تعلیمی ادارے یا فحاشی کے اڈے
(M.Irfan Chaudhary, Lahore)
قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں
اک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
مضطر نظامی مرحوم نے یہ شعر کسی مقصد کے لئے کہا تھا جو بڑی حد تک کامیاب
رہا اور آج بھی ہر تعلیمی ادارے کے ماتھے پہ یہی شعر لکھا ہوتا ہے کیونکہ
بلا شبہ تعلیمی ادارے ہی وہ جاہ ہیں جہاں ننھے پودوں کی آبیاری کی جاتی ہے
جہاں اُن کو ذہنی بالیدگی سے روشناس کرایا جاتا ہے مگر افسوس صد افسوس کے
آج کے تعلیمی ادارے مرحوم کی طرح اُس کے شعر کو بھی مرحوم تصور کرتے ہیں
اور مضطر صاحب کا شعر آج کے دور میں اُن کے شعر کی عکاسی نہیں بلکہ نفی
کرتا ہے جس کی مثالیں ہم سب کے سامنے ہیں آج ہم جہاں اپنے بچوں کو پڑھنے کے
لئے بھیجتے ہیں وہ ننھے پودوں کی آبیاری کرنے کی بجائے اُن کی جڑیں کھوکھلی
کر رہے ہیں ذہنی بالیدگی کی بجائے ذہنی پلیتگی کی جا رہی ہے مخلوط نظام
تعلیم خواہ وہ پرائمری سطح کا ہو یا یونیورسٹی سطح کا طالب علموں کا بیڑہ
غرق کر رہے ہیں اچھے اچھے سائنسدان یا انجینئر پیدا کرنے کی بجائے لیلیٰ
مجنوں بلکہ رومیو جولیٹ اور ویلنٹائن ٹائپ کے ہوس بھرے نوجوان طلباء و
طالبات پیدا کر رہے ہیں اور جب کبھی کسی با شعور اُستاد نے اپنے ادارے کی
ایسی منافقانہ پالیسیوں کے خلاف آواز بُلند کی تو فوراََ ہی اُس کی آواز کو
دبا دیا گیا مُلک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے کیسز انہیں پہلو کی کڑیاں ہیں جس
میں تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹ ویک کے نام پر ننگا ناچ ناچا جاتا ہے پہلے
دور میں بزمِ ادب ہوا کرتے تھے آج سٹوڈنٹ ویک منایا جاتا ہے، پہلے تقریری
مقابلے ہوا کرتے تھے آج گلوکاری کے مقابلے ہوتے ہیں، ہمارے اسباق میں سے
سیرت رسوُل ﷺ نکال دیا گیا ہے اُس کی جگہ ہولی، دیوالی اور ہیلو وین کے
اسباق شامل کر دیے گئے ہیں ، جہاد جو کہ مسلمانوں کا شیوہ سمجھا جاتا تھا
آج اُس کو دہشت گردی کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے ، حضرت خدیجہؓ، حضرت
عائشہ صدیقہؓ ، حضرت فاطمہؓ کے کرداروں کی جگہ ملالہ یوسف زئی، مختاراں
مائی، شرمین عبید چنائے جیسی خواتین کی مثالیں دی جاتی ہیں ، مادر پدر
آزادی کے نام پر عورتوں کی چھپانے والی باتیں اسباق کا حصہ بنا دی گئیں ہیں
جس کی تازہ مثال مُلک کی معروف نجی یونیورسٹی میں یومِ حیض کے نام پر
طالبات نے منائیں، کالجز و یونیورسٹیز میں دانشوروں، محققین، عالمِ دین کو
بُلانے کی بجائے گلو کاروں کو بُلایا جاتا ہے، میوزک کنسرٹ نائٹ کے نام پر
بے حیائی کا پرچار کھلے عام کیا جاتا ہے تقریباََ ہر ایسے تعلیمی اداروں
جہاں پر کوایجوکیشن دی جاتی ہے آپ کو سرِ عام کسی درخت کے نیچے یا کوریڈور
میں طلبا ء و طالبات دُنیا ما فیہما سے بے خبر عشق معشوقی کرتے نظر آئیں گے
جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ، کوئی پوچھے بھی تو کیسے؟ جب تعلیمی ادارے
بھی ایک بزنس کی شکل اختیار کر گئے ہیں اُن کو صرف اور صرف فیس سے مطلب ہے
اور طلباء بھی اُنہی تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں جہاں پر جا کر وہ
پڑھنے کی بجائے اپنے کردار کی ہوس بُجھا سکیں جس کے سبب اُستاد کا وہ رُتبہ
جو اسلام نے ایک باپ کی حیثیت سے متعارف کروایا ہے وہ بھی مجروح ہو رہا ہے
جس کی وجہ آج کے اُستاد میں بھی وہ اپنائیت نہیں رہی جو اُستاد اور شاگرد
میں ہوا کرتی تھی کیونکہ آج کا اُستاد بھی اپنے عزت والے پیشے کو عبادت
سمجھ کر کرنے کی بجائے اپنی تنخواہ کو زیادہ فوقیت دیتا ہے اور اِن سب پر
آفرین اُن کے والدین ہیں جو جدیدیت کے نام پر اپنے بچوں کو ہائی فائی
اداروں میں داخلہ دلوا کر اپنا سٹیٹس کو ظاہر کرتے ہیں مگر وہ شائد یہ بھول
گئے ہیں کہ اُن کا یہ سٹیٹس کو کسی دن اُن کی اپنی ہی بدنامی کا باعث بنے
گا اس لئے آج تعلیمی اداروں میں جو حالات میں اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھتا
ہوں اس سے ڈر لگتا ہے کہ کل کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی ادارے
عظیم مفکروں ، دانشوروں کی بجائے دلال پیدا کر رہے ہوں گے اور ہمارے بچے جو
کہ اس مُلک کا قیمتی سرمایہ ہیں مغرب کی طرح حرام کے بچے پیدا کر رہے ہوں
گے جن کے نہ باپ کا پتہ ہوگا اور نہ ماں کا اس لئے اُس وقت سے پہلے کہ یہ
مغربی سازش نونہالوں کے ذہنوں کو دیمک کی طرح مزید چاٹ لیں ہمیں اپنی
آنکھیں کھُلی رکھنی ہوں گی ، ہمیں کو ایجوکیشن سسٹم کو ختم کرنا ہوگا طلباء
و طالبات کے لئے علحٰدہ کالجز و یونیورسٹیاں بنانا ہوں گی اُن کو مکمل
یونیفارم مہیا کرنا ہوگا جس سے نظر آئے کہ یہ طالب علم ہیں بجائے اس کے کہ
وہ تنگ اور چست لباس پہن کر اپنے پوشیدہ اعضاء کو عیاں کر کے فیشن شو کرنے
والے دِکھیں اِسی بابت اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ (اے
بنی آدم ہم نے تم پر پوشاک اُتاری کہ تمہاری شرمگاہوں کو چھپائے اور تمہارے
بدن کو زینت دے اور جو پرہیزگاری کا لباس ہے وہ سب سے اچھا ہے یہ اللہ کی
نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں
بہکا نہ دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر بہشت سے نکلوا دیا اور ان سے
ان کے کپڑے اتروا دیے تا کہ ان کے ستر انکو کھول کر دکھا دے۔ وہ اور اس کے
بھائی بند تم کو ایسی جگہ سے دیکھتے رہتے ہیں جہاں سے تم انکو نہیں دیکھ
سکتے ہم نے شیطانوں کو انہی لوگوں کا رفیق بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے)
ترجمہ سورۃ الاعراف آیت نمبر-27 26 ، میری باتیں کچھ ضرورت سے زیادہ تلخ
ہیں مگر کیا کروں آج کے لوگ سادہ زبان والوں کو جاہل اور کھُلی و بے باکی
پہ مبنی باتیں کرنے والوں کو سراہتے ہیں مگر مجھے ان لبرل ازم کے نام پہ
فحاشی پھیلانے والوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ جب ان لبرل ٹائپ
لوگوں کو اللہ کے احکامات کے متعلق بتایا جاتا ہے تو سو یہ لوگ اُس میں بھی
نقص ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ ایک جگہ پر
ارشاد فرماتا ہے کہ ( اور یہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے
ہیں کہ ہم نے اپنے بزرگوں کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو
یہی حکم دیا ہے کہہ دو کہ اللہ بے حیائی کے کام کرنے کا حکم نہیں دیتا کیا
تم اللہ کی نسبت ایسی بات کہتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں) ترجمہ سورۃ
الاعراف آیت نمبر 28 ، میرا کام ہے حقیقت کو بیان کرنا سو وہ میں کر رہا
ہوں اس لئے میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ خدارا کم از کم ہماری
درسگاہوں کو ان خرافات سے بچانے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے اور
تعلیمی اداروں میں تفریح کے نام پر ہونے والی فحاشی کا سد باب کیا جائے
مخلوط نظام تعلیم کو ختم کیا جائے اور ہر تعلیمی ادارے کے لئے مکمل
یونیفارم پہننے کا حکم صادر کیا جائے جس میں طالبات کے لئے سر پر سکارف
اوڑھنے کو لازمی جزو قرار دیا جائے تا کہ ہمارے تعلیمی ادارے تعلیمی ادارے
ہی رہیں نہ کے وہ فحاشی کے اڈوں میں تبدیل ہو جائیں نہیں تو مضطر نظامی
مرحوم کے شعر کو ہر جامعہ کے ماتھے پر یوں لکھا جائے !
ہوسِ نوع بشر کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
ابلیس کے فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں
اللہ ہمیں راہِ راست پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے اور آخرت کامل ایمان پر
ہو اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین! |
|