منسلک جنید جمشید کے
علاوہ میرے محترم دوست جو بروز حادثہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تھے ایک تقریب
کے سلسلے میں ) سابق IGنیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس سربراہ نیو ٹیک
ذوالفقار احمد چیمہ کے بھانجے DCچترال اسامہ وڑائچ ، ان کی اہلیہ اور بیٹی
بھی جام شہادت نوش فرماگئے۔ مذکورہ فلائٹ میں جام شہادت نوش کرنے والوں کا
کیونکہ دنیا میں وقت اور رزق دونوں پورے ہوچکے تھے اسلئے انہیں دنیا کی
کوئی طاقت مزید روک نہیں سکتی تھی۔ یوں تو جہاز میں سوار ہر انسانی جان
قیمتی تھیں ہر شخص کی اپنی جگہ اہمیت تھی لیکن ان میں شامل مبلغ دین، جنید
جمشیدجنہوں نے تقریبا 20سال قبل اپنی جوانی کے عروج پرموسیقی کی دنیا کو
چھوڑ کر انسانوں کی فلاح ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی اور انبیاء کرام کا راستہ
چنا ، کی ناگہانی شہادت پر ایسا معلوم ہوتاہے کہ جیسے ملک کا ہر شہری اور
ہر گھر سوگوار ہے۔ نعت خوان کے دوست اور ہمنوا مولانا طارق جمیل جنہوں نے
بھی جنید جمشید کے ساتھ چترال کا سفر جماعت کی نصرت کیلئے کرنا تھا لیکن
چند مصروفیات کی وجہ سے وہ نہ جاسکے ، جب طیارے حادثے اور اپنے رفیق کی
شہادت کی خبر سنی تو ان کی حالت غیر ہوگئی۔ انہوں نے اس موقع پر اپنے پیغام
میں فرمایا کہ ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ،میں اس وقت بڑے کرب میں
ہوں کیونکہ براہ راست لاکھوں دلوں کی دھڑکن جس نے ایک عرصہ تک اپنی نعتوں
کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو گرمایا اور دنیا بھر میں اپنے اﷲ کے پیغام کو
پہنچایا ہر مسجد ، ہر محفل میں اس نے اﷲ کے کلمہ حق کی دعوت دی۔ آج وہ
اچانک ہم سے بچھڑگیا جانا تو طے ہی ہے دنیا ایک دھوکہ ہے۔ جاناایک حقیقت ہے
۔ زندگی ایک سراب ہے پانی کا بلبلہ موت ایک حقیقت ہے لیکن جب ایسے اچانک
کوئی قریبی بچھڑتاہے تو سارا وجود لرز اٹھتاہے او رایسا لگتاہے کہ زندگی
کوئی بہت بڑا جھٹکا کھاکر لڑکھڑا رہی ہو۔ اﷲ پھر سنبھالا دے ہی دیتاہے ۔
جنید جمشید ایک بہترین انسان تھا میری اس کی رفاقت کوئی 20سال کی تھی میں
نے ایسے اعلی اخلاق والا بہت کم ہی دیکھا ۔ اسے تو کوئی اہل علم کی لمبی
چوڑی تربیت اور محبت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ اپنی فطرت سے اعلی اخلاق والا تھا۔
مولانا نے کہا کہ ایک مرتبہ میں کہیں بیٹھا تھا اور سامنے ٹی وی چل رہا تھا
اس کی آواز بند تھی اور ایک لڑکا سمندرکے کنارے ڈانس کررہا تھا اور لڑکیاں
اسکے ارد گرد تھیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس لڑکے کو کیسے ہدایت ملے گی
کیونکہ وہ لڑکا ایک غلط ماحول میں تھا تو اس تک کون پہنچے گا اور اسے دین
کا پیغام پہنچائے گا خیال آکر گزر گیا اور مجھے یاد ہی نہ رہا 1997ء میں
کراچی اجتماع میں تھا تو ایک نوجوان نے کہا کہ پاکستان کا مشہور گلوکار ہے
وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے چنانچہ جمشید سے میری ملاقت ہوئی وہ کہنے لگا کہ
ایک پاکستانی نوجوان جس گلیمر، عیاشی کی زندگی کا خواب دیکھتاہے وہ مجھے
حاصل ہے لیکن پھر بھی مجھے ایسا لگتاہے کہ میں اندر سے خالی ہوں مجھے سکون
نہیں ہے ایسا کیوں ہے تو میں نے بتایا کہ تم اسے اس مثال سے سمجھو کہ
تمہارے ایک گھٹنے میں درد ہے اور تم دوسرے کی دوا کررہے ہو تو تمہاری تکلیف
درد دور نہ ہوگا یہ جو ہمارے اندر خلاء ہے وہ تمہاری روح کے اندر ہے۔ تم
غذا پہنچارہے ہو اپنے جسم کو یہ رنگینی ، گانا بجانا، ، جب تم اپنی روح کی
غذا لو گے تو تم کو چین آجائے گا اور روح کی غذا تو ذکر و عبادت ہے۔ کچھ
عرصے کے بعد وہ 4ماہ کیلئے بالاکوٹ چلا گیا پھر اسکا فون آیاکہ مولانا میں
یہاں ایک چھوٹی سی مسجد میں ہوں جسکا ٹوٹا ہوا فرش ہے ، پھٹی ہوئی چٹائیاں
ہیں لیکن جس سکون کو 5سٹار ہوٹلوں میں نہ پاسکا وہ میں نے یہا ں پالیا۔ میں
یہاں آرام سے سوتاہوں، میں نے جنید جمشید کو بتایا کہ سکون اسلئے ہے کہ
سکون کو محسوس کرنے والا جسم نہیں روح ہوتی ہے۔ جب تم نے اپنے اﷲ کو پالیا
تو تمہارے اندر روح کو سکون ملا۔ اب تم جہاں بھی سوؤ تمہیں مزے کی نیند
آئیگی ۔ جمشید 1997ء سے تبلیغ میں لگا ، سہ روزے چلے بھی لگاتا رہا اور
گاتا بھی رہا۔ میں نے اسے کچھ نہ ہا پھر ایک دن ایسا آیا کہ اپنے سب کچھ
چھوڑ کر مکمل دین کا راستہ اپنا لیا اور آج اسکی وفات پر پورا ملک سوگوار
ہے۔ میوزک کو چھوڑ نے کے باعث اسکی کمائی کا ذریعہ نہ رہا لیکن اﷲ نے اسے
گارمنٹس کے کام میں اتنی برکت دی کہ جسکی کوئی انتہاء نہیں ۔ اﷲ اپنے دین
کی مدد کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں عزت کا مقام دیتاہے۔ جنید جمشید سابق
کرکٹر سعید انور کی جماعت کی نصرت کیلئے 10دن کیلئے چترال گیا تھا ۔ واپسی
پر شہادت نصیب ہوئی ۔ ویسے تو آگ میں جل کر ، پانی میں ڈوب کر، طاعون وباء
وغیرہ میں بھی مارے جانے والے کسی حادثے میں ہلاک ہونے والے تمام شہید ہوتے
ہیں ، جہاز کے تمام مسافر شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے لیکن اﷲ کے راستے میں
مرنے کے باعث جمشید کو ڈبل شہادت کا رتبہ ملا ۔ جنید جمشید اور مولانا طارق
جمیل نے 2007ء سے 2016ء تک 10حج اکھٹے کئے ۔ تمام اہل علم ، اہل ذوق، میڈیا
کے حضرات ان کے اعلی اخلاق کی تعریف کرتے ہیں۔ چند ناواقف مسلمانوں نے ان
پر کفر، گستاخ رسول کے فتوے لگائے لیکن انہوں نے سب کو معاف کیا۔ جنید
جمشید کی والدہ کا جب انتقال ہو ااس وقت بھی وہ اﷲ کے راستے میں 10دن کیلئے
کینیڈا میں بیان کررہے تھے ان کی ماں سورہ یسین سورہ رحمن سننے کے بعد کلمہ
پڑھتے ہوئے دنیا سے کوچ کرگئیں۔ جنید جمشید عالم یا مفتی نہیں تھا لیکن اﷲ
رسول کی بات دوسرے کو ہر مسلمان کرسکتاہے وہ بھی مجمع وغیرہ میں لوگوں کو
فحش گوئی، رقص و سرور ، کرپشن و بداخلاقی، والدین کی نافرمانی، شراب و کباب،
بے حیائی کی زندگی چھوڑ کر اﷲ اور اسکے رسول ؐ کے تابع بن کر زندگی گزارنے
کی دعوت حق دیتے رہے اپنی نعتوں، بیانوں سے لوگوں کو دین حق کا راستہ
اپنانے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دوران اگر ان سے کبھی کوئی غلطی ہوگئی تو اس
کی سرعام تمام مسلمانوں سے میڈیا پر آکر معافی طلب کی ویسے بھی غیر دانستہ
طورپرہونے والی غلطی پر اﷲ کی پکڑ بھی نہیں ہے۔ اﷲ تعالی نے اسے دنیا میں
اسکی زندگی میں بھی بہت بڑا مقام دیا اور مرنے کے بعد بھی اسکی موت پر رشک
آرہاہے کیونکہ ہم نے پہلی مرتبہ کسی غیر عالم کی موت پر عالموں کو روتا ہو
ادیکھاہے۔ یہ سب کچھ اﷲ کے دین کیلئے قربانیاں دینے کے باعث ہے۔ میں ان کی
موت پر بکواس کرنے والوں کیلئے پیغام دونگا کہ جن بیما رذہنوں کو ان کی
شہادت پر تکلیف ہے وہ زرا صبر کریں موت ان کے اور جنید جمشید کے درمیان
فیصلہ کردے گی اگر جلنے کی بات ہے تو جس موت کو نبی ؐ نے شہادت کہا اس پر
ہمیں بکواس کرنے کا کیا حق ہے۔ جنید جمشید جنہوں نے دعوت و تبلیغ میں لگنے
کے بعد موسیقی ، گانے بجانے کی کمائی سے بنائے ہوئے 35کروڑ کی رقم کے بارے
میں مفتیان حضرات سے سوال کیا کہ کیا میں یہ رقم دینی کامو ں میں استعمال
کرسکتاہیں انہوں نے کہا کہ نہیں حرام کی کمائی ہے۔ پھر جنید روزانہ 15لاکھ
روپے لے کر گھر سے نکلتے اور غریبوں کی بستی میں جاکر وہ رقم تقسیم کرتے
یہاں تک کہ وہ پائی پائی کے محتاج ہوگئے۔ لیکن اﷲ نے انہیں JJگارمنٹس میں
بے پناہ حلال کی کمائی عطا کی۔ انہوں نے صدقہ، خیرات، زکوۃ کا سلسلہ جاری
رکھا ۔ اﷲ نے انہیں وہ مقام دیا جو رہتی دنیا تک قائم اور یاد رکھا جائیگا۔
آئے تھے مثل بلبل سیر گلستاں کرچلے
سنبھال مالی باغ اپنا ہم تو اپنے گھر چلے
|