کیا مسلمان دہشت گرد ہیں ؟
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
برطانیہ میں اسلام کی حمایت اور مخالفت پر
ایک خصوصی تحریر
مسلمانوں سے مغرب کی مخاصمت کوئی نئی بات نہیں حالانکہ خود ان کے بہت سے
باشندے اور خاص طور پر خواتین اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام
میں داخل ہورہی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس دین کے ماننے والوں کو
مغرب میں ’’دہشت گرد‘‘ کہا اور سمجھا جاتا ہے اسی دین کی حقانیت نے ان کے
اپنے معاشرے میں بھونچال پیدا کردیا ہے اور آج مغربی ممالک مسلمانوں کی
تیزی سے بڑھتی ہوئی اکٹریت سے پریشان ہوکر ہر برائی کا الزام مسلمانوں پر
تھوپ کراس سچائی کو مٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جس کو ان کے اپنے دل بھی
تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ اسے اپنی زبان سے تسلیم نہیں کرتے،یہی وجہ ہے کہ
اہل مغرب کا سارا زور اس بات پر ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو دنیا بھر میں
’’دہشت گرد‘‘ بناکر پیش کیا جائے تاکہ غیرمسلم جن میں اسلام قبول کرنے کا
رجحان پیدا ہورہا ہے ان کو مسلمانوں سے متنفر کرکے دائرہ اسلام کو محدود
کیا جاسکے۔
مسلم دنیا کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سے ایک اہم چیلنج
انسانی وقار اور اور عظمت کا احترام ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے انسانی
عظمت اور وقار کے لیئے جو جدوجہد کی ہے اس کا ایک عالم اعتراف کرتا ہے ۔امت
مسلمہ کا تصور نہایت قابل احترام ہے اور اس کے ساتھ مختلف مسلم معاشروں میں
پائی جانے والی ثقافتی تنوع کا احترام اور شناخت بھی ضروری ہے ۔مغربی
معاشرہ اس اہم ترین مسئلے پر روائتی گروہوں پر مشتمل ہے۔اسلام کے تصور
انسانی عظمت ووقار پر عمل در آمد وقت کا اہم تقاضہ ہے تاکہ بین الاقوامی
سطح پر امن کو فروغ دیا جاسکے۔اسلام کسی خاص گروہ یا نسل کے لیئے نہیں ہے
اسلام تو ایک آفاقی مذہب ہے جو ہر انسان کی عظمت اور وقار کی اہمیت پر زور
دیتا ہے لہذا مغربی معاشروں کو مسلمانوں سے تعصب برتنے کی بجائے مسلمانوں
کی عزت اور وقار کا احترام کرنا چاہیئے۔گوکہ پورا مغربی معاشرہ مسلمانوں کے
ساتھ تعصب نہیں برتتا اور نہ ہی سارے مغرب میں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا
جاتا ہے لیکن مغربی معاشروں میں اچھے اور برے مسلمانوں کا تصور ضرورموجود
ہے اور اسیا تو دنیا کے ہر مذہب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اچھے برے لوگ
تو ہرمذہب اورقوم میں پائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی قوم کے چند برے لوگوں کی
وجہ سے پوری قوم کو دہشت گرد قراد دینا کہاں کا انصاف ہے لیکن افسوس اکثر
مغربی ممالک میں یہ ناانصافی ہورہی ہے جس کے خلاف مسلمان اور مسلمانوں کا
اچھا سمجھنے والے دیگر قومیتوں کے لوگ دنیا بھر میں احتجاج کررہے ہیں جن کا
اظہار برطانوی مسلمان بھی اکثر لندن میں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مغربی دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے دوہر ا معیار اور رویہ بھی پایا جاتا
ہے مغربی معاشرے میں اچھے اور برے مسلمانوں کا تصور کچھ یوں ہے کہ ایران کے
شیعہ مسلمان انقلاب ایران کے بعد برے مسلمان ہوگئے جبکہ عراق کے سنی مسلمان
ایران اور عراق جنگ کے دوران اچھے مسلمان تھے لیکن عراق اور امریکہ کے
درمیان لڑی جانے والی جنگ میں برے مسلمان ہوگئے ۔افغانستان کے سنی مسلمان
جب تک روس کے خلاف جہاد میں مصروف تھے تو بہت اچھے مسلمان تھے لیکن بعد میں
یہی لوگ برے مسلمان اور طالبان ہوگئے۔اس طرح کا رویہ اپنا کر مغربی ممالک
اپنی جانبداری ،مفادپرستی،مسلم دشمنی اور بد ترین تعصب کا جو مظاہر ہ کررہے
ہیں ان کی وجہ سے مسلم دنیا میں بڑا غم وغصہ پایا جاتا ہے جس کا اظہار مسلم
ممالک کے عوام کی جانب سے اکثر ہوتا رہتا ہے لیکن مغربی دنیا کے کان پر جوں
تک نہیں رینگتی ۔خاص طور پر جب سے 9/11 کاورلڈ ٹریڈ سینٹر کا واقعہ پیش آیا
ہے مسلمانوں کے ساتھ مغربی دنیا کا برتاؤ انتہائی متعصبانہ ہو گیا ہے اور
اس کی نظر میں ہر دوسرا مسلمان دہشت گرد ہے ۔مغرب کو مسلمانوں کے بارے میں
اپنا یک طرفہ اور جانبدارانہ رویہ بدلنا ہوگا ورنہ مسلمانوں کے دلوں میں
مغرب کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کسی بہت بڑے اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ بھی
ثابت ہوسکتی ہے۔
برطانیہ UK بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جس میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد آباد
ہے اور تمام تر ناموافق حالات کے باوجود وہ اپنے دین اسلام پر نہ صرف قائم
ہے بلکہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ میں بھی مصروف ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب کے
دیگر ممالک کی طرح لندن برطانیہ میں بھی اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا
ہے جس سے کفریہ طاقتیں بھوکلاہٹ کا شکار ہوکر کسی بھی منفی واقعے کا ذمہ
دار مسلمانوں کو قرار دینے میں لمحہ بھر کی بھی دیر نہیں لگاتیں،انہیں ہر
داڑھی رکھنے والا شخص دہشت گرد دکھائی دیتا ہے انہیں ہر حجاب کرنے والی
عورت دقیانوسی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب برطانیہ کے بعض تعلیمی اداروں
میں بھی مذہبی تعصب کی بنیاد پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جس
کے خلاف مسلمان گھرانوں کی خواتین اور طالبات اکثر وبیشتر لند ن کی سڑکوں
پر احتجاج کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جبکہ برطانیہ میں ملازمت کے حصول میں بھی
مسلمان ہونا ایک رکاوٹ کا سبب بنتا ہے خاص طور پر شرعی داڑھی رکھنے والے
مردوں اور برقعہ یا حجاب کرنے والی عورتوں کے لیئے ملازمت حاصل کرنا جوئے
شیر لانے سے کم نہیں۔ برطانیہ جیسے سیکولر کہلائے جانے والے ملک میں
مسلمانوں کے ساتھ جو شرمناک تعصب برتا جارہا ہے وہ ہر لحاظ سے قابل مذمت
ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ ہو یا برطانیہ وہ اپنے ان غلط رویوں
پر شرمندہ ہونے کے بجائے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں
میں چھپی ہوئی نفرت کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور
مسلمانوں کے خلاف دشنام طرازی اورہرزہ سرائی میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان
ممالک میں مسلمانوں کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کے بارے میں کبھی کسی اخبار میں
کارٹون بنا کر شائع کردیے جاتے ہیں کبھی کسی جوتے کا ڈیزائن بنا دیا جاتا
ہے جس پر قرآن پاک کی کوئی آیت لکھے ہونے کا گمان ہوتا ہے اور کبھی مغرب
میں کوئی ایسی فلم بنادی جاتی ہے جو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح اور
مشتعل کرنے کا ذریعہ بنتی ہے خاص طور پر توہین رسالتﷺ کرنے کے نت نئے طریقے
مغربی ممالک میں اختیار کیے جاتے ہیں اور جب مسلمان اپنے خلاف ہونے والے اس
متعصبانہ رویے کے خلاف کوئی احتجاج کرتے ہیں تو ان کو جاہل ،دقیانوس
اوردہشت گرد قرار دے کر ان کے لیئے عرصہ حیات تنگ کردیا جاتاہے اور ایسا
کرتے وقت انہیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان کے ملک میں بسنے والے مسلمان
ان کی معیشت کو مظبوط کرنے میں کتنا اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔
ایک عام مسلمان بھی اس رویے کہ خلاف احتجاج کرتے ہوئے اہل مغرب سے یہی
پوچھنا چاہتا ہے کہ آخر مغرب چاہتا کیا ہے ؟ کیا مغرب کی نظر میں سب مسلمان
دہشت گرد ہیں؟کیا برے لوگ مغربی معاشرے میں نہیں پائے جاتے؟ کیا یہی
جمہوریت ہے؟ کیا یہ ہی سیکولر ازم ہے؟ جس کا ڈھنڈورا مغربی دنیا دن رات
پیٹتی ہے ۔ اگر یہ ہی جمہوریت ہے اور یہی سیکولر ازم ہے تو اس سے تو ہزار
درجہ بہتر وہ لوگ ہیں جنہیں دقیانوسی ہونے اور دہشت گرد ہونے کے طعنے دیئے
جاتے ہیں جو کم سے کم انسانیت کا احترام کرنا تو جانتے ہیں اور تمام مسلمان
ممالک میں رہنے والے تمام غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی فراہم کرتے
ہیں۔لعنت ہے ایسے سیکولر اور جمہوری نظام پر جس میں انسانیت کا احترام نہ
کیا جائے اور شاباش ہے ان لوگوں پر جو دین اسلام پر کاربند رہنے کی پاداش
میں تعصب کا شکار ہوکر دقیانوسی اور دہشت گرد ہونے کا ٹائٹل سجا کر بھی
غیرمسلموں سے اپنے ممالک میں حسن سلوک کرتے ہیں اور یہی وہ مثبت فرق ہے جو
دین اسلام کے پیروں کاروں اور مغربی اقوام کے رویوں میں پایا جاتا ہے۔
مغربی دنیا کی جانب سے اسلامی دنیا پر لگائے جانے والے الزامات کا اگر
بالکل غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ
مسلمانوں کی ایک بہت ہی قلیل تعداد یا چندگمراہ گروہ اسیے ہیں کہ وہ اسلامی
تعلیمات کے برعکس اہل مغرب کے خلاف متعصبانہ اور دہشت گردانہ کارروائیاں
کرنے میں ملوث ہیں۔ان چند لوگوں یا گروہوں کے فعل کو دلیل بنا کر پورے عالم
اسلام کے مسلمانوں کو دقیانوسی اور دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا ۔پھر
ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مسلمان ہونے کے باوجود اگر چند افراد یا گروہوں
نے مغربی ممالک کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے منفی راستے کو چنا
ہے اور ہتھیار اٹھا کر علم بغاوت بلند کیا ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ ہر
ایکشن کا ایک ری ایکشن ہوتا ہے جب کسی قوم سے مسلسل تعصب برتا جائے اور
معاشرے میں اس کے کردار کی منفی تشہیر کی جائے تو پھر اس کا غصے یا جذبات
سے مغلوب ہوکر منفی راستے پر چل نکلناکوئی ناممکن بات نہیں۔لہذا مغرب کو
اسلامی دنیا پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں
جھانک کران رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے اسلامی دنیا اہل مغرب
سے متنفر ہورہی ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مغربی دنیا میں
اسلام نہایت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ؟اگر برطانیہ اور اس جیسے دیگر مغربی
ممالک مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ بند کرکے ان اسباب کو دور کرنے کی
کوشش کریں جن کی وجہ سے مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں اور انگریز اپنا مذہب
تبدیل کرکے مسلمان ہورہے ہیں تو شاید آنے والا کل امن کا ضامن ثابت ہو
وگرنہ تو نفرت ہمیشہ نفرت اور انتقام کو جنم دیتی ہے جس سے سوائے تباہی کے
اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
2001 میں امریکہ کے ’’ٹوئن ٹاور ‘‘ پر دہشت گردانہ حملے تک برطانیہ میں
اسلام قبول کرنے والوں کی سالانہ تعداد60 ہزار سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس
واقعے کے بعدان کی تعداد اب تک تقریباً ڈیڑھہ لاکھ ہوچکی ہے اور ابھی اس
تعداد میں مزید اضافے کی بھی توقع ہے اور اس کی بڑی وجہ مغربی میڈیا کی
اسلام دشمن مہم کے خلاف ردعمل بھی ہے جو اسلام اورمسلمانوں کو بنیاد
پرستی،دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خوف اور اندیشوں کی عینک لگا کر دیکھ
رہا ہے۔برطانیہ یعنی انگلستان،ویلز اور اسکاٹ لینڈ کی مسجدوں سے حاصل ہونے
والے اعداد وشمار اور مذہب اسلام قبول کرنے والی عورتوں اور مردوں کی بڑھتی
ہوئی تعداد کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مغربی میڈیا کے زہریلے تشہیری
حملے کی زد میں آنے والے مذہب ’’اسلام‘‘ کو مغرب میں بہت تیزی کے ساتھ توجہ
اور احترام حاصل ہورہا ہے چونکہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اس لیئے مغربی
میڈیا نے اسلام کو بدنام کرنے کے لیئے جو پروپیگنڈہ مہم شروع کی اس کا ایک
مثبت فائدہ بھی ہو ا کہ انگلستان کے عوام کو اسلام کے اندر جھانکنے اور
اسلام کے خلاف مغربی میڈیا کی بے جازہریلی مہم کی وجہ جاننے پر اکسایا جس
کی وجہ سے انگریزوں میں اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے کا شوق پیدا ہوا اور جب
ان کو اسلام کی اصل تعلیمات کا علم ہوا تو انہوں نے دین حق کو اختیار کرنا
شروع کردیا اور یوں مغربی میڈیا کی منفی مہم ہی برطانیہ میں اسلام کے
پھیلنے کا بہت بڑا سبب بن گئی اور چونکہ برطانیہ کے شہروں میں جہاں ٹی وی
نیٹ ورکس،ریڈیو ٹی وی چینلز اور اخبارات کی بھرمار ہے ,اسلام کو بطور مذہب
اختیار کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے اور عام لوگوں کے ساتھ
بہت سے نامور لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔
جس کی ایک بڑی مثال ’’پیٹر سیلرز‘‘ بھی ہیں جو برطانیہ کے بہت اچھے اور
معتبر فوٹوگرافر ہیں اور اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر انہوں نے کئی سال
قبل اسلام قبول کرلیا تھا ۔پیٹر سیلرز کا کہنا ہے کہ :’’برطانیہ کے لوگوں
کومشرقی مذاہب اور مشرقی معاشروں میں ان روحانی قدروں کی تلاش ہے جو مغربی
معاشروں اور مغربی مذاہب میں مفقود ہوچکی ہیں،مغربی معاشروں میں بیماری کی
حد تک بڑھی ہوئی ہوس زر نے لوگوں کی ناموس کو اس حد تک غارت کردیا ہے کہ
انہیں ناموس جیسی شے کی عدم موجودگی کا احساس بھی نہیں رہا اور ناموس کی
غارت گری ،انتہاپسندی،بنیاد پرستی بلکہ دہشت گردی کی بدنامی سے بھی زیادہ
واضح اور دکھائی دینے والی ہے‘‘۔ برطانیہ کے ایک نامور شہری کے ان خیالات
کو پڑھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی دنیا میں اسلام قبول کرنے
والوں کی تعدا د میں مسلسل اضافے کا اصل سبب کیا ہے۔
مغربی دنیا کی موجودہ اسلام دشمن مہم منفی ردعمل کا باعث بن رہی ہے اور خود
برطانوی شہری بھی اسے اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور برطانیہ کے عام آدمی
میں اسلام کے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہورہا ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ
میں اسلامی کتب بہت شوق سے پڑھی جانے لگی ہیں۔برطانیہ کے بائیں بازو کے
اکثر دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ :’’خواتین کو کسی بھی معاشرے کی تباہی و
بربادی کا سب سے پہلے پتہ چلتا ہے ۔برطانوی معاشرے ،سرمایہ دارانہ نظام اور
بازاری معیشت کی بربادی اور تباہی کے اندیشوں کے تحت بھی بہت سی برطانیہ کی
خواتین اسلام کو بطور مذہب قبول کررہی ہیں،برطانیہ میں اسلام قبول کرنے
والوں میں خواتین کا تناسب64 فی صد ہے گوکہ ان نومسلم برطانوی خواتین کی
اکثریت’’ نقاب‘‘ اوڑھنا پسند نہیں کرتی مگر’’حجاب‘‘ استعمال کرکے اپنی الگ
شناخت بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
میڈیا نے جب 122 ،انگریز خواتین سے پوچھا کہ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
تو ان کی اکثریت کا یہی جواب تھا کہ وہ ضرورت سے زیادہ مادہ پرستی کے خلاف
ہیں اور اسلام عورتوں کو جو حقوق اور تحفظ فراہم کرتا ہے وہ اس سے متاثر
ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئی ہیں جبکہ انگریز مردوں کی اکثریت کا کہنا
تھا کہ زندگی گزرانے کا کوئی اعلیٰ مقصد ہونا چاہیئے جو دین اسلام میں
موجود ہے اس لیئے ہم نے اسلام قبول کیا ہے‘‘۔درحقیقت اسلام دنیا کا جدید
ترین مذہب ہے اور اس میں سماجی اور معاشرتی انصاف پر سب سے زیادہ زور دیا
گیا ہے۔
سوان سی یونیورسٹی کے’’کیون براٹس ‘‘ کے تجزیے کے مطابق’’ دہشت گردی ،بنیاد
پرستی اور انتہا پسندی کی اس خوفناک شہرت کے باوجود جو مغربی میڈیا مسلسل
اور متواتر نہایت احمقانہ طریقے سے اسلام کے ساتھ منسوب کرنے میں دان رات
مصروف ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کے 5 ہزار سے زائد افراد ہر سال اسلام قبول
کررہے ہیں اور ان میں60 فی صدخواتین ہیں‘‘۔
جب ہم کسی دین یا مذہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کے بارے میں زیادہ سے
زیادہ جاننا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں اسلام اور قرآن کا مطالعہ
کیا جارہا ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے بارے میں برطانوی باشندوں میں
پائی جانے والی غلط فہمیاں دور ہور ہی ہیں اور لو گوں کو دین اسلام کے بارے
میں صحیح معلومات حاصل ہورہی ہیں۔لیکن اس کے باوجو د برطانیہ میں ایسے
لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں اور اسی
بنیاد پر وہ برطانیہ میں مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور دین اسلام کی
مقبولیت سے پریشان ہیں یہ انہتا پسند برطانوی اکثر لند ن کی سڑکوں پر
مسلمانوں ار ان کے دین اسلام کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان
کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈ ہوتے ہیں جن پر مسلمانوں اور ان کے دین کے
خلاف نعرے لکھے ہوئے ہوتے ہیں جبکہ برطانیہ میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی
نہیں جو دین اسلام کو امن اور سلامتی کا مذہب تسلیم کرکے اس کے حق میں
مظاہرہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جاری متعصبانہ رویے کے خلاف احتجاج
کرکے مغربی دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف منفی اور من
گھڑت پروپیگنڈ ہ بند کیا جائے اور مسلمانوں کے آخری نبی حضرت محمدﷺ کی خلاف
توہین آمیز کارٹون،فلمیں اورباتیں بنانے کاسلسلہ بند کیا جائے کہ اس سے
برطانیہ سمیت دنیا بھر میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں کی دل آ زاری ہوتی
ہے۔نومسلم جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو اسلامی کتب کے مطالعے سے ان
پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ دین اسلام کی تعلیمات اﷲ کے بنائے ہوتے
قوانین پر عمل کرنے کا طریقہ بتاتی ہیں تاکہ انسان اﷲ کے بتائے ہوئے سیدھے
راستے پر چل کراپنی دنیا اور آخرت سنوار سکے جبکہ انسانی حقوق کی جو عزت
اور احترام اسلام میں کیا جاتا ہے اور عورتوں کو جو تحفظ اور حقوق اسلام نے
دیئے ہیں وہ دنیا کے کسی اور مذہب میں موجود نہیں ہیں۔
مغربی میڈیا کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی اور زہریلا پروگینڈہ اس
منظم انداز میں کیا جارہا ہے کہ اس سے برطانیہ کا ایک عام فرد متاثر ہوئے
بغیر نہیں رہتا اور پھر برطانیہ میں سرگرم عمل انتہا پسند سیاسی گروہ اس
پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والے عام لوگوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیئے لندن
کی سڑکوں پرمسلمانوں کے خلاف مظاہر ہ کرتے ہیں جن میں برطانیہ کے عام لوگ
بلا سوچے سمجھے شریک ہوجاتے ہیں اور یوں لندن کی سڑکوں پراسلام کے حامیوں
اور اسلام کے مخالفوں کے احتجاجی مظاہروں کا ’’ٹاکرہ ‘‘ہوتا رہتا ہے۔
برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی کی چیئر پرسن اور مسلمان وزیرسعیدہ
وارثی ایک طویل عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانیہ میں انہیں جو عزت
،احترام اور مقام ملا ہے وہ بہت کم مسلم خواتین کو ملا ہے ۔برطانیہ میں
رہنے والے مسلمانوں کے لیئے ایک بڑی خبریہ ہے کہ سعیدہ وارثی ایک سال کی
کوششوں کے بعد برطانوی حکومت کو اس بات کا احسا س دلانے میں کامیاب ہوگئی
ہیں کہ’’اسلاموفوبیا‘‘ کا جونعرہ برطانوی سوسائیٹی میں لگایا جاتا رہا ہے
وہ کوئی شجر ممنوعہ نہیں بلکہ ایک روشن حقیقت ہے اور اس سے لوگوں کو ڈرانے
کی بجائے اس کو برطانوی معاشرے میں پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے اور
مذہبی آزادی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے دین اسلام کے ماننے والوں کو
بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہونی چاہیئے‘‘۔ برطانوی مسلمانوں کے لیئے خوشی
کی بات یہ ہے کہ سعیدہ وارثی کی ان باتوں کو برطانوی حکومت کی جانب سے
تسلیم کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرلیا گیا ہے کہ’’اسلام‘‘ برطانوی معاشرے
کے لیئے ایک قابل قبول مذہب ہے اور جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
برطانیہ میں منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں وہ درست راستے پر نہیں ہیں جبکہ
برطانوی حکومت نے برطانیہ میں اسلامو فوبیا کے محرکات اور برطانوی معاشرے
پر اس کے اثرات پر غوروفکر کرنے اور متعلقہ مسائل حل کرنے کے لیئے ایک
ورکنگ گروپ بھی بنا دیا ہے جس میں حکومت کے مختلف اداروں کے نمائندے شامل
ہیں اور خوشی کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں رہنے والے ممتاز مسلمان بھی اس
گروپ میں شامل ہیں جو مسلمانوں کی نمائندگی اور ترجمانی کریں گے۔سعیدہ
وارثی کی مسلسل کوششوں کے نتیجے میں حکومتی سطح پر کیئے گئے ان مثبت
اقدامات کا برطانیہ میں رہنے والے عام مسلمانوں نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا
ہے کہ یہ گروپ مسلمانوں کے خلاف پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں
اہم کردار اداکرے گا۔واضح رہے کہ برطانیہ میں مسلم کیبنٹ منسڑبیرونس سعیدہ
وارثی نے جنوری2011 میں ہی حکومت برطانیہ کو متنبہ کیا تھا کہ برطانیہ میں
مسلمانوں کے خلاف عدم برداشت کا اورتعصب بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور یہ
غیرمسلموں کامعمول بنتا جارہا ہے ،جب سعیدہ وارثی نے یہ حساس معاملہ عوامی
اور حکومتی سطح پر اٹھایا تو انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایاگیالیکن پھر
رفتہ رفتہ برطانوی سیاست دانوں کی توجہ بھی اس اہم مسئلے کو حاصل ہوگئی جس
کے بعد سعیدہ وارثی کے موقف کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی اور
بالآخر برطانوی حکومت نے ’’اسلاموفوبیا‘‘ کو ایک حقیقت تسلیم کرتے ہوئے
مسلمانوں کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو روکنے کے لیئے ایک خصوصی گروپ بنادیا
جس میں ممتاز مسلمانوں کو بھی مناسب نمائندگی دی گئی جو برطانوی معاشرے میں
رہنے والے مسلمانوں کے حوالے سے ایک بہت بڑی خوش خبری قرار دی جارہی ہے۔ |
|