ہمارا کمزر تعلیمی ڈھانچہ اور علم کا کا روبار

میرا تعلیم کے مو ضوع پر فیچر جو زند گی کے تما م طبقے سے تعلق رکھنے وا لے افر اد کے لئے ہے خاص کر معزز استاتذہ کر ام اور طلباء والدینصحافت کے شعبہ سے وابسطہ اور فکر ی سوچ رکھنے والے افراد ضرور مطا لعہ فرما ئیں ۔اپنی را ئے سے بھی ضرور نوازیں
قوموں کی ترقی کا راز تعلیم میں ہی ہے جن قوموں نے تعلیم کو ترجیع سمجھا آج وہ ترقی یافتہ قومیں کہلاتی ہیں ۔کسی بھی ملک ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے باشندوں کو تعلیم کے زیوار سے آراستہ کر نا اوراس کا بہتر اور منا سب انتظا م کر نا ٹھیک اسی طر ح پاکستان کے آ ئین کے26A آریٹکل کے تحت لازمی وضروری تعلیم ہر فرد کا بنیا دی حق ہے اس بات پر پورا اترنے کے لئے ہماری گو رنمنٹ اس کے لئے کو شاں ہے ۔جس کیلئے مختلف منصوبے تشکیل بھی دیے جاتے ہیں اور ان منصوبوں میں اہداف رکھے جا تے ہیں ۔بعض اوقات وہ نتائج حاصل نہیں ہو پا تے جن کی توقع کی جاتی ہے جس کی بنیا دی وجہ معاشی بہران حکومتوں کی تبدیلی اور کر پشن ہے۔حکومت کچھ شہر وں میں اہداف حاصل کر نے میں کا میا بی بھی رہتی ہے ایسا ان ہروں میں ہو تا جو ہائی کما ن کے سائے میں آتے ہیں مثلاًاسلام آباد لا ہور کر اچی فیصل آباد روالپنڈی وغیر ہ سر فہر ست ہے اب ان اہد اف کا گر اف دیکھا جا ئے تو کا فی حد تک با ت درست ثابت ہوتی ہے اب اسلا م آبا د میں شر ح خو اند گی 90فیصد ہے اسی طر ح کے پنجاب کے چند شہر لا ہور اور اس کے قر یب بڑے شہروں میں شر ح خو اند گی 70فیصد ہے اسی طر ح بلو چستان کے ضلع کو ہلوں 28فیصد ہے اور پنجاب کے کا آخری ضلع را جن میں شرح خو اند گی30 فیصد ہے پھر انتظا میہ کی ناقص حکمت عملی فنڈ ز کی کمی اور کچھ علاقوں پر نظر کر م کانہ ہوناعوام میں شعور کی کمی غربت اور سیاسی مداخلت کر پشن کی وجہ سے پسما ند ہ علاقوں میں شر ح خواند گی مایو س کن ہے ان اہداف کو پوراکر نے کے لئے حکومت پر ائیویٹ سیکٹر کو میدان میں لے آئی جس سے امید کی گئی کہ تعلیم کے اہداف بھی پور ے ہونگے سا تھ ہی اس کاربارسے وابستہ افر اد کوروز گا ر کے نئے مو اقعے پید ا ہو نگے۔گورنمنٹ نے پر ائیو یٹ اداروں کواجازت کیادی تو دیکھتے ہی دیکھتے ملک پر ائیو یٹ سکو لو ں کا اک سیلا ب آگیا ۔پھر گورنمنٹ نے بھی اس بات پر غور کیا جہاں ایک سکو ل کے بنانے پر لا کھوں خر چ کرنے ہیں اس کے لئے استاتذہ بھی بھرتی کرنے ان کی تنخو اہیں جس سے قومی خزانے پر مز ید بوجھ بڑھ جائے گا ۔ توان ہی پر ائیو یٹ سکو لو ں کے لئے نر م گو شہ رکھا ۔وقت کے ساتھ ساتھ پر ائیو یٹ اداروں نے اپنی جڑیں اور بھی مضبوط کر لی اوروقت کے ساتھ ساتھ یہ پرائیویٹ ادارے حکومت کی مجبوری بھی بن گئے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطا بق 56فیصد لو گ اپنے بچوں کو پر ا ئیویٹ اداروں میں تعلیم دلوانا پسند کرتے جبکہ 44فیصد بچے کو سر کاری سکو لوں میں زیر تعلیم ہیں ۔ہمارے ملک کی اشرافیہ ہو یا عا م آدمی یا پھر سیاست دان سب اپنے بچوں کو پر ائیو یٹ اداروں میں پڑھانے کو ترجیع دیتے ہیں ۔ یہ ادارے والدین اور گورنمنٹ کی مجبوریوں کافائدہ اٹھا تے ہوے اپنی من ما نی کرتے ہیں ۔اب چاہے جیسے بھی ما لی حا لا ت ہوں والدین تو اپنے بچوں کو تو پر ائیو یٹ سکو ل میں ہی پڑھا نا ہے جیب اجا زات دے یا نہ دے بچہ انگر یزی سکو ل ہی میں جا ئے گا وہ انگر یزی سکول ہو گا توبچے کی بول چال بھی انگر یزی ہوگی یہ بات والدین کے لئے کتنی خوشی کا مقام رکھتی ہے اب یہ ایک فیشن بھی بنتا جا رہا ہے ۔سرکاری سکول خواہ کتنااچھا کیوں ناہو جب کسی سے بچے کے سکول کا ذکر کریں وہ توسرکاری سکول میں زیرتعلیم ہے پھر آگئے ناک چھڑاتے ہو ئے ہیں سرکاری سکول میں بھا ئی خیر تو ہے کیا ہو گیا باقی سب خیر یت ما لی پر یشا نی ہے کیا ایسیسوالات کی بوچھاڑہو جا تی پھر والدین نہ چا ہتے ہو ئے بھی معاشرے میں اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر بچے سرکاری سکو ل سے نکا ل کر پر ائیو یٹ میں ڈال دیتے ہیں ادھر ہما رے معاشرے پر انگریزی کا بھوت سوار ہے اور قو می زبان سے ہم دوری اختیار کر چکے ہیں جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھا جا ئے جیسے چا ئینہ ان کا تما م کا تما م سیلبس اپنی قو می زبا ن چا ئنیز میں ہے ۔اس بھوت کا بھر پور فا ئدہ پر ائیو یٹ ادار ے اٹھا رہے ہیں ملک میں کچھ عرصے سے انگر یز ی میڈیم بڑے سکولوں میں فیسوں میں آضافے پر والد ین مسلسل سرپا احتجاج ہیں ۔ان کے احتجاج کے با وجود فیسوں میں آضا فے کا سلسلہ ابھی تک تھما نہیں اب کچھ بھی ہو جائے عدالتی احکا مات ہو ں یا انتظامیہ کے سخت مو قف کے با وجود آضافی فیس تو ہر صورت وصول کر نی ہے ۔اب وا لد ین کے پا س اتنا ٹا ئم بھی نہیں کے اپنی شکا یات کو کورٹ کچیری یا پھر انتظا میہ کے پاس لے جا ئے ۔اب بچے کو بھی پڑھانا ہے اگر سکول انتظا میہ سے با ت کی جا ئے تو ان کا صا ف جواب ہوتا ہے آپ بچے کو گورنمنٹ سکول میں داخل کر وا دیں کیو نکہ معا شرے اور ان پرائیویٹ سکول والوں کی نظر میں گورنمنٹ سکو ل کی کارکر دگی بہتر نہیں جس سکو ل کی عمارت پر حکو مت نے لا کھوں روپے خرچ کرکے تعمیر کر وایا جہاں اس پر ائیو یٹ سکو ل کے پر نسپل اور سٹا ف سے کہیں اعلی درجے کے تعلیم یا فتہ تجر بہ کا ر استا تذہ ہیں ۔پر ائیویٹ ادارے والے گیٹ اور کلا س رومز میں کارٹون کی شکلیں بنو اکر سمجھتے ہیں کہ ہم سر کاری سکولوں کے تجر بہ کا استاتذہ سے زیادہ تجر بہ رکھتے ہیں حا لا نکہ ان میں سے اکثر انہی اداروں اور استاتذہ سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں بس بھیا کاربار کی بات ہے اب گورنمنٹ اس پر ائیو یٹ سکو لو ں کے اوپر سختی کرتی ہے اور ان کے چھیڑ چھا ڑ نے کی کوشش کر تی ہے تو ملک میں مو جو د تعلیمی ادارے اور انفراسٹرئچر کو ڈبل کرنا ہو گا جس کی اجا زات قومی خزانہ نہیں دیتا اتنے سارے آخر اجات تعلیم کی مد میں ہو تے ہیں سر کاری سکولوں کو بھی پرائیوایٹ کر کے قوم کو ان کے رحم کر م پر چھو ڑاجا ئے گا ۔پرائیو یٹ انگلش میڈیم سکو ل پہلے تو والد ین کو اپنے ما حو ل سے متاثر کرتے ہیں پر کشش اشتہارات ظا ہری شو شا جس سے والد ین بھی رغب ہو جاتے ہیں ۔بچے کے ایڈ میشن کے وقت خو ب سبز با غات کی سیر کرواکر بچے کے اچھے مستقبل کے خوابوں میں والدین کو کھو جا نے پر مجبو ر کر دیتے ہیں جب والدین مر غے کی طر ح ذبحہونے کے لئے ہا تھ میں آجا تے ہیں تو تکبیر پڑ ھ کر اﷲ اکبر چھر ی چلا نا شروع کر دیتے ہیں ۔بھاری داخلہ سکول فیس سیکورٹی فیس وین کی فیس کی ادائیگی پر سوچتے ہیں جس سکو ل کی فیس اتنی ہے تو تعلیم کامعیا رتو عروج پر ہو گا ۔اب بچے کا داخلہ کر وانے والے والدین کی طر ف سے ادائیگی تو ہو گئی پیسہ تو اس جیب سے اس جیب میں منتقل ہو گیا ہے ۔اب بل بجی مہما ن کیلئے چا ئے بوتل لے آئیں والد دل ہی دل میں سو چتا ہے واہ کیا عزت تکریم کی جا رہی ہے کیا بات ہے اب تو رشتے داروں کے بچے بھی اسی سکول میں داخل کر وانے کا سوچنا شروع کر دیتا ہے ۔خاطر توازو کے بعد اچھا سریہ کا رڈ رکھیں بچے کا یو نیفار م اس دو کان سے ملے گا آپ ہمارابول دیجئے گا آپ رعایت مل جا ئے گی ۔اچھا سر یہ اورکارڈ ہے کورس صرف اس دوکان سے ملے گا اور ہاں بچے کے شوز کے لئے آپ کو کارڈ دیتا ہو یہ ہمارا جا ننے والا ہے آپکو ااچھی کو ا لٹی کے سستے جو تے دے گا بس آپ میر ا نا م لے لیئجے گا ۔اچھا وین بھی لگو انی ہے یا بچے کو خود چھو ڑنے کی زحمت فر ما ئیں گے بچارا والد بے بسی میں مسکراتے ہوئے سرمیں تو مصروف رہتا ہو میں تو اکثر شہر سے باہررہتا ہو ں اچھا سر آپ کایہ کا م بھی آسان کر دیتے ہیں وین کا بھی انتظا م ہو گیا اب والد کو تما م تر کام سکول انتظامیہ نے آسان بنا دیے۔اب اس احسان مندی میں نیا ز مند ی ہاوی ہوگی ۔اب تو بچہ بھی سکو ل جا نے لگا ہے یہ کیا پڑھائی کم تہو ار زیادہ اب جی کلر ڈے فروٹ ڈے مینگو ایپل انگور کیلا ڈے پھر فادر مادر فلور اینمل ڈے شیر ہا تھی گد ا گھوڑا سب ڈے منا ئے جا تے ہیں او ر ان کی فیس بھی دینی ہے اور اس حسا ب سے ڈریس بھی تیا ر کر وا نے ہیں ۔ اتنے اخراجات اور فیس کی بر وقت ادا ئیگی بھی کر نی ہے ورنہ 200 سے 500تک جر ما نہ دینا پڑے گا بھیا ٹر ئیفک پولیس والاسارجنٹ چا لان میں جر ما نے کی رقم میں رعایت کر سکتا ہے پر سکول کے جر ما نے کا آ پ سو چ بھی نہیں سکتے ۔اب ہر پر ائیویٹ سکولوں اور اداروں اور سرکاری سکولوں کے کورس مختلف ہیں پہلے دور میں جب ہم ٹاٹ والے سکولوں میں زیر تعلیم تھے تو ایک بچہ دوسرے کا پرانا کورس استعمال کر سکتاتھا پر اب تو سرما یہ داروں نے کما ل کر دیا ہے کو رس میں تحریر کم خا لی جگہ زیادہ جو بچے کو پر کر نی ہوتی ہیں ۔اس لئے ہر بچے کے لئے نیا کورس خریدنا ضروری ہو گیا ہے پرانے کورس کا تصور ہی ختم ہو گیا ہے ہم اکثر کہتے ہیں قو م ایک بن جا ئے جس کے لئے یکسا ں تعلیم نظا م ہو سب بچوں کو ایک ہی قسم کا سیلبس پڑھا یا جا ئے ۔پرجب ہر سکول کا اپنا نظام اور سیلبس ہو گا تو قو م کیا ایک ہو گی بچوں کو تو شروع ہی سے ایسی ذہنی تربیت دی جاتی ہے جس میں ان سے کہا جاتا ہے آپ کا اور سر کاری سکول کے بچوں کا کیا مقابلہ آپ انگریز ی میڈ یم ہو اور وہ ٹھہرے اردو میڈ یم جب یہ بچے معاشرے اہم فر د کے طور پر ابھر کر سا منے آتے ہیں تو ان کی سو چ تقسیم ہو چکی ہوتی ہے ایک اعلی طبقہ تو دوسر ا محر م اور احساس محرومی میں مبتلا جو قومیں میں تقسیم کا مو جب بنتا ہے ۔اب ان پر ائیو یٹ سسٹم وا لے سکو لوں نے گورنمنٹ سے ہٹ کر اپنے اپنے نظا م اور قا ئدے قا نوں تشکیل دیے ہو ئے ہیں ۔اکثر سکو ل سرکاری سکولوں کے امتحا نی شڈول سے کا فی وقفے سے لیتے ہیں تاکہ بچے کسی اور سکول نہ جا سکیں یا چھوڑ کر نہ جائیں جس کی وجہ سے سالانہ امتحا نات مئی جون میں لیتے ہیں اور رزلٹ دینے کے سا تھ بچوں کو مو سم گرما کی چھٹیوں پر روانہ کر دیتے ہیں نئی کلا سز کا آغا ز اگست سے ہی ہوتا ہے ۔یہ ایک کا روباری فن ہے جو ان کے پا س ہے اوروالد ین سے زیادہ عر صہ فیس بٹورنے کے لئے ایک کلا س کو دوسال میں پورا کر تے ہیں مثلاًپلے ایک سال پریپ ایک سال پریپ ٹو ایک سال اس کے بعد ون اس طرح ٹا ئم کوبھی ضائع کر نا ہے تو ہفتہ اور اتوار کی چھٹی یہ کیا بھیا ؟جنا ب یور پ اور امر یکہ میں ایسا ہوتا ہے والدین پھر خوش ہو جا تے ہیں ہاں جی سسٹم تو یورپ اور امر یکہ والا ہے پر والدین یورپ اور امریکہ والا معیار بھی مد نظر رکھتے ہیں ؟کچھ سکول 5th اور 8th کا امتحا نات بورڈ سے نہیں دلواتے تا کہ کا رگردی ظاہر نہ ہو جا ئے زیادہ تر سکو ل ہیں بھی پا نچویں اور اٹھویں تک جب ان کے بچے پاس ہو کر گورنمنٹ سکولوں کا رخ کر تے میں تو میٹر ک میں ما یو س کن زرلٹ آتا ہے تو ایسے بچے گورنمنٹ کے کھاتے میں شما ر ہوتے ہیں کہ فلاں بورڈ کارزلٹ تو 35فیصد آیا ہے پھر عذاب سرکاری سکو لوں کے استاتذہ پر آجا تا ہے ۔مجھے ایک مہنگے پرائیویٹ سکول کے ستا ئے ہو ئے والد نے بتا یا کہ میرا بچہ 2013 سے زیر تعلیم ہے ایک کلا س کو دو دو کلا سز بنا کر پڑھایا گیا 2016 ء میں بمشکل میرابچہ ون کلاس میں ہے اس نے بتایا کہ بچے لکھا ئی پر ذرہ بھی تو جہ نہیں دی جا تی بچہ جب لکھ نہیں سکتا تو ٹیچر کسی اور بچے سے یا خود بچوں کی طرح لکھائی بناکر کا پی لکھ دیتی تھی جس کی شکا یت سکو ل کے پر نسپل سے کی تو انہوں نے فرما یا بچوں کی بات نہ ما نا کر یں بچے جھوٹ بولتے ہیں ۔جب زیادہ اصرار کیا تو پرنسپل صاحب کا پار ہ تھا نیدار کی طر ح ہا ئی ہو گیا والد نے بتا یا کہ مجھے ایسے محسوس ہوا کہ میں کسی سکو ل میں نہیں تھا نے میں آگیا ہوں اور سا منے وا لا شخص پر نسپل نہیں تھا نید ار اور میں والد نہیں کو ئی مجر م ہو ں انہوں نے فر ما یاآپ اپنے بچے کو کسی اور سکو ل میں داخل کروا دیں والد نے سو چا اب پھنس گئے ہیں کیا کر یں کسی اور سکول جا ئیں تو یہ پر نسپل ڈانٹ رہا ہے یہ نہ ہودوسرا ڈنڈہ ما رنا شر وع کر دیے اور پھر سے نئے آخر اجات اب تو کچھ نہیں ہو سکتا ہے ۔ کاش اس دن چا ئے نہ پیتے اب وہ خون کی صورت میں نکا لی جا رہی ہے ۔اب کیا کر یں ما ہا نہ تین ہز ار سے زیادہ آخراجات ہیں تعلیی کا رکردگی صفر ہے اب ٹیو شن کے علا وہ خود سے اور ٹائم لگانا پڑے گا ۔ اب اس صورت حا ل کو دیکھا جا ئے تو اس کے بر عکس سرکاری سکولوں میں لکھا ئی پر خا صی توجہ دی جا تی ہے وہا ں روایتی سلیٹ تختی اور کا پیوں پربا ر بار مشق کروائی جا تی ہے جس سے لکھا ئی بہتر ہوجا تی ہے جب بچے کو لکھنا ہی نہیں آئے گا وہ لا کھ رٹے لگا کر کو ئی مو اد زبانی یاد کر لے پر اس کو پیپر پر کیسے اتارے گا ۔لیکن ایسی مشق مہنگے سکولوں میں نہیں کر وا ئی جا تی ہے۔اب تو حا ل یہ ہے پیپروں میں بچوں کی خوب ہیلپ کی جا تی ہے بلکہ ٹیچرز کو ہد ایت کی جا تی ہے پیپر چاہے خود لکھیں پیپر اچھا ہو نا چا ہیے کچھ والد ین کو بچوں کے پیپر دیکھنے کا بخارہو تا ہے ۔کہیں اتنی اچھی کا رکر دگی سب پر عیا ں نہ ہو جا ئے ۔ارے بھیا جب 3 سے 5 ہزار ٹیچرز کو دیا جا ئے گا تو ان کی کارگردگی بھی تو اتنی ہو گی اور خود سکول فی بچے کا دو سے تین ہزار لے خود لا کھوں کما ئیں تو پھر ایسے ہی ہو گا اگر سٹاف کا پو چھا جا ئے تو جی ہما رے پاس ماسٹر سے کو ئی کم ہے ہی نہیں بھیا جی کیا ہم بچے کے داخلے کے وقت ان کی اسناد چیک کر تے ہیں چیک بھی کسیے کریں ہم کون سا انتظامیہ تھوڑیہیہیں تو پھر اندھے کنو ئیں میں سب چلے گا۔جب سرکاری سکولوں میں ہمارے دور میں سالا نہ یا ششما ہی فنکشن ہو تے تھے تو تخلیقی کا م اور تقریری مقا بلے ہو تے تھے جس سے معاشرے کو اچھے مقرر اور شاعر مل جا تے تھے لیکن اب ہو نے والے فنکشن میں مختلف گا نوں پر پروفارمنس کر وائی جا تی ہے جس کی وجہ سے ہم ڈانسر کی پیدا وار میں خود کفیل ہو تے جا رہے ہیں۔سالانہ رزلٹ ان کے انوکھے ہوتے ہیں تما م سکول کے بچے پوزیشن ہولڈر نمبر فیصد کے رنگ میں رنگے جا تے ہیں والد ین خوش ہو جا تے ہیں ۔ پہلے دس فسٹ پھر آدھے سیکنڈ باقی تھرڈ اور رزلٹ ہر والدین کو الگ الگ بولا کر دیا جا تا ہے جبکہ سرکاری اداروں میں پور ی کلاس یا سکول کا رزلٹ ایک سا تھ انونس کیا جا تا جس کے مقا بلے کی فضا پیدا ہوتی ہے ۔علیحدہ علیحدہ رزلٹ دینے کا ان کا انوکھا طریقہ ہے ۔اچھا اب ما ن لیا ان کے پاس سٹاف ساراکاسارا ما سٹرزہے پر ان کے ساتھ والدین سے بھی بد تر سلوک کیا جا تا ہے ملک میں بے روز گا ری تو ویسے ہی ہے ۔یہ نہیں تو کو ئی اور وہ نہیں تو کو ئی اور کم سے کم تنخواہ میں راضی ہو جانے والے مجبور اور معاشی طور پر کمزور افراد مو ثرہو جا تے ہیں ۔ پھر ا ن ٹیچرز سے کہا جا تا ہے پہلے ماہ آپکو ٹر یل پر رکھتے ہیں پھر دوسر ے ماہ کنفرم کریں گے پر اس ما ہ کی تنخواہ دیں گے نہیں وہ ہمارے پاس سیکو رٹی کے طور پر جمع رہے گی پھر کہیں جا کر خد ا خد ا کر کے مہینے کی دس کے بعد مل جاتی ہے اب ان سے کو ئی پو چھے والد ین ایک دن فیس لیٹ کر یں تو جرما نہ خود دودو ما ہ کی تنخو ائیں اپنے نیچے دباکر بیٹھے رہتے ہیں بس اندھر نگری چوپٹ را ج والی با ت ہے ۔ان پر ائیویٹ سکولوں میں اپنی خدما ت دینے والے بچارے ٹیچرز کی تضحیک کی جا تی ہے ان کے سا تھ غیر انسا نی رویہ اختیار کر کے ان کو بھٹہ خشت پر کا م کر نے وا لی باونڈیڈلیبر جیسا سلوک کیا جاتاہے ۔یہاں تو نہ انسا نی حقوق نظر آتے ہیں اور نہ گورنمنٹ کے لیبر قوانین لا گو ہوتے ہیں ۔اب پر ائیویٹ اداروں میں جہاں اچھے لو گ بھی ہیں جو صرف تعلیم کو فر غ کر نے کے جذ بے سے سرشا رہیں وہا ں پر ان اداروں میں کچھ ایسی ذہنیت کے لوگ بھی ہیں جن کی خبر یں اکثر میڈیا میں آتی رہتی ہیں جن کو سن کر اک مجرم کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کچھ عرصہ قبل خا نیوال سرگودھامیں اپنے ہی سکول کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیس سامنے آچکے ہیں ۔ جبکہ اسلام آباد کے ایلیٹ کلا س سکول کا لجز میں منشیات کے عادی ہو تے طلباء کی خبریں میڈیا میں گر م ہو رہی ہیں جس کے مطا بق منشیات فروشی میں ان اداروں کا سٹاف ملو ث پا یا گیا ۔ جو ہم سب کے لئے لمحہ فکر یہ اس کے بعد ہمیں اپنے آنگن کے پھولوں کی فکر لا حق ہوجا تی ہے ۔پہلے وا لد ین کوکو ئی کم پر یشا نیاں ہیں ۔ اب با ت یہ ہے کہ نہ تو سا رے پر ائیو یٹ سکول خرا ب ہیں اور نہ ہی سا رے سرکاری ادارے بے کارہیں ۔ہمارے آس پاس بہت سے اچھے پر ائیو یٹ ادارے موجو دہ ہیں جو گورنمنٹ کے ساتھ تعلیم کے شعبے کو سہا را دیے ہو ئے ہیں ۔ جو ہمارے لئے قابل تحسین ہیں ۔ اب حکومت خواندگی کے اہداف پورے کرنا چا ہتی ہے تو والدین کی بھی پر یشا نیا ں کوبھی دور کرے اور چند ضروری اقدامات اٹھا ئے سرکاری سکولوں کی سہولیات میں آضافہ کیا جا ئے ان کے استایذہ کی محرومیوں کو دور کیا جا ئے سرکاری سکولوں کے استا تذہ کی تعداد میں آضافہ کیا جا ئے ۔ان سے آضا فی ڈیوٹیاں مثلا ًپولیو مختلف سروے الیکشن دیگر ایسے کا م نہ لئے جا ئیں ۔ ان کی تعیناتی کو بھی قریب رکھا جا ئے تا کہ اس کی جیب پر آضا فی بوج نہ بنے ۔ان کی مر اعات میں بھی آضافہ وقت کی ضرورت ہے ساتھ ہیں دیگر محکموں جیسے لا ئیوسٹاک زراعت کے ملا زمین کو آسان ادائیگی پر موٹر سائیکل دیے گئے اسی طر ح معزز استا تذہ کرام کو بھی دیے جائیں تا کہ سکول آنے جا نے میں ان کو آسانی ہو ۔جبکہ پر ائیو یٹ سکولوں میں اچھی کا رکر دگی پر ان کی حو صلہ افزائی کی جا ئے ۔سرکاری اداروں کے ساتھ پر ائیویٹ اداروں کا چیک اینڈ بیلنس گورنمنٹ اداروں کی طر ح کیا جا ئے ہر اضلا ح میں ڈی ایم او اور ای ڈی اوز ان کی نگرانی کر یں اور شکا یات پر ان کاازلہ کر نے کے اختیا رات ہوں ساتھ صوبا ئی محتسب بھی پر ائیو یٹ سکولوں کی شکا یات پر سما عت کر کے فیصلے سنا نے اختیارات اور کاروائی کے لئے شفارشات کا اختیار معز ز محتسب صاحب کے پا س ہو ۔مقا می انتظا میہ فیسوں کے معیار سہو لیات اور ٹیچرز کی تنخو اہوں مر اعات کا بھی جا ئزہ اور چیک اینڈ بیلنس رکھیں ۔ پرائیو یٹ سکولوں کو لیبر قوانین کے دائرہ اختیا رمیں لا یا جا ئے تا کہ ٹیچرز کے معا شی استحصال کو روکا جا سکے ۔ ان اداروں کو اس با ت کا پا بند بنایا جا ئے کہ امتحا نی شڈول سرکاری سکولوں کے ساتھ ہوگا پانچویں اٹھویں کے امتحانات ہر صورت میں بورڈ سے دلوانے کے پا بند ہو نگے ۔ان اقداما ت کو اٹھا کر ہی ہم تعلیم کے میدان میں بہتری لا کر ہی ترقی کر سکتے ہیں پنجاب حکومت تعلیم کے سلسلے میں باقی صوبوں کافی حد تک نمایاں جا رہی ہے جہاں تعلیم کا معیار باقی صوبوں سے بہت اچھا ہے خاص کر وزیر اعلی پنجاب نے تعلیم کے سلسلے میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں جن میں بہتر کارکردگی دیکھانے والے طلباء میں وظائف کی تقیم اور اعلی تعلیم میں معاونت شامل ہے پنجاب حکومت کا اینڈدمنٹ فنڈ طلباء اور استاتذہ کے لئے جنوبی ایشاء سب سے بڑا فنڈ ہے اس کے علاوہ ایجوکیٹرز کی بڑی تعداد میں بھرتی سے جہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہو گا ساتھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان تعلیم کے میدان میں انقلاب لے آئیں گے جبکہ دانش سکول اور پنجاب ایجوکیشن نے بھی کافی حد تک پنجاب میں معیاری تعلیم کو سہارا دیا ہوا ہے اور پرائیویٹ اداروں کے ساتھ معاونت کر کے ان کی کارکردگی کو بھی بہتر کیا ہے اس طرح دیگر صوبے ایسے اقدامات ٹھایں تو کافی بہتری آسکتی ہے پا کستا ن کو ترقی یا فتہ مما لک کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں ۔
Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 129555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.