سانحہ آرمی پبلک سکول۔۔۔زخم نہیں بھرے۔۔۔؟

آج سے دو برس قبل 16دسمبر 2014ء کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ایک تکلیف دہ اور درد بھرا سانحہ رونما ہوا اس سانحے میں 144طلبہ جن میں ایک چار سالہ طالبہ بھی شامل تھی 22اساتذہ اور پاک فوج کے تین جوانوں نے جام شہادت نوش کیا،اگرچہ اس سانحے کو دو سال کا عرصہ بیت گیا ہے اس دوران وقت کے مرہم نے بہت سے زخم بھر دیے مگر لوگ اس واقعے کو ماضی کا حصہ جاننے لگے ہیں ،نیز اس سانحے پر بات کرنے کے حوالے سے بعض افراد کی رائے یہ بھی ہے کہ اسے فراموش کر دینا چاہیے میڈ یا کیوں اس سانحے کی یاد دلا کر ایک بھر پھر زخم تازہ یا ہرے کر دیتا ہے ،دراصل یہ وہ باتیں کرتے ہیں جن کو ’’لگی‘‘ نہیں ہے اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ کہ اولاد کی جدائی کاغم کبھی بھولا نہیں جاتا ہے ،لپٹ کر دیر تک دیوار و در سے لوگ روئیں گے ۔۔۔۔اس سوگ میں لپٹی جوانی نہیں چھوڑ جاؤں گا ،جنرل راحیل شریف کی قیادت میں دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کیا گیا اور آج پاکستان 2013ء کی نسبت بہترین اور پہلے سے زیادہ محفوظ ہے خاص کر کراچی کی روشنیاں کو واپس لوٹایا گیا ہے پاکستان میں سیاستدان کبھی فوج کے خلاف نہیں رہے آئین کے تحت ہر ادارہ کا اپنا اپنا کردار ہے پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات ہیں جو ہمیشہ غور طلب ہیں ،، جو کہ اس وقت اہم ترین فیصلہ پاکستانی عوام کے جذبے اور پاک فوج کی بہادری اور قربانیوں کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے اس لئے اس مضمون میں کسی جنگی محاذ کی بجائے جنگ ستمبر سے پہلے اور بعد کے ان پس پردہ واقعات کو بیان کرنے کی کوشش ہو گی تا کہ آج کی نئی نسل جان سکے کہ یہ جنگ کیوں اور کس طرح شروع ہوئی اس حوالے سے بات کرنا اس لئے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں اس وقت میڈیا میں بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھارت کو ’’امن کی آشا‘‘ کانشان اور پاکستان کو جھگڑالو اور دہشت گرد قرار دیتے ہوئے نہ شرماتے ہیں ،بد قسمتی سے دشمن اب پاکستان پر باہر سے کم اور اندر سے زیادہ حملے کروا رہا ہے ،بھارت نے جنگ ستمبر کی طرف پہلا قدم جنوری 1960ء میں اس وقت بڑھایا تھا جب اس کی سپریم کورٹ کے اس حکم پر عمل درآمد کے لئے ضروری تھا کہ عجیب وغریب فیصلہ دیا کہ بھارتی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ ضم کرنے کا ختیار دے دیا اور بھارتی حکومت اس کے لئے ضروری قانونی کاروائیوں میں مصروف تھی کہ نومبر 1962ء میں بھارت اور چین کی جنگ شروع ہو گئی جس پر معاملہوقتی طور پر دبا دیا گیا لیکن جنگ ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد اکیس دسمبر 1964ء کو بھارت حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک بل پاس کرایا جس کے زریعے بھارت 1950ء کے آئین کے آرٹیکل 356اور357کو کشمیر پر فوری لاگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بھارتی آئین کے تحت مقبوضہ کشمیر اب الگ ریاست نہیں ہے بلکہ بھارت کا ایک باقاعدہ صوبہ بن گیا ہے جس کی رو سے اب وہاں صدر ،وزیراعظم کاعہدہ نہیں بلکہ صوبائی وزیراعلی ،گورنر،ہوں گے اور بھارت جب چاہے گا صدر راج نافذ کر سکے گا دوسرے لفظوں میں بھارت نے پاکستان اور دنیا پر یہ پیغام دیا اب سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ سمیت کسی بھی عالمی رائے عامہ کی کشمیر کے بارے میں پاس کی گئی قرارداوں کی کوئی پروا نہیں ہے پاکستان کی مسلح افواج ملکی سلامتی کی ضامن ہے جس کے بہادر فوجی وطن پر اپنی جان نثار کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔۔۔قوم جب سکون کی نیند سوتی ہے تو یہ جوان سرحدوں کی حفاظت پر مامور رہتے پیں ۔۔اور مادروطن کو اندرونی و بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔۔کراچی میں ابھی حالیہ آرمی کی ملٹری پولیس کے جوان شہید کئے گئے ۔۔۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہر بڑی دہشت گردی کی کاروائی کے بعد ہی بڑے فیصلے کیوں کئے جاتے ہیں۔۔؟ ہم اس کے لئے اپنے آپ کو ایسی دہشت گردی سے نمبٹنے کے لئے پہلے سے کیوں نہیں تیار رہتے ہیں ۔۔۔؟پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ کیپٹن محمد سرور،میجر محمد طفیل،میجر عزیز بھٹی،پائلٹ آفیسر راشد منہاس،میجر شبیر شریف،سوار محمد حسین،میجر محمد اکرم، میجر محمد محفوظ،کیپٹن شیر خان، اور لالک جان ـؒنشان حیدر ‘‘ سے سر فرازاور ہزاروں نڈر اور بہادر شہیدوں سے بھری پڑی ہے ‘‘جس کی دینا میں کہیں اور مشال نہیں ملتی ہے پاکستانی قوم کی ماؤں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہانہیوں نے ایسے بہادر سپوت پیدا کئے جو اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر اور بم باندھ کر وطن پر قربان ہوگئے ۔۔۔اور ہمارے آنے والے کل پر اپنا آج قربان کر دیا۔۔۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا تعلق بھی شہیدوں کے خاندان سے ہے جنکی والدہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کا بھائی میجر راجہ عزیز بھٹی شہید اور ان کا بیٹا میجر شبیر شہید ؒنشان حیدر‘‘ سے سرفراز ہوئے۔۔۔۔۔میں جب اپنے شہدا کا موازنہ بیرون ممالک سے کرتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے شہید کو وہ مقام نہیں دیا جاتا ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اور خاص طور پر ہمارا میڈیا کسی فوجی کی شہادت کی خبر کو اس طرح شہ سرخیوں یا بریکنگ نیوز نہیں دیتا ہے بلکہ شہید فوجی کو محض ؒ فوجی اہلکار‘‘ قرار دیا جاتا ہے ۔جبکہ آپریشن ؒ ضرب عضب‘‘ میں شریک فوجی جوانوں کی سلامتی و کامیابی کے لئے سعودی عرب کی طرح پاکستان کی مساجد میں دعایئں نہیں کی جاتی ہمارے اخبارات بالی وڈ کی خبروں کے لئے تو صفحہ مختص کرتے ہیں مگر وطن کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ان شہیدا ؒنشان حیدر‘‘ کا اعزاز رکھنے والے کی ’’برسیوں ‘‘پران کی سوانح عمری شائع کرنے کے لئے شاہد جگہ نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔قدرتی آفات ہیں جان بحق ہونے والون کے لئے تو مالی امداد کا اعلان ہوتا ہے مگر شہیدا کے لئے ایسا نہیں ہوتا ہے ۔۔۔۔جبکہ ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات کے حصول اور کرپشن ،اور جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے آئے دن ہماری فوج کو بدنام اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں بلا جواز تنقید سے نہ صرف شہیدا کے لواحقین کی دل آزاری ہوتی ہے بلکہ وہ سوچنے پر حق بجانب ہوتے ہیں کہ ان کے پیاروں نے وطن پر جان قربان کر کے شاہد کوئی بڑی غلطی یا بے وقوفی تو نہیں کی ہے، گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی ان دہشت گردوں کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی اور ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا ہے دوسری طرف پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی زیر صدرات ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اب پنجاب سمیت پورے ملک میں آپریشن کو تیز کیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان میں اب کسی بھی رعایت یا زیرہ برداشت کا مظاہر ہ کیا جائے گا ذرائع کے مطابق پنجاب بھر میں کریک ڈوان کیا گیا اور اس کریک ڈوان میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ،آرمی چیف کی طرف سے حکم دیا گیا کہ دہشت گردی میں ملوث کسی بھی شخص سے رعایت نہ برتی جائے اور نہ ہی کسی بھی اثر و رسوخ کو خاطر میں نہ لایا جائے ،،بھارتی فضائیہ کے حملے کے جواب میں پاکستانی شاہینوں نے ایسا جواب دیا کہ دوبارہ بھارتی طیاروں کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ پاکستانی فضائی حدود میں بھی داخل ہو سکیں ،تین ستمبر کو 10جی سی او ڈویثرن نے کور کمانڈر جنرل بختیار رانا سے درخواست کی کہ وہ اپنی ڈویثرن کو جنگی سرحدوں کے قریب پوزیشنوں پر متعین کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو یسا کرنے کی اجازت یہ کہہ کر نہ دی گئی کہ بھارت محاذ آرائی پر اتر آئے گا لیکن جنرل رانا یہ کیوں نہ جان سکے کہ بھارت تو پاکستان سے محاذ آرائی کافیصلہ جون1965ء میں کر چکا تھا،پاکستان کی غیور عوام اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گی واحد قوم ہے جو اپنے شہیدوں کی قرض دار ہے کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ شہیدوں کے لہو سے وطن کی آپیاری کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dr M Abdullah Tabasum
About the Author: Dr M Abdullah Tabasum Read More Articles by Dr M Abdullah Tabasum: 63 Articles with 43751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.